رش ڈرائیونگ کرتا وہ تیزی سے گھر پہنچا تھا۔۔۔۔۔۔۔ لاؤنج پار کرتا وہ تیزی سے حماد کے کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں اس کی ماں کی گود میں سر رکھے شزا درد و تکلیف سے کراہ رہی تھی۔
مسز شبیر دوسری جانب الگ پریشان تھی۔
آج صبح ہی شزا کی طبیعت بگڑ گئی تھی۔۔۔۔۔ وہ اس وقت شبیر زبیری کے فارم ہاؤس پر ہی تھا جب مسز زبیری نے اسے کال کرکے فوراً بلوایا تھا۔۔۔۔۔۔ شزا کی حالت مزید بگڑ رہی تھی جبکہ اس وقت کوئی ڈرائیور بھی موجود نہ تھا۔
"جازل!!۔۔۔۔۔ کھڑے شکل کیا دیکھ رہے ہو جلدی کرو!" اپنی ماں کی چیخ پر وہ فوراً ہوش میں آیا تھا۔
شزا کی جانب لپکے اسے باہوں میں اٹھائے وہ باہر کی جانب بھاگا جو درد سے کراہ رہی تھی۔۔۔
آدھے گھنٹے میں وہ لوگ ہسپتال پہنچ چکے تھے جب شزا کو فوری طور پر آپریشن روم میں لیجایا گیا تھا۔
بالوں میں ہاتھ پھیرے جازل نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔۔۔ شزا کی درد ناک چیخیں اسے تکلیف میں مبتلا کررہی تھی۔
دماغ کی نسیں پھٹنے کو تھیں۔
مسز زبیری اپنے پوتا پوتی، جبکہ جازل کی ماما شزا کی صحت کے لیے دعاگو تھیں۔
اور پھر دو گھنٹے کے تکلیف دہ مرحلے کے بعد شزا نے دو کمزور و لاغر بچوں کو جنم دیا تھا۔
"ڈاکٹر وہ میرے پوتا پوتی وہ کیسے ہیں؟" ڈاکٹر کو باہر نکلتے دیکھ مسز زبیری فوراً ان کی جانب لپکی تھی۔
"دیکھیے ماں اور بچے تینوں کی کندیشن فلحال کریٹیکل ہے۔۔۔ تینوں اس وقت انڈر ابزرویشن ہیں۔۔۔۔۔ آپ دعا کیجیئے گا!" ڈاکٹر نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
"ڈاکٹر کچھ بھی کیجیے مگر میرے پوتا پوتی، انہیں کچھ نہیں ہونا چاہیے" ان کی بات پر جازل اور اس کی ماں دونوں نے سر افسوس سے نفی میں ہلایا تھا۔
"جی ہم پوری کوشش کرے گے!" ان کو تسلی دیتے ڈاکٹر وہاں سے جاچکی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں جازل نے شبیر زبیری کو وہاں آتے دیکھا تھا۔ مسز زبیری نے فوراً انہیں بچوں کے پیدا ہونے کی اطلاع دی تھی۔
"مجھے کسی نے اطلاع کیوں نہیں دی؟" دیکھ وہ جازل کی جانب رہے تھے۔
"بھابھی کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی۔۔۔۔۔ ایسے میں موقع ہی نہیں ملا۔۔۔۔ اور پھر اتنی پریشانی میں یاد بھی نہیں رہا!" اس کے جواب پر انہوں نے ہنکارا بھرا تھا۔
"گارڈ نے بتایا تم میرے فارم ہاؤس آئے تھے؟ خیریت؟" اسے سائڈ پر لائے انہوں نے جانچتی نگاہوں سے سوال کیا تھا۔
"جی وہ ارحام شاہ پر شک کے حوالے سے بات کرنا تھی مگر اس سے پہلے آپ کے پاس آ پاتا ماما کی کال آگئی تھی کہ بھابھی کی طبیعت خراب ہوگئی ہے اسی لیے فوراً گھر کے لیے نکلا!" جازل نارمل لہجے میں بولا تھا۔
"اچھا ٹھیک!" جب انہیں جھوٹ کا کوئی آثار نہ ملا تو وہ مطمئن ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ کی بہو اور دونوں بچے ان کی کنڈیشن ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔۔ آپ کی بہو بہت زیادہ ڈپریشن میں رہی ہے۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے وقت سے پہلے ڈیلیوری کرنی پڑی۔۔۔۔۔۔ بچوں پر بھی اس کا گہرہ اثر ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں بےحد کمزور ہیں!ایسے میں کچھ بھی۔۔۔۔۔"
