شزا کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ارحام شاہ یک ٹک اسے دیکھے جارہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ان کی بیٹی تھی، بالکل ان کی محبوب بیوی جیسی، بالکل شہرینہ جیسی۔
پندرہ سال پہلے جب ارحام شاہ کو اس کے مرنے کی خبر ملی تھی تو اس وقت کس قدر ٹوٹ گئے تھے وہ۔۔۔۔ کتنا روئے تھے۔
"ڈیڈ۔۔۔۔۔۔اسے آرام کی ضرورت ہے۔۔۔آجائیں!" وائے۔زی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
گہری سانس خارج کیے خود کو پرسکون کرتے وہ باہر لاؤنج میں آئے تھے جہاں سنان، کریم اور زویا تینوں موجود تھے۔
زویا کی گود میں خاموش سا عبداللہ تھا جو بس اس کی باتوں پر مسکرائے جارہا تھا جبکہ سنان کی گود میں موجود مشعل نے اسے سکون کی سانس بھی لینے نہیں دی تھی۔
ارحام شاہ کے پیچھے آتے وائے۔زی کو دیکھ وہ سنان کی گود میں مچلی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ وائے۔زی کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔۔۔وائے۔زی نے خوف سے آنکھیں پھیلائے اسے دیکھا تھا جبکہ سنان کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ در آئی تھی۔
"نو سنان۔۔۔۔۔ اسے مجھ سے دور رکھو!" مشعل کو اٹھائے سنان کو اپنی طرف آتے دیکھ وہ غصے سے بولا تھا۔
مشعل تو آنکھیں بڑی کیے اپنی چھوٹی سے مٹھی کو منہ میں لیے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
وائے۔زی کو زندگی میں پہلی بار شائد کسی لڑکی سے اتنا خوف آیا تھا۔
وائے۔زی کی نہ نہ کرنے کے باوجود بھی سنان اسے مشعل کو تھما چکا تھا جس نے اپنا تھوک والا ہاتھ اچھے سے وائے۔زی کے چہرے پر مل دیا تھا۔
وائے۔زی کے غصے سے گھورنے پر اس نے اپنے چھوٹے سے دانت اسے دکھائے تھے جو ابھی نکلنا شروع ہوئے تھے۔
"تو اب؟" سب کو خاموش دیکھ کریم نے بات شروع کی تھی۔
"اب شروع ہوگی شبیر زبیری کی بربادی۔۔۔۔۔۔" ارحام شاہ غصے سے بولے تھے۔
"شزا آپی کیا ہمیں اتنی جلدی ایکسیپٹ کرلے گی؟" زویا نے ہچکچا کر سوال کیا تھا۔
"اسے کرنا ہوگا اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی راستہ نہیں!" ارحام شاہ غصے سے بولے تھے۔
"مگر مجھے نہیں لگتا وہ سکون سے بیٹھے گی۔۔۔۔ وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔۔۔۔۔۔!" کریم فوراً بولا تھا۔
"اس کا بھی ایک حل ہے میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نا شبیر زبیری کو اس کی بربادی کا پہلا تحفہ بھیجا جائے!" ان کے لبوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ تھی جس پر سنان اور وائے۔زی بھی مسکرا دیے تھے۔
"آؤچ!" مشعل کے اپنی آنکھ میں انگلی مارنے پر وائے۔زی چلایا تھا۔
"تم!" وائے۔زی کے بولنے سے پہلے وہ اونچی آواز میں رونا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے روتے دیکھ عبداللہ بھی رونا شروع ہوگیا تھا۔
ان دونوں کو یوں روتا دیکھ وہ سب بھوکلا گئے تھے۔۔۔۔ ان میں سے کسی کو بھی بچے سنبھالنے کا کوئی ایکسپیرئینس نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیمے دھیمے سے پلکیں جھپکائے اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ دماغ میں ٹیس اٹھتی اسے محسوس ہوئی تھی۔
تکلیف اور رونے کے باعث آنکھیں کھولنا اس کے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
آہستہ آہستہ گزرا واقع ذہن سے گزرا، دماغ بیدار ہونا شروع ہوا تھا، کانوں میں بچوں کے رونے کی آواز گونج رہی تھی۔
"نہیں!" ایک چیخ کے ساتھ وہ بیڈ پر اٹھ بیٹھی تھی۔
نظریں گھمائے اس نے چاروں اور اس کمرے کو دیکھا تھا، وہ کہی سے بھی اس کا کمرہ نہیں تھا۔۔۔۔۔
یکدم اسے خوف نے گھیر لیا تھا جب پھر سے اس نے بچوں کے رونے کی آواز سنی تھی۔
"مشعل! عبداللہ!" بیڈ سے اٹھتی وہ تیزی سے باہر بھاگی تھی۔
لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس کے پیر رکے تھے۔
سامنے ہی وائے۔زی مشعل کو چپ کروانے میں مگن تھا، خوف سے شزا کے قدم وہی جم گئے تھے۔
"ممم۔۔۔۔مشعل!" اس نے دھیرے سے نام پکارا۔
"آپی!" زویا جو اسے دیکھ چکی تھی وہ فوراً بولی تھی، زویا کی نظروں کے تعاقب میں ان سب نے شزا کی جانب دیکھا جو خوف سے ان سب کو دیکھ رہی تھی۔
شزا نے دوبارہ وائے۔زی کودیکھا جس کی باہوں میں موجود مشعل مچل رہی تھی ماں کے پاس آنے کو۔۔۔۔۔ شزا کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔۔۔
اس نے وائے۔زی کو دیکھا، یہ وہی چہرہ تھا جو بیہوش ہونے سے پہلے اس نے دیکھا تھا، مگر اس کے ساتھ ایک اور چہرہ بھی تھا جو وہ چاہ کر بھی اپنے دماغ سے نکال نہیں پائی تھی۔
