"شزا سلطان ولد سلطان شاہ آپ کا نکاح حماد زبیری ولد شبیر زبیری سے سکہ رائج الوقت حق مہر ایک کڑوڑ کیا جارہا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟" مولوی کی آواز پر اس نے سر اٹھائے اس کی جانب دیکھا تھا جس نے سر پر ڈوپٹا سجائے,چہرے پر گہری مسکان لیے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
وائے۔زی کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئی تھی۔
یہ سب ایسے نہیں ہونا تھا۔۔۔۔ اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں سوچا تھا۔۔۔۔ وہ یہاں شبیر زبیری کو جھٹکا دینے آیا تھا۔۔۔۔۔ مقصد اسے شاک پہنچانا تھا۔۔
مگر اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ شاک اسے بھی لگنے والا ہے۔۔۔
ایک بار نظریں اٹھائے اس نے ان کی جانب دیکھا تھا جہاں حماد اب اقرار کے بعد نکاح نامہ پر سائن کررہا تھا
ایک انجانی تکلیف محسوس کی تھی اس نے اپنے دل میں۔۔۔۔۔۔
آنکھیں اب شزا پر جاٹکی تھی جو شرمائی سی حماد کی سرگوشیوں کو سنتی سرخ ہورہی تھی۔
وہ اس کی لیلیٰ تھی جو پہلی ہی نظر میں اسے اپنا گرویدہ کرچکی تھی۔۔۔۔۔۔ ایک انجانی کشش محسوس کی تھی وائے۔زی اس کی جانب۔۔۔۔۔ مگر آج معلوم ہوا تھا کہ وہ محبت تھی۔۔۔۔۔ اور وہ دیکھ رہا تھا اپنی محبت کو کسی اور کی محبت بنتا۔۔۔۔ وہ دیکھ رہا تھا اپنی لیلیٰ کو کسی کی شزا بنتے۔
آج اس نے معتصیم کے درد کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔ آج نے اس نے سنان کی تکلیف محسوس کی تھی۔۔۔ وہ جو ان کی ادھوری محبتوں پر ہنستا تھا آج خود پر رونے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ بےبس سا یہاں سے وہاں چکر کاٹنے میں مصروف تھا۔
ماورا کی حالت بار بار اسے کھٹک رہی تھی۔۔۔۔ اس کا ماضی۔۔۔۔ اس کا ماضی۔۔۔ کیا ہوا ہوگا؟ یہ سوال اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا۔
"نہیں ماورا۔۔۔۔ تمہاری یہ حالت, یہ حالت مجھے میرے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔۔۔۔ مجھے نہیں جاننا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا یا کیا نہیں ہوا۔۔۔ مگر جو کچھ میرے ساتھ ہوا اس کا حصاب دینا ہوگا تمہیں" وہ خود سے فیصلہ کن انداز میں بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود سے عہد کرنے کے باوجود بھی وہ اس وقت فہام جونیجو کے فارم ہاؤس میں اس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا اس کے انتظار میں تھا۔
"معتصیم آفندی۔۔۔کیسے آنا ہوا؟" فہام کی مسکراتی آواز پر معتصیم نے اسے دیکھا تھا جو ابھی فریش شاور لے کر آیا تھا۔
"بات کرنی ہے تم سے بہت ضروری" وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا
"ہاں بولو" اس کے سامنے بیٹھے جونیجو نے اسے بار جاری رکھنے کا اشارہ کیا تھا۔
"ماورا۔۔۔وہ لڑکی۔۔۔۔ وہ ڈرگز لیتی ہے, ایسا کیوں؟" معتصیم کی بات پر فہام جونیجو کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔ وہ سیدھا ہوکر بیٹھا تھا۔
"تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟"