"دیکھیے ڈاکٹر صاحبہ جو کہنا صحیح سے کہیے!" مسز زبیری نے ان کی بات کاٹی۔
"دیکھیے بچوں کو مدر فیڈینگ کی اشد ضرورت ہے مگر ماں کی حالت دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ وہ بچوں فیڈ کروا پائے گی اور ایسے میں دونوں بچوں کی جانوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔ تو پلیز میری گزارش ہے آپ سے کہ اپنی بہو کو مکمل آرام اور اچھی غذا دیجیے ورنہ ۔۔۔۔۔۔" ڈاکٹر اپنی بات کہے خاموش ہوئی تھی۔
"جی ڈاکٹر آپ فکر مت کیجیئے ہم بھابھی کا اچھے سے خیال رکھے گے!" مسز زبیری کا منہ بنتے دیکھ جازل فوراً بولا تھا۔
ڈاکٹرکے کیبین سے نکلتی وہ فوراً شبیر زبیری کے سر پر جاکھڑی ہوئی تھی اور غصے سے کم آواز میں کچھ بول رہی تھی جسے سنتے ان کے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔
"میں کہہ رہی ہوں شبیر کچھ کرے میں اس حرافہ کو مزید اب اپنے گھر میں برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔۔ ارے سوچا تھا بچے پیدا کرے گی تو بچے لےکر منحوس کو مزید مردوں کو لبھانے اور رجھانے کے لیے چھوڑ دے گے مگر یہ تو الٹا مزید چپک گئی ہے۔۔۔۔۔ کچھ بھی کرے مگر اس کو چلتا کرے!" مارے غصے ان کا برا حال تھا۔
"تو کیا کروں اب میں؟ ڈاکٹر سے تم ہی سن کر آرہی ہو نا کہ بچوں کو ان کی ماں کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ اگر ماں نے فیڈ نہ کروایا تو جان و صحت دونوں کو خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔ اور اب تمہاری اس کی جانب ناپسندیدگی کی وجہ سے کیا میں اپنے پوتے پوتی کو مرنے کو چھوڑ دوں؟" شبیر زبیری الٹا ان پر برسے تھے۔
"تو اب؟" وہ پریشان ہوئی
"دیکھو جہاں دو ماہ برداشت کیا ہے وہاں کچھ ماہ اور کرلو۔۔۔۔۔ ایک بار بچوں کی حالت میں سدھار آنے دو۔۔۔۔ میں خود اسے دھکے دےکر گھر سے نکالوں گا!" شبیر زبیری نے حل پیش کیا۔
"ٹھیک ہے مگر جلد ہی اسے ٹھکانے لگا دیجیئے گا۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتی کہ بچے اس کے عادی ہوجائے!" وہ راضی لہجے میں بولی۔
"اس کی تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔ اسے تو میں ایسا ٹھکانے لگاؤں گا کہ بس۔۔۔۔۔" اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک ایسی چمک تھی جسے سمجھنے سے کوئی بھی قاصر تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بہت بہت شکریہ آپ کا ڈاکٹر آپ کی یہ مدد احسان ہے مجھ پر!" نوٹوں کی گدی ڈاکٹر کی جانب بڑھائے وہ مشکور لہجے میں بولا تھا۔
"اس کی ضرورت نہیں جازل صاحب۔۔۔۔۔۔ میں نے بس اپنا فرض نبھایا ہے۔۔۔۔ ویسے بھی آپ کی فیملی کا رویہ آپ کی بھابھی کے ساتھ دیکھ کر مجھے افسوس ہوا کہ دنیا میں آج بھی پڑھے لکھے جاہل موجود ہیں۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کہنا ٹھیک رہے گا کہ یہ دنیا رہی ہی بس پڑھے لکھے جاہلوں کی ہے!" وہ تنفر سے ہنس کر بولتی نوٹوں کی گدی کو انکار کرگئی تھی۔
