زوار کاٹیج کے پچھلے دروازے سے نکل کر عقبی گلی کے راستے سے کسی شکاری کی طرح اس لال گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا گلی کی اسٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں لال گاڑی کے اندر بیٹھا نسوانی وجود ہاتھ میں دوربین لئیے کاٹیج کی طرف متوجہ تھا وہ ہاتھوں میں پستول پکڑے دبے قدموں گاڑی کے دروازے تک آیا اور ایک جھٹکے سے دروازہ کھول دیا ۔
اریانا زوار کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس کے کاٹیج تک پہنچ گئی تھی اور اب دوربین سے کاٹیج کا جائزہ لے رہی تھی جب اس کی چھٹی حس نے خطرے کا اشارہ دیا اس سے پہلے وہ کچھ کرپاتی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھلا میجر زوار اس کی پشت پر پستول تانے کھڑا تھا ۔
”کوئی بھی حرکت کئیے بغیر گاڑی سے باہر نکلو“۔ وہ دبے الفاظ میں غرایا
اریانا انتہائی اطمینان سے دروازہ کھول کر باہر نکلی اور باہر نکلتے ہی اس نے ایک دم قلابازی کھا کر زوار کے پستول والے ہاتھ پر کک ماری اور اپنے ہاتھ میں پکڑی دوربین سے اسٹریٹ لائٹ کا نشانہ لیا جس کا بلب لوہے کی بھاری دوربین سے ٹکرا کر کرچی کرچی ہوگیا گلی میں اندھیرا چھا گیا تھا ۔اریانا کے کک لگاتے ہی زوار تیزی سے جھکائی دیکر اس کی جانب مڑا پر اتنی دیر میں وہ لڑکی اسٹریٹ لائٹ توڑ چکی تھی زوار نے اندھیرے میں اس کے سیاہ ہیولے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پٹخا زمین پر اتنی بری طرح گرنے کے باوجود وہ لڑکی ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی اور زوار پر کراٹے کا داؤ لگایا زوار نے بڑے اطمینان سے اس کے داؤ کو اسی پر الٹ دیا وہ لڑکی لڑائی میں ماہر تھی مقابلہ ٹکر کا تھا پر اب زوار اس پر بھاری پڑرہا تھا وہ زوار کے ہاتھوں شکست کھانا نہیں چاہتی تھی اسی لئیے اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر زوار کو چکمہ دے کر فرار ہوگئی ۔۔
اس لڑکی کی لڑائی کا انداز زوار کو بہت مانوس محسوس ہوا تھا وہ چاہتا تو اس کے پیچھے جاسکتا تھا مگر زویا کاٹیج میں اکیلی تھی اور کیا پتہ یہ لڑکی اپنے ساتھیوں کو کاٹیج کا ایڈرس دے چکی ہو ۔۔ زویا کی پروٹیکشن کا سوچ کر وہ لمبے لمبے قدم اٹھاتا کاٹیج کی طرف بڑھا ۔۔
اریانا زوار کی نظروں میں آئے بغیر اس سے پیچھا چھڑا کر بھاگ گئی تھی اب اس کا ارادہ دور سے زوار پر نظر رکھنے کا تھا اور موقعہ ملتے ہی زویا کو زوار کی کسٹڈی سے نکال لینا تھا ۔
وہ بھاگتے ہوئے آگے جا کر اس نے کنارے پہ پارک ہوئی گاڑی کا شیشہ توڑا اور اندر بیٹھ کر وائرنگ سے گاڑی اسٹارٹ کی اب اسکا رخ اپنے سیف ہاؤس کی طرف تھا ۔
سیف ہاؤس پہنچ کر وہ تیزی سے اندر بیڈروم نما کمرے میں آئی اپنے بالوں سے بینڈ نکال کر پھینکا اور بستر پر گر کر اپنی سانسیں ہموار کرنے لگی۔۔۔
اتنے عرصہ بعد زوار کو دیکھا تھا اسے ابھی بھی زوار کے مضبوط ہاتھوں کا لمس اپنے بازوؤں پر محسوس ہورہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر چلتی ہوئی دیوار میں ثبت بڑے سے گول آئینہ کے پاس آئی ۔۔
لمبے گھنے سیاہ بالوں کے بیچ لبنانی نازک نقوش سے سجا اس کا خوبصورت چہرہ وہ چند لمحے اپنے آپ کو دیکھتی رہی پھر دھیرے سے پاگل پن سے بڑبڑائی ۔۔
”زوار تم نے اریانا کو ٹھکرایا بار بار ٹھکرایا میری محبت کے جواب میں کہا کہ پیار عشق اور شادی تمہاری منزل نہیں اور اب اس (گالی ) سے شادی کرلی اریانا اس (گالی ) کو تباہ و برباد کردے گئی اسے دھشت گردوں کے حوالے کردےگی جو اس کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالیں گئے “۔
**************************
زویا زوار کے بتائے بیڈروم میں آچکی تھی میجر صاحب تو حلیہ درست کرنے کا حکم دےکر چلے گئے تھے پر بغیر کسی سازوسامان کے وہ کس طرح یہ کام سرانجام دے سکتی تھی بہرحال وہ واش روم میں جاکر منہ ہاتھ دھو کر آئی ادھر ادھر تولیہ کی تلاش میں نظریں گھمائی اور ناکام ہو کر اپنے گیلے چہرے کے ساتھ ا سنگھار میز کی طرف آئی اور میز پر پڑا چھوٹا مردانہ کنگھا اٹھا کر اپنے الجھے بال سلجھانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
