جہاز کے استنبول اترتے ہی سر فورڈ نے زویا کیلئیے اسٹاف سے ویل چیئر منگوائی ۔زوار بڑے آرام سے اپنی سیٹ سے اٹھا اور فاصلہ سے سر فورڈ کے پیچھے چلتے ہوئے باہر نکلا اس کی عقابی نگاہیں صوفیہ عرف فوکسی کو ڈھونڈ رہی تھیں جب اس کی نظر سامنے بیٹھے بلال پر پڑیں جو کسی نقاب پوش لڑکی کا ہاتھ پکڑے بیٹھا تھا زوار نے ایک تفصیلی نگاہ اس لڑکی پر ڈالی پیروں میں جوگرز پہنے پینٹ میں ملبوس چوکنی بیٹھی لڑکی صوفیہ ہی تھی تبھی بلال کی نظر زویا پر پڑی اور وہ بےاختیار اٹھ کر آگے بڑھا زوار نے تیزی سے اس کی جانب رخ کیا اور اس کے گلے لگ کر صوفیہ کو ہاتھ سے غائب ہونے کا مخصوص اشارہ کیا جسے پہچانتے ہی وہ لمحوں میں وہاں سے غائب ہوگئی بلال کو باہر جانے کا کہہ کر وہ بھی امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھا جب ایک کونے سے اپنے لمبے گھونگریالے بالوں کی اونچی پونی بنائے سفید شرٹ اور جینز میں ملبوس صوفیہ اس کے پاس آئی ۔۔
”کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ٹائم کیا ہے ۔“صوفیہ نے فرنچ آرٹسٹ کے بھیس میں موجود زوار سے پوچھا ۔
”اقبال زندہ ہے ۔“ زوار نے سامنے دیکھتے ہوئے سرسری لہجے میں کہا
”غالب بھی ادھر ہی ہے ۔“ صوفیہ نے کوڈ ورڈ مکمل کیا ۔
”یہ بلال تمہارے ساتھ کیا کررہا ہے ۔“
”یہ بغداد میں ملا تھا اس کا ٹارگٹ پروفیسر کا فارمولا ہے ۔“ وہ بولی
”کیا اسے تمہاری آئیڈنٹیٹی پتہ ہے ۔“
”نہیں سر پر اسے شک ہے۔“صوفیہ نے سنجیدگی سے جواب دیا
”اوکے اور وہ تمہارا پردہ وہ کدھر گیا ۔“
”میجر وہ بلال کی عقل پر پڑگیا ہے اب میں مینج کرلونگی۔“ وہ شرارت سے بولی
لائن آہستگی سے آگے بڑھ رہی تھی ...
”صوفیہ تم اس فورڈ کا پیچھا کرو میں جب تک سیف ہاؤس میں ٹریکنگ ڈیوائسس ہک اپ کرتا ہوں اور اسلحہ کا انتظام کرتا ہوں ۔“
صوفیہ نے اثبات میں سر ہلایا پونی کھول کر بال چہرے پہ گرائے جن سے اس کا آدھا چہرہ چھپ گیا تھا اور ببل گم چباتی اپنا بیگ کندھے پر لٹکائے آگے بڑھ گئی ۔۔۔
**********************************************
سر فورڈ زویا کو لیکر آگے بڑھ رہے تھے جب انہیں زویا کے کراہنے کی آواز آئی وہ ویل چیئر رکوا کر گھٹنوں کے بل اس کے پاس جھکے ۔۔
”سلویا بےبی ویک اپ“
وہ زویا کے گال تھپ تھپا رہے تھے جب انہیں عجیب سا احساس ہوا انہوں نے غور سے زویا کو دیکھا اس کے گلے میں پڑا نازک سا ڈائمنڈ کا لاکٹ عجیب سا تھا بہت عجیب انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اسے چھوا تو اس لاکٹ میں سے وائبریشن سی نکلتیں محسوس ہوئی وہ چہرے پہ تفکر لئیے کھڑے ہوگئے ۔۔۔
باہر نکلے تو ایک سوٹ میں ملبوس تیس سالہ اچھی بلند قدوقامت کا جوان ان کی طرف بڑھا ۔۔
” ویلکم ٹو میونخ سر فورڈ ۔“
سر فورڈ نے اس جوان کو توصیفی نگاہوں سے دیکھا اور جوناتھن اور زویا کا تعارف کروایا ۔
”مسٹر بنجامن آپ ادھر واٹ آ سرپرائز ۔۔۔یہ جوناتھن ہے میرا رائٹ ہینڈ اور یہ گڑیا میری نواسی سلویا فورڈ جونئیر “
جوناتھن سے ہاتھ ملا کر بنجامن زویا کی جانب مڑا جو نیم بیہوش تھی ۔۔۔
”واٹ آ بیوٹی سر فورڈ آپکی نواسی تو تل ابیب کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دے گی۔“ وہ زویا کو گھورتے ہوئے بولا ۔
”مسٹر بنجامن اب چلیں ۔“ سر فورڈ نے اس کا ارتکاز توڑا ۔
”سر فورڈ پلیز آپ مجھے اتنے تکلف سے مت پکاریں خالی بنجامن کہہ کر پکاریں ۔“ وہ کھڑا ہوتے ہوئے ادب سے بولا اور ان کو لیکر آگے بڑھا ۔