"جو کہنا چاہ رہا ہوں تم باآسانی سمجھ چکے ہو۔۔۔ مجھے جواب چاہیے۔۔۔۔۔ شی ایز آلویز ایگریسیوو۔۔۔۔ اس کی کنڈیشن کو کنفرم کرنے کے لیے ڈاکٹر کو بلایا تھا۔۔۔ اس نے بتایا کہ ڈرگز ایڈیکٹ ہے۔۔۔۔ایسا کیوں؟۔۔۔۔ اور ہاں مجھے تمہارے اور اس کے ماضی کے بارے میں سب کچھ جاننا ہے, حرف با حرف" معتصیم کا سپاٹ لہجہ فہام جونیجو کو گہری سانس خارج کرنے پر مجبور کر گیا تھا۔
"ماورا!۔۔۔اس سے میری ملاقات حسان کے ذریعے ہوئی تھی۔۔۔۔ حسان مجھ سے ڈرگز خرید کر یونی میں لڑکیوں کو سپلائے کرتا تھا۔۔۔۔ ایک رات, ایسی ہی ایک پارٹی میں حسان اپنے ساتھ لایا تھا اسے۔۔۔۔ اس کی پہلی ہی نظر مجھے اس کا گرویدہ بناچکی تھی۔۔۔ میں نے اس کی جانب قدم بڑھائے تھے جسے اس نے روکنے کی قطعاً کوشش نہ کی تھی۔ بہت جلد بات چیت سے دوستی اور دوستی سے آگے بڑھ گئے تھے ہم۔۔۔۔۔ مگر پھر آہستہ آہستہ مجھ پر اس کا اصل رنگ واضع ہونا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ وہ ڈرگز لیتی تھی۔۔۔۔ مرد چاہے خود جتنا بڑا شیطان ہو مگر اسے بیوی ہمیشہ فرشتہ صفت ہی چاہیے ہوتی ہے۔۔۔۔ مجھے تکلیف ہوئی مگر میں برداشت کرگیا۔۔۔۔۔ مرد عورت کی لمبی زبان تو برداشت تو کرسکتا ہے مگر بےوفائی نہیں۔۔۔۔۔ وہ مجھ سے محبت کے عہد و پیمان کیے میری پیٹھ پیچھے۔۔۔۔ میری پیٹھ پیچھے وہ حسان کے ساتھ چکر چلا رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کا مقصد بس مجھ سے انفارمیشن نکال کر حسان کو دینا تھا۔۔۔۔ بس تب میں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میں بدلا لوں گا۔۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ میں کوئی قدم اٹھاتا مجھے خبر ملی تھی کہ حسان کا قتل ہوچکا ہے اور ماورا غائب تھی۔۔۔۔ مگر مجھے صرف بدلا لینا تھا آٹھ سال سے اس کی تلاش میں تھا میں اور اب آٹھ سال بعد میں جان پایا ہوں کہ وہ یہاں لندن میں تھی۔"
مٹھی بھینچے معتصیم نے اس کی مکمل بات سنی تھی۔
"تو تم نے اسے خود کیوں نہیں ڈھونڈا۔۔۔۔ مجھے کیوں کہا؟"
"میرے لیے اسے ڈھونڈنا مشکل کام نہیں تھا معتصیم۔۔۔۔ مگر میرے پاس وقت نہیں تھا۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں یہاں لندن صرف اسے ڈھونڈنے آیا ہوں؟۔۔۔ نہیں, بات اگر صرف اس کی ہوتی تو میرے آدمی اسے ڈھونڈ کر مجھ تک لاسکتے تھے۔۔۔۔ میں یہاں کلب والا معاملہ طے کرنے آیا تھا اور تم جانتے ہو کہ میں کوئی کام بھی مفت کرنے کا عادی نہیں۔۔۔۔ یہ ایک ہاتھ لے اور ایک ہاتھ دے والا معاملہ تھا" فہام جونیجو نے کندھے اچکائے تھے۔
"تو اب تم اس کے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہو؟"
"اس سوال کا تم سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے معتصیم آفندی۔۔۔۔۔ مجھے وہ لڑکی دو دن کے اندر اندر چاہیے اور ہاں تم اب جاسکتے ہو" اسے جواب دیتا وہ اپنی جگہ سے اٹھا وہاں سے جاچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کال کی فہام جوینجو کو؟ اٹھایا فون اس نے؟" شبیر زبیری نے بےچینی سے جازل سے سوال کیا تھا
"نہیں اس نے کال کاٹ دی۔۔۔" جازل کی بات پر انہوں نے بامشکل غصے پر قابو کیا تھا۔
ان کا پلان فلاپ ہوگیا تھا۔۔۔
اگر وائے۔زی یہاں تھا تو بات صاف تھی کہ معتصیم اس وقت اس وقت ماورا کے ساتھ تھا۔۔۔۔ اور دوسری طرف فہام جونیجو کا ان کی کاٹنا بھی اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ وہ اب ان سے کسی قسم کی کوئی ڈیل کرنے کے حق میں نہیں تھا۔