"ممم۔۔۔۔میرے بچے۔۔۔۔۔ انہیں، انہیں چھوڑ دو!" وہ اس قدر بےبس تھی کہ اس کے آنسو نکل آئے تھے، وہ سسک اٹھی تھی۔
سنان نے افسوس سے اسے دیکھا تھا، کتنا خوف تھا اس کے چہرے پر، کتنا ڈر تھا، اپنی اولاد کے لیے کتنی فکر تھی۔
سنان کے اشارے پر زویا نے آگے بڑھ کر عبداللہ کو اسے تھمایا تھا۔ عبداللہ کو زور سے سینے سے لگائے وہ ابھی بھی خوفزدہ نگاہوں سے وائے۔زی کو دیکھ رہی تھی جس کی باہوں میں روتی ہوئی مشعل تھی۔
"مشعل۔۔۔" آنسو بنا رکے بہے جارہے تھے۔
سنان کے ہی اشارے پر زویا نے آگے بڑھ کر وائے۔زی سے مشعل کو تھاما اور اسے شزا کی جانب لےکر گئی جو بیقرار نگاہوں سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھی۔
مشعل کے پاس آتے ہی اس نے دونوں بچوں کو باہوں میں تھامے بےتحاشہ چوما تھا۔
سب لوگ افسوس سے اسے دیکھ رہے تھے مگر انہی سب میں دو نم آنکھیں بیقرار سی اسے دیکھ رہی تھی۔
"زویا اسے کمرے میں لیجاؤ!" سنان کی بات سنتے ہی وہ شزا کا بازو تھامے اس کے کمرے کی جانب چل دی تھی۔
دونوں بچوں کو سینے سے لگائے، بیڈ پر بیٹھی شزا ابھی بھی ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔
"میں آپ کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں!" اس کے جواب کا انتظار کیے بنا وہ کمرے کا دروازہ بند کیے باہر نکل چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے وائے۔زی؟ وہ کیوں تم سے خوف کھارہی تھی؟۔۔۔۔۔ کیا کیا ہے تم لوگو نے اس کے ساتھ؟" ارحام شاہ سے اس کی حالت ڈھکی چھپی نہ تھی۔
"وہ ہمیں اپنے شوہر اور آپکو اس کے ماں باپ کا قاتل سمجھتی ہے!" وائے۔زی نے گہری سانس خارج کی تھی۔
"کیا مطلب ہے اس بات کا؟"
"انہیں سب بتادو وائے۔زی۔۔۔۔۔ ورنہ ان کی جہنمی روح کو سکون نہیں ملنا!" سنان کے لطیف سے طنز پر انہوں نے غصے سے اسے گھورا تھا۔
"میری اور شزا کی پہلی ملاقات ڈیوڈ کی کلب پر ہوئی تھی، یا یوں کہنا بہتر رہے گا کہ میں نے سب سے پہلے اسے اس کلب میں دیکھا تھا، وہ وہاں ایک پول ڈانسر تھی۔۔۔۔۔۔ لیلیٰ کے نام سے مشہور۔۔۔۔۔ مجھے لگا تھا اس کے ذریعے میں ڈیوڈ تک آرام سے جاسکتا ہوں کیونکہ ڈیوڈ اسے بہت اہمیت دیتا ہے، مگر میں نہیں جانتا تھا کہ وہ شبیر زبیری کے لیے دوست کے روپ میں دشمن بنی ڈیوڈ کے خلاف کام کررہی تھی، شبیر زبیری کو بھی وہ کلب چاہیے تھا اپنے تمام کالے دھندوں کو چھپانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ وہ شبیر زبیری کے لیے کام کرتی ہے اس کا علم مجھے تب ہوا جب میں اس کے اور حماد کے نکاح پر گیا تھا۔۔۔۔اور اسے شبیر زبیری کی بہو کے طور پر دیکھ کر چونکا تھا۔۔۔۔۔۔۔بھلا ایک پول ڈانسر کو کوئی شخص اپنی بہو کیسے بناسکتا تھا؟۔۔۔۔ پہلے معلوم ہوا کہ وہ حماد زبیری کی محبت ہے مگر بعد میں سمجھ آئی کہ شبیر زبیری اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کررہا ہے اور اسی لیے اس نے اپنے بیٹے سے اس کی شادی کردی۔۔۔۔ شزا اپنے ماضی سے انجان ہے کیونکہ اسے ایسی ڈرگز دی گئی تھی جس سے اس کی میموری لاس ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ ایسے میں شبیر زبیری نے شزا کو یہ کہانی سنائی کہ آپ اس کے دشمن ہے اور شزا اس کے دوست کی بیٹی، اور یہ بھی کہ شزا کے ماں باپ کو مارنے والے آپ ہیں!۔۔۔۔۔ سب کچھ بالکل ٹھیک جارہا تھا مگر شزا نے اچانک ان کے کام کرنے سے انکار کردیا۔۔۔۔ یہ تب کی بات ہے جب مجھے گولی لگی تھی اور چلانے والی شزا تھی!" اب کی بار سب چونکے۔
"مگر شزا نے بعد میں ان کی مزید مدد سے انکار کردیا، وجہ نہیں جانتا میں کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ اب شزا ان کے فائدے کی نہیں رہی تھی اسی لیے وہ اسے مروانا چاہتے تھے، مگر۔۔۔۔۔ مگر شائد حماد ان کی اس سوچ سے آشنا ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ چھ ماہ پہلے ہوئے حملے میں ٹارگٹ حماد نہیں شزا تھی، حماد نے تو بس اسے بچایا تھا۔۔۔۔۔ شبیر زبیری شزا کو بعد میں بھی مروا سکتا تھا مگر جب اسے پتا چلا کہ حماد کی اولاد ایک لڑکا ہے تو وہ شخص رک گیا۔۔۔۔۔ اور اب کی بار والا حملہ بھی شزا اور اس کی بیٹی کے لیے تھا۔۔۔۔۔۔ شبیر زبیری نے شزا کو یہی بتایا کہ حماد کو مارنے والے ہم ہیں!۔۔۔۔۔۔ اور شزا بھی اسی پر یقین رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس شخص نے شزا کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لیا ہوا ہے، ایسے میں شزا کو سچ سے آگاہ کرنا بہت مشکل ہے!" وہ گہری سانس لیتا خاموش ہوا۔
