آنکھوں کو کسلمندی سے مسلتے، مسکراتی وہ لحاف میں مزید گھس گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ نرم گرم بستر کو محسوس کرتے اس نے ایک پرسکون سانس خارج کی تھی جب ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولے وہ اٹھ بیٹھی تھی۔
’’آہ!‘‘ سر پر ہاتھ رکھے اس نے دکھتے سر کو جیسے سنبھالا تھا۔
ایک ایک کرکے کل رات کا حادثہ اس کے دماغ سے گزرا تھا۔
’’س۔۔۔۔سر!‘‘ وہ سسکی تھی، دونوں ہاتھوں سے سر کو تھامے اس کی آنکھیں بھر آئیں تھی۔
’’میم!!۔۔۔۔۔۔‘‘ اتنے میں ایک میڈ ناک کرکے اندر داخل ہوئی تھی۔
زویا نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا۔
’’شکر ہے آپ جاگ گئی سر ناشتے پر آپ کا ویٹ کررہے ہے!‘‘ میڈ کی بات سنتے اس کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
’’جج۔۔۔۔۔۔جیک سر؟‘‘ اس نے دھمیے اور کمزور لہجے میں سوال کیا تھا۔
’’سنان سر!‘‘ میڈ کے جواب پر کب سے رکی سانس خارج کی تھی اس نے۔
’’سنان؟‘‘ اس کے ماتھے پر بل در آئے تھے۔
اس نے نگاہیں پورے کمرے پر دوڑائی تھی یہ کمرہ اس کے کمرے سے بڑا تھا مگر خوبصورت نہیں۔۔۔۔ بلیک کلر کی تھیم کو دیکھ کر اس نے ناپسندیدگی سے اپنی ناک سکیڑی تھی۔
’’میم چلے؟‘‘ میڈ کی آواز اسے ہوش میں لائی تھی۔
سر اثبات میں ہلاتے وہ بستر سے نکلتی، گرتی پڑتی خود کو سنبھالتی میڈ کی جانب بڑھی تھی جب اچانک راستے میں قدم رکے تھے۔
قد آور آئینے کے سامنے کھڑے اس نے پھیلی آنکھوں سے اپنے کپڑوں کو دیکھا تھا۔۔۔ اس وقت وہ پنک کلر کے نائٹ ڈریس میں ملبوس تھی۔
’’ییی۔۔۔۔۔۔یہ؟‘‘ ہچکچا کر اس نے اپنے حلیے کی جانب اشارہ کیا تھا۔
’’وہ کل رات میں نے چینج کیے تھے۔‘‘ میڈ اس کی ہچکچاہٹ سمجھتے بولی تھی جس پر سر ہلاتے وہ میڈ سے پوچھتی واشروم میں داخل ہوئی تھی۔
فریش سی وہ میڈ کی سنگت میں ڈائنگ ہال میں آئی تھی جہاں سنان بلیک کافی کے سپ لیتا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
’’سر۔۔۔۔۔‘‘ میڈ کی آواز پر اس نے ان کی جانب دیکھا تھا جب نظر میڈ کے پیچھے کھڑی انگلیاں چٹخاتی زویا پر پڑی تھی۔
’’تم جاؤ! اور تم یہاں بیٹھو!‘‘ میڈ کو جانے کا اشارہ کرتا وہ زویا کی جانب متوجہ ہوا تھا جس کے چہرے کا رنگ اس کی بات سن کر اڑ گیا تھا۔
’’رک جاؤ!‘‘ جاتی میڈ کا ہاتھ زویا نے خوف سے تھام لیا تھا جس پر وہ رک گئی تھی۔
’’کیا تم نے سنا نہیں میں نے کیا کہا ہے؟‘‘ سنان شاہ کی سپاٹ آواز پر وہ میڈ معافی طلب نگاہوں سے زویا کو دیکھتی وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ اس کی آنکھیں بھر آئی تھی۔
’’بیٹھو!‘‘ اب کی بار وہ فورا حکم پر عمل کرتی وہاں بیٹھ گئی تھی۔
سر اور نظریں دونوں جھکائے وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی جب پانچ منٹ تک کوئی آواز نہ آئی تھی اسے۔