"ویسے ان کا شوہر کیسا انسان ہے جو اپنے بچوں کی پیدائش پر نہیں آیا اور یوں اسے ان لوگوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا!" وہ اچانک بولی۔
"دراصل ان کے شوہر کی دو ماہ پہلے ہی کار ایکسیڈینٹ میں موت ہوگئی تھی۔۔۔ یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ ڈیپریشن میں چلی گئی تھی اوپر سے چاچا اور تائی کا رویہ۔۔۔۔۔" وہ افسوس سے بولا۔
"ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی آپ کے چاچا اور تائی مینز کہ۔۔۔۔ تائی تو تایا کی بیوی ہوتی ہے نا؟" ان کی بات پر وہ ہنسا تھا۔ ہسپتال سے ملحقہ گارڈن میں چہل قدمی کرتے وہ ہلکی ٹھنڈی ہواؤں کو محسوس کررہے تھے۔
"نہیں دراصل وہ میرے تایا ہی ہے، بس اپنی کزن سسٹر کے دیکھا دیکھی میں بھی انہیں چاچا بلانے لگ گیا۔۔۔۔ بائے دا وے اب مجھے چلنا چاہیے۔۔۔۔۔ وانس اگین تھینک یو!" وہ اسکی جانب دیکھ مسکرا کر بولا
"ناٹ آ پرابلم!" مسکرا کر جواب دیتی وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
اس کے جاتے ہی مسکراہٹ جازل کے لبوں سے ختم ہوئی۔۔۔۔۔ موبائل نکالے اس نے ایک نمبر پر کال ملائی تھی۔
"ملنا ہے تم سے۔۔۔۔۔۔ بہت ضروری ہے!" دو منٹ کی گفتگو کے بعد اس نے کال کاٹ دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے اندھیرے میں خود کو مکمل کور کیے وہ پرسکون چال چلتا بنا کسی ڈر کے روم کا دروازہ کھولے اندر داخل ہوا تھا۔
سامنے ہی وہ زرد مائل چہرہ لیے دنیا جہاں سے بےخبر آنکھیں موندے لیٹی تھی۔۔۔۔۔۔
چند قدم آگے بڑھاتا وہ سائے کی طرح اس کے اوپر آجھکا۔۔۔۔۔۔ ایک ترچھی نگاہ اس کے ہاتھ پر لگی ڈرپ کو دیکھا تھا۔
"بہت جلد، بہت جلد لیجاؤں گا تمہیں یہاں سے۔۔۔ وعدہ ہے میرا!" اس کے کان میں سرگوشی کرتا ۔۔۔۔ وہ وہی سے مڑتا کمرے سے باہر نکلتا مزے سے ہسپتال کی حدود کی پار کرگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بےوقوف، گدھوں میں نے ایک کام۔۔۔۔۔ ایک کام دیا تھا۔۔۔۔۔۔کہ ان دونوں کو مار دو!۔۔۔۔۔ اس کے بدلے جتنا پیسہ مانگا تم لوگوں نے میں نے دیا مگر تم لوگوں نے کیا کیا؟ اس لڑکی کو بھی مار نہیں سکے۔۔۔۔۔۔ وہ حشر کروں گا کہ عبرت کا نشان بن جاؤ گے!" ہنٹر سے انہیں پیٹتا وہ اس وقت اپنے ہوش میں نہ تھا۔
ایک اتنا سا کام نہ کرسکے وہ لوگ۔۔۔۔۔
فہام جونیجو کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آرام سے بیٹا!" ایک ہفتے بعد آخر کار اسے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔
اب وہ تایا ابو اور تقی کی مدد سے ویل چئیر سے اٹھنے کی کوشش میں تھی جو ناممکن تھا۔
اس تمام عرصے میں معتصیم ان کے ساتھ رہا تھا مگر اس نے نہ ہی ماورا سے کوئی بات کی اور نہ ہی اس کا حال احوال پوچھا۔۔۔۔
ماورا تو اس کی اس بےرخی پر اندر ہی اندر کڑھ کر رہ گئی تھی۔
"ہنہ! نہیں بلاتا تو نہ بلائے میں کونسا مری جارہی ہوں اس کے لیے!" خود سے بولتی وہ اس کی بےرخی پر مزید تلملائی تھی۔
اس وقت بھی اس نے ڈاکٹرز کی ہدایت کو سختی سے جھٹلایا اور ضد باندھ لی تھی کہ وہ کمرے تک تایا اور تقی کے سہارے چل کر جائے گی۔