"اور تمہیں اتنی باتیں کس نے بتائی؟" ارحام شاہ کے سوال پر وہ دھیما سا مسکرایا۔
"بتادوں گا وقت آنے پر!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڈ پر موجود مایوں کے جوڑے کو دیکھ اسے بہت عجیب محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔۔ دل میں ایک انجان سی خواہش، ایک انجانی خوشی پھوٹی تھی جسے اس نے سر جھٹک کر سلا دیا تھا۔
ویل چئیر گھماتی وہ اب بالکل جوڑے کے پاس آگئی تھی۔۔۔۔ ہاتھ بڑھا کر اس نے اس مخملی کپڑے کو چھوا تھا۔۔۔۔۔۔ پسند کرنے والے کو وہ سراہے بنا نہیں رہ سکی تھی۔
"خوبصورت ہے نا؟" پیچھے سے سوال ہوا
"بہت" آواز پہچانے بنا وہ خواب کی کیفیت میں بولی تھی۔
"اور سوچو جب تم اسے پہنو گی تب کتنا حسین لگے گا!" پیچھے سے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھے وہ بولا تھا۔
ماورا کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی تھی جب اس کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتے چونک کر اس نے گردن موڑے اسے دیکھا تھا۔
معتصیم کو سامنے پاکر اس کا چہرہ سپاٹ ہوگیا تھا۔
"تم یہاں کیا کررہے ہو؟" اس کے ہاتھ جھٹکتے سوال ہوا تھا۔
"اپنی بیوی سے ملنے آیا ہوں!" بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھے وہ بولا تھا۔
"مہندی نہیں لگوائی تم نے؟" اس کے خالی ہاتھوں کو پکڑے اس نے سوال کیا تھا۔۔۔
"پسند نہیں مجھے" اس کی گرفت سے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتے وہ بولی تھی۔
"مگر مجھے تو بہت پسند ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے اچھا ہی کیا جو ابھی نہیں لگوائی۔۔۔۔ ایک بار مایوں ہوجائے پھر آرام سے لگوانا!"
"اچھا سنو میرا نام لکھواؤ گی نا؟" اس کی مزاحمت کو نظرانداز کیے اس نے دوبارہ سوال کیا تھا۔
"ارے یہ کیسا سوال ہے میرا بھی۔۔۔۔ نام تو تم پکا لکھواؤ گی اور میں ڈھونڈو گا بھی!" اس کے غصیلے چہرے پر ایک نگاہ ڈالے وہ دوبارہ ہاتھوں کو دیکھتا مسکراہٹ دبائے بولا تھا۔
"تم۔۔۔۔۔"
"بھائی جلدی کیجیئے کسی نے دیکھ لیا تو شامت آجائے گی!" دروازے کے اس پار سے اسے تقی کی جھنجھلائی آواز سنائی دی تھی۔
"اچھا سنو زیادہ ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں، میں ہوں گا تمہارے ساتھ۔" اس کے دونوں ہاتھوں کو نرمی سے دبائے معتصیم نے جیسے اسے طاقت دی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ اپنے اپاہج پن اور پھر اس شادی کو لےکر ماورا کا دماغ مختلف قسم کے غلط خیالات سے بھر جائے گا اسی لیے اسے یہ بتانے آئے تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہے اسے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ ماورا اس کے الفاظوں میں چھپی فکر کو پھانپ کر چونکی تھی تو کیا وہ اس کی پریشانی سمجھ چکا تھا؟
"سب ہنسے گے تم پر، ایک اپاہج کو بھی بھلا اپناتا ہے کوئی؟" وہ اس کی جانب دیکھتی افسردہ لہجے میں بولی تھی۔
"کہاں نا زیادہ مت سوچو!" اسے تلقین کرتا وہ اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھ چکا تھا۔
اس کا لمس محسوس کرتی وہ اپنی جگہ جم سی گئی تھی، یہ دوسری بار تھا جب ماورا کو یہ لمس نصیب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بند کیے اس نے اس لمس کو روح تک محسوس کیا تھا۔
"بھائی!" تقی نے دوبارہ دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
"آرہا ہوں!" اس کی بند آنکھوں کو مسکراتی نگاہوں سے دیکھتا وہ مزے سے کمرے سے نکل گیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد جیسے وہ ہوش میں آئی تھی، دائیں ہاتھ سے اپنے ماتھے کو چھوا تھا، لبوں پر دھیمی سی شرمیلی سی مسکراہٹ آٹھہری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا میں اندر آسکتا ہوں؟" دروازہ ناک کیے سنان نے اجازت چاہی، زویا جو مایوں کے فنکشن کے لیے تیار ہورہی تھی اسے دیکھ کر مسکرائی۔
"بھائی آئیے نا!" وہ ہاتھ میں موجود لپسٹک کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
صوفہ پر بیٹھے سنان نے اپنے پاس موجود جگہ کی جانب اشارہ کیا تھا۔
"کیسی ہے میری بہن؟" اسے کے بالوں میں محبت سے ہاتھ پھیرے سنان نے سوال کیا تھا۔
"اے ون!" وہ چہکی تھی
"مجھ سے ناراض تو نہیں؟"
"نہیں۔۔ کیوں؟" زویا اس کے سوال پر چونکی
"تمہیں وہ وقت جو نہیں دے سکا جس کی تم حقدار تھی۔۔۔۔۔ برا لگتا ہے مجھے۔" سنان کی بات پر وہ دھیما سا مسکرائی تھی۔