صوفیہ گم چباتی جیب سے چپ نکال بنجامن اور جوناتھن کے پاس سے گزرتے ہوئے بڑی مہارت سے چپ کو منہ سے گم نکال کر اس میں چپکاتے ہوئے جوناتھن سے ٹکرائی۔
” آئی ایم ویری ساری ڈارلنگ ۔“ بڑی ادا سے سوری کرتے ہوئے وہ اس کے کوٹ پر گم چپکا چکی تھی ۔۔۔۔
جوناتھن نے مسکرا کر اس دلکش حسینہ کو راستہ دیا اور بنجامن کے ساتھ پارکنگ کی طرف بڑھا جہاں بنجامن کی وین پارک تھی ۔
*********************************************
زوار تیز قدم اٹھاتا ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف بڑھا جہاں بلال اس کا انتظار کررہاتھا زوار کو تیزی سے آتے دیکھ کر اس نے ہائر کی ہوئی ٹیکسی کا دروازہ کھولا زوار نے اندر بیٹھتے ہی ڈرائیور کو ایڈریس بتایا ۔۔۔
بلال اور زوار دونوں بڑی خاموشی سے منزل پر پہنچنے کا انتظار کررہے تھے ٹیکسی پندرہ منٹ کے بعد زوار کے بتائے ایڈرس پر رکی بل پے کرکے ٹیکسی کے روانہ ہونے کے بعد دوسری اسٹریٹ کی طرف واقع ٹاؤن ہاؤس کی طرف بڑھے ۔۔۔
ٹاؤن ہاؤس میں سے ایک ادھیڑ عمر آدمی باہر نکلا کوڈ ورڈز کا تبادلہ ہوا ۔
”میجر میں یہاں کا لوکل ایجنٹ ہوں یہ سیف ہاؤس آپ کیلئیے ارینج کیا ہے ۔“ وہ انہیں اندر لاتے ہوئے بولا ۔
” میجر یہ دیوار کھوکھلی ہے ۔“ یہ کہہ کر اس نے دیوار پر دباؤ ڈالا تو وہ گررر کی ہلکی سی آواز کے ساتھ کھل گئی ۔۔
اندر خانے بنے ہوئے تھے جن میں گنز گولیاں کمپیوٹرز کیمرے ٹرانسمیشن ڈیوائس اور بھی طرح طرح کا جدید اسلحہ رکھا ہوا تھا زوار اور بلال نے گنز چیک کیں اور اس لوکل ایجنٹ کا شکریہ ادا کیا وہ سر خم کرتا باہر کھڑی گاڑی کی چابی انہیں تھماتا وہاں سے روانہ ہوگیا ۔۔۔
اس کے جانے کے بعد زوار اور بلال آمنے سامنے بیٹھے ۔۔۔۔
”زوار بھائی یہ سب کیا ہے زویا بہن جوناتھن کے ساتھ اور آپ اتنے اطمینان سے بیٹھے ہیں ۔“ بلال نے اتنی دیر سے دماغ میں کلبلاتا ہوا سوال پوچھا ۔
”زویا کی حفاظت کیلئیے ایجنٹ فوکسی ہے وہ اسوقت سر فورڈ کا پیچھا کررہی ہے ابھی ہمیں ان پر صرف نظر رکھنی ہے ۔“ زوار بولا
”مگر کیوں اس طرح تو زویا سسٹر خطرے میں رہینگی۔ “بلال نے کہا
”سر فورڈ زویا کا نانا ہے وہاں زویا کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی وہ زویا کو چارہ بنا کر پروفیسر شبیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور ہم ان کا شکار چھین کر واپس پاکستان لے جانا چاہتے ہیں ۔“ زوار نے بلال کو اپنا ارادہ بتایا ۔
”ہم کیا مطلب آپ کے ساتھ اور کون ہے ۔“ بلال نے پوچھا
” میں اور میری اسٹنٹ ایجنٹ فوکسی ۔“ زوار بلال کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا
”فوکسی یہ کون ہے زوار بھائی میں نے یہ نام تو ایجنسی میں کبھی نہیں سنا ۔“بلال کے لہجے میں تجسس تھا ۔
”جس کے ساتھ تم ائیرپورٹ پر بیٹھے تھے وہ فوکسی ہے ۔“ زوار نے اطمینان سے جواب دیا
اس سے پہلے بلال کچھ پوچھتا زوار کا فون بلنک کرنے لگا ۔۔۔
زوار نے اپنا فون جو کہ فون کی شکل کی ٹرانسمیشن ڈیوائس تھی آن کی ۔۔۔
”میجر اٹس فاکسی رپورٹنگ یہ لوگ جھیل کے کنارے بنی ایک بڑی عمارت میں پہنچ چکے ہیں ۔“
یہ کہہ کر فاکسی نے ایڈرس بتایا ۔
”اوکے تم وہی رک کر نگرانی کرو میں شہر سے دور جہاں پروفیسر کی موجودگی کا کلیو ملا تھا جا رہا ہوں کوئی بھی ایمرجنسی ہو تو مجھے فوراً رابطہ کرنا “ اوور اینڈ آل ۔۔۔
زوار کے رابطہ منقطع کرتے ہی بلال بول اٹھا ۔۔۔