زوار کاٹیج میں واپس آچکا تھا اور اب سارے دروازے کھڑکیاں چیک کرنے کے بعد اپنے بیڈروم کی جانب بڑھا دھیرے سے دروزاہ کھولا ۔۔
نظروں کے بالکل سامنے گلاب کی طرح بھیگا چہرہ جھکائے وہ دشمن جان اس کے کنگھے کے ساتھ اپنے لمبے سنہری بالوں سے الجھی ہوئی تھی۔۔
حسن و جمال تو اس نےبہت دیکھا تھا مگر اس نے کبھی بھی حسن اور صنف نازک کو توجہ کے قابل نہیں گردانا تھا مگر سامنے موجود لڑکی اس کے دل کی دھڑکن بن چکی تھی زویا کی معصوميت نے اسے اسیر کیا تھا اور نکاح کے رشتے نے اس کے آتشِ عشق کو مزید جلا بخش دی تھی وہ ایک بھرپور مرد تھا اور زویا مکمل طور پر اس پر انحصار کرتی تھی اور سب سے بڑھ کر زویا کی زندگی میں سوچوں میں سوائے زوار کے کوئی نہیں تھا ۔۔
زویا کے ڈر کر چیخ مارنے کے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے کھنکھار کر اسے متوجہ کیا ۔
”مسز زی کیا ہورہا ہے ۔“ اس کی گھمبیر آواز گونجی
زویا نے زوار کی آواز سنتے ہی اپنا جھکا سر اٹھایا ۔۔
”میجر سر ۔۔
”خدارا زویا میرا نام لیا کرو میجر سر ایسا لگتا ہے میں کاکول اکیڈمی میں نئے رنگروٹوں کو لیکچر دے رہا ہوں ۔“زوار نے تیزی سے اسکی بات کاٹی
زویا نے شرمندگی سے سر جھکا لیا خفت سے اسکا سفید چہرہ گلابی پڑ گیا تھا
زوار دھیرے سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا ۔
”ہمارے نکاح کو چھ ماہ ہوچکے ہیں آج تم مجھے بتا ہی دو کہ تم میرا نام کیوں نہیں لیتی ہو ۔“
زویا چپ چاپ سر جھکائے کھڑی رہی
”بولو جواب دو ۔“ وہ جھنجھلایا
”میجر سر وہ دراصل مجھ سے آپ کا نام نہیں لئیے جاتا “۔ وہ بےبسی سے بولی
”کیوں میرا نام تمہیں اچھا نہیں لگتا ۔“وہ خشک انداز میں بولا
”آپ سمجھتے کیوں نہیں مجھے شرم آتی ہے ۔“
زویا زوار کی خفگی کا سوچ کر گھبرا گئی اور تیزی سے بنا سوچے سمجھے بول اٹھی ۔
زوار نے دلکشی سے ہنستے ہوئے اس شرمائی جھجھکتی دلربا کو اپنے مضبوط حصار میں لیا۔
”مسز زی تمہارا میجر سر میرے سر آنکھوں پر بس تم ایسی ہی رہنا ۔“
**************************
فوکسی کی پیٹھ پر گن کی نالی چبھ رہی تھی وہ سانس روک کر کھڑی ہوگئی ۔
”کون ہو تم کس ایجنسی سے تعلق رکھتی ہوں“۔ بلال کی سنجیدگی میں ڈوبی آواز سنائی دی
بلال کی آواز سن کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور پیچھے کی طرف پلٹ کر نقاب سے جھانکتی اپنی نیلی آنکھیں بلال کی آنکھوں میں ڈالیں ۔۔
” کیپٹن بلال ہم ایجنسیوں کے افراد اپنا بائیوڈیٹا ہاتھ میں لیکر نہیں گھومتے جان چلی جائے تو جائے انفارمیشن نہیں دیتے اتنا تو تم بھی سیکھ ہی چکے ہوگے ۔“
” ٹھیک ہے جب تک تم اپنی زبان نہیں کھولتی میری قید میں رہو گی چلو آگے بڑھو ۔“
”اوکے تو پھر مجھے قید کر کے اپنا شوق پورا کرلو ۔“
فوکسی کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی وہ بڑے اطمینان سے بلال کے ساتھ چلتی اس کی جیپ میں بیٹھ گئی
بلال جیپ چلاتے ہوئے گاہے بگاہے اسے دیکھ رہا تھا۔
”چیک پوسٹ آنےوالی ہے اپنا نقاب اتارو ورنہ دونوں پکڑ لئیے جائینگے ۔“
فوکسی نے چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھا ۔
”کیپٹن بلال میرا نام فوکسی ہے تم جس اسکول سے ٹریننگ لیکر آئے ہو میں وہاں کی پرنسپل رہ چکی ہوں ویسے بھی میرا ڈرائیونگ کا موڈ نہیں تھا اسی لئیے تمہیں ڈرائیور بنا لیا ۔“ یہ کہہ کر فوکسی نے وقفہ لیا
”تھینکس فار دی رائیڈ کیپٹن ۔“ یہ کہتے ہی وہ چلتی جیپ سے چھلانگ لگا کر سیکنڈوں میں بھاگتے ہوئے غائب ہوگئی ۔
بلال نے غصہ سے اسٹئیرنگ پہ ہاتھ مارا چیک پوسٹ قریب تھی ابھی اس بلا کے پیچھے جانے کا ٹائم نہیں تھا اس نے اپنی رہائش کی جانب جیپ کا رخ موڑا ۔
سیف ہاؤس پہنچ کر وہ ہارڈ ڈسک نکال کر اندر کمپیوٹر روم میں آیا اور اب وہ اس ہارڈویئر ڈسک کو اپنے لیب ٹاپ سے لنک کرکے اندر موجود ڈیٹا دیکھ رہا تھا جیسے جیسے وہ ڈیٹا چیک کرہا تھا اس کے چہرے پہ سنجیدگی بڑھتی جارہی تھی
لیب ٹاپ سے فارغ ہوکر اس نے عراق میں موجود پاکستانی ایجنٹ سے رابطہ کیا پاس ورڈ کے تبادلے کے بعد وہ گویا ہوا ۔۔
