نجانے جازل نے شزا سے ایسی کیا بات کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ مال جانے کو تیار ہوگئی تھی اور اب گاڑی کی بیک سیٹ پر ونڈو پر سر رکھے باہر کے نظاروں کو دیکھ رہی تھی۔
فرنٹ سیٹ پر کریم اور وائے۔زی موجود تھے جبکہ بیک سیٹ پر اس کے ساتھ زویا اور بچے تھے۔
ڈرائیو کرتا وائے۔زی گاہے بگاہے اس پر نگاہ ڈال لیتا تھا جو اپنی دنیا میں گم تھی۔
مال کی پارکنگ میں گاڑی پارک کیے وہ چاروں اندر داخل ہوئے تھے۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد مرینہ چوہان عبایا اور نقاب کیے وہاں آئی تھی جو گاہے بگاہے شزا پر نظر ڈال لیتی۔
"آپی یہ دیکھے کیسا ہے؟" زویا نے ایک پیروں کو چھوٹی کام والی پنک فراک اس کے آگے کی تھی۔
"بہت پیاری تم پر بہت سوٹ کرے گی" شزا دھیما سا مسکرائی تھی
"اوہو آپی یہ آپ کے لیے ہے"
"میں؟ میں پہن کر کیا کرو گی؟۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی بیوہ ایسے کپڑے نہیں پہنتیں!۔۔۔۔" اس کی لہجی کی تلخی محسوس کرتی وہ افسوس سے سر ہلائے کاؤنٹر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں شاپنگ مکمل کیے وہ لوگ فوڈ کورٹ کی جانب بڑھے تھے۔
وہ ابھی اپنی جگہ پر بیٹھے ہی تھے جب وائے۔زی کے نمبر جازل کی کال آئی تھی جسے شزا سےبات کرنا تھی۔۔۔۔ موبائل اس نے شزا کی جانب بڑھایا تھا۔
نجانے شزا کو ایسا کیا کہا گیا تھا کہ وہ سر ہلاتی سب سے ایکسکیوز کرتی واشروم کی جانب بڑھ گئی تھی۔
اس کے جاتے ہی وائے۔زی نے موبائل کان سے لگایا تھا۔
"ہمم۔۔۔۔ صحیح۔۔۔۔ ٹھیک۔" یہ تین لفظ بولتے ہی کال کاٹ دی گئی تھی۔
"کیا ہوا؟" کریم نے سوال کیا
"مرینہ چوہان!" دانت پیستے وہ بولا تھا۔
نام سنتے ہی انجانے میں زویا نے کریم کے ہاتھ پر سختی سے اپنا ہاتھ جما دیا تھا۔
کریم نے چونک کر اسے دیکھ جس کے چہرے اور آنکھوں میں خوف تھا۔
کریم نے افسوس سے اسے دیکھا اور ہاتھ دبائے اسے اپنے ساتھ کا احساس دلایا تھا۔
"ایوری تھنگ از گوینگ ٹو بی اوکے!" کریم کے دلاسے پر وہ بس سر ہلا پائی تھی۔
واشروم میں داخل ہوتے ہی شزا نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔۔ منہ پر پانی کے چھینٹے مارے اس نے اندر کی کھولن کو کم کرنا چاہا تھا جب اسے دروازہ لاک ہونے کی آواز سنائی دی۔
سر اٹھائے اس نے دروازے کی جانب دیکھا جہاں عبایا میں ملبوس عورت اسے دیکھ کر عجیب انداز میں مسکرائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں موجود زہر کی شیشی دیکھ جازل نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
وہ ایک خاص قسم کا زہر تھا جو تھوڑی ہی دیر میں انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیتا۔
"اب آگے کیا؟۔۔۔۔۔ مرینہ چوہان کو بھابھی سے ملوادیا!۔۔۔۔۔ ان کا پلان بھی سمجھ میں آگیا۔۔۔۔۔ اب نیکسٹ سٹیپ کیا ہے؟" جازل نے سنان نے پوچھا تھا جو ویڈیو کال پر موجود تھا۔