”زوار بھائی کیا میں آپ کو اسسٹ کرسکتا ہوں ۔“
”بلال اب تم میجر ہو برادر ۔۔بلکل کرسکتے ہوں پر اسسٹنٹ نہیں پارٹنر بن کر۔۔“ زوار نے اسے تھپکی دی ۔
” کیا فوکسی ۔۔۔“ بلال نے بات ادھوری چھوڑ کر زوار کو دیکھا ۔۔
”میجر بلال یہ پہیلی تمہیں خود حل کرنی ہوگی ۔“ یہ کہہ کر بلال کو ساتھ آنے کا اشارہ کرکے باہر نکل گیا اس کا اردہ دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع اسٹیٹ کی طرف جانے کا تھا جہاں کسی سائنٹسٹ کی رہائش گاہ کے بارے میں پتہ چلا تھا۔
********************************************
بنجامن سر فورڈ جوناتھن اور زویا کو لیکر ایک بڑی سی اسرائیلی تنظیم کی رہائشی عمارت پہنچ چکا تھا زویا اب ہوش میں آچکی تھی اور انتہائی پریشانی سے اس عمارت اور سب لوگوں کو دیکھ رہی تھی جب سر فورڈ نے اسکا ہاتھ تھاما اور اسے لیکر اندر کی طرف بڑھے۔۔۔
بنجامن کے اشارے پر ملازم آگے بڑھے اور ان تینوں کو ان کے کمرے دکھائے زویا کو ایک بیڈروم میں چھوڑ کر آرام کرنے کی نصیحت کرکے سرفورڈ دوسرے کمرے میں چلے گئے اور ملازم سے بنجامن کو بلا کر لانے کا حکم دیا۔۔۔
تھوڑی ہی دیر بعد بنجامن دروزہ ناک کرکے اندر داخل ہوا ۔۔
”جی سر فورڈ آپ نے یاد کیا خیریت ۔“ وہ اندر آتے ہوئے بولا
”بنجامن کیا یہاں کوئی ٹیکنالوجی کا ماہر بندہ مل سکتا ہے ۔“ سر فورڈ نے پوچھا
”خیریت تو ہے سر ۔“
”آج ائیرپورٹ پر جب میں اپنی نواسی کو چیک کررہا تھا تو اس کے گردن میں پہنا ہوا لاکٹ وائبریٹ کررہا تھا مجھے اس لاکٹ کو چیک کروانا ہے ۔“ سر فورڈ نے کہا
”ابھی تو کوئی ماہر بندہ موجود نہیں ہے مگر میں بھی ایک ٹرینڈ آفیسر ہوں اگر آپ کی اجازت ہو تو میں چیک کر لیتا ہوں ۔“بنجامن نے اجازت طلب کی اور سر فورڈ کے اثبات میں ہلتے سر کو دیکھتے ہوئے باہر نکل کر زویا کے کمرے کی جانب بڑھا۔۔۔۔
زویا اس بڑے وسیع کمرے میں کھڑی زوار کو سوچ رہی تھی اس کے چہرے پہ گہری سوچ کی پرچھائیاں رقص کررہی تھیں۔۔۔۔
”میجر سر پلیز جہاں بھی ہیں جلدی آجائیں ۔“وہ دل سے زوار کو پکار رہی تھی جب اس کے روم کا دروازہ ناک ہوا
بنجامن بڑے بڑے قدم اٹھاتا ہوا زویا کے کمرے کی جانب بڑھا دروازے پر ناک کرکے ناب گھمائی اور اندر داخل ہوگیا ۔۔
کمرے کے وسط میں آنکھیں بند کئیے زویا کھڑی تھی بلیک جینز اور میرون کرتے میں ملبوس سانچے میں ڈھلا سراپا سنہرے بالوں کے درمیان جگمگاتا چہرہ ۔۔۔بنجامن کو اس کے معصوم حسن کے آگے اپنا دل ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا ۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا ۔۔
دروازے پر ناک کی مدھم سی آواز زویا کے کانوں تک نہیں پہنچی تھی وہ آنکھیں بند کئیے زوار کو یاد کررہی تھی اسے پکار رہی تھی جب اسے اپنے قریب کسی کی موجودگی کا احساس ہوا اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں تو ایک ہینڈسم سا سفیدم فام جو ائیرپورٹ سے ان کے ساتھ تھا سامنے کھڑا اسے پر شوق نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ تیزی سے گھبرا کر پیچھے ہٹی ۔۔
”ہیلو بےبی سلویا میں بنجامن ہوں ڈرو مت میں تمہارا دوست ہوں ۔“ بنجامن اسے گھبراتا ہوا دیکھ کر آرام سے بولا ۔۔
زویا نے ہمت جمع کی وہ میجر زوار کی منکوحہ اس کی امانت تھی جب تک زوار اسے لینے نہیں آتا اسے کمزور نہیں پڑنا تھا ۔۔
” میرا نام سلویا نہیں ہے میں ۔۔۔“
بنجامن نے تیزی سے آگے بڑھ کر اس کے سرخ بولتے لبوں پر انگلی رکھی ۔۔۔