"میں آپ سے بھلا کیسے ناراض ہوسکتی ہوں بھائی،اور یہ جو سب آپ کررہے ہیں، جس کی وجہ سے مجھے وقت نہیں دے پارہے وہ سب ہمارے ہی لیے کررہے ہے نا؟۔۔۔۔۔میں آپ سے کبھی بھی ناراض ہوسکتی، ایسا کبھی مت سوچیئے گا!" زویا کی بات پر سنان مسکرایا تھا۔
"اچھا یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ اکیڈمی کیسی جارہی ہے؟ دوست بنائے نئے؟ اور ٹیچرز وہ کیسے ہیں؟ کوئی تنگ تو نہیں کررہا نا؟" سنان کے اتنے سوالات ایک ساتھ پوچھنے پر وہ ہنس دی تھی۔
"اکیڈمی بہت اچھی جارہی ہے۔ جی میں نے دو دو دوستیں بھی بنائی ہیں، کوئی تنگ نہیں کررہا اور جہاں تک بات رہی ٹیچرز کی تو سب بہت اچھے ہیں، اسپیشلی۔۔۔۔۔۔۔"
"اسپیشلی؟" اس کے رکنے پر سنان نے بات بڑھانا چاہی۔
"اسپیشلی میم صبغہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی ہے!" وہ مسکراتے ہوئے اسے اپنی اکیڈمی کے قصے کہانیاں سنارہی تھی جبکہ سنان تو بس اس ایک نام "صبغہ" پر رک سا گیا تھا۔
کتنے سالوں بعد یہ نام سنا تھا اس نے۔۔۔۔۔ چودہ سال۔۔۔۔۔
"بھائی کہا کھوگئے؟" زویا نے اس کا شانہ ہلایا
"ہوں؟ ہاں! کہی نہیں۔۔۔ تم تیار ہورہی تھی نا۔۔۔۔۔۔ جاؤ تیار ہوجاؤ۔۔۔۔ پھر ہمیں نکلنا ہے!" سنان اس کا سر تھپتھپائے بولا تھا۔
"بھائی۔۔۔۔وہ شزا آپی؟" زویا نے ہچکچاتے سوال کیا
"اس کی فکر مت کرو اس کا باپ رکے گا اس کے پاس۔۔۔۔۔ اس وقت وہی شزا کو ہینڈل کرسکتے ہیں!" سنان کی بات پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مونگیا رنگ کا شرارہ اور ہم رنگ ڈوپٹا سرپر ٹکائے وہ غور سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ وہ پہلے بھی عام شکل و صورت کی مالکن تھی اور اب یہ اپاہج پن، سوچوں نے ایک بار پھر غلط جانب رخ موڑا تھا۔
"ماورا میری بچی۔۔۔۔" تائی امی جو اسے لینے اندر آئی تھی اسے تیار ہوتے دیکھ مسکرائی تھی۔
"ماشااللہ!" اس کو تیار دیکھ وہ مسکرائی تھی اور محبت سے اس کا ماتھا چوما تھا۔
"میری بیٹی بہت پیاری لگ رہی ہے!" اس کے چہرے کو ہاتھوں میں تھامے وہ مسکرا کر بولی تھی جس پر وہ تلخی سے مسکرائی تھی۔
"چلو!" اس کی ویل چئیر تھامتی وہ باہر کی جانب بڑھی تھی۔
"تقی آپا کی مدد کرو!" اسے گاڑی میں بٹھاتے انہوں نے تقی کو آواز دی تھی جو اپنے کزنز کے پاس کھڑا تھا۔
ان کی بات سنتا وہ دوڑتا ہوا ماورا کی جانب آیا تھا اور اسے سہارا دیے گاڑی میں بٹھارہا تھا۔
"اللہ جانے ایسی بھی کیا مجبوری تھی جو اس اپاہج کو اپنا رہا ہے۔" یہ الفاظ بڑی چچی کے تھے جن پر وہ دونوں بہن بھائی ٹھٹھک گئےتھے۔
"مجھے تو لگتا ہے ضرور لڑکے میں کوئی کمی ہوگی، ورنہ اتنے امیر اور اتنی شاندار پرسنیلیٹی کے بندے کو کیا ضرورت پڑی اس اپاہج سے شادی کرنے کی!" اب کی بار بولنے والی بڑی چچی تھی۔۔۔۔ ماورا کی آنکھیں بھیگ گئیں تھی۔
"ہاں مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔۔۔۔۔ ضرور لڑکے میں کوئی کمی ہوگی۔۔۔۔ خیر ہمیں کیا کرتے رہے جو کرنا ہے۔" مزے سے بولتی وہ دونوں ان کے پاس سے گزرتی اپنی اپنی گاڑی میں جا بیٹھی تھیں۔
"ان کی جانب دھیان نہ دے آپا، یہ حاسد لوگ نا خود خوش رہتے ہیں اور نہ دوسروں کو رہنے دیتے ہیں" ماورا کی نم آنکھیں دیکھتے اس نے تسلی دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لائٹس اور پھولوں سے سجائے اسے حویلی نما گھر کو دیکھ ماورا کے تمام رشتہ داروں کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔۔۔۔ انہیں معلوم تھا کہ معتصیم امیر ہے مگر اس قدر دولت، ماورا کی قسمت کا سوچ سب کی آنکھوں میں حسد در آیا تھا۔
"قسمت دیکھو اس منحوس کی۔۔۔۔ آٹھ سال گھر سے غائب رہی ہے اور اب واپس آئی تو کیسا رشتہ مل گیا!" پھوپھو کی بڑبڑاہٹ وہاں موجود تمام لوگوں نے سنی تھی۔
"آٹھ سال گھر سےغائب رہی تھی؟" یہ سوال معتصیم کی مینیجر کی بیوی نے کیا تھا۔
اس کی بات سن ان تین عورتوں کے لبوں پر مسکراہٹ در آئی تھی، ظاہر سی بات تھی یہاں کوئی بھی ماورا کے ماضی سے آشنا نہیں تھا تو ایسے میں اس کی خوشیوں کو برباد کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں ماورا کے گھر سے غائب ہونے والے قصے کو ہر قسم کا مرچ مسالے لگا کر تمام مہمانوں تک پہنچا دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا میں اندر آسکتی ہوں؟" دروازہ ناک کیے زویا نے اجازت مانگی تھی۔