”مجھے پہلی فلائٹ سے میونخ جانا ہے فوری ارینجمنٹ کیا جائے ۔“ اوور اینڈ آل
دھشت گرد تنظیم کے اڈے کو وہ ٹائم بم سے اڑا آیا تھا اس کے ہاتھوں لاکھوں کروڑوں کا نقصان تنظیم کو پہنچ چکا تھا اور اب اس کی منزل تھی میونخ جرمنی کا ایک بڑا شہر ۔۔
***************************
پیروں میں جوگرز پہنے بلیک جینز وائٹ شرٹ میں ملبوس اپنے بالوں کو اونچی پونی میں جکڑے وہ اس وقت بغداد کے ایک مشہور فائیو اسٹار ہوٹل کے روم موجود تھی اپنا مختصر سامان پیک کرچکی تھی تنظیم کے اڈے کی تباہی کے بعد یہاں رکنا خطرناک تھا تھوڑی ہی دیر میں اسے ائیر پورٹ کیلئیے نکلنا تھا جہاں سے اسے میونخ کی فلائٹ لینی تھی ۔
_______
بلال ایک ٹورسٹ کے روپ میں بلیو جینز وائٹ ٹی شرٹ سر پر کیپ کاندھے پر بیگ لٹکائے بڑی بے فکری سے ائیرپورٹ پر بیٹھا میونخ فلائٹ کی بورڈنگ کا ویٹ کررہا تھا تبھی موسم کی خرابی کی وجہ سے فلائٹ ایک گھنٹہ لیٹ چلنے کی اناؤسمنٹ ہوئی وہ بیزاری سے اٹھا اور ائیرپورٹ کے احاطے میں بنی کافی شاپ پر جا کر کافی کا آرڈر دینے کیلئیے لائن میں کھڑا ہوگیا ۔
ایک گھنٹے کے بعد بورڈنگ کا اعلان ہوا تو وہ بھی اٹھ کر پلین کی جانب بڑھا یہ ایک بڑی فلائٹ تھی بلال کی سیٹ فرسٹ کلاس کی تھی وہ اندر اپنی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا اس کی بھرپور پرسنیلٹی ائیر ہوسٹس اور مسافروں کو اٹریکٹ کررہی تھی مسافر ایک ایک کرکے سوار ہورہے تھے بلال کے ساتھ والی سیٹ ابھی تک خالی تھی ۔
وہ کیپ کو آنکھوں پر گرائے ، سر سیٹ کی بیک سے ٹکائے آنکھیں بند کئیے آرام سے بیٹھا تھا جب ایک نرم مترنم سی آواز نے اسے مخاطب کیا ۔
”ایکسکیوزمی پلیز ذرا جگہ دیجئیے ۔“
اس نے سر اٹھایا ایک لمبی سی کالے گاؤن اور نقاب میں ملبوس لڑکی کھڑی اس سے اندر سیٹ کی جانب جانے کا راستہ طلب کررہی تھی بلال نے تیزی سے اپنی ٹانگیں سمیٹ کر اسے راستہ دیا وہ اندر بلال کے ساتھ والی ونڈو سیٹ پر آکر بیٹھ گئی ۔۔پلین ٹیک آف کرچکا تھا سیٹ بیلٹ کا سائن آف ہوچکا تھا اب ائیرہوسٹس ایک ایک سیٹ پر جا کر مسافروں سے چائے کافی کا پوچھ رہی تھیں ۔۔
”سر کافی اور ٹی ۔“
”کافی بلیک ۔“ بلال نے سنجیدگی سے کہا ۔
ائیرہوسٹس نے بلال کو کافی کپ میں انڈیل کر دی اور اس لڑکی کو مخاطب کیا
”میم واٹ یو لائک کافی اور ٹی ۔“
اس لڑکی نے اپنی گردن گھمائی اور دھیمی آواز میں بولی
”کافی بلیک ۔“
بلال کی نظر بلاارادہ اس لڑکی کی آنکھوں پر پڑی اور اب وہ نقاب سے جھانکتی ائیرہوسٹس کو دیکھتی ان خوبصورت شہد رنگ آنکھوں کو یک ٹک دیکھ رہا تھا پرکشش سحر انگیز شہد رنگ آنکھیں جن پر تعینات شہد رنگ گھنی لمبی خم کھائی ہوئی پلکیں اس کے دل و دماغ ایک لمحے میں ان آنکھوں کے فسوں میں جکڑے گئے تھے ۔اس لڑکی نے اپنا کپ ائیرہوسٹس سے لیا اور بلال کی بےخودی پر ایک ملامتی نگاہ ڈال کر رخ پھیر کر بیٹھ گئی ۔
بلال کی کافی سامنے پڑی ٹھنڈی ہورہی تھی اس کا دماغ ماضی میں کھو چکا تھا ۔
اس کی نگاہوں میں صوفیہ کا پرکشش چہرہ ابھر رہا تھا ماضی کی آواز اس کے دماغ میں گونجی
”او ہیلو۔۔۔ مسٹر فیک ہسبنڈ اگر کوئی پرابلم آئی تو میں اس لمبے جیکٹ میں فائٹ کیسے کرونگی اس طرح تو میں ماری جاؤنگی نا ۔" وہ کس بری طرح جھنجلائی تھی ۔
"میں ہوں نا تمہیں مرنے نہیں دونگا "
صوفیہ ہلکے سے مسکرائی تھی
"چلو تم پر بھروسہ کر کے دیکھ لیتے ہیں " آج بھی یہ آواز اس کے کانوں میں تازہ تھی
آہ صوفیہ کاش میں تمہیں بچا پاتا کاش اسوقت تم میرے پہلو میں بیٹھی سفر کررہی ہوتی ۔“
بلال نےکرب سے اپنی آنکھیں بند کی ۔
"ابھی بھی کیمرے آف ہیں بلال جلدی کرو“ “صوفیہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی
"کیا کہا تم نے دوبارہ کہو "
"میں نے کہا ابھی کیمرے بند ہیں جلدی کرو "
"نہیں میرا نام دوبارہ سے لو پلیز "
صوفیہ نے کس قدر حیرت سے اسے دیکھا تھا اور دہرایا
"بلال بلال بلال بلال اب خوش "
"اچھا لگا بغیر کپٹین اور کسی القاب کے بلال تمہارے منہ سے ، ایک بات پوچھوں اگر کاٹ نا کھاؤ تو "
صوفیہ نے آنکھ کے اشارے سے اجازت دی
"اس مشن کے بعد مجھ سے شادی کروگی ۔
