"کم ان" دروازے پر ہوئی ہلکی سی دستک پر انہوں نے فائل کا مطالعہ کرتے اجازت دی تھی
دھیمے سے دروازہ کھولے شزا آرام سے اندر داخل ہوئی تھی اور ان کے سامنے موجود کرسی پر جابیٹھی تھی۔۔۔ دونوں کے مابین فاصل چھوٹی سے ٹیبل نے پیدا کیا ہوا تھا۔
انگلیاں چٹخائے وہ سٹڈی کا جائزہ لیتی ان کے فارغ ہونے کے انتظار میں تھی۔
"کیا بات ہے شزا تم اس وقت خیریت؟" فائل کو سائڈ پر رکھے وہ اب اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے
"وہ۔۔۔وہ کچھ پوچھنا تھا آپ سے۔۔۔۔ ایک سوال ہے کئی سالوں سے ذہن میں جس کا جواب چاہیے" انگلیاں مڑوڑتے سر جھکائے وہ بولی تھی
"بولو میں سن رہا ہوں!" دونوں ہاتھ ٹیبل پر ٹکائے انہوں نے اجازت دی تھی۔
"میں۔۔۔۔میں کون ہوں؟ میری کیا پہچان ہے؟ میرے ماں باپ کون ہے؟ مجھے۔۔۔۔۔مجھے جاننا ہے یہ سب۔۔۔۔۔ بچپن سے اس سوال کے جواب کی تلاش ہے مجھے مگر کبھی ہمت نہیں ہوئی پوچھنے کی۔۔۔۔ مگر اب۔۔۔۔ جب میں قیک نئی زندگی شروع کرنے جارہی ہوں تو جاننا چاہتی ہوں" سر جھکائے وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔
شبیر زبیری نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔ جانتے تھے کہ ایک وقت آئے گا جب اس سوال کا جواب دینا ہوگا انہیں۔
"تم شزا ہو۔۔۔۔ شزا سلطان۔۔۔۔ سلطان شاہ اور شہرینہ شاہ کی بیٹی۔۔۔۔۔ سلطان!۔۔۔ وہ میرا بہت اچھا دوست تھا۔۔۔۔ میرا بہترین دوست۔۔۔ مگر, مگر پھر ہماری دوستی میں ایک تیسرا وجود آگیا۔۔۔ جس نے سب برباد کردیا" انہوں نے گہری سانس خارج کی تھی۔
"کک۔۔۔۔کون؟"
"ارحام شاہ۔۔۔۔ سلطان شاہ کا چاچا زاد بھائی۔۔۔۔سلطان کی دولت اور شہرت نے اسے حسد میں مبتلا کردیا تھا۔۔۔۔ اسی لیے اس نے تمہارے ماں باپ کو موت کی ابدی نیند سلا دیا۔۔۔ تم تب صرف گیارہ یا بارہ سال کی تھی۔۔۔۔ اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک خوبصورت فیملی ڈنر سے واپس آرہی تھی تم۔۔۔ جب وہ بھیانک حادثہ پیش آیا۔۔۔۔ تمہارے ماں باپ کو بچا نا پایا اور تم نے اپنی یادداشت کھو دی۔۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ تمہیں سب یاد آئے مگر ڈاکٹرز کے مطابق یہ تمہیں موت کے منہ میں جھنوکنے کے مترادف تھا۔۔۔۔ تم پر بچپن سے اتنی سختی اسی لیے نہیں کرتا تھا کہ تم سے نفرت تھی یا تمہیں حقیر سمجھتا تھا۔۔۔۔ ایسا ہوتا تو کبھی بھی اپنے بیٹے کی شادی تم سے کروانے پر راضی نہ ہوتا۔۔۔۔ یہ سب تو اس لیے تھا تاکہ تمہیں مضبوط بنا سکوں۔۔۔۔ جانتا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب تمہیں اپنے ماضی کا سامنا کرنا ہوگا مگر یوں نہیں۔۔۔۔ مگر آج تمہاری آنکھوں میں میں نے ایک کمی سی دیکھی جس نے دل دکھایا میرا۔۔۔۔ یہ کلب جس کی وجہ سے تمہیں شزا سے لیلہ بننا پڑا یہ تمہارے باپ کی پراپرٹی تھا۔۔۔ جس پر ارحام شاہ اور ڈیوڈ نے مل کر قبضہ کرلیا تھا۔۔۔ مگر بعد میں اس ڈیوڈ نے ارحام شاہ کو دھوکا دے کر وہ کلب اپنے قبضے میں لے لیا۔۔۔۔۔ ارحام شاہ تب کمزور ہوچکا تھا کچھ نہ کرسکا مگر اب وہ اسے حاصل کرنے کے لیے ایک بار پھر لوٹ آیا ہے۔۔۔۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اس بار یہ جنگ تم لڑوں۔۔۔ حاصل کرو اسے جو حق ہے تمہارا۔۔۔۔ بتادو ارحام شاہ کو کہ تم شزا سلطان ہو کوئی عام لڑکی نہیں ہو۔۔۔۔" شبیر زبیر مٹھیاں بھینچ کر بولے تھے جب کہ شزا کی آنکھیں نمی کی وجہ سے سرخ ہوگئی تھی۔
تو یہ تھا اس کا ماضی۔۔۔۔ اس کے ماں باپ کو مار دیا گیا, قتل کردیا گیا صرف چند کاغذ کے ٹکڑوں کے لیے
"کیا۔۔۔۔کیا ارحام شاہ جانتا ہے کہ میں زندہ ہوں؟" آواز میں موجود کپکپاہٹ پر قابو پائے اس نے سوال کیا تھا۔
"نہیں۔۔۔۔ وہ نہیں جانتا۔۔۔۔ اسے لگتا ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ ہی مر گئی تھی۔۔۔۔ وہ لاعلم ہے تمہارے وجود سے" ان کے جواب پر شزا نے گہری سانس اندر کھینچی تھی۔
"مجھے۔۔۔ مجھے اجازت دے" تیزی سے اٹھتی وہ کمرے سے نکل گئی تھی, شبیر زبیری نے آنکھیں چھوٹی کیے اس کی پشت کو گھورا تھا۔۔۔ سر جھٹکے وہ دوبارہ فائل کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی جب وہ خاموشی سے دیوار پھلانگے بنا آواز پیدا کیے گھر میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔ افسوس سے اس نے پہرا دیتے گارڈز کو دیکھا تھا جن کو وہ باآسانی چکما دے چکا تھا۔
"گدھے!" بڑبڑاتا وہ گھر کی پچھلی سائڈ پر بنے پائپ کی جانب آیا تھا۔۔۔ وہاں موجود کھڑکی کو دیکھ اس کی آنکھیں چمکی تھی۔۔۔۔ پائپ چڑھتا وہ باآسانی اوپری منزل تک پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ کھڑکی سے اندر کودتا وہ اس وقت دوسری منزل کے کوریڈور میں کھڑا تھا۔۔۔ آس پاس لگی پینٹنگز کو اگنور کرتا وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا تھا جب تمام کمروں میں سے ایک کمرے سے آتی روشنی کو دیکھ وہ چونکا تھا۔
کمرے کی جانب بڑھتے بنا آواز پیدا کیے اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تھا, مگر بیڈ پر سوئے نسوانی وجود کو دیکھ اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
"انٹرسٹنگ!" لبوں پر اپنے آپ مسکراہٹ در آئی تھی
آہستہ سے دروازہ بند کرتا وہ سیڑھیاں اترتا نیچے والے پورشن میں آیا تھا۔۔۔۔ ارادہ کچن میں جانے کا تھا۔۔۔
کچن میں داخل ہوتے اس نے بریڈ اور سینڈویچ کے لیے باقی کا سامان نکالا تھا جب شیشے کی ایک پلیٹ ہاتھ لگ جانے کی وجہ زمین پر گر کر کرچی کرچی ہوگئی تھی۔۔۔۔ کندھے اچکاتا وہ ٹوٹی پلیٹ کو پھلانگتا فریج کی جانب بڑھتا اس میں سے کولڈ ڈرنک کا کین نکالنے کو جھکا تھا۔
