"صبغہ!!" دونوں بانہیں پھیلائے اونچی آواز میں چلاتی انا رستم شیخ اس کی جانب بھاگی تھی۔
صبغہ نے خوف سے سر نفی میں ہلایا تھا مگر اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، وہ اس کے اوپر چھلانگ لگاتی اسے کس کر گلے سے لگا چکی تھی۔
"مس یو، مس یو۔۔۔۔۔۔۔ سووووو مچ!!" اس کی خوشی بھری آواز سن صبغہ بھی نقاب کے پیچھے سے ہنس دی تھی۔
"انا!۔۔۔۔۔۔۔سانس نہیں آرہا!" جب اس کی گرفت سخت ہوئی تو صبغہ اس کی پیٹھ تھپتھپائے بولی تھی
"اوپس۔۔۔۔۔سوری، میں تھوڑی ایکسائیٹڈ ہوگئی تھی۔"
"تھوڑی؟" صبغہ نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا تھا۔
"تو بتاؤ پروفیسر صاحبہ اکیڈمی کیسی جارہی ہے تمہاری؟" گاڑی ڈارئیو کرتے اس نے سوال کیا تھا
"پروفیسر نہیں ہو میں!"
"حالانکہ لیکچرز تمہارے کسی پروفیسر سے کم نہیں ہوتے" انا کے طنز پر اس نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا تھا۔
"چلے؟" اپنی جگہ سے اٹھتا وہ مان سے مخاطب ہوا تھا جو کوٹ کو بٹن لگائے اس کی جانب آیا تھا۔
"ہاں چلو لیٹ ہورہا ہے" عجلت میں بولتا وہ باہر کی جانب بڑھا تھا جبکہ سنان نے اس کی پیٹھ کو گھورا تھا۔
"ارے، ارے کہاں چلی یہ سواری؟" گلاب ان دونوں کو جاتے دیکھ پوچھ بیٹھی تھی۔
"ماما وہ شیروانی لینے جارہے ہیں!" مان نے مسکرا کر جواب دیا تھا
"وہ تو ٹھیک ہے مگر سنان تم نے کافی پی کہ نہیں؟۔۔۔ میں نے بولا تھا میڈ کو!" وہ سنان کی جانب متوجہ ہوئی
"ارے نہیں آنٹی واپسی ہر سہی ابھی جانا ہے!" ایکسکیوز کرتا وہ مان کو اشارہ کرتا باہر نکل گیا تھا۔
گلاب نے فوراً مان کو گھورا تھا جو اس کے گال کو چومتا تیزی سے باہر نکلا تھا۔
"کبھی نہیں سدھرے گا!" سر نفی میں ہلائے وہ علی کے کمرے کی جانب بڑھی تھی۔
ان کی گاڑی باہر نکلتے ہی انا کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی۔
"یو نو پری تو شاک ہی ہوجائے گی تمہیں دیکھ کر۔۔۔۔ ویسے خاصی ناراض ہے تم سے!" انا نے اسے اطلاع دی تھی
"یہ تم کیا ہوتا ہے انا؟ بڑی ہوں عمر میں تم سے۔۔۔۔۔آپی بولا کرو!" صبغہ نے اسے گھرکا تھا جس پر اس نے صرف زبان دکھائی تھی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی انا نے شور مچایا تھا علی کے کمرے کی جانب جاتی گلاب وہی سے پلٹی تھی۔۔۔۔۔۔ انا کے ساتھ نقاب میں موجود لڑکی کو دیکھ کر پہلے وہ چونکی تھی مگر بعد میں مسکرادی
"صبغہ!!" گلاب مسکراتی ہوئی اس کی جانب بڑھی۔
"السلام علیکم آنٹی کیسی ہے آپ؟'' صبغہ بھی ان کے گلے ملی تھی۔
"وعلیکم السلام!۔۔۔۔۔۔الحمداللہ بلکل ٹھیک۔۔۔۔ بھئی تم نے تو سرپرائیز دیا ہے، پری نے تو بتایا تھا نہیں آرہی تھی تم؟" ملازمہ کو جوس کا بولتی وہ صبغہ سے پوچھ بیٹھی جو ان کی بات پر فقط مسکرائی تھی۔
اب کیا بتاتی کہ ان کے لاڈلے بیٹے نے کال کرکے دھمکی دی تھی۔
مان کی دھمکی بھری کال کو سوچ کر ہی اس نے جھرجھرلی تھی۔
"بس آنٹی سرپرائیز۔۔۔۔۔۔۔ آپ پلیز اسے نہیں بتائیے گا!"