"ٹھیک ہے کپٹین بلال جس دن تم ایجنٹ بن گئے اور آئی ایس آئی میں ایک مقام حاصل کر لیا میں اسی دن اسی وقت اسی لمحے تمہاری ہو جاؤنگی یہ وعدہ ہے صوفیہ کا ۔“
"ٹھیک ہے صوفیہ اس مشن کے بعد اب میں تمہیں ایک سپر ایجنٹ بننے کے بعد ہی ملونگا "
وہ دھیمے سے مسکرائی تھی
"میں بھی تمہارا شدت سے انتظار کرونگی "
”نہ جانے تم کہا کھو گئی ہو ریکارڈ کہتا ہے تم زندہ نہیں ہو پر دل کہتا ہے تم یہی کہیں ہو ۔۔
بلال آنکھیں بند کئیے بیٹھا ماضی میں کھویا ہوا تھا اس کے وجیہہ چہرے پر کرب رقم تھا اور وہ لڑکی اپنی شہد رنگ آنکھوں سے تاسف سے بلال کو دیکھ رہی تھی ۔
”مجھے بھی سیٹ اس گھونچوں کے ساتھ ہی ملنی تھی ۔“ وہ من من کر کے بڑبڑائی
*************************
زوار نے پیار سے زویا کو خود سے الگ کیا ۔۔
”مسز زی دو گھنٹے بعد ہمیں نکلنا ہے تم تھوڑا آرام کرلو ۔“ زوار نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا
”کیا آپ ریسٹ نہیں کرینگے ۔“ زویا نے تفکر سے پوچھا ۔
”تم تھوڑی نیند لے لو میں ابھی کچھ دیر میں آتا ہوں .“ زوار بولا
”اتنی رات میں اب آپ کدھر جارہے ہیں ۔“زویا نے گھبرا کر پوچھا ۔
زوار آہستہ سے چلتے ہوئے بیڈ کے پاس کھڑی زویا کے پاس آیا اسے دونوں شانوں سے تھام کر بیڈ پر لٹا کر بلینکٹ اوڑھایا اور جھک کر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے گویا ہوا
”مادام زویا آپ کا یہ جان نثار شوہر نامدار کہیں بھی نہیں جارہا بس برابر والے کمرے میں کچھ کام کررہا ہوں اس لئیے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اب خدارا تھوڑا آرام کر لو ۔“
زویا نے زوار کو دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں موند لیں زوار تھوڑی دیر وہی کھڑا رہا پھر اس کے سونے کا یقین کرکے بنا آواز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر چلا گیا ۔
برابر والے اسٹڈی روم نما کمرے میں آکر زوار نے الماری کا لیور دبایا تو دیوار میں ایک خلا سا پیدا ہوگیا زوار نے اس میں ہاتھ ڈال کر ایک جدید ٹرانسمیشن ڈیوائس نکالی اور اسے میز پر رکھ کر ایکٹیویٹ کرنے لگا چند ہی لمحوں میں زوار کا رابطہ آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر سے ہوچکا تھا۔
زوار نے اب تک کی ساری رپورٹ دی ۔۔
” میجر زوار پروفیسر شبیر کے حلیہ کا آدمی میونخ میں دیکھا گیا ہے را اور دوسری ایحنسیاں اس وقت میونخ میں سرگرم عمل ہیں تمہاری پارٹنر جو اس کیس میں تمہیں اسسٹ کرے گی وہ میونخ روانہ ہوچکی ہے اسے میٹ گریٹ کا پاس ورڈ دے دیا ہے وہ جب تم سے ملے گی تو ٹائم پوچھے گی جس کے جواب میں تم اسے اقبال زندہ ہے کہوں گے اور وہ غالب بھی ادھر ہی ہے جواب دے گی ۔“ اوور اینڈ آل
زوار نے ٹرانسمیٹر واپس دیوار کے خلا میں رکھ کر دیوار برابر کی ۔۔۔اب آئیرلینڈ جانا بیکار تھا وہ لیپ ٹاپ کھول کر میونخ کی فلائٹ چیک کرنے لگا استنبول سے دن کے گیارہ بجے ایک فلائٹ میونخ جارہی تھی اس نے آن لائن اپنی اور زویا کی سیٹ بک کیں اور واپس اندر بیڈروم میں آگیا
رات تیزی سے بیت رہی تھی چند گھنٹوں کے بعد صبح کا سورج طلوع ہوجانا تھا زوار کو زویا کے ساتھ فلائٹ لے کر سفر پر نکلنا تھا زویا کا سارا سامان تو ہاسٹل میں رہ گیا تھا زوار نے کچھ سوچتے ہوئے اپنا بیگ کھول کر ٹی شرٹ اور پینٹ نکالی واش روم جا کر قینچی اٹھا کر لایا اور بیڈ پر سوئی ہوئی زویا کو ایک نظر دیکھ کر اپنی پینٹ کو کاٹ کر اس کے ناپ کا کرنے لگا ۔
اس سب سے فارغ ہو کر اس نے اپنے سامان میں سے ایک باریک سی چپ نما ٹریکنگ ڈیوائس نکالی اسکا ارادہ اس پتلی سی گول ڈیوائس کو زویا پر اس کی حفاظت کیلئیے لگانے کا تھا ۔اس نے سارا سامان پیک کیا اپنا اور زویا کا پاسپورٹ وغیرہ تیار کئیے ۔
زوار نےگھڑی میں ٹائم دیکھا تو رات کے تین بج رہے تھے اسکا ارادہ صبح آٹھ بجے تک نکل جانے کا تھا وہ تھوڑی دیر آرام کرنے کی نیت سے بیڈ پر آیا جہاں زویا محواستراحت تھی اس نے ایک گہری نظر سوئی ہوئی زویا پر ڈالی وہ بڑے اطمینان سے گہری نیند سو رہی تھی اس کے سنہری لمبے بال بستر اور تکیہ پر پھیلے ہوئے تھے زوار نے بڑے آرام سے اس کی مشکبوں زلفوں کو اپنی مٹھی میں بھرا یہ ریشم کے سنہری لچھے اسے بہت پسند تھے انہیں اپنے ہاتھوں میں لپیٹتا وہ خود بھی زویا کے برابر لیٹ گیا ۔