"ڈیڈ!" حماد کی پکار پر وہ چہرے کے تناؤ کم کیے اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
"یس مائی سن؟"
"تھینک یو ڈیڈ۔۔۔۔۔ تھینک یو سو مچ" وہ خوشی سے ان کے ساتھ لپٹ گیا تھا۔
"آر یو ہیپی؟"
"ویری" خوشی اس کے ایک ایک انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
"کانگریچولیشنز مسڑ حماد زبیری۔۔۔۔۔ ویل آئی وانٹ ٹو سے کہ آپ نے تو شاک کردیا۔۔۔۔ میں تو یہاں انگیجمنٹ سرمنی ایٹینڈ کرنے آیا تھا اسر میریج سرمنی ایٹینڈ کرکے جارہا ہوں" وائے۔زی نے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھائے اسے مبارک باد دی تھی
"تھینک یو مسٹز شاہ" حماد نے بھی گرمجوشی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا
"ایکسکیوز می!" موبائل پر آتی کال کو ایٹینڈ کرنے کے لیے شبیر زبیری وہاں سے ہٹ گئے تھے۔
"تو کیسا محسوس کررہے ہو؟" گلا کھنکھارے وائے۔زی نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"کسی کو چاہنا اور پھر اسے پالینا یہ بہت خوبصورت احساس ہے اور میں خود کو اس وقت ساتویں آسمان پر محسوس کررہا ہوں کہ جس کو چاہا اسے پالیا" وہ محبت بھری نگاہوں سے شزا کو دیکھتے بولا تھا۔۔۔۔ وائے۔زی نے نظریں چرائی تھی۔۔۔۔ اگر یہاں کوئی اور ہوتا تو اسے یوں اپنی محبت کو محبت سے تکتے دیکھ اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا مگر وہ کوئی نہیں تھا۔۔۔ وہ اس کی محبت کی محبت تھا, اس کی محبت کا شریک سفر تھا۔۔۔۔ اس کی ابتدا, اس کا اختتام تھا۔
"میں مسز حماد کو بھی مبارک باد دینا چاہوں گا!"
"شیور" اس کی خواہش پر حماد خوشی خوشی اسے شزا سے ملوانے لایا تھا۔
"شزا" حماد کی پکار پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی تجی مگر ساتھ کھڑے وائے۔زی کو دیکھ کر پل بھر میں اس کی نرم نگاہیں سخت ہوگئی تھی۔
"مسٹر شاہ تمہیں یہاں مبارک باد دینے آئے ہے"
"کانگریچولیشنز مسز حماد" وائے۔زی نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
"تھینکیو مسٹر شاہ" سادہ سے لہجے میں اس کی مبارک باد وصول کرتے شزا نے لمحہ بھر کو اس کا ہاتھ تھاما تھا جسے وہ فوراً چھوڑ چکی تھی۔
"سو مسٹر حماد اب مجھے اجازت میں چلتا ہوں"
"اتنی جلدی مگر ابھی کھانا۔۔۔۔"
"انہیں کام ہوگا حماد جانا چاہتے ہے تو جانے دو۔۔۔ یوں زبردستی کرنا اچھی بات نہیں" اس سے پہلے حماد بات مکمل کرتا شزا نے اس کی بات کاٹی تھی۔
"شزا" حماد نے اسے ٹوکا تھا۔
"ویل سیڈ مسز زبیری۔۔۔ ویل سیڈ" اس کی بار سے اتفاق کرتا وہ آخری بار حماد سے ہاتھ ملائے وہاں سے جاچکا تھا۔
شزا نے نفرت سے اس کی پیٹھ کو گھورا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور تم گدھے مجھے یہ بات اب بتارہے ہو؟" شبیر زبیری فون پر دھاڑے تھے۔
"کال کی تھی سر مگر آپ نے اٹینڈ نہیں کی" دوسری جانب سے وہ منمنایا تھا۔
"شٹ اپ!" غصے سے انہوں نے کال کاٹ دی تھی۔
"کیا ہوا چچا آپ اتنے غصے میں کیوں ہے؟" جازل آس پاس مہمانوں پر نگاہ ڈالتا فوراً ان کی جانب آیا تھا۔
"ان گدھوں (گارڈز) کی کال آئی تھی اور مجھے اب بتارہے ہیں کہ معتصیم گھنٹہ بھر سے گھر سے غائب تھا۔۔۔۔ اتنا اچھا موقع تھا۔۔۔ اور گنوا دیا اسے"
"تو ہم اب بھی جاسکتے ہیں نا؟" جازل نے خوشی سے سوال کیا تھا۔