"اب کچھ نہیں۔۔۔۔ فلحال تم لوگ شادی پر آںے کی تیاری کرو۔۔۔۔۔ اب جو ہوگا یہی ہوگا!" ان سب نے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔
"شزا کہاں ہے؟" اس نے شزا کے متعلق سوال کیا تھا
"وہ بچوں کے پاس ہے۔۔۔۔۔۔۔ جب سے آئی ہے مزید خاموش ہوگئی ہے۔۔۔۔ بس بچوں کے ساتھ چپکی پیٹھی ہے۔" زویا کی بات پر سنان نے گہری سانس خارج کی تھی۔
"سنان ڈیڈ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔ کالز کر رہا ہوں وہ رسیوو نہیں کررہے؟" وائے۔زی نے ارحام شاہ کے متعلق سوال کیا تھا
"مجھے کیا معلوم؟۔۔۔۔ چل رہا ہوگا شیطانی دماغ میں پھر کسی کی زندگی برباد کرنے کا پلان" وہ طنزیہ ہنسا تھا۔
اس کی بات پر ان سب نے مسکرا کر سر نفی میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا تمہیں لگتا ہے وہ یہ کام کردے گی؟" شبیر زبیری کی بات پر مرینہ چوہان مسکرائی تھی۔
"بلکل وہ ویسا ہی کرے گی جیسا میں نے اسے کہاں ہے۔۔۔۔ اس کے ذہن میں ایسا زہر بھر کر آئی ہوں جو ارحام شاہ کو مار ڈالے گا!" مرینہ کی بات پر شبیر زبیری مسکرایا تھا۔
تھوڑی مزید باتیں کرنے کے بعد کال کاٹے وہ اٹھتی کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی تھی۔
آنکھوں کے سامنے ہنستی ہوئی زویا آگئی تھی۔۔۔۔۔ وہ کتنی خوش تھی، اسے یوں خوش اور مطمئن دیکھ مرینہ چوہان کا کتنا خون جلا تھا۔
آنکھوں کے کونے صاف کیے وہ اپنے کمرے سے نکلتی راہداری سے گزرتی سب سے آخری کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
مشینوں میں جکڑے اس وجود کو دیکھ ان کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھی۔
"جیک!" وہ اس کی جانب بڑھی تھی ستر فیصد چہرہ اور وجود جل گیا تھا اور وہ اس وقت کومہ میں تھا۔
کچھ ماہ پہلے وہ جب زویا کی تلاش میں پاکستان آیا تھا تو اس کی کار کا بہت ایکسیڈینٹ ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ آج اس حال میں تھا۔
مرینہ چوہان نے اس وقت خود کو کیسے سنبھالا تھا یہ وہی جانتی تھی۔۔۔۔ انتقام کی ایک نئی آگ ان کے اندر بھڑک رہی تھی جسے باہر نکلنے کی وجہ شبیر زبیری نے دی تھی۔
یہ گیم بہت آسان تھا شزا کا استعمال کرکے وہ بدلا لے لیتی اور الزام آتا شبیر زبیری پر اور وہ خود بیچ میں سے نکل جاتی۔۔۔۔۔ مگر ضروری نہیں کہ جیسا ہم پلان کرے ہمیشہ ویسا ہی ہو۔
مرینہ چوہان بھی اسی گمان میں تھی جس کی وجہ سے سب کچھ نظروں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی وہ اندھی ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے ۔۔۔۔۔ جہاں ماورا کی ریکووری میں بہتری آرہی تھی وہی دوسری جانب مان زارون رستم کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت وہ میم صبغہ کے سامنے موجود تھی۔
"ابھی لاسٹ منتھ آپ نے ایک ویک کا آف لیا تھا اور اب آپ کو پھر سے چار دن کی چھٹیاں چاہیے کیوں؟" صبغہ نے ابرو اٹھائے سوال کیا تھا۔