"ہاہاہا۔۔۔۔ نہیں بتاتی۔۔۔ انا ایسا کرو صبغہ کو اس کا روم دکھا دو، ملازمہ روم میں ہی جوس دے جائے گی۔۔۔" گلاب کی ہدایت پر عمل کرتی وہ دونوں آگے پیچھے ڈرائینگ روم سے نکلتی کمرے کی جانب بڑھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم پاگل ہو؟۔۔۔۔ کیا سوچ کر تم نے یہ حرکت کی؟۔۔۔۔۔ تمہیں وہ لڑکی چاہیے تھی میں نے مدد کی، تمہیں گھر میں آسانی سے داخل ہونے کا راستہ دیا اور تم نے کیا کیا؟۔۔۔۔۔ اب معتصیم ایک لمحے کو بھی اپنی بیوی کو اکیلا نہیں چھوڑے گا!۔۔۔۔۔۔۔۔آخر تمہارے دماغ میں چل کیا رہا تھا؟" ارحام شاہ کا دل چاہا تھا کہ وہ اس شخص کو شوٹ کردے، کتنی مشکل سے انہوں نے معتصیم کو منظر سے غائب کرکے فہام جونیجو کے لیے راستہ کلئیر کیا تھا مگر وہ شخص ماورا کو اٹھانے کی بجائے الٹا اسے دھمکا کر آیا تھا۔
ارحام شاہ کا دل چاہ رہا تھا یا تو اس کو مار دے یا خود اپنا سر دیوار میں مار لے!۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنی لمبی تقریر کے بدلے بھی انہیں دوسری جانب سے ہنسنے کی آواز سنائی دی تھی۔۔۔
ارحام شاہ کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ شخص اپنی حرکت پر نہیں بلکہ ان کی بےبسی پر ہنس رہا تھا۔
"لعنت ہو تم پر!" کہتے ہی وہ کال کاٹ چکے تھے اور اس سے زیادہ وہ کہہ بھی کیا سکتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیروانی اٹھائے وہ دونوں مال سے باہر نکلے تھے جہاں ینگسٹرز کا ایک گروپ ایک جانب گھیرا بنائے ہوٹنگ کررہا تھا۔
ایک لڑکا گٹار ہاتھ میں تھامے اسے بجارہا تھا۔
اس کی دھن سننے کو وہ دونوں بھی ایک پل کو رک گئے تھے۔
سنان کی نگاہیں اس لڑکے سےہوتی اس بلکل سامنے کھڑی اس لڑکی پر جاٹھہری تھی جو آس پاس کو بھلائے یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی، وہ لڑکا بھی گٹار بجاتا ایک نگاہ اس پر ڈالتا، اور مسکرا کر دوبارہ گٹار کی جانب متوجہ ہوجاتا۔
"چلے؟" مان کی آواز پر وہ ہوش میں آیا تھا، سر اثبات میں ہلائے وہ اس کے ساتھ چلتا پارکنگ کی جانب بڑھ گیا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کیے مان نے اچانک روٹ بدلا تھا، اب گاڑی ایک پارک کے سامنے روکی تھی۔
"ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟"
"بتاتا ہو چل۔" اسے اشارہ کرتا وہ گاڑی سے نکلتا پارک میں داخل ہوا تھا۔
اب وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے وہاں چلتی ہلکی ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
"سنان!"