"وہ واپس آچکا ہے جازل اور اس کے بعد مجھے کال کرکے بتایا ہے۔۔۔۔ ایڈیٹس" وہ غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔
"چاچا جان پلیز بی کول۔۔۔۔ سب دیکھ رہے ہیں" جازل کے سمجھانے پر انہوں نے جیسے تیسے خود کو نارمل کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھیمے قدم اٹھاتا معتصیم کمرے میں داخل ہوا تھا اور بیڈ پر ہوش و حواس سے بیگانہ ماورا کو سرخ آنکھوں سے گھورا تھا۔
"آخر تمہارے کتنے روپ ہیں ماورا؟ کس کس شخص کی زندگی برباد کی ہے تم نے اپنے اس معصوم چہرے کا استعمال کرکے؟ آخر کتنوں کی محبت کا مزاق بنایا تم نے؟ میں, فہام اور نجانے کون کون؟ اور اب دیکھو خود کو؟ کیا ہوگئی ہو تم۔۔۔کیا حالت بن گئی ہے تمہاری۔۔ مگر نہیں ماورا تمہیں سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔ تمہاری بےوفائی میرے موم دل کو پتھر کرچکی ہے۔۔۔۔ یہ دل اب کبھی موم نہیں ہوپائے گا۔۔۔۔ تمہیں اپنا کیا چکانا ہوگا۔۔۔ وہ سب لوگ چکائے گے جن کی وجہ سے میں برباد ہوا۔۔۔۔ اور تمہاری بربادی کا وقت شروع ہوتا ہے کل سے" گھڑی پر نگاہ دوڑائے اس نے فہام جونیجو کو کال ملائی تھی۔
"ہیلو جونیجو۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی زویا نے منہ کھولے اس روم کو دیکھا تھا۔۔۔۔ پورا کمرہ پنک اور وائٹ کلر کا تھا۔۔۔۔ جس کی تھیم پرنسز تھی۔۔۔۔۔۔ پنک کلر کا کمرہ, پنک ہی پردے, پن بیڈ اور بیڈ کے سائڈ پر موجود وائٹ کرٹنز۔۔۔۔۔
"یہ میرا کمرہ ہے؟" پیچھے آتے سنان سے اس نے حیرت بھری آواز میں پوچھا تھا۔
"بالکل میری جان۔۔۔کیسا لگا؟" اسے ساتھ لگائے سنان نے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"بہت خوبصورت ہے" وہ بھاگتی ہوئی بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے میٹریس کو فیل کرتی اچھلنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔ اس کی ہنسی, اس کی کھلکھلاہٹ۔۔۔۔ آج نجانے کتنے سالوں بعد سنان شاہ کھل کر مسکرایا تھا۔
"بھائی دیکھے!" اس کے بھائی بولنے پر سنان کے دل میں انجانی خوش نے جنم لیا تھا۔
"میری زویا, میری مانو, میری جان" محبت سے اس کا ماتھا چوما تھا سنان نے۔
"اچھا اب بہت ہوگئی اچھل کود۔۔۔۔ اب بس ریسٹ کرو" اسے بیڈ پر لٹائے, اس کے جوتے اتارتا سنان بولا تھا۔
"کپڑت تو چینج کرنے دے" زویا اس کی جلد بازی پر کھلکھلائی تھی۔
"مگر میرے پاس تو کپڑے نہیں!" یکدم یاد آنے پر وہ افسردہ ہوگئی تھی
اس کی بات سن کر سنان مسکراتا الماری کی جانب بڑھا تھا اور اس کے دروازے کو پیچھے کو کھینچا تھا۔
اس کے پیچھے سے سر نکالے زویا نے کپڑوں سے بھری اس الماری کو دیکھا تھا۔
"یہ سب میرے لیے؟" اس نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
"بالکل۔۔۔۔ یہ نائٹ ڈریس, یہ والے کسی فنکشن کے لیے, یہ ویسے پہننے کے لیے" سنان نے الماری میں موجود تینوں پورشنز کی جانب اشارہ کیا تھا۔
"اور یہ تمہارا باقی کا سامان چیک کرلینا" نیچے موجود ڈرا کی جانب اشارہ کرتے وہ بولا تھا۔
"تھینک یو۔۔ تھینک یو۔۔۔تھینک یو سو مچ۔۔۔۔۔ یو آر دا بیسٹ نان" وہ خوشی سے اسے لپٹے بولی تو سنان ہنس دیا تھا۔
"اوے میم اب چینج کرکے سو جاؤ۔۔۔۔" اس کے سر پر ہلکے سے چیت لگائے وہ بولا تھا
"اوکے باس" اسے سیلوٹ کرتی وہ نائٹ دریس نکالے واشروم کی جانب بڑھی تھی