"کون ہو تم؟" بھاری مگر سخت آواز پر لبوں پر مسکراہٹ اپنے آپ در آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماورا کی کنڈیشن نے اسے حد درجہ جھنجھلا کر رکھ دیا تھا۔
"ماورا کی ایسی کنڈیشن کا تعلق ضرور اس کے ماضی کی کسی تلخ یاد سے جڑا ہے۔۔۔۔ جاننے کی کوشش کرو" بالوں میں ہاتھ پھیرے اس نے خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ماورا کو دیکھنے کی نیت سے وہ کمرے سے باہر نکلا تھا جب کچن سے آتی آواز سن کر اس کا ہاتھ اپنے آپ پینٹ میں موجود گن پر گیا تھا۔
"ماورا؟" اس وقت اس کے اور ماورا کے علاوہ کوئی بھی موجود نا تھا۔
بنا آواز پیدا کیے قدم اٹھاتا وہ کچن میں داخل ہوا تھا جب کسی انجان کو دیکھا گن نکالے اس نے اس کی جانب کی تھی۔
"کون ہو تم؟" اس کے پوچھنے پر وہ وجود سیدھا ہوا۔۔۔۔ کولڈ ڈرنک کا کین ہاتھ میں تھا
"تمہارے گارڈز کسی نا کام کے ہیں۔۔۔۔ اچھا ہوگا اگر تم انہیں بدل دو"
"وائے۔ذی؟" آواز پہچانتے اس نے حیرانگی سے سوال کیا تھا جب وہ وجود اس کی جانب گھوما تھا۔
"تم تو ملنے آئے نہیں تو میں ہی چلا آیا۔۔۔۔" سینڈویچ کا بائٹ لیتا وہ مزے سے بولا
"تمہیں کیسے معلوم۔۔۔۔"
"کہ تم لندن میں ہو؟۔۔۔۔ جس دن میرا پیچھا کرتے کلب آئے تھے دیکھ چکا تھا تمہیں۔۔۔۔ مگر تمہیں محسوس نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ لگا تھا کہ تم آوں گے مگر آئے ہی نہیں ملنے تم!………… لگا کوئی مصروفیت ہوگی۔۔۔ مگر مصروفیت ایک جیگتا جاگتا وجود ہوگا یہ معلوم نہیں تھا۔۔۔" کین سے گھونٹ بھرے وہ مسکرا کر بولا تھا۔
"ویسے وہ سلیپنگ بیوٹی کون ہے؟" اب کی بار سوال ہوا
"تم سے مطلب؟ اپنے کام سے کام رکھو اور یہ بتاؤ کیوں آئے ہو یہاں؟" اس کے سوال کو اگنور کرتے اس نے سوال کیا تھا۔
"کیا وہ ماورا ہے؟" وائے۔ذی کے سوال پر وہ لمحہ بھر کو چونکا تھا۔۔
"تمہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہونا چاہیے!" گھوری سے نوازے وہ کچن سے نکلتا باہر لاؤنج میں آیا تھا۔
"تو وہ واقعی میں ماورا ہے؟" وائے۔ذی کا لہجہ مسکراتا تھا۔
"اپنے کام سے کام رکھو وائے۔ذی" اب کی بار وہ خاصے سنجیدہ لہجے میں بولا تھا۔ وائے۔ذی کندھے اچکائے صوفہ پر بیٹھا گیا تھا۔
گن واپس اپنی جگہ رکھے معتصیم بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
"یہ کیا ہے؟" ٹیبل پر موجود کارڈ کو دیکھ کر وائے۔ذی نے سوال کیا تھا۔
معتصیم نے کارڈ کو ایک نظر دیکھے وائے۔ذی کو اس کی بابت بتایا تھا۔
وہ کارڈ ڈرائنگ روم میں چھوڑ آیا تھا جب مس زونا اسے لاؤنج میں رکھ کر چلی گئی تھی۔
"تو دشمنوں کی جانب سے دعوت نامہ آیا ہے؟ تو پھر جارہے ہو تم؟" واۓ۔ذی مسکرایا تھا
"نہیں" سر نفی میں ہلایا تھا معتصیم نے
"مگر میرا تو بہت موڈ بن رہا ہے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کو" ڈرنک کا آخری گھونٹ بھرے وہ بولا تھا۔