"ہمم؟"
"وہ کون تھی؟"
"کون؟"
"تم جانتے ہو میں کس کی بات کررہا ہوں!۔۔۔۔۔ کم آن سنان آج تو مجھ سے شئیر کرلو۔۔۔"
"چند رازوں کو راز ہی رہنے دینا چاہیے مان، انہیں دل میں دفن کردینا ہی بہتر ہوتا ہے!" وہ تلخ لہجے میں بولا تھا۔
"ایسے رازوں کو نکال باہر پھینک دینا چاہیے جو انسان کا دل مار دے!" مان غصے سے بولا تھا۔
کچھ پل دونوں میں خاموشی چھائی رہی تھی۔
"صبغہ نام تھا اس کا!۔۔۔۔۔ جب جیکسن (لکڑہارا) کے پاس تھا وہی ملی تھی وہ مجھے۔۔۔۔۔ بہت عجیب لڑکی تھی وہ۔۔۔۔۔۔ اس سے تو پہلی ملاقات بھی عجیب تھی" وہ زرا سا ہنسا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لکڑیاں کاٹتے سنان نے اپنے غصے پر قابو پانے کی آج ایک ناکام سی کوشش کی تھی۔
طفیل ان کا پڑوسی تھا، کہنے کو تو وہ مسلمان تھا مگر اس کا شراب کا کاروبار تھا۔
وہ دیسی شراب بناکر لندن میں موجود پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو سپلائے کیا کرتا تھا۔
روزانہ رات شراب پی کر چیخنا چلانا، شور مچانا اس کی عادت تھی۔۔۔۔ سب لوگ اس سے نالاں تھے مگر پھر بھی کوئی اسے کچھ نہ کہتا تھا کیونکہ وہ کچھ دیر غلاظت بک لینے کے بعد خود ہی خاموش ہوجاتا تھا۔
جیکسن کی وجہ سے سنان نے بہت بار اسے برداشت کیا تھا مگر آج وہ نشے میں دھت اس کے خاندان کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کرچکا تھا کہ سنان اپنا آپا کھوچکا تھا۔
اس پر جھپٹے سنان نے اسے خوب مارا پیٹا تھا یہاں تک کہ وہ مرنے کے قریب تھا جب سنان نے اسے چھوڑا
"روکو مت، اسے مار ڈالو!" اپنے عقب سے آتی آواز پر وہ حیرت سے سر اٹھائے مڑا تھا۔
وہ تقریباً سولا سال کی لڑکی تھی جو بےتاثر نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
"تم رک کیوں گئے، مار کیوں نہیں دیتے اسے؟" اس نے حقارت سے طفیل کو دیکھا تھا جو اب ہوش و حواس کھوچکا تھا۔
"کون ہو تم؟" سنان نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
"صبغہ تم یہاں کیا کررہی ہو؟۔۔۔۔ اور یہ طفیل، اسے کیا ہوا؟" جیکسن نے پہلے اس سے سوال کیا اور پھر بےہوش طفیل کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"یہ اسے مارنے والا تھا مگر پھر رک گیا۔۔۔۔۔۔ اسے کہوں اسے مار دے!" پہلے سنان اور پھر طفیل کی جانب اشارہ کیے اس نے بات مکمل کی تھی۔
جیکسن نے گہری سانس خارج کی تھی۔
"اچھا تم گھر جاؤ ابھی۔۔۔ صبح بات کرتے ہیں!" جیکسن نے اسے ٹالا تھا۔
صبغہ کو گھر بھیج کر اس نے طفیل کو اٹھایا تھا۔
"یہ لڑکی کون تھی؟"اس نے جیکسن سے سوال کیا تھا۔