”بےبی تمہارا نام زویا ہے میں جانتا ہوں مجھ سے کچھ چھپا نہیں ہے لیکن تم بھی یہ بات اپنے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو کہ تم میڈم سلویا کی بیٹی ہو اور ہم اپنی عزت کسی مسلمان کے حوالے نہیں کرسکتے ہیں لہذا اب تم مس سلویا فورڈ جونئیر ہو اور بہت جلد مسز سلویا بنجامن بنو گی ۔“ بنجامن نے قطعی لہجے میں کہا ۔۔
زویا نے ایک جھٹکے سے بنجامن کا ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹایا اور اپنے لبوں کو ایسے رگڑا جیسے گندگی صاف کی ہوں ۔۔
” مسٹر میں مسز زویا زوار ہوں اور مسز زویا زوار رہونگی تم بھی اپنی حد میں رہو ورنہ میرے ہسبنڈ تمہیں زندہ نہیں چھوڑینگے ۔“ زویا نے مضبوطی سے کہا
”مس سلویا ابھی تم سترہ برس کی ہو اور اس عمر میں ہوئی شادی ہمارا قانون نہیں مانتا خیر میں آج ہی سر فورڈ سے ہمارے رشتے کی بات کرتا ہوں اور تم شام کو میرے ساتھ ڈیٹ پر جانے کیلئیے تیار رہنا ۔۔“ بنجامن نے قطعی لہجے میں کہا ۔
زویا بنجامن کی بات پر ساکت کھڑی تھی اسے اپنے نانا پر بالکل بھروسہ نہیں تھا تبھی بنجامن اس کے مزید قریب آکر اس کی گردن کو غور سے دیکھنے لگا ۔۔۔
”کیا بدتمیزی ہے دور ہٹو ۔۔“ زویا چلائی اور اسے دھکا دیا
ً”یہ لاکٹ تمہیں کس نے دیا ہے ۔“ بنجامن اس کی گردن میں لپٹے لاکٹ پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا
”یہ میری مام کا لاکٹ ہے ان کی نشانی ہے “ زویا نے جواب دیا
”ٹھیک ہے تم یہ لاکٹ میرے حوالے کردو میں چلا جاتا ہوں ۔۔“ وہ بولا
”یہ لاکٹ اس کا لاک فکس ہے تاکہ میں اسے کھو نہ دوں میں چاہوں بھی تو اسے نہیں اتار سکتی ۔“ وہ بنجامن کے ہاتھ اپنی گردن کی طرف بڑھتے دیکھ کر بول اٹھی ۔
بنجامن نے ایک نظر بغور زویا کو دیکھا وہ اسے اپنے سے متنفر نہیں کرنا چاہتا تھا پر لاکٹ بھی مشکوک لگ رہا تھا چند لمحے کچھ سوچنے کے بعد اس نے زویا کا ہاتھ پکڑا اور اسے لیکر اس بلڈنگ میں موجود سیف روم کی جانب بڑھا زویا نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی پر بنجامن کی فولادی گرفت کے آگے ناکام ہوگئی ۔۔
بنجامن اسے لیکر ایک کمرے میں آیا جہاں دیواروں پر کیمرے اور کمپیوٹرز نصب تھے ۔۔
”تم اب ادھر آرام کرو شام میں خادمہ آکر تمہیں ڈیٹ کیلئیے تیار کردے گی ۔۔“ وہ قطعی لہجے میں کہتا باہر نکل گیا ۔
اب بنجامن کا رخ سر فورڈ کے کمرے کی طرف تھا اسے انہیں رپورٹ دینی تھی اور ساتھ ہی زویا کو ڈیٹ پر لیجانے کی اجازت مانگنی تھی اتنی دلکش لڑکی اور کڑوڑوں کی جائیداد کی اکلوتی وارث کو وہ اپنے ہاتھ سے نکلنے دینا نہیں چاہتا تھا۔۔
*****************
زوار بلال کو ساتھ لیکر جنوب میں واقع ایک پرائیوٹ اسٹیٹ کی جانب روانہ ہوچکا تھا گاڑی ہائی وے پر دوڑ رہی تھی تبھی زوار کو اپنے فون پر سگنل رسیو ہوا ۔۔
”بلال میرا فون چیک کرو ۔۔۔“ اس نے بلال کو کہا
بلال نے ڈیش بورڈ سے اسکا فون اٹھایا اور کان سے لگایا ۔۔
”میجر زوار ۔۔“ صوفیہ کی آواز آئی ۔
”یس “ وہ زوار کے انداز میں بولا اور فون کو ہینڈ فری پر لگا دیا ۔۔
” اس عمارت کو را کے ایجنٹ بھی مانیٹر کر رہے ہیں تعداد میں چار ہیں دو فرنٹ اور دو بیک پر کیا کرنا ہے ۔“ صوفیہ نے ہدایات مانگی
”ان کا انداز کیا ہے ۔“ بلال نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
”اٹیک کا ارادہ لگ رہا ہے ۔“ صوفیہ نے ہاتھ میں پہنے ٹرانسمیٹر کو گھورتے ہوئے کہا