"جانے کی وجہ؟" آنکھیں چھوٹی کیے اس نے سوال کیا تھا۔
"شبیری زبیری آج کل پاگلوں کی طرح ڈھونڈتا پھر رہا ہے۔۔۔ تو کیوں نا وائے۔ذی خود اس سے مل آۓ؟"
"تو جاؤ" معتصیم اجازت دیتا وہاں سے چلا گیا تھا۔
"اٹس گوئنگ ٹو بی فن!" کارڈ پر ایک نگاہ ڈالے دونوں بازو سر کے پیچھے باندھے, دونوں پیر ٹیبل پر ٹکائے وہ سکون سے آنکھیں موند گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یہ؟ میں یہ پہنوں گی؟" اس نے حیرانگی سے بیڈ پر موجود سفید گرارہ کے ساتھ موجود سیفد شرٹ اور لال ڈوبٹے کو دیکھا تھا
"تمہارے لیے آیا ہے تو آفکورس تم ہی پہنو گی" عالیہ کلس کر بولی تھی
"میرا مطلب کہ منگنی کے حساب سے کچھ زیادہ ہی اوور نہیں یہ؟"
"اچھا ہوگا اگر تم یہ سوال اپنے حماد سے کرو۔۔۔" جواب دیتی وہ زور سے دروازہ بند کیے یہ جا وہ جا تھی۔
"افففف۔۔۔" سر نفی میں ہلائے وہ ڈریس اٹھائے ڈریسنگ روم میں چلی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اور بھائی کیسا محسوس کررہے ہے؟" اس کو تیار ہوتے دیکھ جازل نے مسکرا کر سوال کیا تھا۔
"جس کو اس کی محبت مل جائے اسے کیسا محسوس کرنا چاہیے؟" بٹن بند کرتے اس نے ابرو اچکاۓ سوال کیا تھا۔
"ہم بیچاروں کو کیا معلوم۔۔۔۔ ہماری نہ کوئی محبوبہ اور نہ ہم کسی کے محبوب!" سرد آہ بھرتا وہ افسوس سے بولا تھا۔
"چچی کو تمہارے نادر خیالات کا علم ہوگیا تو جان لے لے گی" مسکراہٹ دبائے حماد نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔ لندن جیسے ملک میں رہنے کے باوجود بھی ان کی نظر میں آج بھی لڑکوں سے دوستی پالنے والی لڑکیاں اچھے کردار کی نا تھا۔۔۔ اور نہ ہی وہ شادی سے پہلے کے ریلیشن کے حق میں تھی۔
"نیچے آجاؤ چاچا جان بلا رہے ہیں!" تیزی سے آکر پیغام دیے وہ ویسے ہی وہاں سے نکل گئی تھی۔
"اسے کیا ہوا؟" حماد نے ابرو اچکائے حیرت سے سوال کیا تھا۔
"کچھ نہیں بس بیچاری سوگ میں ہے۔۔۔۔ محبت کے نا ملنے کا سوگ" جازل منہ بولتا ہنس دیا تھا۔۔۔
مسکراہٹ روکے حماد نے اسے آنکھیں دکھائی تھی۔
"اچھا بس اب چلو!" اسے اپنے ساتھ لیے وہ کمرے سے باہر نکلا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفید گرارہ زیب تن کیے وہ شیشے کے آگے کھڑی اپنے بالوں کو اسٹریٹ کرتی گہری سوچ میں گم تھی۔۔۔۔ دماغ میں بس شبیر زبیری کی باتیں گونج رہی تھی۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ارحام شاہ سے بدلا ضرور لے گی پھر بھلے اس کے لیے اسے کسی بھی حد تک کیوں نا جانا پڑے۔
"میم آجائے سب ویٹ کررہے ہیں آپ کا۔۔۔ مہمان بھی آگئے ہیں" میڈ کی آواز پر وہ ہوش میں آئی تھی۔ ڈوپٹا سائڈ پر سیٹ کیے وہ مدھم قدم اٹھاتی کمرے سے نکلتی باہر گارڈن کی جانب بڑھی تھی۔
دروازے پر پہنچے اس نے گہری سانس خارج کیے خود کو پرسکون کیا تھا.