"اس گھٹیا انسان کی بھتیجی ہے۔۔۔۔۔۔ ماں باپ کو مرے تین سال ہوگئے ہیں!۔۔۔۔۔ تین سالوں سے اس کے پاس رہ رہی ہے بہت عجیب لڑکی ہے۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو تین سالوں میں پچاس بار کوشش کرچکی ہے اسے مارنے کی!" وہ ہنس کر بولا تھا جبکہ سنان نے حیرت سے گردن موڑے گھر کی جانب دیکھا تھا جہاں وہ دروازے پر کھڑی بےتاثر نگاہوں سے اسے دیکھتی اندر چلی گئی تھی۔
"خیر کم تو یہ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ بہت مارتا ہے اسے، ہر وقت کا غصہ اسی پر نکلتا ہے مگر نجانے کس مٹی کی بنی ہے آج تک میں نے اسے مار کھانے کے بعد روتے نہیں دیکھا، نا ہی مار کھاتے ہوئے چیختے چلاتے۔۔۔۔۔!" جیکسن تو نجانے اور بھی کیا کیا کہانیاں سنا رہا تھا جبکہ سنان کا تو سارا دھیان اسی جانب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج سنان کو اس گاؤں میں آئے چار ماہ ہوگئے تھے، چار ماہ ہوگئے تھے اسے اپنوں سے بچھڑے۔۔۔۔۔۔ ایسے میں کچھ لمحے اکیلے گزارنے کے لیے وہ لکڑیاں کاٹ لینے کے بعد کچھ پل اکیلے گزارنے کی نیت سے جنگل میں مزید اندر داخل ہوا تھا
یونہی چہل قدمی کرتا وہ جھرنے کے نزدیک پہنچ گیا تھا جب اسے کسی اور وجود کی موجود کا احساس ہوا تھا۔
اسے قریبی پتھر پر کوئی بیٹھا نظر آیا تھا، قریب جانے پر اس نے وہاں صبغہ کو پایا تھا۔
"تم یہاں کیا کررہی ہو؟" آسمان کی جانب دیکھے اس نے سوال کیا جہاں اب اندھیرا چھانے والا تھا۔
منہ موڑے صبغہ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی اور دوبارہ رخ پھیر لیا تھا جبکہ سنان کی نظریں اس کے جلے ہاتھ پر جاٹکی تھی۔
اس کا ہاتھ بری طرح سے جھلس گیا تھا مگر اس کے چہرے پر آنسو کا ایک نشان موجود نہ تھا۔
"یہ کیا ہوا؟۔۔۔ افف پاگل لڑکی پٹی بھی نہیں کی؟" کندھے پر موجود بیگ سے کریم اور پٹی نکالے وہ اس کے ساتھ موجود پتھر پر جابیٹھا تھا۔
اکثر لکڑیاں کاٹتے اسے چوٹ آجاتی تھی ایسے میں وہ فرسٹ ایڈ کٹ اپنے پاس ہی رکھتا تھا۔
"یاخدایا کتنا جل گیا ہے۔۔۔۔۔ بھلا اتنا کون جلاتا ہے؟" اس کے زخم کا معائنہ کرتے وہ بولا تھا
"جلا نہیں ہے جلایا گیا ہے!" اس نے فقط اتنا جواب دیا تھا اور سنان کو بھی اس کے سوال کا جواب مل چکا تھا۔
"اچھا لاؤ ادھر دو!" نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے تکلیف کا احساس کرتے سنان نے اس پر پٹی باندھنا شروع کی تھی۔
صبغہ کی آنکھیں پل بھر کو پھیلی تھی۔۔۔۔۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے اسے کے زخموں پر مرہم رکھی تھی ورنہ تو آج تک اسے ہر انسان نے زخم ہی دیے تھے۔
نرمی سے کریم ملے وہ اس پر اچھے سے پٹی باندھ چکا تھا۔
"ہوا مت لگنے دینا، پانی سے بچانا اور ہاں آگ سے بھی" اسے نصیحت کرتا وہ اپنا سامان باندھتا وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