سنان نے گہری پرسکون سانس خارج کی تھی۔۔۔ آج کتنے سالوں بعد اسے یہ گھر, گھر جیسا محسوس ہوا تھا۔۔۔۔۔ کیسے اس کے آنے سے فقط چند منٹوں میں یہ گھر چہک اٹھا تھا۔
"تمہارا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھولوں گا!" اپنے محسن کو مسیج بھیجے وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ارے ارے ایسے کیسے اندر جارہے ہو؟ کیا رسم بھول گئے ہو؟" انہیں گھر میں داخل ہوتے دیکھ جازل روکا تھا۔
"کیسی رسم؟" حماد نے ابرو اچکائے سوال کیا تھا۔
"بھئی نئی نویلی دلہن, مینز کے اپنی نئی نویلی بیوی کو گود میں اٹھائے آپ کو کمرے تک جانا ہوگا حماد صاحب!" جازل کی شرارت بھری آواز پر وہ مسکرایا تھا۔
"ہماری فیملی میں ایسی کوئی رسم نہیں ہے" عالیہ کلس کر بولی تھی۔ مسز شبیر اور وہ دونوں تب سے سب ڈرامہ برداشت کررہیں تھی۔ حماد کے نکاح کے پلین کے بارے میں اس کے, جازل اور مسٹر شبیر کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
"پہلے نہیں تھی مگر آج ابھی اور اسی وقت سے یہ رسم لاگو کی جاتی ہے" جازل نے عالیہ کو مزید جلایا تھا۔
"جازل!" اپنی ماں کے ٹوکنے پر اس نے شرافت سے منہ بند کرلیا تھا۔
"کم آن بھائی اب کس چیز کا انتظار ہے؟" جازل کے بولتے ہی حماد نے آگے بڑھ کر شزا کو باہوں میں اٹھایا تھا۔
"یاہو" جازل کے نعرے پر اس نے مسکرا کر شزا کو دیکھا تھا جو شرمائی سر جھکا گئی تھی۔
عالیہ پیر پٹختی وہاں سے چل دی تھی, حماد کے کمرے کے جانب جاتے ہی مسز شبیر بھی منہ میں بڑبڑاتی اپنے کمرے کی جانب چل دی تھی۔
وہ شزا کو بہت کچھ سنانا چاہتی تھی مگر اپنء شوہر کے آگے ان کی ہمت نہیں ہوپائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کو پیر کی مدد سے بند کیے حماد نے اسے نیچے اتارا تھا۔۔۔۔ پورا کمرہ سینٹنڈ کینڈلز اور پھولوں سے سجا ہوا تھا۔
شزا نے منہ کھولے مارے حیرت کے وہ سب دیکھا تھا۔
"سو مسز حماد" اسے پیچھے باہوں میں لیے حماد نے سرگوشی کی تھی۔
"یس مسٹر حماد؟" اس کی جانب مڑتے اس نے حماد کو گھورا تھا جس کو سمجھتا وہ ہنس دیا تھا۔
"آپ کو مجھے ایکسپلین کرنا ہے؟" اشارہ کمرے کی جانب تھا۔
"یار۔۔۔ اور دور نہیں رہ سکتا تم سے اور جب شادی ہونی ہی تھی تو منگنی کا فائدہ؟۔۔۔۔" اس نے بیچاری سی شکل بنائی تھی۔
"میری زندگی میں خوشآمدید میری جان" جب شزا کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا تو اس نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا چوما تھا۔
"یہ سب بہت جلدی ہے!" حماد کو پٹری سے اترتے دیکھ وہ فوراً فاصلہ قائم کرتے بولی تھی۔
"بالکل بھی نہیں" حمار نے اسے ایک بار پھر اپنے قریب کیا تھا۔
"مم۔۔۔مگر۔۔۔" اس سے پہلے وہ کچھ بولتی حماد اس کے لبوں پر انگلی رکھ چکا تھا۔
"اس دن کا بہت انتظار تھا مجھے ڈونٹ سپائل اٹ" اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے اس نے التجاء کی تھی جس پر شزا نے فقط سر ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"گڈ مارننگ بھائی" میڈ کے اٹھانے پر وہ فریش ہوکر اس وقت سنان کے ساتھ ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھی۔
"سر مسٹر کریم آئے ہے" میڈ نے اسے آکر اطلاع دی تھی۔
"ہم بھیجو اسے" سنان کی اجازت پر وہ سر ہلائے وہاں سے جاچکی تھی
