زوار کو فلائنگ کلب کا ایڈرس بتانے کے بعد پروفیسر شبیر سیٹلائٹ کے ذریعے اس قطری پرائیوٹ جہاز کو ٹریک کررہے تھے جب انہیں اسکرین پر اپنی اسٹیٹ کے اوپر ایک ہیلی کاپٹر نظر آیا اسی وقت زوار کی کال آرہی تھی وقت کم تھا انہوں نے انٹرکام کے ذریعے بلال اور صوفیہ کو اپنے کنٹرول روم میں آنے کو کہا اس کے بعد انہوں نے ٹرانسمیشن ڈیوائس کے ذریعے زوار سے رابطہ کیا ۔
”ٹائیگر اسٹیٹ کے اوپر ایک ہیلی کاپٹر ابھی ابھی ٹریس ہوا ہے لگتا ہے کوئی ہم پر حملہ کرنے والا ہے ۔“ پروفیسر شبیر نے کہا اتنے میں بلال اور صوفیہ بھی اندر آچکے تھے اور اسکرین پر ہیلی کاپٹر کو دیکھ رہے تھے
”شیری چاچو آپ ہوشیار رہیں اگر یہ اندر آتے ہیں تو یقیناً کسی قسم کی بیہوش کرنے والی گیس کا استمعال کرینگے کوشش کر کے انہیں زندہ پکڑ لیں میں واپسی کی سمت میں روانہ ہوچکا ہوں تیس منٹ تک پہنچتا ہوں ۔“ زوار نے سنجیدگی سے کہا
”اوکے ٹائیگر تم پہنچو ہم انہیں سنبھالتے ہیں اور ایک بات میں انڈر گراؤنڈ راستہ کھول رہا ہوں تم اس راستے سے آرام سے ان کی نظروں میں آئے بغیر اندر آسکتے ہو ۔“ شبیر نے بات ختم کرکے زوار کو انڈرگراؤنڈ راستے کا نقشہ سینڈ کیا ۔
”سر آپ نے بلوایا تھا ۔۔۔“ بلال نے پروفیسر شبیر کو مخاطب کیا ۔
”مائی چائلڈ میں آپکا بھی چاچو ہوں سر نہیں چلے گا ۔۔۔“ شبیر نے بات کی
”یہ ہیلی کاپٹر ابھی ابھی ٹریس ہوا ہے باقی زوار کی ہدایات تو آپ نے سن ہی لی ہیں ۔۔“ شبیر نے اسکرین کی جانب اشارہ کیا ۔
”جی چاچو ۔۔“ بلال نے اثبات میں سر ہلایا
شبیر ایک الماری کی جانب بڑھے اور وہاں سے تین گیس ماسک ڈھونڈ کر لائے ۔
احتیاطاٌ ہمیں ماسک پہن کر تیار رہنا چاہئیے ....