معتصیم جو تب سے اسے اگنور کیے ہوئے تھا اس کی اس حرکت پر اسے سخت غصہ آیا مگر ضبط کرگیا تھا۔
اس کو ضد کرتے دیکھ رہا تھا جو سخت کوشش کے بعد اب بری طرح زمین پر گری تھی مگر وہ مدد کو آگے نہ بڑھا۔۔۔۔۔۔ تایا ابو اور تقی نے ہی اسے سہارا دیے دوبارہ ویل چئیر پر بٹھایا تھا۔
"اچھا ہوا ماورا میڈم تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔ تمہیں بھی یونہی عقل آنا تھی!" اسے اب کسی قسم کی فضول ضد کرتے نہ دیکھ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
"اب مجھے اجازت دیجیئے آنٹی ان شاءاللہ پھر چکر لگاؤں گا!" تائی امی کی جانب مڑتا وہ اخلاق سے بولا تھا۔
"ارے بیٹا ایسے کیسے۔۔۔۔ تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ میں چائے بناتی ہوں پی کر جانا اچھا نہیں لگتا!" تائی امی کو اس کا یوں ایسے جانا برا لگا تھا۔۔
اتنے دن وہ ان کے ساتھ رہا، بلکہ ہر رات کو وہ ہی ماورا کے پاس ہسپتال رکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور ہسپتال کے بلز بھی اس نے پے کیے یہ کہہ کر کہ ماورا اس کی زمہ داری ہے۔۔۔۔۔
"نہیں وہ آفس میں بہت کام ہے آگے ہی میری غیر موجودگی کی وجہ سے کافی حرج ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اجازت دیجیئے!" اس کی بات سن ماورا کا غصہ مزید بڑھا تھا۔
"اس کا مطلب کیا ہے کیا میری وجہ سے اس کا نقصان ہوا!" تلخ سوچ اس کے دماغ میں آئی۔
"ہاں تو ہم نے نہیں کہاں تھا ہسپتال رکنے کو۔۔۔۔ خود اپنی مرضی تھی۔۔۔۔اب کس بات کا نخرہ!" وہ کڑھ کر بولی تھی۔
معتصیم نے تیکھی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔
"بیگم ٹھیک کہہ رہی ہے بیٹا۔۔۔۔ رک جاؤ تھوڑی دیر!" تایا ماورا کو آنکھیں دکھائے معتصیم کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"جی بھائی تھوڑی دیر رک جائے آپ۔۔۔۔۔ تھکے ہوئے ہوگے!" تقی نے بھی حمایت کی تھی
ماورا تو آنکھیں پھیلائیں اپنے گھروالوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ اس کے تاثرات دیکھ معتصیم نے مسکراہٹ چھپائی تھی۔
اس ایک ہفتے میں ان سب کا رویہ معتصیم کے ساتھ بہت بدل گیا تھا۔۔۔۔۔ اور اب تو تایا ابو اور تائی امی ان کے رشتے کو لےکر دوبارہ سوچنے پر بھی مجبور ہوگئے تھے۔
"چلے آپ اتنا زور دے رہے ہیں تو ضروررر!" ضرور پر زور ڈالے ماورا کو دیکھتا وہ مسکرایا تھا جو رخ پھیر گئی تھی۔
وہ ایسا کیوں کررہی تھی ایسا تو اسے بھی نہیں معلوم تھا۔۔۔
کچھ دیر بیٹھنے اور چائے پینے کے بعد وہ وہاں سے جاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت نے اپنی رفتار پکڑ لی تھی۔۔ زویا اپنی اکیڈمی جانا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔۔ ارحام شاہ پھر سے کہانی سے غائب ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔ سنان نے گڑیا کو ڈھونڈنے کو ہزار کوششیں کی تھی مگر ناکام ٹھہرا۔۔۔۔ وائے۔زی کی زندگی جیسے ایک ڈگر پر رک گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ماورا نے اس دن کے بعد ہر دن ناچاہتے ہوئے وہ بھی معتصیم کا انتظار کیا اس کی منتظر رہی مگر وہ نہ آیا۔۔۔۔۔۔ شزا کو گھر میں دوبارہ وہ عزت، وہ مقام، وہ رتبہ دے دیا گیا تھا جس کی اس نے تمنا کی تھی۔۔۔۔ مگر کس غرض سے اس سے وہ انجان تھی۔۔۔ اس کے لیے یہی کافی تھا کہ اسے اور اس کے بچوں کو اپنا لیا گیا تھا۔