"مانو فوراً ختم کرو اسے" اسے دودھ کے گلاس کو برا منہ بناتے دیکھ سنان نے وارن کیا تھا۔
"مگر مجھے نہیں پسند" اس نے منہ بنایا تھا
"کوئی بہانہ نہیں"
"سر!" مخصوص بھاری آواز پر سنان کے ساتھ ساتھ زویا نے بھی کریم کی جانب دیکھا تھا۔ 5 فٹ 11 انچ کا قد, بھوری رنگت, ڈارک براؤن آنکھیں, چہرے پر بڑھی شیو۔۔۔۔۔۔ وہ ہو بہو اس جیسا تھا۔۔۔۔ زویا کو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
"کریم کیسے ہو؟" اپنی جگہ سے اٹھ کر سنان اس سے گلے ملا تھا۔
"الحمداللہ سر" سر ہلائے اس نے جواب دیا تھا۔
"اس سے ملوں کریم یہ میری بہن ہے زویا" سنان نے زویا کی جانب اشارہ کیا تھا۔
"گڈ مارننگ میم" کریم نے اس کی جانب دیکھ دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
"مم۔۔۔مارننگ" زویا جو اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اس کے بولنے پر ہڑبڑا کر ہوش میں آتی, جواب دیتی سر جھکا گئی تھی۔
"کہوں کریم کیسے آنا ہوا؟" سنان نے اس سے سوال کیا تھا
"سر میں سٹڈی میں آپ کا انتظار کررہا ہوں وہی آجائے تو ہوجائے گی بات" ایک نظر زویا کے جھکے سر پر ڈالے وہ بولا تھا۔
"ہمم صحیح" سنان نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم کہاں جارہے ہیں؟" کئی بار دہرایا جانے والا سوال دوبارہ دہرایا گیا تھا جس کا معتصیم نے کوئی جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا۔
"معتصیم!!!………تم مجھے اگنور کیوں کررہے ہو؟" اس نے چڑ کر پوچھا تھا۔
"بس تھوڑی دیر ماورا۔۔۔۔پھر سب کلئیر ہوجائے گا۔۔۔۔ تب تک کے لیے خاموش رہو" وہ سپاٹ لہجے میں بولا تھا جس پر ماورا منہ بناتی رخ موڑ گئی تھی۔
فہام جونیجو کی باتیں کل رات سے اس کے سر میں ہتھوڑے کی مانند لگ رہی تھی۔
"کیا واقعی وہ سچا تھا؟ کیا واقعی ماورا کا اس سے کوئی تعلق تھا؟" ان تمام سوالوں کے جواب جاننا چاہتا تھا وہ اور اسی لیے آج اسے لیے وہ جارہا تھا فہام جونیجو کے پاس۔
گاڑی پارکنگ میں روکے اس نے ماورا کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔
سڑک پار بنے کافی شاپ تک انہیں پیدل چلنا تھا۔
سڑک تک پہنچتے ہی گاڑیاں رک گئی تھی اور اب پیدل چلنے والوں کے لیے سگنل کھول دیا گیا تھا۔
"چلو!" معتصیم نے اسے اشارہ کیا اور خود اس کے پیچھے چلنے لگا تھا جب اسے اپنی جانب متوجہ نا پاتے وہ واپس سٹاپ پر جارکا تھا۔ موبائل نکالے فہام جونیجو کو میسج کیا تھا اس نے۔
ماورا جو تب سے آس پاس موجود نظاروں سے لطف اندوز ہوتی چل رہی تھی وہ اچانک بیچ راہ میں رک گئی تھی۔ اس کا ٹھٹھک کر رکنا معتصیم کو اس کا جواب دے گیا تھا۔
کوٹ کو پیچھے کیے اس نے ویسٹ سے گن نکالی تھی۔
"جج۔۔۔۔جنیجو!!!!!" پھٹی آنکھوں سے اس نے سڑک پار اپنے اس نائٹ مییر کو دیکھا تھا
"مائی ایشین بیوٹی" وہ وحشت زدہ آنکھوں سے مسکرایا تھا
ماورا کی ٹانگیں کانپ اٹھی تھی۔۔۔۔سڑک کے بیچ و بیچ کھڑی وہ خوف سے کپکپا اٹھی تھی
"نن۔۔۔۔نہیں۔" سر زور سے نفی میں ہلائے وہ معتصیم کی جانب مڑی تھی۔
"معت۔۔۔صیم؟" اٹکتے اس کا نام ادا کیے اس نے بےیقینی سے دیکھا تھا۔
آنکھوں میں بیگانگی لیے اس کی گن کا رخ ماورا کی جانب تھا
"تم سے کی ڈیل پوری ہوئی فہام جونیجو۔۔۔میں لے آیا تمہاری ایشین بیوٹی کو تمہارے پاس۔۔۔۔۔اب تمہاری باری!"