’’تم کون ہو اور یہاں تک کیسے پہنچی؟‘‘ زویا نے سر اٹھائے اسے دیکھا تھا جس کی نظریں اسی پر ٹکی تھی۔ اس کی نظروں سے خوف کھاتی وہ پھر سے سر جھکا گئی۔
’’سوال کیا ہے تم سے میں نے۔۔۔۔۔۔ کون ہو تم اور میرے گھر تک کیسے پہنچی؟‘‘ کوئی جواب دیے بنا اس نے انگلیاں چٹخانہ شروع کردی تھی۔
’’اب اگر ایک منٹ تک تم نے مجھے کوئی جواب نہ دیا تو میں تمہیں وہی چھوڑ آؤں گا جہاں سے تم آئی ہو!‘‘ سنان کی بات سن کر اس کے چہرے پر خوف چھا گیا تھا۔
’’نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔پپ۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ سسکی تھی۔
’’تو پھر بتاؤں کیسے آئی تم یہاں! اور کون ہو تم؟‘‘
’’زز۔۔۔زویا نام ہے میرا۔۔۔۔۔‘‘ اس کی بات سن کر سنان نے ایک گہری سانس اندر کھینچی تھی۔
’’زویا!‘‘ سنان مسکرایا تھا
’’اب دوسرا سوال یہاں کیسے پہنچی۔۔۔۔۔ اور تم وہاں کیا کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ اس پارٹی میں؟‘‘ یکدم اس کا لہجہ سخت ہوا تھا۔
سنان شاہ کی بہن اور ایک ایسی جگہ پر!!
ہچکچاتے اس نے سر اٹھائے سنان کو دیکھا تھا جو اسے ہی گھور رہا تھا اور پھر سر جھکائے آہستہ آواز میں بولنا شروع ہوگئی تھی۔
’’اا۔۔۔۔اسی لیے میں، میں وہاں سے بھاگ آئی۔۔۔آپ۔۔۔۔پپ۔۔۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔مجھے واپس نہ بھیجو!‘‘ اس نے منت بھرے انداز میں سر اٹھائے سنان کو دیکھا جس کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئی تھی۔
’’اس عورت کا نام کیا ہے جو تمہیں بیچنے والی تھی؟‘‘ مگ پر گرفت سخت کیے اس نے لہجہ حد درجہ نارمل رکھا ہوا تھا۔
’’مم۔۔۔میم؟‘‘ جھجھکتے اس نے سوال کیا
’’ہوں!‘‘
’’مم۔۔۔۔مرینہ۔۔۔۔۔۔مرینہ چوہان!‘‘ نام ادا کرتے وہ دوبارہ سر جھکا گئی تھی جب کہ سنان شاہ پر سکتہ طاری ہوگیا تھا۔
اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا جب کی ذہن کہی دور، کسی پرانے حادثے کی جانب چلا گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ کتنی پیاری ہے بالکل سنو وائٹ جیسی!‘‘ سات سال کے جہانگیر نے بڑی بڑی آنکھوں سے ایک ماہ کی زویا کا گال چھوا تھا۔
’’یہ سنو وائٹ نہیں مانو بلی ہے!‘‘ پانچ سال کی گڑیا ناک پر غصہ چڑھائے بولی تھی۔
’’نہیں یہ سنو وائٹ ہے۔۔۔۔۔۔ دیکھو کتنی وائٹ ہے یہ۔۔۔۔۔۔ تمہاری طرح کالی نہیں!‘‘ اس کے بھرے بھرے گالوں کو چھوتے جہانگیر نے گڑیا کے گندمی رنگ پر چوٹ کی تھی۔
پل بھر میں گڑیا کی آنکھیں اس کی بات سن کر بھر آئی تھی اور منہ کھولے وہ اونچا اونچا رونا شروع ہوگئی تھی۔
’’گڑیا کیا ہوا؟‘‘ سنان جو اپنے دوستوں کے ساتھ اسے روتے دیکھ پریشانی سے اس کے پاس بھاگ کر آیا تھا۔