جازل کی گھر سے غائب رہنے کی سرگرمی میں شدت آگئی تھی مگر کسی نے خاص نوٹس نہ لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے اب چاہ ماہ کے ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ ان کی حالت پہلے سے بہت بدل گئی تھی۔۔۔۔ وہ اب صحت مند اور تندرست ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ شزا آج انہیں ڈرائیور کے ساتھ چیک اپ کے لیے لےکر گئی تھی۔۔۔۔ باہر کے نظاروں کو دیکھتے اس نے ایک نگاہ پرام میں سوئے دونوں بچوں کو دیکھا جو اب اس کی کل کائنات تھے۔۔۔ ان کو دیکھ لبوں پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ آن ٹھہری۔۔۔۔
وہ انہیں دیکھنے میں محو تھی جب گاڑی کے ٹائر پر گولی لگنے کی وجہ سے وہ گھومتی ہوئی چڑ کی آواز پیدا کرتی رکی۔۔۔۔۔ شزا کا سر آگے والی سیٹ سے ٹکڑایا۔۔۔۔۔
جھٹکا لگنے پر پرام میں سوئی ہوئی مشعل کی آنکھ جھٹکے سے کھلی نیند ٹوٹ جانے کی وجہ سے وہ رونا شروع ہوگئی جب اچانک دونوں جانب سے فائرنگ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں تھی۔
شزا کی آنکھیں یکدم خوف در آیا۔۔۔۔۔ دونوں بچوں کو سینے سے لگائے وہ سیٹ سے نیچے بیٹھے آنکھیں میچے رونے میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے سامنے چند ماہ پہلے کا حادثہ در آیا۔۔۔۔۔ خوف سے اس کا پورا جسم کپکپا اٹھا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں آوازیں بند ہوگئی تھیں۔۔۔۔ دونوں بچے اب مکمل طور پر جاگتے ماں کے سینے سے لگے رو رہے تھے۔
ہوش و عقل نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگ گیا تھا جب کسی نے گاڑی کا دروازہ کھولا
"تم؟" بےہوش ہونے سے پہلے آخری الفاظ جو اس نے ادا کیے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اب تو بچے بھی بہتر ہوگئے ہیں شبیر اب چلتا کیجیئے اس لڑکی کو یہاں سے!" مسز زبیری نخوت سے بولی تھی۔
"ہمم میں بھی یہی سوچ رہا تھا تم فکر مت کرو۔۔۔۔۔۔۔ کرتا ہوں کوئی بندوبست۔۔۔۔۔۔ ویسے بچوں کو ڈاکٹر کے پاس کب لےکر جانا ہے؟" انہوں نے اپنی بیگم سے سوال کیا۔
"آج!" وہ ہینڈ کریم ملتی بولی۔
شبیر زبیری کا دماغ تیزی سے چلا۔۔۔۔ اچانک آنکھیں چمک اٹھی
"کون کون جارہا ہے ڈاکٹر کے پاس؟"
"میں جارہی ہوں اس حرافہ کے ساتھ!" ناک چڑھائے انہوں نے جواب دیا۔
"آپ نہیں جائے گی بیگم!" یکدم انہوں نے فیصلہ کیا۔
"مگر کیوں؟" وہ حیران ہوئی
"اس لڑکی سے جان چھڑوانا ہے کہ نہیں؟"
"ہاں مگر۔۔۔۔۔''
"مگر وگر کچھ نہیں۔۔۔۔ میرا وعدہ ہے کہ آج وہ اس گھر سے نکلے گی ضرور مگر کبھی واپس قدم نہیں رکھے گی"
"مگر بچے؟" انہیں فکر ہوئی