سڑک پر اس وقت مکمل سکوت چھایا ہوا تھا۔
خوف سے ہر کوئی اپنی جگہ جما ہوا تھا کسی میں ہمت نہیں تھی کچھ بولنے کی
معتصیم کے الفاظ پر آنکھیں ضبط سے بند کیے اس نے کئی آنسو اپنے اندر اتارے تھے۔
آنکھیں کھولے وہ بس معتصیم کو دیکھے جارہی تھی جبکہ فہام جونیجو کے قدموں کی چاپ وہ اپنے قریب محسوس کررہی تھی۔
پیدل چلنے والوں کے لیے سگنل بند ہوگیا تھا اور گاڑیوں کے لیے بہال ہوگیا تھا۔
دفتعاً ایک تیز رفتار گاڑی اس کی جانب آتی اسے ٹکڑ مارتی دور اچھالے وہاں سے نکل چکی تھی۔
لمحوں کا کھیل اور ماورا کا خون میں لپٹا وجود زمین پر گرا ہوا تھا۔
معتصیم کا ہاتھ کانپا اور ہاتھ میں موجود گن زمین پر گر گئی تھی۔
خون میں لپٹا وہ وجود شکوہ کناں آنکھوں سے معتصیم کو دیکھ رہا تھا جب کہ ان آنکھوں نے ایک خاموش لفظ ادا کیا تھا
"بےوفا"
اور اس کی آنکھیں بند ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کی نئی اور روشن صبح نے مسکرا کر خوشآمدید کہاں تھا۔۔۔
اپنے پہلو میں سوئی شزا پر ایک مسکراتی نظر ڈالتا وہ واشروم میں چلا گیا تھا۔
شاور لیے وہ باہر آیا تو کمبل میں دبکی شزا کو مسکراتے دیکھ, سر نفی میں ہلاتا وہ تولیے سے بال رگڑے اس کی جانب بڑھا تھا۔
"گڈ مارننگ سلیپنگ بیوٹی" اس کے چہرے سے کمبل ہٹائے وہ مسکرایا تھا جس پر منہ بناتی وہ دوسری جانب رخ موڑ گئی تھی۔
"ہے شزا اٹھ جاؤ" اب کی بار حماد نے اس کا کندھا ہلایا تھا۔
"تنگ مت کرو" وہ منہ دوبارہ کمبل میں گھساتی بولی تھی۔
"شزا اٹھ جاؤ" اب کی بار حماد کا لہجہ زرا سا سخت ہوا تھا
"نہیں نا!"
"نو؟"
"نو!"