"یار کب آئے گی ہونے والی بھابھی؟" جازل پاؤں زمین پر ملتا جھنجھلایا تھا۔
"آجائے گی تجھے کیا موت پڑ رہی ہے؟" حماد نے اسے گھرکا تھا۔
"کھانا لیٹ ہورہا ہے" اس کے جھنجھلانے پر حماد نے اس کے سر پر چت لگائے اسے کندھے سے لگایا تھا۔
"آجائے گی۔۔۔۔"
"آجائے گی نہیں۔۔۔۔ آگئی۔۔۔ ہونے والی بھابھی آگئی" جازل کی جوش سے بھرپور آواز پر حماد نے نظریں اینٹرینس کی جانب گھمائی تھی جو پلٹنا بھول گئی تھی۔
ہر وقت شیرنی بنی شزا, اس وقت ہرن جیسی سہمی ہوئی تھی۔۔۔۔ دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتی وہ, کچھ ڈری ڈری نگاہوں سے ان تمام لوگوں کو دیکھا تھا جن کی نظر اسی پر تھی۔
تھوک نگلتی قدم اٹھاتی وہ بےدھیانی میں آگے بڑھی تھی جب ڈگمگاتی وہ زمین پر گرگئی تھی۔ لوگوں کے ہنسی کے چھوٹتے فوارے اس کی آنکھوں میں آنسو لے آئے تھے۔
ہوش میں آتا حماد تیزی سے اس کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔ اسے زمین سے اٹھائے, باہوں میں بھرے اپنے ساتھ لگائے وہ جیسے اسے خود میں قید کرچکا تھا۔
"اٹس اوکے!" اس کے یہ دو لفظ شزا کو ڈھارس دے چکے تھے۔
"ٹھیک ہو؟" پوچھنے پر اس نے فقط سر ہلایا تھا
"یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ہے" اس نے شکایت کی
"ہے!!! میں نے کیا کیا؟" حماد نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
"یہ ڈریس جس کی وجہ سے گری ہوں میں۔۔۔۔ آپ نے ہی پسند کی تھی میرے لیے!" اس کے اس الزام پر حماد نے ہونٹ دبائے مسکراہٹ روکی تھی۔
اسے اپنے ساتھ لگائے وہ اب کانفیڈینٹ سے تمام لوگوں سے ملوا رہا تھا۔۔۔۔
شرمندگی کے آثار اب اس کے چہرے سے مٹنا شروع ہوگئے تھے اور اب مسکرا کر وہ کانفیڈینٹ سے تمام لوگوں سے باتوں میں مصروف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سر وہ معتصیم آفندی۔۔۔" گیسٹ سے باتوں میں مصروف شبیر زبیری کے پاس ان کا گارڈ آکر اتنا ہی بولا تھا کہ وہ پوری بات سنے بھی اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے گیٹ کی جانب بڑھے تھے۔
"واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز مسٹر معتصیم!" اپنی جانب پیٹھ کیے وہ مسکرائے تھے جب اس کے مڑنے پر وہ چونکے تھے۔
"تم کون ہو؟" انہوں نے چونک کر سوال کیا تھا۔
"بندہ بشر کو وائے۔زی کہتے ہیں!" اس کے مسکرا کر بولنے پر ان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
"تت۔۔۔۔تم۔۔۔تم یہاں کیا کررہے ہو؟" انہوں نے حیرانگی سے سوال کیا تھا۔
"آپ ہی کی دعوت پر آیا ہوں" اس نے مسکرا کر کارڈ ان کے سامنے لہرایا تھا۔۔۔ وہ مٹھی بھینچ گئے تھے۔
ایک بار انہوں نے سامنے کھڑے اس شخص کو دیکھا تھا جس نے انہیں دن میں تارے تو رات میں سورج تک دکھا دیا تھا۔
انہیں ابھی بھی اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔۔ وائے۔زی, وائے۔زی۔۔۔۔۔۔ کا قدر ڈھونڈا تھا انہوں نے اس شخص کو۔۔۔۔۔ ارحام شاہ کا بہت خاص بندہ تھا وہ۔۔۔۔۔
شبیر زبیری کے لیے کسی نائٹ میر سے کم نہ تھا وہ۔۔۔۔۔
"اب یونہی گھورتے رہو گے یا اندر آنے کی دعوت بھی دو گے؟" وائے۔ذی کے طنز پر وہ ہڑبڑا کر ہوش میں آئے تھے اور فوراً اسے اندر آنے کی دعوت دی تھی۔
ببل منہ میں ڈالے وہ چباتا چاروں اور نگاہ ڈالتا ان کی معیت میں اندر داخل ہوا تھا۔