صبغہ نے حیرت سے ہاتھ پر موجود پٹی کو دیکھا تھا۔
یہ پہلی رات تھی صبغہ کی زندگی میں جب اس نے سونے سے پہلے کسی کو سوچا تھا۔
بیڈ سے اترتی کھڑکی کا پردہ پیچھے کیے اس نے باہر جھانکا تھا جہاں سامنے بلب جلائے وہ مہارت سے لکڑیوں کو باندھ رہا تھا۔
ایک نظر دیکھ لینے کے بعد وہ دوبارہ بستر کے نام پر زمین پر موجود بوسیدہ گدے پر آلیٹی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم یہاں کیا کررہی ہو؟" لکڑیاں کاٹتا سنان ایک پل کو رکا تھا اور سامنے کھڑی صبغہ سے سوال کیا تھا جس نے اپنا جلا ہاتھ آگے کردیا تھا۔
آنکھیں ویسی ہے بےتاثر تھی۔
"آؤ بیٹھو!" اسے اشارہ کرتا وہ کلہاڑا ایک جانب رکھے اپنے بیگ کی جانب بڑھا تھا، فرسٹ ایڈ کٹ نکالے وہ اس کے سامنے جابیٹھا تھا اور اس کی پٹی کھولی تھی۔
"تمہیں ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے ورنہ زخم خراب ہوجائے گا!" دوبارہ اس کی پٹی کرتے اس نے ہدایت دی تھی جبکہ وہ یک ٹک اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔
وقت گزر رہا تھا روزانہ وہ اس کے پاس آکر پٹی بدلواتی اور اسے دیکھتی رہتی، اس کی نگاہیں ہمیشہ بےتاثر ہی رہتی تھی مگر آج اس کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا جس نے سنان کو ٹھٹھکنے پر مجبور کردیا تھا
ایک عجیب سی چمک تھی جو سنان نے اس کی آنکھوں میں دیکھی تھی جسے وہ کوئی نام نہ دے سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مصروف سا لکڑیاں کاٹ رہا تھا جب اسے طفیل کے گھر سے چیزیں ٹوٹنے اور چلانے کی آواز آئی تھی۔
پہلے پہل تو اس نے اگنور کردیا مگر ایک دم اس کے ذہن میں صبغہ کا خیال آیا تھا، کلہاڑا اپنی جگہ رکھے وہ جلدی سے گھر کی جانب بھاگا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی اس کی آنکھیں پھیلی تھی جہاں ایک جانب زمین پر گری صبغہ ماتھے پر ہاتھ رکھے گری ہوئی تھی وہی دوسری جانب طفیل ہاتھ میں موجود بوتل اس کے سر پر دے مارنے کو تیار تھا۔
سنان اسے دھکا دیے صبغہ کے پاس زمین پر بیٹھا تھا۔
"تم ٹھیک ہو؟" اسے سامنے دیکھ صبغہ چونکی تھی اور سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"زیادہ گہری چوٹ تو نہیں آئی؟" اب کی بار سر نفی میں ہلایا تھا۔
''اچھا تو یہ کرتی پھیر رہی تھی تم!" طفیل اب سنبھل چکا تھا اور طنزیہ انداز میں بولا تھا۔
"تم کیسے شخص ہو!۔۔۔۔ تمہارے بھائی کی اولاد ہے وہ، کیسا سلوک کررہے ہو تم اس کے ساتھ کیا تم میں زرا شرم نہیں؟" سنان اس پر گرجا تھا۔
"جاؤ یہاں سے!" یہ آواز صبغہ کی تھی۔
سنان نے حیرانگی سے منہ موڑے اسے دیکھا تھا جس کا چہرہ سپاٹ اور آنکھیں بےتاثر تھیں۔
"تم۔۔۔۔۔۔"