گڑیا نے روتے ہوئے بنا کوئی جواب دیے جہانگیر کی جانب انگلی کی تھی جو اس کے رونے کی ذرا پروا نہ کرتے زویا کے اوپر جھکا ہوا تھا۔
’’یہ آنکھیں کیوں نہیں کھول رہی؟ کیا اندھی ہے؟‘‘ اس کی دونوں آنکھوں باری باری کھولے جہانگیر نے ان میں جھانکا تھا
اس کے یوں کرنے سے ایک ماہ کی زویا نے اپنا سر تھوڑا سا ہلا کر اسے خود سے دور کرنا چاہا تھا۔
’’اٹھ کیوں نہیں رہی!‘‘ اب کی بار جہانگیر نے اس کے گال پر زور سے چٹکی کاٹی تھی جس کے نتیجے میں زویا نے رونا شروع کردیا تھا، اب کی بار جہانگیر بھی گھبرا گیا تھا۔
’’یہ کیا کیا تم نے!‘‘ پہلے گڑیا اور اب زویا، ایک پل میں سنان کا دماغ گھوما تھا اور اس نے ایک زور کا تھپڑ جہانگیر کے منہ پر مارا تھا، نتیجتا اب وہ بھی رونا شروع ہوگیا تھا۔
ان تینوں کے رونے سے وہاں موجود باقی سب بچے پریشان ہوگئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ سر جھکائے سب سے ایکسکیوز کیے سنان اب بڑوں کی جانب اپنی ماں کو ڈھونڈنے کو بڑھا تھا۔
’’بابا!!۔۔۔۔۔ ماما کہاں ہے؟‘‘ شہباز شاہ جو کہ ویلیم چوہان سے گفتگو میں مصروف تھے، مسکرا کر اپنے بیٹے کی جانب دیکھا تھا
’’وہ۔۔۔۔۔ جاؤ کمرے میں دیکھو۔۔۔۔۔۔۔ شائد واشروم گئی ہے!‘‘ ان کی بات سنتا سر اثبات میں ہلائے وہ نیلم کو ڈھونڈتا کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
’’ماما!!‘‘ وہ چلاتا نیلم کی جانب بھاگا تھا جس کی گردن مرینہ کے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔
’’چھوڑو میری ماما کو!‘‘ اس نے مرینہ کو پیچھے دھکا دینے کی کوشش کی تھی مگر ناکام ٹھہرا
’’بابا!!‘‘ اس کی چیخ سن کر شہباز اور ویلیم دونوں بھاگتے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
اپنی بیوی کی ایسی حالت دیکھ کر شہباز کی آنکھیں پھیل گئیں تھی۔
’’نیلم!‘‘ مرینہ کو نیلم سے دور کھینچے انہوں نے نیلم کو سنبھالا تھا جس کی حالت دم گھٹنے کی وجہ سے خراب ہوگئی تھی۔
’’مرینہ!‘‘ ویلیم نے مرینہ کو پیچھے سے تھاما تھا جو ایک بار پھر حملہ کرنے کو تیار تھی۔
’’ہوش میں آؤ مرینہ!‘‘
’’میں اسے چھوڑو گی نہیں۔۔۔۔ اس نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا سب کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب نہیں۔۔۔۔۔۔ شہباز کو بھی چھین لیا مگر اب میں اسے واپس لیکر رہوں گی۔۔۔۔۔ مار ڈالوں گی میں اسے۔‘‘
اس سے پہلے وہ پھر سے حملہ کرتی شہباز کی جانب سے پڑتے زور دار تھپڑ پر اس کے قدم ٹھٹھکے تھے۔
’’ابھی کے ابھی، ابھی کے ابھی ویلیم اپنی اس پاگل بیوی اور بیٹے کو لیکر دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کر بیٹھوں!‘‘ سخت لہجے میں ویلیم کو تنبیہ کرتے وہ دوبارہ نیلم کی جانب بڑھے تھے جو منہ پر ہاتھ روکے اپنی سسکیاں گھونٹ رہی تھی۔
’’نیلم۔۔۔۔‘‘