شبیر بلال اور صوفیہ تینوں باہر موجود افراد کی حرکات و سکنات کیمرے کی آنکھ سے دیکھ رہے تھے کاپٹر نے رسی کے ذریعے ماسک نیچے پھینکے ۔
” اٹس ٹائم فار ایکشن بلال صوفیہ تیار ہوجاؤ ۔“ شبیر نے ماسک پہنتے ہوئے دونوں سے کہا ۔
وہ دونوں گیس ماسک پہن چکے تھے اب کیمرے میں کاپٹر کو اوپر سے گیس بم گراتا دیکھ رہے تھے ۔
گیس بم گرنے کے پندرہ منٹ بعد دو ماسک پہنے افراد احتیاط سے چلتے ہوئے اندر راہداری میں داخل ہوچکے تھے ۔
”شبیر چاچو ابھی آپ کا سامنے آنا مناسب نہیں ہے آپ ادھر ہی رکیں میں ان کو قابو کرتا ہوں۔۔“
بلال نےکہا اور شبیر کے اثبات میں سر ہلانے پر آگے بڑھا ہی تھا کہ صوفیہ بھی اس کے ہمقدم ہوئی ۔
”تم کدھر جارہی ہو آرام سے چاچو کے پاس رکو۔“ بلال نے ٹوکا
”میجر بلال میں اپنا کام کررہی ہوں آپ اپنا کیجئیے ۔“
صوفیہ جواب دیتی ہوئی آگے بڑھ گئی اس کا رخ داہنی جانب تھا جہاں سے اس نے کیمرے سے زوار کو داخل ہوتے دیکھ لیا تھا ۔
شبیر نے اپنا دروازہ بند کرلیا تھا بلال بھی صوفیہ کی نظروں کے تعاقب میں زوار کو دیکھ چکا تھا جو سانس روکے تیزی سے انہی کی سمت آرہا تھا ۔
”بلال ٹارگٹ کدھر ہے ۔۔۔۔“ زوار نے پوچھا
”زوار بھائی وہ الٹے ہاتھ پر بنے ایک ایک کمرے کو کھول کر چیک کررہے ہیں ۔۔۔“ بلال نے رپورٹ دی ۔
”میجر میں آپ کیلئیے ماسک ارینج کروں ۔“ صوفیہ نے پوچھا ۔
”اٹس فائن گیس کو چھوڑے ہوئے بیس منٹ ہوچکے ہیں اب یہ اپنا اثر کھو چکی ہے لیٹس گو ٹیم ۔۔۔“ زوار جبار کی جانب بڑھتا ہوا بولا ۔
ابھی وہ ان کے قریب دیوار کی آڑ لیکر پہنچے ہی تھے کہ جبار کا فون بجا اور انہیں اس سناٹے میں جبار کی گونجتی آواز سنائی دی ۔
”محترم فہد کریمی یہ ایک بہت بڑا محل ہے میں ایک ایک کمرے میں جا کر محترمہ محبوبہ صاحبہ کو ڈھونڈ رہا ہوں تھوڑا ٹائم دیجئیے ۔۔“ جبار گڑگڑا رہا تھا
”بلال صوفیہ کئیر فل یہ تو فہد کریمی کے ساتھی ہیں اور جس محبوبہ کو ڈھونڈنے آئے ہیں وہ یقیناً صوفیہ ہے ۔۔۔“ زوار نے تجزیہ کیا
”جی زوار بھائی یہ فہد کریمی ایک گندی مچھلی ہے اب وقت آگیا ہے کہ اسکا کام تمام کردیا جائے اور اسکے اڈے تباہ کردئیے جائیں ۔“ بلال نے سنجیدگی سے کہا
”ٹھیک ہے صوفیہ تم ماسک اتار کر مجھے دو اور اندر کمرے میں جاکر بیہوش بن کر لیٹ جاؤ ۔“ یہ کہہ کر زوار بلال کی طرف مڑا
”بلال تم اندر کمرے کے دروازے کے پیچھے پوزیشن لے لو میں باہر سے اٹیک کرونگا ہمیں انہیں ہوش و حواس کے ساتھ پکڑنا ہے۔“ زاور نے ہدایات دیں ۔
بلال صوفیہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔
” محترمہ محبوبہ صاحبہ آپ کدھر بیہوش ہونا پسند کرینگی بیڈ پر یا قالین پر ۔۔“ بلال چبا چبا کر بولا
”میجر میں تو بیہوش ہونے جارہی ہوں پر اگر تم ہوش میں نہیں ہو تو کیا پہلے تمہارے ہوش ٹھکانے لگا دوں ۔“ صوفیہ نے اسے اور جلایا