"تمہاری مدد کا شکریہ مگر میں ہینڈل کرسکتی ہو، تمہیں آنے کی ضرورت نہیں تھی، تم جاؤ!" اس کی بات کاٹتے وہ تحمل سے بولی تھی۔
چہرہ خون سے تر ہوگیا تھا مگر اسے تو جیسے پرواہ ہی نا تھی۔
غصے سے ان دونوں کو گھورتا وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
ایک حقارت بھری نگاہ صبغہ پر ڈالتا طفیل بھی اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ سنان کے سامنے موجود تھی جسے دیکھ سنان کے چہرے پر غصہ در آیا تھا۔
"کیا کررہی ہو یہاں؟" اس کے پوچھنے پر صبغہ نے آرام سے اپنے ماتھے کی جانب اشارہ کیا تھا اور اپنی مخصوص جگہ پر جابیٹھی تھی۔
کچھ دیر اسے گھور لینے کے بعد کٹ اٹھائے وہ اس کے سامنے آ بیٹھا تھا، زخم پر پٹی کیے اس کے چہرے پر غصہ موجود تھا جس کی صبغہ کو زرا فکر نہ تھی۔
ایک بار پھر وہ اس سے پٹی کروانے آنا شروع ہوگئی تھی۔
سنان کو یہاں اب چھ ماہ ہوچکے تھے۔۔۔ لکڑیوں کا گٹھ اٹھائے وہ اپنی مخصوص جگہ پر آیا تھا جہاں وہ پہلے سے ہی بیٹھی ہوئی تھی۔
اسے اگنور کرتا وہ اپنا کام شروع کرچکا تھا جبکہ چہرہ ہاتھوں پر ٹکائے وہ سنان کو دیکھے جارہی تھی۔
بس اب اس کی بس ہوگئی تھی۔
"گھورنا بند کرو مجھے!" وہ غصے سے بولا تھا جس کا صبغہ پر رتی برابر اثر نہ ہوا تھا۔
گھورتی تو وہ پہلے بھی تھی اسے مگر اب اس کی آنکھوں میں موجود وہ چمک سنان کو ٹھٹھکنے پر مجبور کردیتی تھی۔
مگر سلسلہ بس یہی تک نہ رکا تھا، وہ رات کے آدھے پہر تک کھڑکی میں بیٹھی اسے دیکھتی رہتی تھی جس سے سنان اچھے سے واقف تھا۔
"تم مجھے ایسے مت دیکھا کرو مجھے اچھا نہیں لگتا!" سنان نے آج اسے صاف الفاظ میں بات کرنے کا سوچ لیا تھا
"مگر مجھے اچھا لگتا ہے" اس نے کندھے اچکائے
"مجھے گھورنا؟" سنان نے طنز کیا تھا
"نہیں تم۔۔۔۔۔ مجھے تم اچھے لگتے ہو!۔۔۔۔۔ بڑی ہوکر تم سے شادی کرو گی!" اس کی بات سن پانی پیتے سنان کو اچھو لگا تھا۔
اس نے آنکھوں میں غصہ سجائے اس سولا سالہ بچی کو گھورا تھا۔
"جاؤ یہاں سے اور پھر کبھی مت آنا!" غصے سے اس کے گھر کی جانب انگلی کیے وہ دانت پیستے بولا تھا۔
"تم مجھے نہیں روک سکتے، کل آؤ گی پھر۔۔۔ بائے!" مزے سے پونی جھلاتی وہ وہاں سے اٹھتی گھر چلی گئی تھی۔
سنان نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیکسن کو لکڑیاں کاٹتے دیکھ صبغہ کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
"وہ کہاں ہے؟" اس نے جیکسن سے سوال کیا تھا۔
"کون؟" جیکسن صبغہ کو وہاں دیکھ چونکا تھا اور اس کے سوال پر بھی۔
اس کا روز سنان کے پاس آنا کسی کی بھی نظر سے مخفی نہیں تھا مگر یہاں کے لوگوں کو دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کرنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
"وہی جو روزانہ یہاں ہوتا ہے۔۔۔۔!"