’’تمہیں نہیں چھوڑو گی، کسی کو بھی نہیں چھوڑو گی۔۔۔۔۔۔ ختم کردوں گی سب کو۔۔۔۔۔۔ مار ڈالوں گی!۔۔۔۔۔۔تم سب کو جلا کر راکھ کردوں گی‘‘ پاگلوں کی طرح چیختی چلاتی وہ ویلیم کی گرفت میں مچلتی ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تھی۔
’’شش۔۔۔۔شہباز۔۔۔‘‘ خوف سے نیلم کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا
’’ششش۔۔۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ وہ بس دھمکیاں دے رہی ہے۔‘‘ نیلم کو اپنے ساتھ لگائے شہباز نے اسے سنبھالا تھا۔
مگر اس نے اپنا کہا سچ کردکھایا تھا۔
آج تین سال بعد وہ اس جلتے گھر کو دیکھ رہا تھا جو کبھی اس کا آشیانہ ہوا کرتا تھا
اٹھارہ سالا سنان کی نظروں کے سامنے سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا تھا، اس کے ماں باپ، اس کی بہنیں۔۔۔۔۔۔ اس کا گھر بار سب کچھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی آنسو اپنے اندر اتارے اس نے زویا کو دیکھا تھا جو ابھی تک نظریں جھکائے انگلیوں سے کھیلنے میں مگن تھی۔
’’ناشتہ کرلو!‘‘ اس کا سر تھپتھپائے وہ بنا کچھ بولے، کہے وہاں سے چلا گیا تھا جس پر زویا نے پرسکون سانس خارج کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھیں کھولے اس نے ایک بار خود کو اسی کمرے میں پایا تھا جہاں معتصیم اسے پہلے لایا تھا مگر اب کی بار اس کی آنکھیں بالکل خالی تھیں۔
’’یہ کون سی جگہ ہے؟‘‘ خود سے بولتی، بستر سے نکلتی وہ دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
دوائی نے اپنا اثر دکھایا تھا اور وہ ایک دن پہلے ہوئے حادثے کو مکمل طور پر بھول چکی تھی۔
پورے ولا میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
بالوں میں ایک بار پھر خارش کرتے وہ لاؤنج تک آئی تھی جب راستے میں نظر آتی میڈ کو دیکھ کر اس کے قدم رکے تھے۔
’’ارے میم آپ؟ کچھ چاہیے؟‘‘ میڈ کے پوچھنے پر ماورا نے اچھنبے سے سر موڑے اپنے پیچھے دیکھا تھا مگر کسی کو نا پاکر یقین ہوگیا تھا کہ وہ اس سے ہی بات کررہی تھی۔
’’میں؟‘‘ اس نے انگلی سے اپنی جانب اشارہ کیا تھا۔
’’جی میم میں آپ سے ہی مخاطب ہوں!‘‘ میڈ نرمی سے بولی تھی۔
ایک بار پھر بالوں میں خارش کرتے اس کے ماتھے پر کئی بل در آئے تھے۔
اسے یہاں کون لایا تھا۔۔۔۔ اور کیوں؟ جو بھی تھا اسے یہاں سے نکلنا ہر صورت، ہر قیمت پر۔۔۔۔۔۔ آخری واقعہ جو اس کے ذہن میں درج تھا وہ چھوٹے شیطان کے ساتھ مل کر کی گئی چوری تھی۔
چھوٹے شیطان کو یاد کرکے اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔۔۔۔۔ وہ اسے ضررو ڈھونڈ رہا ہوگا۔
میڈ کو اگنور کرتی وہ داخلی دروازے کی جانب بڑھی تھی۔
’’میم، میم۔۔۔۔۔۔ آپ کہا جارہی ہے۔۔۔۔۔ میم بات سنے۔۔۔۔۔ رکیے۔۔۔۔۔۔۔‘‘ میڈ اس کے پیچھے پیچھے باہر نکلی تھی۔