***********************
زویا گہری نیند سوئی ہوئی تھی جب اسے اپنے گلے میں ہلکی سی بیچینی سی محسوس ہوئی وہ تیزی سے اپنے گلے پہ ہاتھ رکھتی ہوئی اٹھنے ہی لگی تھی جب اسے اپنے برابر میں زوار کی موجودگی کا احساس ہوا جو اس کے لمبے بالوں کو اپنے ہاتھ میں لپیٹے سو رہا تھا ۔
زویا نے ایک گہری نظر زوار پر ڈالی اس کا زوار
میجر زوار جو اپنے دن رات بھلائے بغیر کسی آرام و سکون کے دشمن پر قہر بن کر ٹوٹتا تھا حد درجے کا بددماغ اور کھڑوس تھا مگر زویا کیلئیے ایک گھنا سایہ دار شجر تھا جس کی چھاؤں میں وہ خود کو محفوظ گردانتی تھی۔۔ زویا کے گلے میں بیچینی سی ہورہی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے گردن کی کھال میں تپش بڑھ رہی ہو ۔۔اس نے ایک نظر آرام سے سوئے زوار کو دیکھا کھڑکی سے ہلکی ہلکی روشی سی اندر آرہی تھی زویا نے ٹائم دیکھا تو صبح کے چھ بجنے والے تھے زوار بےخبر سو رہاتھا اس کی چوڑی پیشانی پر ہلکے سے بل تھے زویا نے بنا سوچے سمجھے اپنی انگلیوں سے اس کے سر میں ہلکا ہلکا مساج کرنے لگی جس سے زوار کی پیشانی کے بل غائب ہوگئے تھے چند لمحے خودفراموشی سے وہ زوار کو دیکھتے ہوئے اس کے بالوں انگلیاں پھیرتی رہی پھر اس نے دھیرے سے اپنے ہاتھ زوار کے ہاتھوں پر رکھے اسکا اردہ بنا زوار کے آرام میں خلل ڈالے خاموشی سے اپنے بال آزاد کروا کر بستر سے اٹھنے کا تھا۔
بڑی ہی نرمی سے زوار کو دیکھتے ہوئے زویا نے اپنے بال چھڑوائے اب وہ بڑی محبت سے اسے دیکھ رہی تھی شیر سویا ہوا تھا جبھی وہ اتنے آرام سے اس کے نقش اپنی آنکھوں میں اتار رہی تھی تبھی زوار کسمسایا تو وہ ہوش میں آئی اور بستر سے اتری ہی تھی کہ دوبارہ سے بیڈ پر گر گئی ۔۔
زویا کے بلکل برابر میں تھوڑی دیر آرام کی نیت سے لیٹے زوار کے زویا کے جاگتے ہی حواس بیدار ہوچکے تھے اس سے پہلے وہ اپنی آنکھیں کھول کر زویا سے کچھ پوچھتا اسے زویا کے ہاتھوں کی نرمی اپنے سر میں محسوس ہوئی زویا کی نرم انگلیوں کے لمس نے زوار کی رگ رگ میں سکون کا سرشاری کا احساس بھر دیا تھا ۔۔۔شرمیلی سی اس کی بیوی زویا جو اس سے بات کرنے سےبھی گھبرا جاتی ہے اسکی نظروں سے نظر تک ملانے کا حوصلہ نہیں رکھتی اس وقت اسے سویا جان کر بڑی محبت اور لگن سے اسے دیکھ رہی تھی پھر زویا کے ہاتھوں کا لمس اس کے مردانہ ہاتھوں پر آیا اب وہ بڑی نرمی سے اپنے بال اس کی گرفت سے آزاد کروا رہی تھی پھر بنا آواز کئیے جیسے ہی وہ بستر سے اتری زوار نے تیزی سے اس کی کلائی اپنی مضبوط گرفت میں لی وہ ایک جھٹکے سے اس کے پہلو میں گر پڑی ۔۔
زوار نے زویا کے چہرے کو اپنی نظروں کی گرفت میں لیا
”گڈ مارننگ مسز زی....آج پتہ چلا میں شادی شدہ ہو تھینکس جاناں اتنے پیار سے جگانے کیلئیے ۔“ اس کے لہجے میں آنچ تھی وہ جذبات کی تپش تھی وہ اس پر جھکا ۔۔
زوار کی یہ انتہائی قربت اور اپنے آپ کے عیاں ہونے کے احساس سے زویا کی رنگت سرخ پڑ چکی تھی کچھ حسین قربت کے رنگین لمحے آج زوار کی دسترس میں آگرے تھے ۔۔
”میجر سر پلیز ۔۔۔۔“ زویا منمنائی
”کیا میجر سر یار ریلیکس ۔۔۔“ زوار نے اسے ٹوکا
چند لمحات کی بےخودی کے بعد زوار نے زویا کو آزاد کیا وہ تڑپ کر اٹھی اور باتھ روم میں جاکر بند ہوگئی ۔
*************************
وہ حسب عادت وقت سے پہلے ائیرپورٹ پہنچ چکی تھی میونخ کی فلائٹ میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے وہ ستون کی آڑ میں صوفے پر بیٹھی چاروں جانب نظریں گھما رہی تھی جب اس کی نظر ویٹنگ لاؤنچ میں داخل ہوتے بلال پر پڑی اس نے تیزی سے سامنے پڑا اخبار اٹھا کر چہرے کے سامنے کیا ۔
”یہ ادھر کیا کررہاہے ۔“ وہ پریشان ہو اٹھی تھی
جینز کی جیب سے پین نکالا جو دیکھنے میں بال پین لیکن اصل میں ایک دوربین تھی اخبار کی آڑ سے اس نے دوربین کو بلال کے ہاتھ میں موجود بورڈنگ ٹکٹ پر فوکس کیا ۔
Ak 004 seat number 2C
تیزی سے نظر ہٹا کر اپنا بورڈنگ پاس نکالا ..