"بچے صحیح سلامت مل جائے گے آپ کو۔۔۔۔۔۔ ان کی فکر مت کرے!" شبیر زبیری کی یقین دہانی پر وہ کندھے اچکاتی دوبارہ شیشے کی جانب متوجہ ہوگئی تھی اور شزا کو اکیلی کو بچوں کے ہمراہ بھیج دیا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہاں سنو آج کام ختم ہوجانا چاہیے۔۔۔۔۔۔ اسے آج ہی مروا کر اس کے باپ کے پاس پہنچا دو۔۔۔۔۔۔۔ صبح تک اطلاع مل جانی چاہیے مجھے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے!" ہدایت دیے وہ کال کاٹتے پیچھے مڑے جب پیچھے کھڑے جازل کو دیکھ چونکے
"کیا بات ہے چاچا جان کس کو ختم کروانا ہے؟ کیا کوئی مسئلہ ہے؟ مجھے بتائیے میں کام کردیتا ہوں!" وہ پریشان ہوتا بولا تو شبیر زبیری نے سکون کی سانس لی۔
"نہیں ایسا کوئی مشکل کام نہیں تم فکر مت کرو!" اس کا شانہ تھپتھپائے وہ وہاں سے جاچکے تھے۔
شکر تھا کہ انہوں نے شزا کا نام نہیں لیے۔۔۔۔۔۔۔ اپنے بھتیجے کو وہ اتنا تو جانتے تھے کہ بھائی کی محبت کی خاطر اپنی جان قربان کردیتا مگر شزا کو کچھ نہ ہونے دیتا۔
ان کی پشت کو جازل نے زہرخند نگاہوں سے گھورا تھا۔
"وہ اسے مارنے والے ہیں، تمہارے پاس آج کا وقت ہے، اسے بچاسکتے ہو تو بچالو!" میسج بھیجے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
اسے یقین تھا وہ اسے بچالے گا، کچھ نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
باہر سے آتے شور پر اس کی آنکھیں کھلی تھی۔۔۔۔۔ مندی مندی نگاہوں سے اس نے گھڑی کی جانب دیکھا تھا جو بارہ کا ہندسہ پار کرچکی تھی۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھیں اچانک پھیلی تھی۔۔۔۔ وہ اتنی دیر سوئی رہی۔۔۔
تھوڑی سے ہمت کرتی وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھ چکی تھی اور اب سائڈ ٹیبل پر موجود بیل کو بجایا تھا۔
پچھلے چار ماہ سے وہ نہ صرف تھیراپسٹ بلکہ سائیکولوجسٹ سے بھی مل رہی تھی۔
چار ماہ کے دونوں سیشنز سے جہاں اس نے خود کو بوجھ سمجھنا چھوڑ دیا وہی اس نے ڈرگز پر بھی کافی حد تک قابو پالیا تھا۔
شروع شروع میں اس کی حالت اتنی بری ہوجاتی کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوجاتا مگر تایا ابو، تائی امی، تقی۔۔۔۔۔ کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری۔۔۔ ہر موڑ پر اس کا ساتھ دیا۔
کسی نے بھی ڈرگز والی بات پر اسے کچھ نہیں کہاں۔ نہ ڈانٹا، نہ جھڑکا۔۔۔۔۔
ہر موڑ پر اسے احساس دلایا کہ اس کے اپنے اس کے ساتھ ہیں۔
اس کی بیل کی آواز سن تائی امی مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی، جنہیں دیکھ کر وہ بھی مسکرائی تھی۔
وہ اس عورت کی عظمت کو سلام کرتی جس نے ناصرف ماں بن کر پالا بلکہ ماں ہونے کا ہر فرض نبھایا۔۔۔۔۔ وہ عمر جس میں انہیں آرام کرنا چاہیے تھا اس میں وہ اس کی خدمت کررہی تھی، اس کی آنکھیں نم ہوئی۔
"ماورا کیا ہوا۔۔۔۔ کیا تکلیف ہورہی ہے؟" وہ سمجھی شائد وہ رو رہی ہے تکلیف کی وجہ سے۔
"نہیں!" اس نے سر نفی میں ہلایا۔
اسے سہارا دیے وہ اسے واشروم تک لےکر گئی تھی۔۔۔۔۔ منہ ہاتھ دھو لینے کے بعد اس نے کپڑے بدلے اور اب تائی امی اس کے بالوں میں کنگھی کررہی تھی۔۔۔۔ ان کے ہاتھ کو تھامے ماورا نے اسے چوما اور اپنے گال پر ٹکا لیا۔۔۔۔
اس کی اس حرکت پر مسکراتے ہوئے انہوں نے اس کے سر پر بوسہ دیا تھا۔
اچانک باہر سے قہقہوں کی آوازیں آئیں۔