ماورا کی چال میں واضع تیزی آئی تھی، اس سے پہلے میڈ گارڈز کو اسے پکڑنے کو کہتی وہ ایک گارڈ کو دھکا دیے وہاں سے بھاگ نکلی تھی۔
’’سر کو بتانا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ورنہ وہ مجھے چھوڑے گے نہیں!‘‘ خود سے بڑبڑاتی وہ سٹڈی روم کے ساتھ موجود کافیڈینشل روم کی جانب بھاگی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’فہام جونیجو!‘‘ سپاٹ چہرہ لیے معتصیم آفندی نے ہاتھ آگے بڑھایا تھا جسے فہام جونیجو نے مسکرا کر تھام لیا تھا۔
’’تم سے مل کر خوشی ہوئی معتصیم آفندی!‘‘
’’مجھے بھی ہوتی اگر تم ہمارے دشمنوں سے نا مل چکے ہوتے۔‘‘ معتصیم کے چبھتے لہجے پر وہ کھل کر ہنسا تھا۔
’’میں جانتا تھا کہ تم تک خبر پہنچ چکی ہوگی، اسی لیے ایک ڈیل لایا ہوں تمہارے لیے۔‘‘ اس کے سامنے بیٹھا وہ کروفر سے بولا تھا
’’کیسی ڈیل؟‘‘ معتصیم آفندی نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا تھا۔
’’ارے بیٹھو گے تو بتاؤں گا!‘‘ اس کے اشارے پر معتصیم ناچاہتے بھی بیٹھ گیا تھا۔
’’میں جانتا ہوں کہ تمہیں اور شبیر زبیری دونوں کو وہ کلب کسی بھی حال میں چاہیے۔۔۔۔۔۔۔ تم دونوں نے اپنی جانب سے، اپنی طاقت لگا کر وہ کلب حاصل کرنا چاہا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’یہ سب معلوم ہے مجھے کام کی بات پر آؤ‘‘ معتصیم کے بات کاٹنے پر فہام جونیجو نا چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا تھا
’’ڈیل بہت سمپل ہے۔۔۔۔ تمہیں میرے لیے ایک انسان کو ڈھونڈنا ہے۔۔۔۔ یہی ڈیل میں نے شبیر زبیری سے بھی کی ہے۔۔۔۔۔۔ دونوں میں سے جس نے پہلے ڈھونڈ لیا، کلب اس کا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ڈھونڈنا کسے ہے؟‘‘ معتصیم کے سوال پر اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی
’’اسے!‘‘ ایک لفافہ اس نے معتصیم کی جانب بڑھایا تھا۔
لفافے کو دیکھتے ایک نظر فہام پر ڈالے اس نے وہ لفافہ کھولا تھا۔
’’یہ۔۔۔۔۔‘‘ اندر موجود تصویر دیکھ کر اس کی آنکھیں باہر کو آگئیں تھی۔
’’سر۔۔۔۔۔سر وہ میم۔۔۔۔۔ وہ بھاگ گئی ہے۔‘‘ میڈ کی مداخلت پر وہ اپنی جگہ سے اچھلا تھا
’’کیا؟ اور تم اس وقت کہا تھی کیا مر گئی تھی؟‘‘ وہ پوری قوت سے چلایا تھا۔
’’سس۔۔۔۔۔سوری سر!‘‘ سر جھکائے اس نے معافی مانگی تھی۔
’’فہام جونیجو۔۔۔۔۔۔ معاف کرنا مگر ابھی مجھے جانا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر کبھی تم سے ملاقات ہوگی۔۔۔۔۔۔ چائے پی کر جانا!‘‘ تیزی سے کوٹ پہنے وہ وہاں سے نکل گیا تھا جب کہ چائے کی چسکی لیتے فہام نے چیل جیسی نگاہوں سے اس کی پشت کو گھورا۔
’’آہ یہ معاملہ محبت۔۔۔۔۔ بڑا جانلیوا ہوتا ہے!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لندن کی سڑکوں پر گاڑی دوڑاتے اس کی نظروں آس پاس موجود نظاروں پر بھٹک رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ماتھے پر موجود سلوٹیں مزید گہری ہوگئی تھی۔