”گائیز وہ آرہے ہیں ٹیک پوزیشن ۔۔۔“ باہر سے زوار کی آواز کے آتے ہی صوفیہ جلدی سے اوندھے منہ فرش پر لیٹ گئی
بلال نے آگے بڑھ کر بیڈ سے چادر اٹھائی ہی تھی کہ صوفیہ کو ڈھک دے کے وہ سر اٹھا کر غرائی ۔
”میجر میں چادر اوڑھ کر پلان بنا کر بیہوش نہیں ہوئی ہوں عقل کے ناخن لو ۔“
قدموں کی آواز قریب آچکی تھی بلال چادر پھینکتا ہوا تیزی سے دروازے کے پیچھے جاکر کھڑا ہوگیا ۔
دو افراد ماسک پہنے ہوئے اندر داخل ہوئے اور زمین پر پڑی صوفیہ کو دیکھتے ہی اسکی جانب لپکے ۔۔
زوار بھی ان کے پیچھے دبے قدموں اندر داخل ہوچکا تھا اور بلال بھی دروازے سے باہر نکل چکا تھا ۔
اس سے پہلے جبار کے ہاتھ صوفیہ کو چھوتے وہ بجلی کی تیزی سے سیدھی ہوئی اور اپنی سمت جھکے جبار کو ایک زوردار کک ماری ۔
جبار اور اس کا ساتھی دونوں تنظیم کے ٹرینڈ آدمی تھے زوار اور بلال دونوں سے برابر کا مقابلہ کررہے تھے جب دروازہ کھول کر پروفیسر شبیر ہاتھ میں الیکڑک ٹیزر گن لئیے داخل ہوئے اور ایک ایک کرکے دونوں کو نشانہ بنایا اس گن سے کرنٹ کی لہر نکل کر جبار کے جسم سے ٹکرائی اور وہ فرش پر گر کر تڑپنے لگا اسکے ساتھی کا بھی یہی حال تھا ۔۔۔
”بلال ہری اپ ہمیں ان کا بھیس دھارنا ہے ۔“ زوار نے کہا
زوار اور بلال نے دونوں کو پکڑ کر ان کے لباس اپنے لباس سے بدلے اور ان کے ماسک اتار کر خود پہنے ۔
” فہد کریمی کا پرائیوٹ جیٹ زویا کو لیکر جاچکا ہے اس سے اچھا موقع اب ہمیں نہیں ملے گا ہم ان کے بھیس میں ہیلی کاپٹر میں گھس کر موقع پا کر فہد کریمی کو یرغمال بنا کر اس کے اڈے پر اینٹری حاصل کرلینگے اور اس پورے ریکٹ کو تباہ کردینگے ۔“ زوار نے اپنا پلان بتایا
”صوفیہ تم بیہوش رہنے کی ایکٹنگ کروگی اپنی ٹرانسمیشن ڈیوائس آن رکھنا بلال ہم دنوں ان کے ماسک پہن کر چلینگے اور شیری چاچو آپ ڈیڈ اور انکل جہانگیر سے فوری کانٹیکٹ کیجئیے ۔۔
تینوں آئی ایس آئی کے جیالے زوار بلال اور صوفیہ تیار تھے اپنےلباسوں میں مہلک ہتھیار چھپائے اپنے وطن عزیز کے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کو وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے اسٹیٹ سے باہر کی جانب قدم اٹھاتے ہیلی کاپٹر کی جانب بڑھ رہے تھے ۔
”داخل دروازے کے پاس پہنچ کر بلال نے کچھ بھی کہے بغیر جھک کر صوفیہ کو نرمی سے اٹھا کر اپنی پیٹھ پر لاد لیا ۔
صوفیہ بلال کے کندھے سے لٹکی ہوئی تھی تینوں اس اندھیرے میں کاپٹر میں بیٹھ چکے تھے ۔
***********************
ہیلی کاپٹر تیز رفتاری سے فضا میں بلندیوں کو چھوتا ہوا قطر کی جانب اڑتا جا رہا تھا تبھی گیس ماسک پہنے ہوئے زوار نے بلال کو آنکھ سے اشارہ کیا وقت آگیا تھا کہ کاپٹر پر قبضہ کرلیا جائے مگر شہزادہ فہدکریمی چوکنا پائیلٹ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ایک چھوٹی سی غلطی ان سب کو موت کے منہ میں لے جاسکتی تھی ۔