ماورا نے انجان نگاہوں سے اسے دیکھتے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"السلام علیکم میں زویا ہوں سنان بھائی کی بہن!" اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا تھا۔
"سنان؟"
"اوہ سنان بھائی وہ معتصیم بھائی کے دوست ہے۔۔۔۔ جسٹ لائک فیملی فرینڈز!" زویا کی بات سمجھتے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ان دونوں میں کچھ دیر خاموشی حامل رہی تھی زویا ہاتھ ملتی شائد کسی قسم کی بات کی توقع کررہی تھی جبکہ ماورا اپنی دنیا میں گم تھی۔
"میں، میں چلتی ہوں!" دروازے کی جانب اشارہ کرتی وہ باہر کو بھاگی تھی۔
"اففف" گہری سانس لیے اس نے خود کو پرسکون کیا تھا، کتنا عجیب تھا اس کے لیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرخ گریہ آنکھوں سے وہ اس وقت زمین کو گھور رہا تھا، تقی کا بھی غصے سے برا حال تھا جبکہ تایا ابو اور تائی امی بھی پریشان تھے۔
ان کے اپنوں نے کیسا ڈرامہ کھڑا کردیا تھا اتنے لوگوں کے درمیان، لوگوں کی زبانیں بند ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
"میں، میں تم سے بہت شرمندہ ہوں معتصیم۔۔" تایا ابو شرمندگی بھری آواز میں بولے تھے۔
دونوں چاچا بھی وہاں موجود تھے اور ان کا بھی شرمندگی کے مارے برا حال تھا۔۔۔۔۔ جو بھی تھا ماورا ان کے مرحوم بھائی کی بیٹی تھی اور انہیں کوئی حق نہیں تھا کہ وہ ماورا کے بابت ایسی فضول باتیں کرتیں۔۔۔۔ مگر اتنا دکھ ان کی بیویوں کی زبان نے انہیں نہیں دیا تھا جتنا دکھ ان کی بہن کی زبان نے انہیں دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو بہن تھی۔۔۔۔ وہی بھرم رکھ لیتی اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کا۔
"آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں آپ کے گھروالوں کو جو کرنا تھا سو کرلیا مگر فکر مت کرے مجھے اپنی اور اپنی بیوی کی عزت کروانا اچھے سے آتا ہے، آج رات تک فنکشن ختم ہونے کے ساتھ ہی لوگوں کے الفاظ بھی بدل جائے گے" ایک سرد مسکراہٹ ان کی جانب اچھالتا وہ کمرے سے نکل گیا تھا۔
اس کی مسکراہٹ دیکھ سنان اور وائے۔زی نے ایک دوسرے کو دیکھتے سر نفی میں ہلایا تھا۔۔۔۔۔۔ مطلب صاف تھا اب کسی کی بھی خیر نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"چاچا جان۔۔۔وہ، وہ ایک ویڈیو آئی ہے آپ کے لیے۔۔۔۔۔۔ ارحام شاہ کی جانب سے" ہانپتا کانپتا جازل سٹڈی میں داخل ہوا تھا، وہ جو اس کی بات سن رہے تھے ارحام شاہ کا نام سن کر اپنی کرسی سے اچھلے۔
"لگاؤ" لیپ ٹاپ کی جانب اشارہ کیے انہوں نے اجازت دی تھی۔
ان کے حکم پر عمل کرتے اس نے آگے بڑھ کر فلیش کو لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کیا تھا۔
"شبیر زبیری!" لیپ ٹاپ سے گھمبیر بھاری آواز گونجی تھی اور بہت جلد ارحام شاہ کا چہرہ سامنے آیا تھا جس کے چہرے پر ایک سر مسکراہٹ تھی، پندرہ سال بعد آج وہ اس شخص کو دیکھ رہے تھے۔
"سنا تمہارے بیٹے کو کسی نے مار دیا اور یہ بھی کہ تمہاری بہو اور پوتا، پوتی غائب ہے؟" اس کی بات سن شبیر زبیری کے ماتھے پر پسینے کے ننھے قطرے نمودار ہوئے تھے انہوں نے ایک نگاہ جازل پر ڈالی تھی، ان کی نظر اور سوچ میں جازل کسی بھی قسم کے سچ سے آشنا نہیں تھا۔
"ویسے یہ بچے دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں نا؟" اب کیمرہ کا رخ مشعل اور عبداللہ کی جانب ہوا تھا جو دونوں اس وقت پرام میں موجود تھے۔
"یہ۔۔۔۔۔۔۔" جازل کی آنکھیں پھیلی تھی۔
"فکر مت کرو تمہاری بہو اور پوتا پوتی میرے پاس اس وقت بالکل محفوظ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور جب تک میں نا چاہوں تب تک تو بالکل بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ سنا تھا کافی پریشان تھے ان کی گمشدگی سے تو سوچا چلو اپنے پرانے دوست کی فکر کو زرا کم کردیا جائے!۔۔۔۔ اور ہاں اب زیادہ ٹینشن نہ لینا اور جہاں تک بات رہی ان بچوں کی تو میں ان کا بھرپور خیال رکھوں گا۔۔۔۔۔ آخر کو تہارے جتنا حق ان پر میں بھی رکھتا ہوں!" گہری مسکراہٹ کے ساتھ ویڈیو ختم ہوگئی تھی جبکہ شبیر زبیری کے ہوش اڑ گئے تھے۔
ارحام شاہ سچ تک پہنچ چکا تھا، وہ جان چکا تھا، شبیر زبیری کو ایک انجانے خوف نے گھیر لیا تھا۔
"اب ہم کیا کرے گے چاچا جان؟۔۔۔۔۔ میں سوچ نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص اس حد تک گر جائے گا کہ دو معصوم بچوں کو جنگ میں استعمال کرے گا!" جازل نے مٹھی دبائے غصہ قابو کرنے کی کوشش کی تھی۔
"ہمیں جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا چاچا جان!"