"اوہ سنان کی بات کررہی ہو!"
"سنان!" صبغہ کے لبوں سے یہ نام ادا ہوا تھا۔
جیکسن کو اگنور کرتی وہ مزے سے گھر میں داخل ہوگئی تھی۔ جیکسن تو اس کی اس دیدہ دلیری پر حیران رہ گیا تھا۔
گھر میں داخل ہوئے وہ خود سے کمرے کا اندازہ لگاتی ہر چیز اگنور کیے سب سے آخری کمرے کی جانب بڑھی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے نے اس کا استقبال کیا تھا۔۔ مزے سے کھڑکی کی جانب بڑھے اس نے پردے ہٹائے تھے، آج معمول سے ہٹ کر دھوپ نکلی تھی۔
دھیما سا مسکراتی وہ بیڈ کی جانب بڑھی تھی جہاں کمبل خود پر لیے وہ سویا ہوا تھا۔
اس کا سرخ چہرہ دیکھے صبغہ نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے اس کا بخار چیک کیا تھا۔
ہاتھ پیچھے کیے وہ کمرے سے نکلتی کچن میں داخل ہوئی تھی باؤل میں ٹھنڈا پانی بھرے، کپڑے کے کچھ ٹکڑے لیے وہ دوبارہ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
ماتھے پر پٹیاں رکھے اس کے بخار وہ وقتاً فوقتاً دیکھے جارہی تھی۔
بیڈ پر بازو رکھے اسی پر اپنا سر رکھے وہ بس اسے دیکھے جارہی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں جیکسن ڈاکٹر کے ساتھ اندر داخل ہوا تھا جو کچھ دوائیاں خریدنے کے لیے شہر گیا ہوا تھا۔
ڈاکٹر اسے دوائیاں دے کر جاچکا تھا جب جیکسن صبغہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"امم۔۔۔ صبغہ میرے خیال سے اب تمہیں بھی گھر چلے جانا چاہیۓ!" گلا کھنکھارتے جیکسن نے بات کا آغاز کیا تھا مگر کوئی جواب نہ ملنے پر وہ ہار مانتا وہاں سے جاچکا تھا۔
صبح کی روشنی ہرسو پھیل چکی تھی، پلکیں جھپکتے اس نے آنکھیں کھولی تھی، آنکھیں بند کیے وہ دوبارہ سونے والا تھا جب ایک دم اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
وہ وہی اس کے پاس بیڈ پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔
سنان نے حیرانگی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔ نجانے کیا تھی یہ لڑکی۔
"صبغہ!۔۔۔۔۔۔صبغہ، اٹھو!" اس کا کندھا ہلائے سنان نے اسے جگایا تھا۔
"کیا ہوا کچھ چاہیے؟" اچانک اٹھتے اس نے سوال کیا تھا۔
"تم یہاں کیا کررہی ہو؟" اس کے سوال پر مسکراتی وہ دوبارہ سر بیڈ پر ٹکا چکی تھی۔
"تمہیں دیکھنے آئی تھی" پرسکون سا جواب
"دیکھ لیا اب جاؤ!"