تبھی زوار نے اپنے پیچھے بیٹھی صوفیہ کو شہزادہ فہد کی توجہ بٹانے کا پیغام میسج کے ذریعے دیا ۔
شہزادہ فہد کریمی کی پوری توجہ اپنے محل میں پہنچنے والی زویا کی طرف تھی اس کے حساب سے زویا محل میں چھ گھنٹہ کے اندر اندر پہنچنے والی تھی اور اب صوفیہ بھی اس کے پاس تھی ان دونوں پر اسکا دل بری طرح آیا تھا اس کے دل و دماغ میں جنگ سی چھڑی ہوئی تھی کہ وہ پہلے کس کے پاس جائے اس سبز آنکھوں والی حور کے پاس یا اس پٹاخہ صوفیہ کے پاس اور صبح اسے تنظیم کے بڑے اجلاس میں بھی شرکت کرنی تھی وہ اپنی سوچوں میں گم تھا جب اس کے کانوں میں زوردار نسوانی چیخ کی آواز سنائی دی ۔۔
صوفیہ زوار کا اشارہ پاتے ہی اٹھ بیٹھی تھی اور ایک فلک شگاف چیخ مار کر اپنا گلہ پکڑے بیٹھی تھی اس کا سانس رک رک کر چل رہا تھا خوبصورت شہد رنگ آنکھوں میں نمی تھی ۔۔
صوفیہ کی چیخ سنتے ہی فہد کریمی نے گردن گھما کر پیچھے کی جانب دیکھا ۔
”کیا ہوا ہے اسے چیک کرو ۔“ اس نے جبار کے لباس میں ملبوس زوار سے کہا
زاور سر ہلاتا صوفیہ کی جانب مڑا اور اسے ایک آنکھ ماری ۔
زوار کے آنکھ مارتے ہی صوفیہ نے مچھلی کی طرح تڑپنا شروع کردیا بلال نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لیا ہی تھا کہ فہد کریمی سانپ کی طرح پھنکارا ۔
”دور رہو اس لڑکی کو ہاتھ مت لگاؤ یہ صرف ہمارے لئیے ہے۔“
بلال تیزی سے صوفیہ سے الگ ہوا اور عربی میں لہجہ بدل کر اس سے مخاطب ہوا
”محترم اس لڑکی کی سانس اکھڑ رہی ہے شاید گیس اس کے دماغ کو چڑھ گئی ہے اور ہوا کا دباؤ بھی بہت ہے اگر اسے زندہ رکھنا ہے تو مصنوعی تنفس دینا پڑے گا ۔“
”پائلیٹ کاپٹر کو کسی ویرانے میں اتارو ہم اپنی محبوبہ کو تنفس خود دینگے ۔؎ “ شہزادہ فہد کریمی نے حکم دیا
پائلیٹ نے اثبات میں سر ہلایا اور کاپٹر چکر کھاتا ہوا نیچے اترنے لگا
صوفیہ کی اداکاری اپنے عروج پر تھی فہد کریمی کا پریشانی سے برا حال تھا وہ صوفیہ کو برتے بغیر مرنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا صوفیہ کے وجود کو حاصل کرنا اس کی ضد بن چکی تھی تو دوسری جانب اس اندھیرے میں بھی زوار اور بلال کی آنکھیں اپنے پلان کی کامیابی پر جگمگا رہی تھی ۔
_________
ہیلی کاپٹر دھیرے دھیرے نیچے اتر رہا تھا کاپٹر کے زمین کو چھوتے ہی فہد کریمی نے تیزی سے سیٹ بیلٹ کھولی اور کود کر باہر اترا اور پیچھے کے دروازے کی طرف بڑھا ۔
” جبار تم اترو اور آگے کی سیٹ پر بیٹھو اور تم ۔۔۔“ اس نے بلال کی جانب انگلی اٹھائی ۔
”تم بھی آگے ہی کی سیٹ پر ایڈجسٹ کرو چلو اترو دونوں ۔۔“ فہد کریمی نے حکم دیا ۔