"آخری بار پوچھ رہا ہوں نہیں اٹھو گی؟" اب ی بار اس نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"حماد؟۔۔۔۔حح۔۔۔حما۔۔۔حماد" وہ اس کے گدگدانے پر ہنستی اس کی گرفت سے نکلنے کی بھرپور کوشش میں تھی جس پر حماد کی گرفت اور سخت ہوگئی تھی۔
"حماد" اس کے چھوڑنے پر ہنستے ہنستے اس نے گہرہ سانس بھرا تھا۔
"صبح بخیر میری جان" اس کے ماتھے پر لب رکھے وہ ہولے سے مسکرایا تھا۔
"صبح بخیر" وہ مسکراتی پھر سے آنکھیں موند گئی تھی۔
"میں چینج کرنے جارہا ہوں اٹھ جاؤ" اس کی وارننگ پر شزا نے سر اثبات میں ہلایا تھا اور دوبارہ سونے کی تیاری پکڑی تھی۔
اس کو دوبارہ سوتے دیکھ حماد نے گیلا ٹاول اس کے منہ پر اچھال دیا تھا۔
"حماد" وہ چیختی اٹھ بیٹھی تھی
"کم آن گیٹ اپ فاسٹلی" وہ ڈریسنگ روم سے بولا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا تم نے ٹھیک کیا؟" فائل پر نگاہ ڈالے وائے۔زی نے سوال کیا تھا۔
"کل میں پاکستان جارہا ہوں واپس۔۔۔۔ یہ کام تمہیں ہی مکمل کرنا ہے" مصروف انداز میں پیکنگ کرتے معتصیم نے اسے جواب دیا تھا۔
ماورا کے بارے میں جاننے کی اس نے کوشش نہ کی تھی۔ وہ اسے ادھ مری حالت میں فہام جونیجو کے حوالے کر آیا تھا۔
"تم اس سے محبت کرتے تھے معتصیم" وائے۔زی دوبارہ بولا تھا۔
"صبح آٹھ بجے کی فلائٹ ہے میری"
"کیا محبت اتنی جلدی بھلا دی جاتی ہے؟" وائے۔زی نے ایک بار پھر سوال کیا تھا۔
"آخر مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ وائے۔زی۔۔ کیا سمجھ نہیں آرہی ہے نہیں بات کرنا چاہتا تھا ہوں میں اس بارے میں؟" اب کی بار وہ چلایا تھا۔
"بس ایک سوال کا جواب چاہیے؟"
"پوچھو" دوبارہ پیکنگ شروع کرتے اس نے اجازت دی تھی۔
"کیا محبت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ نفرت جیسے جذبے کے آگے ہار جائے؟"
"اس نے کبھی مجھ سے محبت نہیں کی تھی۔۔۔ میرے جذبات کے ساتھ کھیل کھیلا تھا اس نے"
"اور تم نے؟ کیا تم نے اس سے محبت کی تھی؟ اور اگر کی تھی تو کیا یہ ہوتا ہے ادھوری محبتوں کا انجام۔۔۔؟" اس سے سوال کیے بنا جواب سنے وہ جاچکا تھا۔۔۔جانتا تھا جواب نہیں ہوگا اس کے پاس اسی لیے بنا جواب سنے چلا گیا تھا وہاں سے۔
"وہ اسی کے قابل تھی وائے۔زی تم نہیں سمجھو گے تم نے محبت نہیں کی نا!" اس کے جواب نے وائے۔زی کے جاتے قدم جکڑے تھے۔۔۔۔ وائے۔زی تلخی سے مسکرا دیا تھا۔
کاش کہ وہ اس بتا پاتا اس نے کی تھی محبت اور ہار بھی گیا تھا۔
"اس کے بارے میں علم نہیں مگر تم اس قابل نہیں تھے کہ محبت تمہارا امتحان لیتی" اب کی بار وہ رکا نہیں بلکہ چلا گیا تھا اس کمرے سے۔
معتصیم نے فقط سر جھٹکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کریم سے بات کرنے کے بعد سنان لاؤنج میں آیا تو زویا کو پریشان پایا تھا۔
"کیا ہوا مانو ایسے کیوں بیٹھی ہو؟" اس کے پاس بیٹھے سوال کیا تھا اس نے
"وہ بھائی۔۔۔وہ۔۔۔وہ آپ کا دوست جو آیا تھا نا!" اس نے بات کا آغاز کیا تھا۔
"کون کریم؟"
"ججج۔۔ جی وہی" اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"کیا ہوا اسے؟"
"وہ۔۔۔۔وہ۔ وہ بالکل اس کے جیسے ہیں" انگلیاں مسلتے وہ بولی تھی۔
"کس کے جیسا؟" سنان مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"وہ ۔۔۔ وہ سر۔۔۔ جج۔۔۔جیک جیسا" اس کی بات سن کر سنان نے گہری سانس خارج کی تھی۔
"ایسا کچھ نہیں ہے مانو۔۔۔تمہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی" سنان نے اسے سمجھایا تھا۔
"ہہ۔۔۔ہو سکتا ہے مم۔۔۔مگر مجھے لگا۔۔۔ چھوڑے اس بات کو" آخر کار اس نے بات ختم کی تھی۔
"اچھا جاؤ اور خالہ سے کہو کافی کا!" زویا سر ہلاتی وہاں سے جاچکی تھی۔۔۔۔۔ اس کے جاتے ہی سنان نے گہری سانس خارج کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