”نظر رکھو انہیں ہر صورت راستے سے ہٹانا ہے ورنہ ہمارا پلان فیل ہوجائے گا ۔“ زوار نے آگے کی طرف جھک کر اسے ہدایات دیں ۔۔
زوار نے گاڑی کو ہائی وے سے سائیڈ روڈ پر اتارا اور خود نیچے اتر کر بلال کو ڈرائیونگ سیٹ پر آنے کا اشارہ کیا ۔۔
”بلال تم فوکسی کی بتائی ہوئی لوکیشن پر جاؤ را کے ایحنٹوں کو راستے سے ہٹانا ہوگا ورنہ وہاں سارا کھیل خراب کرکے فورڈ کو محتاط کردینگے میں اسٹیٹ کی طرف جاتا ہوں ادھر کسی لیب سے سائنسٹسک کی جاب کا ایڈ آیا تھا میں اسی جاب کے انٹرویو کیلئیے جارہا ہوں۔۔“زوار نے سنجیدگی سے کہا ۔
بلال اثبات میں سر ہلاتا گاڑی کو ڈرائیو کرتا صوفیہ عرف فوکسی کے بتائے ایڈرس کی طرف روانہ ہوگیا ۔
***********************
بنجامن سر فورڈ کے کمرے میں اجازت لیکر داخل ہوا ۔
”مسٹر بنجامن کیا تم نے اس لاکٹ کو چیک کیا ۔“ سر فورڈ نےپوچھا
” جی لیکن دیکھنے سے وہ ایک نارمل لاکٹ لگ رہا ہے پر مس سلویا نے اسے اتارنے نہیں دیا کہ اس کا لاک فکس ہے اسی لئیے میں نے احتیاطاً مس سلویا کو سیف روم میں بھیج دیا ہے تاکہ اگر وہ کوئی کیمرہ ہے تو کام نہ کرسکے ”۔بنجامن نے تفصیل سے بتایا ۔
” سیف روم یہ فیصلہ ٹھیک ہے آئی ایم پراؤڈ آن یو بنجامن ۔۔۔“ سر فورڈ گویا ہوئے
”سر فورڈ آپ سے ایک ریکویسٹ ہے اگر آپ برا نہ مانیں “ ۔۔۔بنجامن نے سر فورڈ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” یس بنجامن کہو۔ “ سر فورڈ نے حیرت سے اسے دیکھا کیونکہ بنجامن اپنی اکھڑ مزاجی اور من مانی کرنے میں مشہور تھا اسکا ایسے بات کرنا بہت چینج تھا ۔۔
” سر فورڈ میں آپ کی نواسی سلویا فورڈ جونئیر کو اپنے ساتھ آج شام کو ڈیٹ پر لیجانا چاہتا ہوں اس سے اس کا دل بھی بہلے گا اور نا صرف یہ کہ ہمیں ایک دوسرے کو جانے کا موقع ملے گا بلکہ اگر پروفیسر مس سلویا کو ٹریک کررہا ہے تو اس جال میں بآسانی پھنس جائے گا ۔“ بنجامن نے اپنا نقطہ نظر واضح کیا
سر فورڈ چہرے پہ تفکر اور سوچ کی پرچھائیاں لئے بنجامن کو دیکھتے رہے پھر گویا ہوئے ۔۔
”بنجامن میری نواسی کے ذہن پر ان مسلمانوں نے اپنے مذہب اسلام کی چھاپ ڈال دی ہے ابھی اسے نارمل ہونے میں ٹائم لگے گا ایسے میں یہ ڈیٹ وہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگی ۔“۔
”سر فورڈ آپ اپنی مرضی بتائیں مس سلویا کو راضی کرنا اور ساتھ لیجانا میرا مسئلہ ہے ۔“ بنجامن تیزی سے بولا ۔
”ٹھیک ہے بنجامن میری اجازت ہے پر ایک بات کا خیال رکھنا اس کی مرضی کے بغیر اسے چھونے کی کوشش مت کرنا ۔“ سر فورڈ نے کہا
بنجامن نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر نکل گیا ۔۔
______
صوفیہ نے ٹیکسی کرکے بڑے آرام سے اپنے بیگ میں سے منی ٹیبلٹ اسکرین نکالی اور اسے اپنی ٹریکنگ چپ جو جوناتھن کے کوٹ پر لگائی تھی سے کنیکٹ کرکے ڈرائیور کو راستہ بتانے لگی مسڑ فورڈ کی گاڑی ایک بڑی سی عمارت کے گیٹ پر جا رکی تھی اور پھر سیکیورٹی کا پھاٹک کراس کر کے اندر چلی گئی ۔
صوفیہ نے بھی ٹیکسی والے کو فارغ کیا اور اپنا بیگ کندھے پر لٹکا کر اس عمارت کے سامنے والی سڑک پر واک کرنے لگی یہ ایک پوش رہائشی علاقہ تھا جہاں بڑے بڑے محل نما گھر اور سفارتی عمارتیں تھی وہ بڑی باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے واپس پلٹی اس کی نگاہیں کسی سیف جگہ کی تلاش میں تھی جہاں سے نظروں میں آئے بغیر وہ اس عمارت کی نگرانی کر سکے۔۔