"ہوں کرنا تو ہوگا!" وہ گہری سوچ میں ڈوبے بولے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مایوں کا تمام انتظام لان میں کیا گیا تھا۔۔۔۔ برقی قمقموں سے سجا لان اور زرق برق لباس پہنے لوگ۔۔۔۔ اینٹرینس پر موجود ماورا نے خوف سے اپنے ساتھ کھڑی زویا کا ہاتھ دبایا تھا۔
"بھابھی کیا ہوا آپ ٹھیک ہے؟" زویا نے فکرمندی سے سوال کیا
"مجھ سے، مجھ سے نہیں ہو پائے گا زویا۔۔۔۔۔۔۔ لوگ ہنسے گے۔۔۔۔ میں، میں ان کی مزاق اڑاتی نگاہوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔ میں ان کی نگاہوں میں اپنے لیے افسوس، ترس یہ سب نہیں دیکھنا چاہتی!" اس کی آواز کپکپا رہی تھی۔
معتصیم، سنان اور وائے۔زی جو اسی جانب آرہیں تھے، ان تینوں نے بھی اس کے لفظوں میں موجود خوف کو محسوس کیا تھا۔
"ایسی باتیں مت سوچو کوئی تم پر نہیں ہنسے گا!" معتصیم نے آگے بڑھ کر اسے تسلی دی تھی۔
"نہیں سب ہنسے گے، افسوس کرے گے تم پر بھی اور مجھ پر بھی۔۔۔ ترس کھائے گے۔۔۔۔۔ ترحم بھری نگاہوں سے دیکھے گے۔۔۔۔" اس سے پہلے وہ مزید کچھ بول پاتی معتصیم نے آگے بڑھ کر اسے باہوں میں اٹھایا تھا۔
جہاں زویا اور ماورا کی آنکھیں پھیلی تھیں، وہی سنان اور وائے۔زی نے اسے داد بھری نگاہوں سے دیکھا تھا۔
"اب کس قسم کا ترس، افسوس یا ترحم نہیں۔۔۔۔۔ اب سب رشک سے دیکھے گے!" اس کی گھمبیر آواز پر ماورا کسی جادو کے زیر اثر اپنا سر ہلایا تھا۔
اسے یونہی باہوں میں اٹھائے وہ اینٹرینس سے داخل ہوتا سٹیج کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ وہ سب لوگ جو ماورا پر فقرے اچھالنے کو تیار تھے ان کے لب سل سے گئے تھے۔۔۔۔۔ لوگوں کی رشک بھری نگاہوں، ان کے جملوں کو نظرانداز کیے اس کی نگاہیں ماورا پر ٹکی تھی جو ابھی بھی پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھے جارہی تھی۔
اسٹیج کی جانب لائے اس نے مایوں کے جھولے پر بڑی نرمی سے اسے بٹھایا تھا اور ساتھ ہی لوگوں کو ان کے رشتے سے آشنا کرنے کو اپنے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنان زویا کو اچھے سے سمجھا چکا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اب وہ معصوم بلی بنی اپنا شکار آرام سے کیے جارہی تھی۔
عورتوں کے ہر ٹیبل پر جاتی وہ میزبان کا فرض انجام دیتی ساتھ ساتھ ہی انہیں ماورا اور معتصیم کے نکاح کی بھی اطلاع دیے جارہی تھی جو آٹھ سال پہلے ہوچکا تھا۔
"بھئی ہمیں تو لڑکی کی پھوپھی اور چچیوں نے بتایا کہ وہ گھر سے بھاگ گئی تھی؟" ایک آنٹی منہ بنائے بولی تھی۔
"بس آنٹی اب کیا کہوں میں۔۔۔۔ کہنا تو چاہیے مگر۔۔۔۔۔ یہ جو بھابھی کی پھوپھو ہے نا ان کا ایک بیٹا ہے، ایک قسم کا عیاش، بھابھی کی پھوپھو اپنے بیٹے کے لیے ان کا رشتہ لینا چاہتی تھی مگر بھابھی کے تایا نے باپ بن کر پالا تھا سو منع کردیا اور معتصیم بھائی جو ان کے دوست کے بیٹے ہے ان کے ساتھ نکاح کردیا، اس کے بعد بھابھی اپنی سٹڈیز مکمل کرنے کے لیے لندن چلی گئی تھی۔۔۔۔۔ وہاں انہیں اچھی جاب مل گئی، مگر کچھ مسائل کی وجہ سے رخصتی میں دیر ہوگئی۔۔۔۔ اب بس اتنی سی بات تھی اور دیکھیے زرا کیسے اپنی یتیم مسکین بھتیجی سے بدلا لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اللہ کسی کو بھی ایسی پھوپھی نہ دے!" کانوں کو ہاتھ لگائے وہ اس وقت ایک پاکستانی عورت ہونے کا حق ادا کررہی تھی۔
وائے۔زی تو اس کی اس پرفارمنس پر عش عش کر اٹھا تھا۔
"چلو پھوپھی جھوٹ بول سکتی ہے مگر اس کی چچیاں؟" وہ آنٹی شائد ماننے کے موڈ میں نہیں تھی۔
"آنٹی اب آپ اس گھر کو، اس کی چکاچوند کو دیکھے، اور پھر معتصیم بھائی کو دیکھ لے۔۔۔۔۔۔۔ اب ظاہر سی بات ہے اتنا سب کچھ دیکھ کر لالچ تو کسی بھی انسان کے دل میں آسکتی ہے، بس اللہ بچائے ایسی لالچ اور ایسے حسد سے جو اپنوں کو اپنوں کے خلاف کردے!" زویا کی بات سن وہ سب عورتیں اس کے ساتھ متفق ہوئیں تھی۔
وہی لوگ جو چند منٹ پہلے تک ماورا کو برا بھلا کہہ رہے تھے اب وہی لوگ اسکی تعریفوں کے پل باندھتے اس کی پھوپھی اور چچیوں کی بدتعریفی میں مگن تھے۔
اپنا کام کیے زویا نے ایک آبرو اچکائے وائے۔زی کی جانب دیکھا تھا۔