Ak 004 seat number 3C
”کیا مصیبت ہے ۔“ وہ بڑبڑائی اور تیزی سے اٹھ کر ڈیوٹی فری کی جانب چلی گئی اس کے قدم لوکل آرٹ کرافٹ کی شاپ پر رکے ۔
”مجھے عبایہ چاہئیے نقاب کے ساتھ ۔“ بڑی سشتہ عربی میں وہ سیلز گرل سے مخاطب ہوئی
پانچ فٹ سات انچ قد نیلی آنکھیں لمبے گھونگریالے بالوں کو پونی میں قید کئیے جینز اور شرٹ میں ملبوس خوبصورت ماڈرن لڑکی کو سیلز گرل نے عبایہ کی فرمائش پر گھور کر دیکھا پھر ایک کالا سلکی گاؤن نما عبایہ اسے دکھایا جس کے ساتھ باریک نفیس سا کالا ہی نقاب تھا ۔
اس نے تیزی سے عبایا نما گاؤن کی پیمنٹ کی اور وہی کھڑے کھڑے اسے پہن لیا اب نقاب کی باری تھی وہ نقاب آدھا چہرہ چھپانے کیلئیے تھا وہ اسے لگانے کی کوشش کررہی تھی جب اس کا کنارہ اس کی آنکھ کے اندرونی حصے کو چھوگیا اس کی آنکھوں سے پانی نکلنے لگا تھا وہ نقاب لگاتی شاپ سے باہر نکلی اور دوبارہ لاؤنچ میں آکر بیٹھ گئی اس کی آنکھوں میں سوزش بڑھ رہی تھی ۔۔
”آج جو ہو وہ کم ہے پتہ نہیں صبح کس کا منہ دیکھا تھا ۔“وہ بڑبڑاتی ہوئی جھکی اور جب سیدھی ہوئی تو اس کی شہد رنگ آنکھیں لینس کی تکلیف سے آزادی ملنے پر سکون میں آگئی تھی ۔۔
بورڈنگ شروع ہوچکی تھی وہ سب سے آخر میں پلین میں چڑھی اپنی سیٹ پر پہنچی تو بلال ٹانگیں پھیلائے بیٹھا تھا ۔
”گدھا پتہ نہیں کس نے اس الو کو ایجنٹ بنادیا ۔“
وہ قریب آئی
”ایکسکیوزمی پلیز زرا جگہ دیجیے.
اریانا غصہ سے پاگل ہوئی پینڈولم کی طرح کمرے میں چکر لگا رہی تھی تبھی اس کی شاطر آنکھیں جگمگائیں اس نے اپنی کلائی پر چمکتی گھڑی میں وقت دیکھا رات کے تین بج رہے تھے وہ تیزی سے اپنے بال سمیٹ کر اپنے سامان کی طرف بڑھی اپنا سائلینسر لگا پستول نکال کر جیب میں اڑسا ساتھ ہی ایک چھوٹا سا سپائی کیمرہ نکالا اور تیز تیز قدموں سے باہر نکلتی چلی گئی گیراج میں کھڑی گاڑی نکال کر وہ دوبارہ کاٹج کی طرف روانہ ہوئی ۔۔
کاٹج سے تھوڑے فاصلے پر اس نے گاڑی روکی چہرے پر سیاہ نقاب ڈال کر وہ تیز قدموں سے کاٹیج کے احاطے میں دیوار پھلانگ کر داخل ہوئی زوار سے الھجنا آسان نہیں تھا وہ کاٹیج کے ڈرائیوے میں کھڑی گاڑی کی طرف بڑھی اور گاڑی کے نیچے لیٹ کر اپنی جیب سے سپائی کیمرہ نکال کر گاڑی کے نیچے سائلنسر کے پائپ پر لگا دیا ۔۔۔یہ ایک جدید بارود اور جی پی ایس سے مزین کیمرہ تھا جس کی مدد سے وہ نہ صرف زوار کی لوکیشن ٹریک کرسکتی تھی بلکہ جب چاہے اس گاڑی کو اڑا بھی سکتی تھی ۔
کھڑے ہوکر اس نے ایک نفرت انگیز نگاہ کاٹیج پر ڈالی جہاں زوار یقیناً اس لڑکی زویا کے ساتھ تھا اور پھر وہ مڑ کر جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے واپس اپنے اڈے سیف ہاؤس چلی گئی ۔
************************
بلال نے ٹانگیں سمیٹ کر اسے اندر جانے کا راستہ دیا اپنی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے چاروں جانب کا جائزہ لینا شروع کیا اس کے برابر میں بیٹھا بلال ساری دنیا سے بیزار آنکھیں موندے بیٹھا تھا ۔
وہ کن اکھیوں سے بڑی احتیاط سے بلال کو دیکھ رہی تھی بلاشبہ گزرے چھ ماہ میں وہ پہلے سے بھی زیادہ اسمارٹ ہوگیا تھا ہلکے سے بڑھے شیو کے ساتھ بلال کے چہرے پر کرختگی اور بلا کی سنجیدگی تھی اسے بےاختیار پرانا کھلنڈرا شرارتی سا بلال یاد آیا جو ہر قیمت پر اسے یعنی صوفیہ کو حاصل کرنا چاہتا تھا مگر فرض کی راہ میں محبت کا گزر صوفیہ کی نظر میں ممکن نہیں تھا اسی لئیے وہ بلال سے الگ ہوگئ تھی ۔
وہ بڑی توجہ سے اسے دیکھ رہی تھی دل کے اندر پنہاں کسی کونے میں بلال کی محبت ابھر ابھر کر ڈوب رہی تھی جس سے وہ بےخبر لڑکی خود بھی لاعلم تھی ۔۔۔
پلین ٹیک آف کرچکا تھا سیٹ بیلٹ کے نشان ہٹ چکے تھے ائیرہوسٹس پیسنجرز کو چائے کافی سرو کر رہیں تبھی ایک ائیرہوسٹس ان کی سیٹ کے پاس آئی ۔۔