بلڈنگ کے بالکل سامنے ایک دومنزلہ عمارت تھی وہ بڑی مہارت سے سیکورٹی گارڈ کی نظر سے بچتی ہوئی اس عمارت کے اندر کود چکی تھی اور اب دبے قدموں اس عمارت میں رہائش پذیر لوگوں کی نظروں میں آئے بغیر وہ چھت پر پہنچ چکی تھی چھت کا دروازہ لاک کرنے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ میں بندھے گھڑی نما ٹرانسمیشن ڈیوائس سے زوار سے رابطہ کیا اور اسے سر فورڈ کی رہائش کا پتہ بتایا۔
زوار سے بات کرنے کے بعد اس نے اپنے کندھے سے بیگ اتارا اور اس میں سے ایک باریک سی ایک آنکھ والی دوربین نکالی اور سامنے والی عمارت پر فوکس کرکے بیٹھ گئی۔
وقت گزر رہا تھا وہ پل پل عمارت کے ساتھ ساتھ آس پاس کے ماحول کو بھی چیک کررہی تھی جب اس کی نظر ایک کیپ پہنے ہوئے آدمی پر پڑی جو اپنے انداز اور ڈیل ڈول سے فورسز کا آدمی لگ رہا تھا وہ آدمی گاہے بگاہے سر فورڈ کی رہائش گاہ پر نظر ڈال رہا تھا پھر دور سے ایک اور آدمی لمبے کوٹ اور ہیٹ پہنے چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔۔صوفیہ نے دونوں کو فوکس کیا اور چونک گئی ۔
”انڈین نیشنیلٹی او گاڈ یہ تو را کے آدمی ہیں ۔“ وہ بڑبڑائی ۔
اب کے اس نے چاروں جانب کا بغور جائزہ لیا تو دو مزید انڈین افراد بلڈنگ کی نگرانی کرتے نظر آئے صوفیہ نے فوراً زوار کو کونٹیکٹ کیا اور رپورٹ دی ۔
زوار سے بات کرنے کے بعد اس نے دوبارہ دوربین اٹھائی اور ان را کے ایجنٹس کو ٹریک کرنے لگی ان کی حرکات سے لگ رہا تھا کہ وہ اس عمارت کے اندر جانے کا پلان کررہے ہیں صوفیہ نے جلدی جلدی اپنا سارا سامان بیگ میں سمیٹا اب وقت کم تھا ان را کے ایجنٹس کو ایک ایک کرکے شکار کرنا تھا ابھی وہ اس عمارت کی چھت سے اترنے ہی والی تھی کہ وہ چاروں افراد گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئے یہ عمارت جس کی چھت پر صوفیہ موجود تھی را ایحنسی کا سیف ہاؤس تھی ۔
********************
روی ہرمن سنگھ اور پریش را کے مانے ہوئے ایجنٹس اس وقت سر فورڈ اور بنجامن کی نگرانی کررہے تھے انہیں ہر صورت پروفیسر شبیر اور ان کے فارمولے کو انڈیا پہچانے کا حکم تھا اور پروفیسر کو بلیک میل کرنے کیلئیے اس کی بیٹی زویا پر قابو پانا ضروری تھا شام کو حملے کا پلان بنا کر چاروں سامنے والی عمارت جو انکا سیف ہاؤس تھی میں داخل ہوئے ۔
”روی کوئی اوپر ہے میں چھت کا دروازہ کھول کر گیا تھا ۔“ پریش سرگوشی میں بولا
وہ چاروں محتاط ہو کر اوپر کی طرف بڑھنے لگے روی نے اپنا چاقو نکال لیا تھا اور سنگھ کے ہاتھ میں گن تھی
صوفیہ ان چاروں کو اوپر کی طرف آتا دیکھ چکی تھی اب اسے ہر حال میں ان چاروں منجھے ہوئے را کے ایجنٹس کو ٹھکانے لگانا تھا سب سے پہلے اس نے اپنے داڑھ میں چھپے سائینائیڈ زہر کے کیپسول کو چیک کیا پھر اپنا بیگ سے نقاب نکال کر چہرے پر چڑھایا اور بیگ ایک کنارے پر رکھ کر دروازے کی چٹخنی آہستگی سے گرا کر دروزاے کے پیچھے دیوار سے پشت لگا کر کھڑی ہوگئی پلین کے سفر کی وجہ سے اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا مگر اسے اپنی قوت بازو پر بھروسہ تھا قدموں کی آہٹ قریب آتی جا رہی تھیں وہ چاروں اوپر کی جانب پہنچ چکے تھے اور دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا ۔