"تو کیسا دیا؟" مسکراہٹ دبائے اس نے سوال کیا تھا۔
"ایسا کوئی اعلیٰ کہ باخدا کیا ہی کہنے!" وائے۔زی کی بات پر وہ کھل کر ہنس دی تھی۔
مسکراتے ہوئے ان دونوں نے جھولے کی جانب دیکھا تھا جہاں مایوں کی رسم شروع کردی گئی تھی ساتھ ہی ساتھ نظریں ماورا کے چہرے پر بھی تھی جو اب پرسکون سی مسکرا کر اپنے فکنشن کو انجوائے کررہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میم، میم اٹھ جائے ڈنر کا وقت ہوگیا ہے!" انعم نے کوئی چھٹی باہر اسے ہلایا تھا۔
انجیکشن کا اثر ابھی تک اس پر قائم تھا اسی لیے وہ دوبارہ سو گئی تھی۔
"میم!" اب کی بات انعم کے ہلانے پر اس نے دھیرے سے آنکھیں اسے دیکھا اور ایک دم نیند سے بیدار ہوئی تھی۔
نظریں بچوں کی تلاش میں پورے کمرے میں بھٹک رہی تھی۔
"میرے، میرے بچے؟" وہہ بھوکلائی
"میم وہ ارحام سر کے پاس ہے آپ آجائے کھانے پر وہ آپ کا ویٹ کررہے ہیں!" انعم کی بات سن وہ چونکی تھی۔
"کس کے پاس ہیں بچے؟" اسے لگا شائد سننے میں غلطی کردی ہو اس نے۔
"وہ میم ار۔۔۔۔۔"
"تمہارا مطلب ارحام شاہ ہے؟" اس کی بات بیچ میں کاٹے اس نے سوال کیا تھا۔
انعم کا سر اثبات میں ہلا۔
جن آنکھوں میں تھوڑی دیر پہلے تک خوف تھا اب میں غصہ اور نفرت جگہ لے چکے تھے۔
"چلو!" اپنے حلیے کی پرواہ کیے بنا انعم کو اشارہ کرتی اس کی پیروی میں وہ ڈائنگ تک پہنچی تھی۔
ڈائنگ ٹیبل پر پہنچتے اس کی نظر سب سے پہلے عبداللہ اور مشعل پر گئی تھی جنہیں ٹھیک دیکھ کر اس نے پرسکون سانس خارج کی تھی۔
وہ شخص جس نے اس سے اس کے شوہر کو چھین لیا تھا اس نے آخر اس کو اور اس کے بچوں کو ابھی تک زندہ کیوں رکھا اور اگر اپنی تحویل میں لیا بھی تھا تو اتنا نرم رویہ کیوں؟
"آؤ بیٹھو!" ارحام شاہ نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ اپنے سامنے موجود کرسی کی جانب اشارہ کیا تھا جس پر وہ بیٹھ گئی تھی۔
"تم کیا کرنا چاہ رہے ہو ارحام شاہ یہ میں جان کر ہی رہوں گی۔" اس کی خوش اخلاقی کو دیکھ اس نے خود سے عہد کیا تھا۔
"کیا کھاؤ گی پلاؤ؟ قرمہ؟ پاستا؟۔۔۔۔۔ میم کو سرو کرو!" اس سے پوچھتے انہوں نے انعم کو حکم دیا جو فوراً سرو کرنے کو آگے بڑھی تھی مگر شزا نے ہاتھ اٹھائے اسے روک دیا تھا۔
"کھانا کھانے نہیں آئی میں یہاں بس اتنا جاننا چاہتی ہوں کہ تمہارے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ آخر تم کیا چاہتے ہو جو مجھے اور میرے بچوں کو یوں قیدی بناکر رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ اب کونسی نئی گیم کھیل رہے ہو ہمیں برباد کرنے کی؟۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی مجھ میں اتنا ظرف نہیں کہ اپنے ماں باپ کے قاتل کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں!" شزا کے سوال پر ارحام شاہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔
پاستا کا ایک بائٹ لیے وہ اس کی جانب مکمل متوجہ ہوئے تھے۔
"یقین مانو یہ کام تم پچھلے پندرہ سالوں سے کرتی آرہی ہو!۔۔۔۔۔ اپنی ماں کے قاتل کے ساتھ کھانا کھانے کا کام؟۔۔۔ تم اس کے ساتھ پچھلے پندرہ سالوں سے کھاتی آرہی ہوں۔۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی قتل کی تو ہاں تمہاری ماں کا قتل ہوا ماننے والی بات ہے، مگر تم اس باپ کو کیسے مار سکتی ہو جو صحیح سلامت تمہارے سامنے بیٹھا ہے؟" مسکرا کر بولتے وہ دوبارہ پاستا کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔
شزا پر مانو جیسا سکتہ طاری ہوگیا تھا۔
"کیا بکواس ہے یہ؟" یکدم اپنی جگہ سے اٹھتی زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارے وہ چلائی تھی۔
"بکواس نہیں حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔ تم شزا میری یعنی ارحام سلطان شاہ کی بیٹی ہو۔"
"مزاق اچھا کرلیتے ہو مگر میں تمہارے فریب میں نہیں آنے والی!" وہ جتلاتے انداز میں بولی تھی۔
"میں مزاق کرسکتا ہوں مگر ڈی۔این۔اے رپورٹ تو نہیں نا؟۔۔۔۔۔ اگر مجھ پر یقین نہیں تو چاہو ٹیسٹ کروا لو۔۔۔۔۔۔ مگر یہ حقیقت بدلی نہیں جاسکتی کہ تم میری یعنی ارحام سلطان شاہ اور شہرینہ سلطان شاہ کی اولاد ہو!" شزا کا دماغ پھٹنے کے قریب تھا، کان سائیں سائیں کررہے تھے۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔
وہی سے مڑتی وہ تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بھاگی تھی۔
"سنو بچوں کو ان کی ماں کے پاس چھوڑ آؤ، ان کے سونے کا وقت ہوگیا ہے!" مشعل کو منہ کھول کر اونگھتے دیکھ وہ انعم سے بولے تھے جو ان کی حکم کی پیروی کرتی دونوں بچوں کو شزا کے کمرے میں چھوڑ آئی تھی۔
"اس کے لیے کھانا بھی لیجاؤ۔۔۔۔۔ اور یاد رکھنا میری بیٹی بھوکی نہیں رہنی چاہیے ورنہ تمہیں چھوڑوں گا نہیں!" انگلی اٹھائے انہوں نے وارن کیا تھا جس پر انعم تھوک نگلتی سر اثبات میں ہلاگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات گئے تک مایوں کا فنکشن چلا تھا۔۔۔۔۔۔ ماورا کی پھوپھو اور چچیاں تو مہمانوں سے چھپتی پھیر رہیں تھی جنہیں بات بات پر سنائی جارہی تھی۔۔۔۔ ان کی اپنی چال ان پر ناکام لوٹی تھی۔ آدھی رات ہوگئی تھی جب اچانک موسم خراب ہونا شروع ہوگیا تھا۔
بارش کے ڈر سے سب لوگوں نے آہستہ آہستہ اپنے اپنے گھروں کی راہ لی تھی۔
خراب موسم کو دیکھتے معتصیم نے ماورا کی تمام فیملی کو اپنے گھر رک جانے پر زور دیا تھا، مقصد ساتھ ہی ساتھ ان پر ماورا کی حیثیت کو ظاہر کرنا بھی تھا۔
"تم آرام کرو اور کچھ چاہیے ہوا تو مجھے کال کردینا ٹھیک ہے؟" تائی امی نے اسے ٹھیک سے بستر پر لٹائے نصیحت کی تھی جس پر اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ویسے بھی جتنا بڑا یہ گھر تھا آواز سے کام نہیں چلنا تھا ایسے میں کال ہی بہترین آپشن تھا۔
فنکشن کی وجہ سے وہ بری طرح سے تھک گئی تھی اور سونے کی تیاری کررہی تھی، وہ ابھی غنودگی میں ہی تھی جب اسے اپنے پاس کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تھا، زرا سی آنکھیں کھولے اس نے اپنے اوپر جھکے معتصیم کو دیکھا تھا جو مسکرا رہا تھا۔
آنکھیں اب مکمل کھل چکی تھی۔
"تم؟ تم یہاں کیا کررہے ہو؟" ماورا نے چونک کر سوال کیا تھا
معتصیم اب سیدھا ہوکر بیٹھتا اسے سہارا دیتا ٹھیک سے بیٹھا چکا تھا۔
"ادھوری رسم پوری کرنے آیا ہوں!" وہ مسکرایا
"کون سی رسم؟ تمام رسمیں تو ہوگئی!" ماورا نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
"مگر ہماری رسم نہیں ہوئی"
"ہماری رسم؟ ایسی کوئی رسم نہیں ہوتی معتصیم۔۔۔ تنگ مت کرو مجھے بہت نیند آئی ہے" وہ منہ پر ہاتھ رکھے جمائی لیتے بولی تھی۔
"ارے ہوتی ہے جب دولہا دلہن کو ابٹن لگاتا ہے اور میں نے تو لگائی نہیں۔" اس کی بات سن ماورا کی آنکھیں پھیلی تھی۔
"بالکل بھی نہیں معتصیم میں تمہیں ایسی کوئی رسم نہیں کرنے دوں گی، پہلے اتنی مشکل سے اترا تھا ابٹن اب نہیں!" غصے سے اس نے معتصیم کو انگلی دکھائی تھی جسے بڑے آرام سے اگنور کرتا وہ ماورا کو زرا سا اپنی جانب کھینچے سائڈ ٹیبل پر موجود باؤل سے ابٹن لیتا اس کے گال پر لگا چکا تھا۔
"معتصیم!!" اس کی اس حرکت پر وہ چیخی تھی جبکہ اس کے گال سے گال مس کیے وہ آرام سے آنکھیں بند کرتا اس لمحے کو جی رہا تھا۔
ماورا کی زبان کو تو جیسے تالا لگ گیا تھا۔
"سو جاؤ ماورا کافی رات ہوگئی ہے" اس سے الگ ہوتے وہ بولا تھا۔
"اب کیا خاک نیند آنی ہے؟" ٹیبل سے ٹشو اٹھائے اس نے اپنی گال صاف کی تھی اور ابٹن کے اس باؤل کو بھی دیکھا جو پہلے سے ہی وہاں موجود تھا، تب اس کے دماغ میں ایسا کوئی خیال نہیں آیا تھا اسے دیکھ کر۔
واشروم سے ہاتھ دھو کر آتا وہ بیڈ کی دوسری جانب سے ماورا کے پاس بیٹھتا اس کے سر اپنے کندھے پر ٹکا چکا تھا۔
"معت۔۔۔"
"ششش۔۔۔۔سو جاؤ!" اس کے بالوں میں انگلیاں چلائے اس نے ماورا کو پرسکون کرنا چاہا تھا اور چند ہی لمحوں میں آنکھیں بند کیے وہ دنیا جہاں سے بےخبر نیند کی وادی میں گم ہوگئی تھی۔
اسے سوتے دیکھ معتصیم نے محبت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔۔۔ ٹھیک سے اسے بیڈ پر لٹاتا وہ کمرے میں زیرو بلب چلائے کمرے سے نکل چکا تھا۔
زندگی کے آنے والے دن کتنے خوبصورت یا بھیانک ہونے والے تھے یہ تو صرف وقت ہی جانتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