بلال نے بلیک کافی آرڈر کی وہ اس کی پسند سن کر حیران ہوئی اتنے میں ائیر ہوسٹس نے اسے مخاطب کیا ۔
”میم آپ کیا لینگی ۔“
اس نے اپنا چہرہ ائیرہوسٹس کی طرف گھمایا اور اس کے لبوں سے بےاختیار نکلا ۔
”بلیک کافی ۔“
بلال نے ایک نظر اس پر ڈالی تھی اور پھر یک ٹک اسے بغیر پلکیں جھپکے دیکھتا ہی رہ گیا۔
اس کے دل میں بلال کیلئیے جو اچھے جذبات سر اٹھا رہے تھے اس کے اس طرح گھور کر دیکھنے سے وہی دم توڑ گے اس نے ناگواری سے بلال کو گھورا اور اپنا منہ پھیر لیا ۔
”لفنگا کہیں کا ! میں بھی خوامخواه اس کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔“ وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی
سفر لمبا تھا وہ اپنے چہرے پہ نقاب کو اچھی طرح سے جماتے ہوئے آنکھیں موند کر بیٹھ گئی
*****************************
زوار دوسرے کمرے میں جاکر فریش ہوکر تیار ہوچکا تھا وہ اندر کمرے میں آیا تو زویا ابھی تک باتھ روم میں بند تھی ۔۔
زوار نے کلائی میں بندھی گھڑی میں ٹائم دیکھا صبح کے سات بجنے والے تھے اس نے تنگ آکر واش روم کا دروازہ کھٹ کھٹایا ۔
”زویا فوراً باہر آؤ ہم لیٹ ہورہے ہیں ۔“ اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ۔
”زویا فوراً دروازہ کھولو ۔“ اب کے وہ تحکمانہ انداز میں سختی سے بولا
زویا جو شاور لیکر باہر آنے کی ہمت نہیں کرپارہی تھی اور اندر زوار سے چھپی بیٹھی تھی اس کی غصیلی آواز سن کر گھبرا گئی اور جلدی سے دروازہ کھول کر جھجکتی ہوئی باہر نکلی۔۔
باتھ روم کا دروازہ کھول کر شرم سے سرخ چہرہ لئیے سر جھکائے زویا باہر نکلی زوار اس کی حالت کو اچھی طرح سمجھ رہا تھا اسی لئیے اسے نارمل کرنے کیلئیے وہ اس سے اپنے کھڑوس انداز میں بات کررہا تھا ۔۔۔
” کتنی دیر لگا دی تم نے اب جلدی سے لباس تبدیل کرو ہمیں ائیرپورٹ جانا ہے ۔“ وہ اپنی کاٹی ہوئی پینٹ اور شرٹ زویا کے ہاتھ میں پکڑا کر خود سامان سمیٹنے لگا .
زویا نے ایک نظر حیرت سے اپنے ہاتھ میں پکڑے کپڑوں کو دیکھا ۔۔
”میجر سر یہ میں کیسے پہنوں یہ پینٹ تو مجھے بہت ڈھیلی ہے ۔“ اس نے زوار کو متوجہ کیا۔
زوار نے ایک نظر اس کے ہاتھ سے پینٹ کو پکڑ کر دیکھا لمبائی تو اس نے کاٹ دی تھی پر ویسٹ کا نہیں سوچا تھا
” ہممم ابھی تو تم اپنے اسی نائٹ ڈریس پر میرا کرتا پہن لو ۔“ یہ کہہ کر وہ الماری کی جانب گیا اور سیاہ رنگ کا کرتا نکال کر زویا کو لاکر دیا ۔
زویا اس کا کرتا پہن کر باہر آئی۔۔ ٹخنوں تک آتا کالا کرتا اس کی سرخ و سفید رنگت کو اور نکھار بخش رہا تھا زوار نے اسے پرسوچ نظروں سے دیکھا ۔۔
”ابھی آٹھ بجنے والے ہیں فلائٹ گیارہ بجے کی ہے جلدی چلو ہم راستے میں کسی مال میں رک کر تمہارے لئیے شاپنگ کر لیتے ہیں ۔“ زوار بولا
”میجر سر اگر ٹائم ہے تو کیوں نہ ہم ہاسٹل چلیں میں چینج بھی کر لونگی اور سامان بھی لے لونگی ۔“ زویا نے مشورہ دیا ۔
”نہیں ہاسٹل جانا سیف نہیں ہے اب جلدی کرو ٹائم کم ہے ۔“ یہ کہہ کر زوار دروازے لائٹس وغیرہ بند کئیے اور زویا کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلا کاٹیج کو لاک لگا کر سیکورٹی الارم سیٹ کیا ۔
”چلو اب باہر نکل کر ٹیکسی کرلیتے ہیں ۔“ وہ آگے بڑھتے ہوئے بولا
”میجر سر گاڑی لے لیجئیے نا مال بھی جانا ہے تو بار بار ٹیکسی کیلئیے پریشان نہیں ہونا پڑے گا پلیز ۔“ زویا پورچ میں کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے بولی ۔
زوار زویا کی فرمائش رد نہیں کرسکا اور گاڑی کا دروازہ کھول کر زویا کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے گاڑی اسٹارٹ کر کے روڈ پر لے آیا ۔
ائیرپورٹ کے قریب ہی ایک بڑا مال تھا جو چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا زوار نے اسکی پارکنگ میں گاڑی روک کر پارک کی اور زویا کو لیکر اندر مال میں آگیا .