’’اللہ جانے اب یہ لڑکی کہاں چلی گئی تھی!‘‘ بےبسی سے سوچتے اچانک اس کے دماغ میں ایک جگہ آئی تھی۔
گاڑی موڑے اس نے کلب کے راستے پر ڈالی تھی، پندرہ منٹ بعد وہ اسی گلی کے سامنے موجود تھی جہاں دو دن پہلے وہ ماورا سے ملا تھا۔
گاڑی لاک کرتا وہ اس گلی میں داخل ہوا تھا، جہاں عجیب و غریب، بے ڈھنگ حلیے، کئی نشئی اور اوباش لوگ موجود تھے، ان سب پر ایک حقیر نگاہ ڈالے وہ کوڑے دان تک پہنچا تھا جہاں ماورا کو اس نے دیکھا تھا۔
’’تم چھوٹے شیطان۔۔۔۔۔ چھوڑو گی نہیں میں تمہیں!‘‘ اچانک اسے دوسرے جانب سے کسی کے ڈانٹنے کی آواز سنائی دی تھی، پل بھر میں آواز پہچانتا وہ اس جانب بھاگا تھا جہاں ہاتھ میں لکڑی پکڑے وہ اسے چھوٹے شیطان کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھی جو ہانپتا کانپتا اس نے بچنے کی کوشش کررہا تھا۔
چند لمحوں کے لیے ایک مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئی تھی جب وہ چھوٹا شیطان بھاگتا ہوا معتصیم میں ٹکڑایا تھا۔
سر جھکائے معتصیم نے اس چھوٹے شیطان کو دیکھا جو اس کی دونوں ٹانگوں کو پکڑے بچنے کی ناممکن سی کوشش میں تھا۔
’’کون ہو تم؟‘‘ راستے میں موجود اس مرد کو دیکھتے ماورا نے آنکھیں سکیڑے سوال کیا تھا، جس نے فورا سر اوپر اٹھایا تھا
’’معتصیم؟‘‘ نایقین لہجے میں بولتے ڈنڈا اس کے ہاتھ سے زمین پر گرگیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یہ کام تو میری سوچ سے بھی زیادہ آسان تھا!‘‘ زمین پر موجود اس بےجان وجود کو دیکھتے وائے۔ذی مسکرایا تھا۔
یہ کلب کا پیچھلا حصہ تھا جہاں دن کے اس وقت بھی کوئی زی روح موجود نہ تھا۔
’’اب وقت آگیا ہے معتصیم آفندی کے تم سے بھی روبرو مل لیا جائے!‘‘ مسکراتا وہ سیٹی کی دھن بجاتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا؟‘‘ عالیہ کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا تھا
بےیقینی میں تو وہاں موجود ہر شخص تھا۔
’’کیا ہوگیا بھئی سب لوگ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں جیسے میں نے کوئی ناممکن سی بات کردی ہو!‘‘ شبیر زبیری نہایت عام لہجے میں بولے تھے۔
’’آر۔۔۔۔آر یو سیریس ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔ سچ میں؟‘‘ حماد کا خوشی کے مارے برا حال تھا
’’یس مائی سن ہنڈرڈ پرسنٹ۔۔۔۔۔۔۔ کل میں نے بہت سوچا۔۔۔۔۔۔ جب تم اور شزا میرے لیے اتنا کچھ کر سکتے ہو تو کیا میں تم دونوں کے لیے اتنا سا بھی نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔۔ بس اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کمنگ ویک میں جمعہ کے بابرکت دن پر تمہارا اور شزا کا نکاح کردیا جائے۔۔۔۔۔۔کوئی اعتراض؟‘‘