"حماد!" شبیر زبیری نے اسے پکارا تھا جو شزا کی کمر پر ہاتھ رکھے گیسٹ سے باتوں میں مصروف تھا۔
"ڈیڈ" شزا کے ساتھ ہی وہ ان کی جانب مڑا تھا۔
پیچھے آنے وائے۔زی کے قدم رکے تھے۔
"ان سے ملو۔۔۔یہ وائے۔زی ہے۔۔۔۔۔ ایک بہت بڑے بزنس مین۔۔۔۔"
"ہیلو نائس ٹو میٹ یو" حماد نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔۔۔۔ مگر وہ حماد کی جانب متوجہ ہی کہاں تھا۔۔۔۔ بس غور سے اس کے ساتھ کھڑی شزا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ جس کے چہرے کا رنگ اس کی شکل دیکھ کر سفید ہوگیا تھا۔
"نائس ٹو میٹ یو ٹو مسٹر حماد۔۔۔ اور ان محترمہ کی تعریف؟" حماد کا ہاتھ تھامے اس نے شزا کے بابت سوال کیا تھا۔
"شزا۔۔۔۔ مائی لوو, مائی لائف۔۔۔۔ اینڈ سون ٹو بی مائین بیٹر ہاف!" اسے اپنے ساتھ لگائے وہ مسکرایا تھا
"نائس ٹو میٹ یو ٹو مس شزا" شزا پر خاصہ زور ڈالے اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔
"حح۔۔۔حماد" اس کی گرفت حماد کے ہاتھ پر مضبوط ہوگئی تھی۔
"ہے!………واٹ ہیپنڈ؟۔۔۔۔ طبیعت ٹھیک ہے؟" اس کے سوال پر شزا نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"ایکسکیوز از!" اسے اپنے ساتھ لیے وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔ شزا نے گہری سانس خارج کی تھی مگر وہ اپنی پیٹھ پر ابھی بھی ان نظروں کو محسوس کرسکتی تھی۔۔۔جو اسی پر ٹکی تھی۔
"یہ فہام جونیجو کیوں نہیں آیا ابھی تک؟ معلوم کرواؤ!" شبیر زبیری نے جازل کا بولا تھا جس پر اس نے سر ہلائے موبائل نکالے فہام جونیجو کو کال ملائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھے اس نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔۔ آنکھیں بند کیے اس نے اپنی آزادی کو محسوس کیا تھا, لبوں پر اپنے آپ ایک دھیمی مسکراہٹ در آئی تھی۔
"چلے؟" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے سنان نے سوال کیا تھا جس پر مسکرا کر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ڈرائیور کے آتے ہی گاڑی میں سامان رکھے وہ خود بھی سوار ہوگئے تھے۔۔۔۔ سنان شاہ نے اپنے موبائل نکالے کریم کو چند ایک ہدایات دی تھیں۔۔۔۔ جب کہ زویا منہ کھولے, آنکھیں پھیلائے آس پاس گزرتے نظاروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
"کتنا اچھا ہے نا سب؟" اس کی حیرت زدہ آواز پر سنان مسکرایا تھا۔ اور محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
"تمہیں اچھا لگا؟"
"ہممم۔۔۔بہت زیادہ" سر اثبات میں ہلائے وہ خوشی سے چہکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جیک کہاں ہے مارتھا؟" ناشتے کی میز پر اسے نا پاکر مرینہ نے سوال کیا تھا
"وہ میم۔۔۔۔ وہ سر۔۔۔۔۔ وہ دراصل سر رات کو ہی۔چلے گئے" مارتھا نے ویلیم کو ناشتہ سروو کرتے جواب دیا تھا
"کہا مطلب کہاں چلا گیا؟" ویلیم نے حیرانگی سے سوال کیا
"وہ سر کہہ رہے تھے کہ وہ زویا میم کو ڈھونڈنے جارہے ہیں۔۔۔۔ اور تب تک واپس نہیں آئے گے جب تک انہیں ڈھونڈ نا لے" مارتھا کی بات مکمل ہوتے ہی مرینہ نے زور سے کانٹا میز پر پٹخا تھا
"یہ لڑکی تو جان کا عذاب بن گئی ہے۔۔۔۔ نجانے کہاں دفع ہوگئی ہے اور ہمیں مصیبت میں جھونک دیا ہے اس نے" مرینہ چوہان غصے سے بڑبڑاتی وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی جبکہ ویلیم نے مزے سے اپنے ناشتہ مکمل کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آہ!!" چیختی, چلاتی وہ پورے کمرے کا حشر بگاڑ چکی تھی۔۔۔۔ اپنے بالوں کو نوچتی وہ اس وقت بالکل بھی اپنے ہوش و حواس میں نہ تھی۔