"وہ میم میرے کزن کی شادی ہے!" اب کیا بتاتی کہ بھائی کے دوست کی شادی ہے تو بول دیا جھوٹ۔
"فرسٹ کزن؟" صبغہ نے دوبارہ سوال کیا
"یس میم!" سر اثبات میں ہلائے اس نے جھوٹ پر مہر لگادی تھی۔
"ابھی لاسٹ منتھ بھی فرسٹ کزن کی شادی تھی اور اب اس ماہ پھر سے ہے، کتنے فرسٹ کزنز ہیں آپ کے؟" درخواست پر سائن کیے اس نے لطیف سا طنز کیا تھا۔
"میم بس اب تو ایک اور کزن اور بھائی رہ گئے ہیں، باقی سب کی ہوگئی ہے!" وہ بھی مسکراتے بولی تھی۔
صبغہ نے سر اثبات میں ہلائے ایپلیکیشن ڈرا میں رکھی اور اسے جانے کا اشارہ کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیس اون کیے اس نے چولہا جلانا چاہا تھا جب کانوں سے موبائل کی بیل کی آواز ٹکڑائی تھی۔
اس کے لبوں پر ایک مسکراہٹ در آئی تھی۔
"حماد بھی نا۔۔۔۔ ایک تو تم لوگوں کے بابا کو بھی چین نہیں" مشعل عبداللہ کو بولتی وہ سر نفی میں ہلائے وہ کمرے کی جانب بڑھی تھی۔
"افف موبائل کہاں رکھ دیا؟" پورا کمرہ چھان مارا مگر اسے موبائل نہ ملا جس پر حماد اسے کال کررہا تھا۔
"اوہو میں بھی کتنی بھلکڑ ہوں کچن میں ہی ہوگا موبائل" سر پر ہاتھ مارتی وہ کچن کی جانب بڑھی تھی جہاں پہلے سے موجود انعم نے آگ کے لیے ماچس جلائی تھی۔
کچن میں پھیلتی گیس نے ایک دم سے آگ پکڑی تھی جس سے ایک زور دار دھماکا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہری سانس خارج کیے وہ بینچ پر بیٹھی شزا کے برابر میں جابیٹھا تھا جس کے ماتھے اور ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
سر جھکائے وہ ان آنسوؤں کو روک لینا چاہتی تھی جو بہے جارہے تھے۔
وائے۔زی نے ایک افسوس کن نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
"چلے؟"اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اس کی جانب ہاتھ بڑھائے وائے۔زی نے سوال کیا تھا۔
"وہ۔۔۔وہ۔۔وی کیسی ہے؟" ایک نظر وائے۔زی پر ڈالے اس نے لب چبائے سوال کیا تھا۔
"تمہیں فرق پڑتا ہے؟" ناچاہتے ہوئے بھی وہ طنز کرگیا تھا۔
"میں نے، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا، غلطی سے ہوگیا!" سر مزید جھکائے وہ اپنی کپکپاہٹ پر قابو پائے بولی تھی۔
"غلطی؟ تم اسے غلطی کہتی ہو؟" دونوں بازوں سینے پر باندھے اس نے سوال کیا تھا۔
"وہ، وہ میں ۔۔۔۔۔۔ میں موبائل لینے گئی تھی روم میں۔"
"تمہارے پاس موبائل نہیں ہے شزا!" وائے۔زی دانت چبائے بولا تھا
''ہے میرے پاس اور اس پر کال آرہی تھی۔۔۔۔۔ ہاں کال آرہی تھی"
"اچھا کس کی کال آرہی تھی؟"
"حماد کی۔۔۔۔۔ حماد کی کال آرہی تھی، حماد اسے پسند نہیں کہ میں اس کی کال رسیو نہ کروں۔۔۔۔ تم دیکھنا اب، اب گھر جائے گے نا تو میں ڈانٹوں گی اسے۔۔۔۔۔ بتاؤں گی کہ اس کی اس حرکت کی وجہ سے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ابھی یہی کروں گی" وہ پرعظم لہجے میں خود سے بولی تھی۔
وائے۔زی کی آنکھیں ہلکی نم ہوئیں تھی۔
"شزا چلو گھر چلے!" وہ اب نرمی سے بولا تھا