’’نو ڈیڈ۔۔۔۔۔ ناٹ ایٹ آل!‘‘ خوشی سے مسکراتا وہ ان کے گلے لگ گیا تھا۔
’’تھینک۔۔۔۔تھینک یو سر!‘‘ شزا کی آواز خوشی سے کپکپائی تھی۔
’’خوش رہو!‘‘ اس کا سر تھپتھپائے وہ اپنی بیوی کو اشارہ کرتے وہاں سے چلے گئے تھے۔
عالیہ بھی جلتی بھنتی پیر پٹخے وہاں سے نکل چکی تھی۔
’’ح۔۔حماد!‘‘ اس نے حماد کو پکارا تھا جس نے فورا اسے باہوں میں اٹھائے گول گول گھمایا تھا۔
’’حماد!‘‘ اس کی ہنسی اور خوشی سے بھرپور آواز پورے ولا میں گونجی تھی۔
’’آئی ایم سو ہیپی۔۔۔۔۔۔سو ہیپی میری جان۔۔۔۔۔۔ فائنلی!!۔۔۔۔۔۔۔۔ فائنلی ہم ایک ہونے والے ہیں!‘‘ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ فرط جذبات سے بولا تھا۔
’’فائنل ون!‘‘ وہ بھی خوشی سے گنگنائی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی۔این۔اے رپورٹ ہاتھ میں پکڑے وہ غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ جو ایک پرسنٹ شک تھا وہ بھی ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کی ہی زویا تھی، اس کی بہن، اس کی چھوٹی سی مانو بلی جو اب بہت بڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔
ایک پل میں اس کی آنکھیں بھر آئیں تھی۔۔۔۔۔۔ دل میں جیسے برسو بعد سکون در آیا تھا۔
’’تمہیں تو میں چھوڑو گا نہیں مرینہ چوہان۔۔۔۔۔ نجانے کتنے عرصے سے میں تمہاری تلاش میں تھا۔۔۔۔ اور اب یہ تلاش تمام ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ اب تمہیں اور تمہارے اس بیٹے کو میرے قہر سے کوئی بچا نہیں پائے گے۔۔۔۔۔۔!‘‘ اس کی گرفت رپورٹ پر سخت ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مم۔۔۔۔معتص۔۔۔معتصیم؟‘‘ ڈگمگاتے قدم اٹھاتی وہ اس کی جانب بڑھی تھی۔
’’تم۔۔۔۔تم معتصیم ہو نا؟ میرے معتصیم؟‘‘ اس نے پہلے کی طرح اس کے چہرے کو چھوا تھا
ماورا کا یہ رویہ اسے شک و شہبات میں مبتلا کرگیا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا وہ ان کی کل کی ملاقات کو بھول گئی تھی؟
’’تم۔تم سچ میں ہو نا؟‘‘ اسکی آنکھیں بھر آئیں تھی۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا دماغ میں آتی سوچ اس کے لبوں پر فقل ڈال چکی تھی۔
اب کی بار اس نے انکار نہیں کیا تھا۔
سر اثبات میں ہلائے وہ مسکرایا تھا
’’آخر کار تم نے مجھے ڈھونڈ لیا!‘‘ چھوٹے شیطان کو پیچھے دھکا دیے وہ اس کے گلے لگی تھی۔
’’تم ڈھونڈنا بہت ضرروی تھا میرے لیے!‘‘ اس کا لہجہ نرم جبکہ آنکھیں سخت تھی۔
’’مجھے۔۔۔۔۔مجھے معاف کردو معتصیم!‘‘ اس سے دور ہوئے وہ روتے بولی تھی۔
’’کس لیے؟‘‘ معتصیم نے سوال کیا
اس سے پہلے وہ کوئی سوال کرتی چھوٹا شیطان جو معتصیم کو پہچان چکا تھا اس پر جھپٹ چکا تھا۔