جلدی جلدی میں بھی اس نے زویا کیلئیے برانڈڈ جینز اور فل سلویس کرتے اور ٹاپ خریدے ایک جیکٹ لی ۔۔
ایک خوبصورت میرون بلیک کرتی اور جینز اس نے زویا کو تھمائی ۔۔
”میں پیمنٹ کرتا ہوں تم اتنے میں چینج روم جا کر لباس تبدیل کر لو۔“
زویا اثبات میں سر ہلاتی لباس لیکر آگے بڑھ گئی
زوار کیش کاؤنٹر پر چلا آیا اور بل بنوانے لگا
تھوڑی ہی دیر میں زویا بھی لباس بدل کر پرانے کپڑے ہاتھ میں لئیے چلی آئی ۔
زوار کی نظر جب اپنے منتخب کئیے کپڑوں میں ملبوس زویا پر پڑی تو وہ اپنی نظریں چاہ کر بھی زویا پر سے ہٹا نہیں سکا میرون بلیک کمبینیشن میں زویا کا حسن نکھر کر سامنے آرہا تھا وہ زیرلب ماشأاﷲ کہتا اس کے پاس آیا ۔
”آئندہ تم یہ کلر گھر سے باہر ہرگز نہیں پہنو گی ۔“یہ کہہ کر اس نے زویا کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیا اور مال سے باہر نکلا ۔
دن کی روشنی میں زویا کے سنہرے بال اور سبز آنکھیں چمک رہی تھی کانوں میں چمکتے ٹاپس اور گردن میں موجود سنہری چین اس پر بیحد جچ رہے تھے زویا کا حسن و جمال زوار کے سینے میں تلاطم پیدا کررہا تھا وہ چلتے چلتے رک گیا اور گاڑی کی چابی زویا کی طرف بڑھائی۔
”مسز زی تم جا کر گاڑی میں بیٹھو میں اندر سے تمہارے لئیے اسکارف اور کوٹ خرید کر آتا ہوں ۔“
زویا نے چابی تھامی اور پارکنگ کی جانب چلی گئی ۔
**************************
پلین کی لائٹس آف ہوچکی تھی ائیراسٹاف سمیت سارے مسافر آرام کررہے تھے سناٹا سا چھایا ہوا تھا اور بلال ابھی تک اپنے برابر بیٹھی لڑکی کی آنکھوں کو سوچ رہا تھا ۔۔
”ہو بہو وہی آنکھیں ہیں وہی کشش ہے کہی یہ لڑکی ۔۔۔۔“
صوفیہ کی بائیں آنکھ کے اندر ایک چھوٹا سا تل تھا اب کسی بھی طرح وہ اس لڑکی کی آنکھوں کو دوباره دیکھنا چاہ رہا تھا ۔
”ایکسکیوزمی مس ۔“ بلال نے اس لڑکی کو مخاطب کیا ۔
جس پر اس لڑکی نے کوئی جواب نہیں دیا اور آنکھیں بند کئیے بیٹھی رہی جیسے سو رہی ہو ۔بلال تھوڑا سا اسکی جانب جھکا ۔
”ایکسکیوزمی مس ۔“دوباره مخاطب کیا پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی بلال نے اس لڑکی کے نزدیک ہو کر ایک گہری سانس لی ۔۔۔
صوفیہ کی سی خوشبو محسوس ہوئی وہ ماضی میں صوفیہ کہ قریب رہ چکا تھا قطر میں محل میں دونوں ایک ہی کمرے میں رہ چکے تھے اسے بڑی شدت سے اس لڑکی پر صوفیہ کا گمان ہورہا تھا بالآخر اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اس آنکھیں بند کر کے لیٹی ہوئی لڑکی کے نقاب کی طرف بڑھایا۔۔
****************************
اریانا سنجیدگی سے کمپیوٹر کے آگے بیٹھی زوار کی کار میں لگے اسپائی کیمرے کو ٹریک کررہی تھی اسے زویا اور زوار کے گاڑی کے پاس کھڑے ہوکر باتیں کرنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھی جب زوار نے ٹیکسی کرنے کا کہا تو اس کی سانس اٹک گئی تھی شکار ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا تھا پر اس بےوقوف زویا نے اسے گاڑی میں چلنے پر آمادہ کرلیا تھا ۔۔۔
وہ جلدی سے اپنے فون اسکرین کو ٹریکر کیمرے سے لنک کرکے خود بھی گاڑی لےکر ان کے پیچھے نکل پڑی ۔زوار کی گاڑی چل رہی تھی اور اریانا کو اسکرین پر اس کی لوکیشن واضح نظر آرہی تھی اریانا کا ارادہ کسی بھی لمحے جب زوار زویا سے دور ہوتا اس گاڑی کو زویا سمیت اڑا دینے کا تھا ۔
کچھ دیر ڈرائیو کے بعد زوار کی گاڑی ایک مال پر رک گئی تھی اور وہ دونوں ہی اتر کر اندر چلے گئے تھے اریانا بھی انہیں ٹریک کرتی پارکنگ تک آچکی تھی اور زوار کی گاڑی سے خاصا فاصلہ رکھ کر رک گئی تھی اور اب کافی دیر سے دوربین آنکھوں سے لگائے مال کے دروازے کو فوکس کئیے بیٹھی تھی تقریباً ایک گھنٹہ بعد زوار اس لڑکی زویا کا ہاتھ تھامے باہر نکلا ۔
زوار کا پورا ارتکاز و توجہ اس لڑکی پر تھی وہ زوار کی آنکھوں سے جھلکتے جذبات دیکھ رہی تھی پھر وہ اس لڑکی کو کچھ ہدایات دیتا واپس مال کے اندر چلا گیا ۔
زویا آرام سے چلتی ہوئی گاڑی کی طرف آرہی تھی اریانا کی آنکھوں میں ٹارگٹ اچیو کرنے کی چمک بڑھتی جا رہی تھی اس نے اس گاڑی میں لگے بارود سے بھرے اسپائی کیمرے کے ذریعے گاڑی اڑانے کیلئیے اپنی ڈیوائس کی جانب ہاتھ بڑھایا ۔