"مگر وہ۔۔۔۔" اس نے انعم کے بابت سوال کرنا چاہا تھا
"وہ اب ٹھیک ہے شزا۔۔۔۔۔ زیادہ مسئلہ نہیں ہوا۔۔۔۔ چلو چلے" گہری سانس خارج کیے اس نے ہاتھ ایک بار پھر شزا کی جانب بڑھایا تھا جسے اس نے تھام لیا تھا۔
انعم کا بازو کا حصہ جلا تھا وہ زیادہ نہیں۔۔۔۔۔ جبکہ صد شکر تھا کہ اس کے چہرے کو نقصان نہیں پہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں؟ مگر میں کیسے جاسکتا ہوں سر؟۔۔۔۔۔ یہ کام تو کریم کا ہے!" ارحام شاہ کے حکم پر اس کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔
وہ اسے کسی کنسائنمنٹ کے لیے شہر سے دو گھنٹے کی مسافت پر موجود فیکٹری ایریا جانے کا بولا تھا
"فار گاڈ سیک معتصیم کریم فری نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ورنہ میں تمہیں کیوں بولتا؟"
"اچھا چلے ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں!" کال کاٹے وہ اپنی جگہ سے اٹھتا آفس سے نکلا تھا۔
ماورا کو کال کرکے اس نے نہیں بتایا تھا جانتا تھا وہ ٹینشن لے لے گی ۔۔۔۔۔ ویسے بھی تین سے چار گھنٹوں کی بات تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
"چھوٹی چھوٹی۔۔۔۔ کہاں ہو یار؟۔۔۔۔۔ کب سے بلا رہی ہوں!" اسٹیک کی مدد سے لاؤنج میں آئے وہ اونچی آواز میں بولی تھی۔
"ماورا!" وہ مسکرا کر بولا تھا۔
ماورا کے چہرے کا سارا خون نچڑ گیا تھا یہ آواز سن کر
خوف سے نگاہیں اٹھائے اس نے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا تھا جو اس کے لیے کسی نائٹ مئیر سے کم نہ تھا۔
"جج۔۔۔جونیجو" خوف سے اس کی زبان ہکلائی تھی۔
فہام جونیجو کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
جتنا اس نے سوچا تھا اس سے زیادہ وقت اسے لگ گیا تھا۔
واپسی کی جانب ڈرائیو کرتے اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔۔۔ ماورا کی سخت قسم کی ناراضگی کا سوچ کر ہی اسے خوف آرہا تھا مگر اسے منانے کا سوچ کر لب مسکرا دیے تھے۔
گھر نظر میں آتے ہی وہ مسکرایا تھا جب چوکیدار کو دیکھ اس کی آنکھیں پھیلے تھے۔۔۔۔۔ گاڑی وہی روکے وہ جلدی سے اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔ تمام گارڈز زمین پر بےہوش گرے ہوئے تھے۔۔۔۔
"ماورا!" ایک انجانے خوف میں گھرے وہ جلدی سے اندر بھاگا تھا۔
پورا لاؤنج تہس نہس ہوا پڑا تھا۔
زمین پر خون کے دھبے اور گھسیٹنے کے نشان دیکھ اس کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
"ماورا!۔۔۔۔۔ ماورا!" اونچی آواز میں اس کا نام چلاتا وہ سب سے پہلے کچن کی جانب بھاگا تھا جہاں میڈ اور اس کی بیٹی دونوں بیہوش تھی۔۔۔ انہیں وہی چھوڑے وہ ایک ایک کرکے تمام کمرے دیکھ چکا تھا مگر نداد۔۔۔۔۔
اسے لگا تھا اس کی جان نکل جائے گی، دھڑکن وقت کے ساتھ ساتھ تیز ہوتی جارہی تھی۔
گہری سانس بھرتا وہ آخر میں سٹور روم کی جانب بڑھا تھا جب اسے کونے میں کچھ نظر آیا تھا۔
لائٹ اون کیے اس نے وہاں دیکھا جہاں ہوش و حواس سے بیگانہ اس کا وجود تھا۔