’’چھوٹے شیطان!‘‘ ماورا ہڑبڑا کر چلاتی اسے معتصیم سے دور کرنے کی تگ و دو میں تھی جو اپنے چھوٹے چھوٹے دانت اس کی ٹانگ میں گاڑھ چکا تھا
’’آہ!‘‘ معتصیم چلایا تھا۔
’’سوری!‘‘ ماورا نے فورا اسے دو کھینچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا کہ وہ نہیں ملی؟ زمین کھا گئی یا آسمان!!۔۔۔۔۔۔۔ اسے ڈھونڈو۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈھونڈو اسے۔۔۔ پورا آسٹریلیا چھان مارو مگر اسے ڈھونڈو!‘‘ اس کی دھاڑ وہاں موجود سب لوگوں پر کپکپاہٹ جاری کرچکی تھی۔
’’سر ہم نے میم کو ہر جگہ ڈھونڈا ہے مگر مجھے لگتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا، کیا لگتا ہے تمہیں؟‘‘
’’سر، ضرور کسی نے مدد کی ہے میم کی بھاگنے میں ورنہ وہ یہاں سے کیسے نکلتی؟‘‘ اس بات پر جہانگیر ٹھٹھکا تھا
اس جانب تو اس کا دھیان ہی نہیں گیا تھا۔
ہاں یہ بالکل ٹھیک تھا زویا جیسی کمزور، بزدل اور بیوقوف لڑکی کے لیے یوں بھاگنا ناممکن تھا۔
’’تو پھر کون؟‘‘ وہ خود سے بڑبڑایا۔
’’مارتھا!‘‘ دانت پیستے اس نے نام ادا کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بتاؤ مارتھا تم نے زویا کو کیوں بھگایا؟‘‘ اس کے سامنے صوفہ پر بیٹھے اس سے سخت لہجے میں سوال کیا تھا
’’میں نے میم کو نہیں بھگایا سر۔۔۔۔۔۔ مجھے تو آئیڈیا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ جو بھی کیا ہے انہوں نے خود کیا ہے۔‘‘ مارتھا نے سر جھکائے جواب دیا تھا۔
’’تمہیں کیا میں بےوقوف لگتا ہوں مارتھا؟ وہ اس گھر میں صرف تمہارے قریب تھی۔۔۔۔۔۔ صرف تم ہی جانتی ہو اسے۔۔۔۔۔۔۔ تم سے ہوچھے بنا وہ کچھ نہیں کرسکتی تو اتنا بڑا فیصلہ کیسے لے سکتی تھی وہ؟‘‘ اب کی بار وہ اس کی آواز اونچی ہوگئی تھی۔
’’وہ، وہ شائد ڈر رہی ہو سر!۔۔۔۔۔۔ میم کو یقین تھا اگر وہ مجھ سے ڈسکس کرتی تو میں انہیں منع کردیتی شائد اسی لیے۔۔۔۔‘‘
’’اور کیا تم بتانا پسند کرو گی کہ اسے کس بات کا ڈر تھا؟‘‘
’’وہ۔۔۔وہ مرینہ میم انہوں اس نیلامی میں بیچنے والی تھی۔۔۔‘‘
’’مگر میں مام کو منع کرچکا تھا کال پر۔‘‘ اس نے بات کاٹی تھی۔
’’مگر اس کے بعد نیلامی والے دن میم جب کمرے میں آئی تھی تو انہوں نے مجھے کہا تھا کہ اس نیلامی میں زویا میم بھی ہوگی۔‘‘ مارتھا کی بات پر جہانگیر کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ چکا تھا۔
’’مارتھا جاؤ!‘‘ گہری سانس اندر کھینچے اس نے مارتھا کو جانے کو کہا تھا۔
’’مام۔۔۔مام۔۔۔۔مام۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔۔۔۔۔ ناجانے کہاں ہوگی میری زویا۔۔۔۔۔۔۔ افف بہت معصوم ہے وہ۔۔۔۔۔۔بس ایک بار، ایک بار زویا مجھے مل جائے۔۔۔۔۔۔ ایک بار وہ میری ہوجائے۔۔۔۔۔۔ آپ کو چھوڑوں گا نہیں میں مام!‘‘
’’آہ!!!۔۔۔۔۔۔۔۔زویا!‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