"بخاراتر گیا ہے تمہارا!" اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھے اس کے جواب کو اگنور کرتی وہ مسکرا کر بولی تھی۔
اس کے بعد سنان کی گھوریوں اور باتوں کو نظر انداز کیے وہ مزید دو دن اس کے سر پر سوار رہی تھی۔
"صبغہ کیوں کررہی ہو یہ سب؟" سنان نے اکتا کر پوچھا تھا۔
"کیونکہ صبغہ کو سنان اچھا لگتا ہے"
"مگر سنان کو صبغہ پسند نہیں" وہ غصے سے بولا تھا۔
ایک لمحے کو صبغہ کی آنکھوں میں درد ابھرا تھا جسے وہ جلد ہی چھپاچکی تھی۔
"کوئی بات نہیں آہستہ آہستہ صبغہ اچھی لگنے لگ جائے گی سنان کو!" وہ مسکرائی تھی۔
"اور اگر نہ لگی اچھی تو؟" سنان کے جواب پر مسکراہٹ ایک پل میں ہونٹوں سے ختم ہوئی تھی۔
"اس بارے میں سوچا نہیں!" سوپ کا باؤل اس کے پاس ٹیبل پر رکھے وہ مڑی تھی جب سنان نے اس کی کلائی پکڑی تھی۔
"یہ ہر وقت ایسی شکل بنائے کیوں گھومتی ہو؟" سنان کے سوال پر کوئی جواب دیے بنا وہ اپنی کلائی آزاد کروائے وہاں سے نکل چکی تھی۔
مزید چھ ماہ گزر چکے تھے، اس دن کے بعد سے صبغہ نے دوبارہ کبھی بھی اس سے بات نہیں کی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ بس روزانہ اسے لکڑیاں کاٹتے دیکھتی رہتی تھی۔
اب تو سنان کو بھی ان نظروں کی عادت ہوچکی تھی اور کہی نا کہی اسے اچھا بھی لگتا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھرنے کے قریب بیٹھے وہ بے بس سا آنسوؤں بہارہا تھا۔۔۔ ایک سال!۔۔۔۔۔ ایک سال ہوگیا تھا اس خوفناک حادثے کو جس نے اس سے اس کا سب کچھ چھین لیا تھا۔
اس وقت وہ رو کر اپنے اندر کے درد کو کم کرلینا چاہتا تھا جب اسے اپنے پیچھے سے جھاڑیوں کی آواز سنائی دی تھی۔
سنان نے تیزی سے اپنے آنسو صاف کیے تھے، جانتا تھا کہ کون ہوگا!۔
"سنان؟" صبغہ اسے اس وقت یہاں دیکھ کر چونکی تھی۔
اس کی جانب مڑے وہ مسکرایا تھا جبکہ صبغہ کی نگاہیں اس کی لال آنکھوں پر ٹکی ہوئی تھی۔
"تم روئے ہو؟"
"نن۔۔۔نہیں!" اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی جب ایک آنسو ناچاہتے ہوئے بھی آنکھ سے بہہ نکلا تھا جسے سنان نے فوراً صاف کیا تھا۔
"مت روؤں۔۔۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا!" اس کے قریب کھڑے ہوئے وہ بولی تھی۔
اس کی بات سن کر کئی آنسوؤں سنان کی آنکھوں سے بہنے لگ گئے تھے جنہیں صبغہ نے شرٹ کی پاکٹ سے ٹشو نکال کر نہایت نرمی سے صاف کیا تھا۔
کچھ لمحوں کے لیے سنان کو اس کی اس حرکت نے منجمند کردیا تھا۔ نجانے اس وقت اس کے دل میں کیا سمائی تھی کہ وہ آگے بڑھتا اس کے گلے لگ چکا تھا۔
اس کے کندھے پر سر ٹکائے نجانے کتنے آنسوؤں وہ مزید بہاچکا تھا جنہیں صبغہ نے بہنے دیا تھا، اسے روکا نہیں تھا۔
بےتاثر نگاہوں اٹھائے اس نے آسمان کی جانب دیکھا تھا جہاں چارسو اندھیرا چھاگیا تھا۔
آج پہلی بار صبغہ جنید نے تکلیف کو محسوس کیا تھا، آج پہلی بات صبغہ جنید کا دل کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دکھا تھا۔
آج پہلی بار صبغہ جنید کو اپنا لگا تھا۔
پہلی بار صبغہ جنید اپنےدل میں ابھرتے اس جذبے کو نام دینے میں کامیاب ہوئی تھی جسے محبت کہتے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