وہ تیزی سے اس کی جانب بھاگا تھا۔
"ماورا! ماورا!" اس کا چہرہ تھپتھپائے معتصیم نے اسے ہوش دلانے کی کوشش کی تھی۔
اس کے چہرے پر تھپڑوں کے نشان تھے جبکہ ماتھے پر زخم تھا۔۔۔۔۔ یوں جیسے کسی نے پستول کی بیک اس کے ماتھے پر ماری ہو۔
"ماورا۔۔۔" معتصیم نے فوراً اس کی نبض ٹٹولی تھی جو مدھم چل رہی تھی۔
اسے باہوں میں اٹھائے وہ تیزی سے کمرے میں داخل ہوا تھا۔
بالوں میں ہاتھ پھیرے، بےبسی سے اس نے پورے کمرے میں نگاہیں گھمائیں تھی۔
موبائل نکالے تیزی سے نمبر ڈائل کیے اس نے کال ملائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"معتصیم!" ایک چیخ کے ساتھ اس نے آنکھیں کھولی تھی۔
"ماورا!" وہ جو پاس موجود کرسی پر آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا اس کی چیخ سنتا تیزی سے اس کی جانب بڑھا تھا
"معتصیم۔۔۔۔۔۔۔۔" اس نے گہری سانسیں بھری تھی۔
"وہ۔۔۔۔وہ آیا تھا معتصیم۔۔۔۔۔ وہ، وہ مار دے گا معتصیم۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تھا، کہا تھا تمہیں بتانے کو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہیں چھوڑے گا، نہیں چھوڑے گا!" وہ پاگلوں کی طرح ری۔ایکٹ کررہی تھی۔
"ماورا ادھر دیکھو۔۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ یہاں دیکھو۔۔۔۔۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔ کچھ نہیں کرے گا وہ!۔۔۔ اوکے!" اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا جوڑے وہ بولا تھا۔
نرمی سے اس کے آنسوؤں کو صاف کرتا وہ اسے اپنی پناہوں میں لے چکا تھا۔
سوچ کے سارے تانے بانے کسی اور جانب جڑ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگ پیک کیے اس کے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ آن ٹھہری تھی۔۔۔۔۔ پری کا ری۔ایکشن سوچتے ہی وہ ہلکے سے ہنس دی تھی۔
فلیٹ کو اچھے سے لاک کیے وہ نیچے موجود ٹیکسی میں آبیٹھی تھی۔ اور اب بس پری کے ری۔ایکشن کو سوچے جارہی تھی۔
"اللہ جانے یہ لڑکی کیسے ری۔ایکٹ کرے گی۔۔۔۔" بڑبڑاتی وہ پھر سے ہنس دی تھی۔
اپنے آنے کی اطلاع اس نے صرف انا (مان کی بہن) کو دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا جانا ضروری ہے؟ میرا دل نہیں مان رہا!۔۔۔۔۔۔ میں تو کہتی ہوں رہنے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک تو آپی کی حالت اور پھر جو معتصیم بھائی کے ساتھ ہوا۔۔۔۔۔ انہیں بھی تو ضرورت ہوگی نا آپ کی؟" کپڑے پیک کیے زویا نے وائے۔زی سے پوچھا تھا جس نے بس کندھے اچکا دیے تھے۔
"میں کچھ نہیں کرسکتا تمہارے بھائی کا فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سامنے ہے سب کچھ، مگر وہ چاہتا ہے کہ ہم آئے!" مزے سے چپس کھائے وہ اسے بتاتا کمرے سے جاچکا تھا۔
"اللہ میاں پلیز سب کچھ ٹھیک کردے جلدی سے!" نگاہیں اٹھائے وہ بولی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