"کوئی آیا ہے کیا؟" اس کے سوال پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا۔
"کون؟"
"خود آکر دیکھ لو!" اس کی ویل چئیر گھسیٹتی وہ اسے باہر لےکر گئی۔۔۔
وہ سب وہاں موجود تھے۔۔۔۔۔ اس کے دونوں چاچا، اس کی پھوپھو، ان کے بچے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب۔۔۔۔
ماورا کو دیکھ وہ سب ایک لمحے کو خاموش ہوئے تھے۔
آٹھ سال!۔۔۔۔۔آٹھ سال کا عرصہ کم تھوڑی نہ ہوتا ہے۔
کسی کے پاس کچھ کہنے کو نہ تھا۔
"ماشااللہ بھئی دیکھو دلہن صاحبہ آخرکار تشریف لے ہی آئی!" یہ چھوٹی چچی تھی جو سب سے پہلے اس کی جانب بڑھی تھی اور محبت سے اس کے چہرے کو چھوا تھا۔
"کون دلہن؟" ماورا نے حیرانگی سے پہلے انہیں اور پھر تائی کو دیکھا جو نظریں پھیر گئیں۔
"لو بھئی دلہن پوچھ رہی کون دلہن؟۔۔۔۔۔۔ ارے بنو تمہاری بات کررہے ہیں۔۔۔۔۔ بھول گئی یا یاد دلواؤں کہ آج تمہارا مایوں ہے؟" ان کی بات پر جہاں سب ہنسے وہی ماورا کو چارسو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا تھا۔
"دلہن؟ شادی؟ مایوں؟" اس کے سر میں اچانک ٹیس سی اٹھی۔
"یہ سب؟"
"ارے بھئی کیا بچی کو پریشان کررہے ہو۔۔۔۔۔۔ ابھی اٹھیہے ناشتہ تو کرنے دو!" تائی امی زبردستی مسکراتی، انہیں جھڑک کر ماورا کو کچن کی جانب لے گئی۔
"تائی امی یہ سب، یہ سب کیا ہورہا ہے؟۔۔۔۔ دلہن ، مایوں یہ کیا مزاق ہے؟ پلیز کلئیر کرے میرا سر درد کررہا ہے!" کچن میں آتے ہی اس کے سوال شروع ہوگئے تھے۔
"ناشتہ کرلو پھر سکون سے بات کرتے ہیں۔۔۔۔" ان کی بات سن اس نے مارے بندھے ناشتہ کرلیا تھا مگر ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجتی محسوس ہورہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آر یو فار سیریس معتصیم بھائی؟" زویا نے اسے گھورا تھا۔
"تو تمہیں کس اینگل سے یہ مزاق لگ رہا ہے؟" ڈرائیو کرتے اس نے سوال کیا۔
"لگ تو مزاق ہی رہا ہے مجھے۔۔۔۔۔ بھلا ایسے کون شادی کرتا ہے؟" وہ چیخی تھی۔
"تو کیسے کرتے ہیں؟" ہنس کر پوچھا۔
"بھئی لڑکے والے لڑکی دیکھنے آتے ہیں، پھر لڑکی والے لڑکے کو دیکھنے جاتے ہیں، دونوں جانب سے اقرار ہو تو بات پکی کی جاتی ہے۔ اس کے بعد منگنی، پھر نکاح۔۔۔۔ پھر شادی کے کارڈ تقسیم کیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔ ہفتہ پہلے ڈھولکی رکھی جاتی ہے۔۔۔۔۔ مایوں، تیل، مہندی، برات، ولیمہ!" وہ اسے ایک ایک رسم انگلیوں پر گنوا رہی تھی۔
"اففف۔۔۔ اتنی مشکل شادی؟" وہ ہنسا
"ایسے ہی ہوتی ہے، میری اکیڈمی کی دوست ہے نا اس کے بھائی کی تھی وہ بتا رہی تھی۔۔۔۔ آپ کی طرح نہیں کہ سر جھاڑ منہ پھاڑ۔۔۔۔۔ ناشتے کی ٹیبل پر آکر بتادیا کہ آج آپ کا مایوں ہے شادی کررہے ہیں آپ۔۔۔۔ بھلا ایسی بھی کوئی شادی ہوتی ہے؟ حد ہے!" وہ منہ پھلائے بولی تھی۔
"ہاہاہا۔۔۔۔ اب کیا کروں میں ہوں زرا الٹے دماغ کا بندہ۔۔۔۔۔ موڈ بنا شادی کا تو سوچا کل کیوں آج، آج کیوں ابھی!" اس نے مزے سے کندھے اچکائے۔
"مگر سنان بھائی اور وائے۔زی بھائی نہیں ہے یہاں، مجھے اپنی دوستوں کو بھی بلانا تھا۔۔۔۔۔۔ اتنی بھی جلدی کیا، رک جائے نا!"