"میم۔۔۔۔میم۔۔۔" مس زونا اس کی ایسی حالت دیکھ کر ہڑبڑا گئی تھی۔
"مجھے دو۔۔۔۔۔ دو مجھے۔۔۔۔۔ مجھے چاہیے" اونچی آواز میں چلاتی وہ ہر ایک چیز اٹھا کر زمین پر پھینک رہی تھی۔
"میم پلیز!" مس زونا کے لیے اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔
"دو۔۔۔۔دو مجھے!" بال نوچتی وہ مکمل طور پر بےبس ہوچکی تھی۔
"ماورا۔۔۔۔ماورا۔۔۔۔ ڈیم اٹ۔۔۔۔۔ مس زونا جلدی سے جائے اور مجھے دراز میں سے انجیکشن اور میڈیسن نکال کر دیجیے" اس کی چیخ و پکار سن کر معتصیم فوراً سے اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا اور مس زونا کو ہدایت دیتے اس نے ماورا کو سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔
"چھو۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔ مار دوں گی میں۔۔۔۔ مار دوں گی"
"ماورا۔۔۔ریلیکس۔۔۔اٹس اوکے۔۔۔۔شششش۔۔۔۔بس خاموش" اسے اپنے ساتھ لگائے معتصیم نے اپنے حصار میں قید کیا تھا۔
"سر۔۔" مس زونا نے فوراً سیرینج اسے تھمائی تھی۔
"میڈیسن فل کی؟" اس کے سوال پر انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا
ماورا کو یونہی قید رکھے وہ سیرینج اس کے بازو میں لگا چکا تھا۔۔۔۔ بہت جلد دوائی نے اپنا اثر دکھایا تھا اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتی وہ وہی اس کی قید میں بےہوش ہوگئی تھی۔
اسے بیڈ پر لٹائے معتصیم نے گہری سانس خارج کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جونیجو کال نہیں اٹھا رہا چاچو" جازل کی بات سنتے ہی شبیر زبیری کے ماتھے پر کئی بل نمودار ہوئے تھے۔
"سر مجھے بات کرنی ہے آپ سے ابھی۔۔۔۔بہت ضروری ہے" شزا موقع پاتے ہی ان کے سر پر آ دھمکی تھی
"ابھی نہیں شزا" ایک تو وائے۔زی کی آمد, دوسرا جونیجو کو غائب ہونا۔۔۔ وہ سخت جھنجھلا گئے تھے۔۔۔ماورا کو کیڈنیپ کرنے کا پلان برے سے فلاپ ہوگیا تھا۔
"مگر یہ۔۔۔۔۔ یہ اس وائے۔زی کے بارے میں" اس کی بات سنتے ہی ان کے بلوں میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
انہوں نے ایک نگاہ حماد پر ڈالی تھی جو گیسٹ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔
اسے بازو سے تھامے وہ اسے ایک تن تنہا گوشے میں لے آئے تھے
"اب بولو"
"یہ وائے۔زی۔۔۔ یہ وائے۔زی وہی ہے سر"
"وہی کون؟"
"وہی کلب والا۔۔۔۔ کلب والا مجنوں" بولتے ہی وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی تھی۔
شبیر زبیری نے بےبسی سے آنکھیں بند کیے خود پر قابو پانا چاہا تھا۔
"تم نے مجھے پہلے آگاہ کیوں نہیں کیا کہ یہی وائے۔زی ہے؟"
"مجھے بھی اب علم ہوا ہے سر۔۔۔۔ اور مجھے اس کے ارادے نیک نہیں لگتے۔۔۔۔۔ نجانے وہ یہاں کس نیت سے آیا ہے" وہ بےبسی سے بولی تھی۔
"اس کے ارادے نیک ہے بھی نہیں۔۔۔۔ بھلا ارحام شاہ کی اولاد سے امید ہی کیا لگائی جا سکتی ہے" ان کا انکشاف شزا کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہ تھا۔
"اا۔۔۔ار۔۔۔ارحام شاہ کا بیٹا؟" اس نے اٹکتے سوال کیا تھا۔