صوفیہ نے دروازے کے کھلتے ہی دل میں اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ان چاروں کے اندر داخل ہوتے ہی بجلی کی برق بن کر ان پر ٹوٹ پڑی ایک فلائنگ کک لگا کر اس نے سب سے پہلے گن والے پر حملہ کیا جس کے ہاتھ سے گن چھوٹ کر دور جاگری اور پھر پلٹ کر انہیں سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر یکے بہ دیگرے پینترے بدل بدل کر ان کی گردن پر وار کرنے لگی وہ ایک بھی ان چاروں پر بھاری پڑ رہی تھی تبھی وہ چاروں اسے گھیرے میں گھیرنے میں کامیاب ہوگئے سنگھ نے اپنی آنکھ کے کنارے سے بہتا خون صاف کیا اور اپنے نیفے میں اڑسا چاقو نکال کر اسے ہاتھ میں تولتا ہوا صوفیہ سے انگریزی میں مخاطب ہوا ۔
”کون ہو تم کس ایجنسیوں سے بولو “ وہ دھاڑا
صوفیہ نڈر انداز میں اسے اپنی شہد رنگ آنکھوں سے گھور رہی تھی ۔
” دیکھو لڑکی شرافت سے سرنڈر کردو ورنہ ہم چار اور تم ایک وہ بھی لڑکی سوچ لو ہم تمہارا کیا حشر کرسکتے ہیں ۔“ سنگھ خباثت سے بولا
تبھی صوفیہ نے اچانک پینترا بدلا اور تیزی سے سنگھ کے چہرے کو ٹارگٹ کرکے ایک زوردار کک ماری اور مارتی چلی گئی سنگھ کے ہاتھ سے چاقو اچھل کر چھت سے نیچے جا گرا تھا
وہ چاروں بری طرح اس طوفانی بلا پر ٹوٹ پڑے تھے ۔۔
**********************
بلال تیز رفتاری سے گاڑی دوڑاتا صوفیہ کے بتائے ایڈرس کی طرف جا رہا تھا مطلوبہ ایڈرس سے زرا دور گاڑی کھڑی کرکے وہ اترا اور پیدل چلتے ہوئے عمارت اور اس کے اطراف کا جائزہ لینے لگا عمارت کا سیکیورٹی نظام بہت سخت تھا اس کی عقابی نظروں نے کیمرے تاڑ لئیے تھے پر صوفیہ کے بتائے ہوئے را کے ایجنٹس اسے کہی بھی نظر نہیں آئے پوری اسٹریٹ کا چکر لگانے کے بعد اس نے اپنی ڈیوائس سے صوفیہ کی فریکیونسی سیٹ کی اور اسے میسج بیھجنے لگا مگر اس کی فریکیونسی آف آرہی تھی ۔
”ایک ایکٹیو ایجنٹ کی آف فریکیونسی صوفیہ یقیناً خطرے میں تھی۔
وہ تیزی سے چاروں جانب دیکھتا صوفیہ کی تلاش میں آگے بڑھا ہی تھا کہ ایک چاقو ہوا میں اڑتا ہوا سامنے روڈ پر آگرا بلال نے چاقو کی سمت کا اندازہ کیا اور تیزی سے دوڑتا گاڑياں پھلانگتا اس دومنزلہ عمارت کی طرف بڑھا دروازہ بند تھا اس نے ایک چھلانگ لگا کر دیوار پھاندی اور اندر داخل ہوا ساری عمارت بھائیں بھائیں کررہی تھی وہ تیزی سے ایک ایک منزل چیک کرتا چھت تک پہنچا ۔
سامنے ایک نقاب پوش لڑکی کو چار افراد گھیرے میں لئیے قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے تبھی ایک آدمی نے اس لڑکی کے منہ پر زوار دار گھونسا مارا وہ لڑکھڑائی اس سے پہلے کہ وہ اس لڑکی کو چھو پاتے بلال قہر بن کر ان پر ٹوٹ پڑا چہرے پہ بلا کی کرختگی لئیے اس نے ایک آدمی کی گردن مڑوڑ دی اور اس کے بیجان وجود کو فرش پر پھینک کر دوسرے کی جانب بڑھا ۔
صوفیہ بلال کو دیکھتے ہی ریلکس ہو کر ہاتھ جھاڑ کر اٹھی اور دوسرے دو افراد کو پیٹنے لگی وہ کک باکسنگ کی ماہر تھی تبھی بلال دو افراد کو ٹھکانے لگا کر جوتے میں سے چاقو نکالتا صوفیہ کے پاس آیا اور اس پر حملہ آور دونوں افراد کے پیٹ میں چھرا گھونپ کر صوفیہ کی طرف متوجہ ہوا ۔
” تم ٹھیک ہو تمہیں کوئی چوٹ تو نہیں لگی ۔“ سنجیدگی سے کہتا وہ اس کے پاس آیا اور ایک لمحے کا موقع دئیے بغیر اس کا نقاب کھینچ کر اتار دیا۔
*******************
بلال کو روانہ کرنے کے بعد زوار روڈ پر چلتا ہوا گیس پمپ تک پہنچا اور وہاں پیچھے پارک ہوئی ایمپلائیز کی گاڑیوں کی جانب بڑھا اور ایک گاڑی منتخب کر کے ہاتھ مار کر اسکا شیشہ توڑا اور اندر ہاتھ ڈال کر لاک کو کھول کر اندر بیٹھ گیا اور گاڑی تارو کی مدد سے اسٹارٹ کر کے روڈ پر لے آیا اب اس کا رخ اسٹیٹ کی طرف تھا جس پر اسے شبہ تھا کہ وہ پروفیسر شبیر کی اسٹیٹ ہے گاڑی کو فل دوسو کی اسپیڈ سے دوڑاتا وہ اسٹیٹ کے قریب پہنچ چکا تھا ۔۔