"یار میں تو رک جاؤ مگر اس دل کا کیا کروں جو بس میں نہیں؟" وہ بیچارگی سے بولا اور گاڑی مال کے باہر روکی جہاں وہ شاپنگ کرنے آئے تھے۔
"پکا جوروں کے غلام بنے گے!" اسے زبان چڑھائے وہ گاڑی سے باہر نکلی۔
مسکرا کر سر نفی میں ہلاتا وہ اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوا تھا۔
زویا کی شادی کی تمام شاپنگ کرنے کے بعد انہوں نے معتصیم کی شاپنگ کی تھی۔۔۔۔۔ اب وہ دونوں جیولری شاپ میں موجود ماورا کے لیے سیٹ سیلیکٹ کررہے تھے جب معتصیم کی نگاہ ایک نازک سے بریسلیٹ پر آرکی، چاندی کا وہ بریسلیٹ جس پر چھوٹے چھوٹے چاندی کے دل بنے تھے اور ان میں موجود چھوٹے چھوٹے ہیرے۔۔۔۔۔ ماورا کی کلائی میں اس بریسلیٹ کو تصور کرتا وہ مسکرا دیا اور اسے بھی پیک کروایا۔
"ویسے ہونے والی بھابھی کے بارے کچھ بتادے!" آئیسکریم کھاتے اس نے فرمائش کی
"ماورا نام ہے۔۔۔۔۔ یونی میں جونئیر تھی۔۔۔۔۔۔ لوو پلس ارینج(ہیٹ) میریج ہے۔۔۔۔۔۔ ہاتھ سالوں سے خوار ہوا ہوں اب ہاتھ آئی ہے تو ایسے تھوڑی نا جانے دوں گا!" وہ شرارت سے بولا
"آٹھ سال؟" اس کا منہ کھل گیا۔
"بھائی آپ کا نام تو گنوینس ورلڈ ریکارڈ بک میں ہونا چاہیے۔" زویا کی بات پر وہ مزید کھل کر ہنسا۔
"ویسے بھائی آپ کو تو پھر بھابھی کے ساتھ آنا چاہیے تھا نا شادی کی شاپنگ کے لیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بھی تو شاپنگ کرنی ہے نا!"
"اس کی فکر مت کرو وہ میں کرچکا ہوں!"
"اللہ بھائی کتنے فاسٹ ہے آپ۔" زویا نے منہ بنایا۔
معتصیم اس کی بات پر مسکرایا جب اس کے نمبر پر کال آیا۔
دوسری جانب کی بات سن اس کی مسکراہٹ تھمی۔
کال کاٹے اس نے سانس خارج کی جیسے وہ اس کال کی توقع کررہا تھا۔
"زویا بیٹا مجھے ضروری کام سے جانا ہے چلو تمہیں گھر چھوڑ دوں پھر وہی سے آگے نکلوں گا!" اس کی بات پر زویا نے سر اثبات میں ہلایا۔
زویا کو گھر ڈراپ کیے اس کا رخ اب عباسی ہاؤس کی جانب تھا۔
"تم تو زرا صبر کرو ماورا مادام بہت پر نکل آئے ہیں، میں نے تمہارے پر پرزے نہ کاٹے نا تو میرا نام بھی معتصیم آفندی نہیں، ماورا آفندی!" بڑبڑاتے اس نے گاڑی گھر کے باہر روکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