شبیر زبیری نے بےبسی سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ شزا کی آنکھیں پل بھر میں نم ہوئی تھی۔۔۔۔ نظریں خود بخود وائے۔ذی پر چلی گئی تھی جو مزے سے سوفٹ ڈرنک کے گھونٹ بھر رہا تھا۔۔۔۔ اس کے ماں باپ کے قاتل کا بیٹا ۔۔۔۔۔ اسکی نظروں کے سامنے مزے سے گھوم پھر رہا تھا, اپنی زندگی جی رہا تھا۔۔۔۔۔ بدلے کی آگ اس کے دل میں جل اٹھی تھی۔۔۔۔ جی چاہا تھا کہ ابھی اسے شوٹ کردے۔
"اس وقت کوئی ڈرامہ نہیں کرنا شزا۔۔۔۔ یہ دن تمہاری خوشیوں کا دن ہے۔۔۔۔۔ خود کو تکلیف مت دو" اس کا سر تھپتھپائے وہ وہاں سے چلے گئے تھے۔
چہرہ موڑے اس نے گالوں پر پھسلے آنسوؤں کو صاف کیے خود کو پرسکون کیا تھا۔
"شزا" حماد کی پکار پر خود کو نارمل کرتی چہرے پر مسکراہٹ سجائے وہ حماد کی جانب مڑی تھی۔
"ہے کیا ہوا؟" اس کی آنکھوں کو دیکھ اسنے سوال کیا تھا۔
"کچھ نہیں وہ بس آنکھ میں کچھ چلا گیا تھا" وہ بدوقت مسکرائی تھی۔
"دکھاؤ مجھے؟" اس کے قریب آئے حماد نے اس کی آنکھ میں جھانکا تھا۔
"حماد ٹھیک ہوں میں" اسے یقین دلاتی وہ مسکرائی تھی۔ انجانے میں نظریں حماد سے ہوتی وائے۔زی سے جا ٹکڑائی تھی۔
سرد نگاہیں اس پر ٹکائے وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔ مگر اس کی مسکراہٹ ۔۔۔۔۔ کچھ تھا اس کی مسکراہٹ میں جو شزا سلطان کو نظریں چرانے پر مجبور کرگیا تھا۔
"چلو"
"کہاں؟"
"میڈم اگر آپ کو یاد ہو تو آج انگیجمنٹ ہے ہماری۔۔۔۔منگنی کرنی بھی ہے یا نہیں؟" حماد کے پوچھنے پر وہ اس کا ہاتھ تھامے مسکراتی سٹیج کی جانب بڑھی تھی۔
"لیڈیز اینڈ جینٹل مینز" گلاس کو فوک سے بجائے حماد نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
"سب سے پہلے تو میں آپ سب کا شکر گزار ہوں میری لائف کے اتنے اہم ایوینٹ میں شرکت کرنے کے لیے۔۔۔۔۔ تھینک آل آف یو"
"شزا۔۔۔ مائی لوو۔۔۔۔ بارہ سال کا تھا جب ایک دن ڈیڈ اسے اپنے ساتھ لے آئے۔۔۔۔ کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے نہیں معلوم تھا۔۔۔۔۔ بس معلوم ہوا تو اتنا کہ اب وہ یہی رہے گی اس گھر میں۔۔۔۔ شروع میں بہت بری لگتی تھی۔۔۔۔ بولتی ہی نہیں تھی۔۔۔بس خاموش رہتی۔۔۔" وہ زرا سا ہنسا تھا
"مگر آہستہ آہستہ یہیی خاموشی اس دل کو بھانے لگی۔۔۔۔۔ وہ گم سم نگاہیں جیسے خود میں جکڑنے سی لگی مجھے۔۔۔۔۔ شزا!!! مجھے یاد ہے ہماری پہلی گفتگو جب تم نے مجھ سے اپنے نام کا مطلب پوچھا تھا۔۔۔۔ اور تمہارا نام شزا کیوں ہے؟۔۔۔۔۔گھنٹوں لگے تھے مجھے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں۔۔۔۔ بہت افسردہ تھا میں کہ جلد جواب نہیں دے پایا مگر پھر خوشی ہوئی کہ اسی بہانے تم سے مزید باتیں کرنے کا موقع ملتا۔۔۔۔۔۔ اتنی سی عمر سے اپنی تمام زندگی تمہارے ساتھ گزارنے کا سوچا ہے میں نے۔۔۔۔۔۔۔ اور آج فائنلی میری یہ خواہش پوری ہونے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ شزا مائے لوو۔۔۔۔۔ شادی کرو گی مجھ سے؟" گھٹنے پر بیٹھے انگوٹھی آگے کیے اس نے مسکرا کر پوچھا تھا۔
"حماد"
"ہاں شادی, کرو گی مجھ سے ابھی؟"
"ابھی؟" شزا کی آنکھیں مزید پھیل گئیں تھی۔
"ہاں ابھی۔۔۔ بی مائین فار ایور۔۔۔۔۔پلیز"
"یس" سر اثبات میں ہلائے اس نے اقرا کیا تھا۔
اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنائے اس نے عقیدت سے اپنے لب وہاں رکھے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