گاڑی کو دور کھڑا کرکے وہ اس بڑی سی اسٹیٹ کی جانب بڑھا جبھی اس اسٹیٹ کا لوہے کا گیٹ کھلا اور ایک تاریک شیشوں والی بی ایم ڈبلو گاڑی باہر نکلی زوار تیزی سے اچھل کر پھاٹک کے نیچے سے گزر کر اندر پہنچ چکا تھا پہلے اس کا اردہ جاب انٹرویو کا تھا پر اب وہ اس محل کی تلاشی لینا چاہتا تھا جگہ جگہ سیکیورٹی کیمرے لگے ہوئے تھے وہ ان سے بچتا بچاتا ایک کمرے میں داخل ہوا بڑا بالکل سفید کمرا سفید بیڈ سفید پردے اور درمیان میں رکھا صوفہ بھی سفید تھا بیڈ کی سائیڈ پر ایک سفید اور سنہرا فوٹو فریم جس میں زویا کی سرجھکائے اس کے ڈیڈ کے ساتھ بیٹھی اس کے نکاح کی تصویر تھی ۔
وہ تصویر کو دیکھتے ہوئے دیوار پر نصب ساٹھ انچ کی اسکرین کی طرف بڑھا اسے آن کیا اور چونک گیا ۔
اسرئیلی تنظیم کا دست راست بنجامن زویا کے پاس کھڑا تھا اور زویا نفرت سے اسے دیکھ رہی تھی تبھی زویا کی آواز گونجی
” مسٹر میں مسز زویا زوار ہوں اور مسز زویا زوار رہونگی تم بھی اپنی حد میں رہو ورنہ میرے ہسبنڈ تمہیں زندہ نہیں چھوڑینگے ۔“
”مس سلویا ابھی تم سترہ برس کی ہو اور اس عمر میں ہوئی شادی ہمارا قانون نہیں مانتا خیر میں آج ہی سر فورڈ سے ہمارے رشتے کی بات کرتا ہوں اور تم شام کو میرے ساتھ ڈیٹ پر جانے کیلئیے تیار رہنا ۔۔“
زوار کا طیش کے مارے برا حال تھا وہ تیزی سے کسی بھی کیمرے اور سیکیورٹی کی پروا کئیے بغیر باہر نکلا کے سامنے سے آتے سفید وردی میں ملبوس ایک آدمی اس کے پاس آیا ۔
”ویلکم ہوم میجر زوار میں رابرٹ ہوں آپکے سسر کی اسٹیٹ کا نگران ۔“ رابرٹ نے اپنا تعارف کروایا
زوار نے حیرت سے اس سفید فام کو دیکھا
”پروفیسر کدھر ہیں ۔“
”سر ہمیں دس منٹ پہلے آپکی آمد کی اطلاع دے چکے تھے وہ اسوقت جرمنی کے وزیر دفاع سے ملنے گئے ہیں اور آپ کیلئیے گاڑی اور یہ دیکر گئے ہیں ۔“ وہ ایک جدید چھوٹی گن اور جیپ کی چابی اس کی طرف بڑھائی ۔
”گڈ لک میجر زوار۔“رابرٹ اسے نئے ماڈل کی جیپ تک لاکر خوشدلی سے بولا ۔
زوار نے اس سے الوداعی الفاظ کہے اور جیپ اسٹارٹ کر کے میونخ کی طرف زویا کے پاس جانے کیلئیے روانہ ہوا دو گھنٹے کی ڈرائیو تھی وہ سختی سے لبوں کو بھینچے گاڑی چلا رہا تھا اسے ہر قیمت پر زویا کو اس بنجامن سے بچانا تھا ۔
*******************
اس بڑے سے کمرے میں زویا اکیلی کمرے میں موجود صوفہ پر سر پکڑے بیٹھی تھی بنجامن اسے اس کمرے میں بند کرکے جاچکا تھا وقت گزر رہا تھا ابھی تک زوار کا کچھ پتہ نہیں تھا اور بنجامن کی نظریں اور ارادے اسے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے ۔
ایک گھنٹے کے بعد دروازے پر دستک دے کر ایک درمیانی عمر کی لڑکی ہاتھ میں میکسی نما لباس لئے داخل ہوئی
” گڈ آفٹرنون میڈم ۔۔۔میرا نام جینیفر ہے مجھے آپ کو تیار کرنے کیلئیے بھیجا گیا ہے ۔“ وہ ایک خوبصورت سی نیلی میکسی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے شائستگی سے بولی ۔
زویا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی ۔
”میڈم آپ شاور لیکر چینج کر لیجئیے ۔“ وہ لڑکی دوبارہ بولی ۔
”سنو میں شاور لینے سے پہلے اپنے نانا سے ملنا چاہتی ہوں ان سے ملے بغیر میں کچھ نہیں کرونگی ۔“ زویا نے قطعی لہجے میں اسے جواب دیا ۔
جینیفر حیرت سے اسے دیکھتی باہر نکل گئی اسکا رخ بنجامن کی طرف تھا