زوار اور بلال دونوں ایک ساتھ کود کر نیچے اترے پائلیٹ پر قابو کئیے بفیر فہد کریمی پر حملہ کرنا بیکار تھا زوار بلال کو وہی کھڑا رہنے کا اشارہ کرکے خود پائیلٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اتنے میں فہد کریمی بھی پیچھے اچک کر بیٹھ گیا تھا تبھی زوار نے ایک زوردار نعرہ لگایا ۔
نعرہ تکبیر ۔۔اللہ ہواکبر ۔
اور پائیلٹ کی گردن پر ایک زور دار وار کیا اس سے پہلے پائیلٹ کوئی ایمرجنسی سگنل دے پاتا اسے گردن سے دبوچ کر اس کی سائیڈ کا دروازہ ہاتھ بڑھا کر کھولا اور اسے کاپٹر سے نیچے دھکیل کر خود بھی باہر کود گیا پائلیٹ زوار کے ایک ہاتھ کی مار تھا وہ ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا اور اس کی گردن ڈھلک گئی تھی ۔۔
زوار کے نعرہ تکبیر کے بلند ہوتے ہی صوفیہ نے اللہ ہو اکبر کہتے ہوئے فہد کریمی کو گریبان سے پکڑ کر اس کی گردن پر چہرے پر پے درپے وار کئیے اور ایک زور دار کک مار کر کھلے دروازے سے باہر گرا دیا ۔
فہد کریمی سکتے کی سی کیفیت میں خونخوار بنی صوفیہ سے مار کھا کر نیچے گرا اور بلال نے اسے اپنی ٹھوکروں پہ رکھ لیا وہ بلال کے ہاتھوں بری طرح پٹ رہا تھا جب زوار پائیلٹ کو ٹھکانے لگا کر آیا ۔
بلال نے ایک جھٹکے سے فہد کریمی کو زوار کی جانب دھکیلا
زوار نے بڑے آرام سے اسے گردن سے پکڑا ۔
”میجر زوار میں پاکستان کا خیر خواہ ہوں اگر تم نے مجھے فوراً نہیں چھوڑا تو دونوں ممالک کے تعلقات ختم ہوجائینگے اور ہم تمہارے پاکستان کو امداد بھی نہیں دینگے ۔“ فہد کریمی زوار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھمکی آمیز انداز میں بولا ۔۔
” فہد کریمی پاکستان مملکت خداداد ہے تم جیسے ہزار کتے بھی ملکر اس سرزمین پاک کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔“ زوار نے ایک زور دار باکسر اس کے منہ پر مارا وہ لڑکھڑا کر نیچے گر گیا اس کا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا تھا ہونٹوں کے کناروں سے خون کی لکیر بہہ رہی تھی ۔
” ہمارے ملک میں آکر شکار کے بہانے دھشت گردوں کو اسلحہ پہنچاتے ہو ہماری معصوم عوام کو نقصان پہنچاتے ہو ایک ایک بات کا حساب دینا ہوگا ۔“ میجر زوار نے پتھریلی زمین پر گرے فہد کریمی کو ایک زور دار ٹھوکر ماری۔
” دیکھو مجھے چھوڑ دو بدلے میں جتنی دولت جواہرات محل چاہئیے لے لو بس مجھے چھوڑ دو میں اب کبھی بھی تمہارے پاکستان نہیں جاؤنگا مجھے معاف کردو اور جانے دو ۔۔“ فہد زوار کی آنکھوں میں جنون دیکھ کر گڑ گڑایا
” ٹھیک ہے تو پھر تم ہمیں بڑے اڈے پر لیکر چلو اندر تک پہنچاؤ میرا وعدہ ہے میں تمہیں وہاں پہنچ کر آزاد کردونگا کیوں میجر بلال کیا کہتے ہو۔“ زوار نے سنجيده کھڑے بلال سے پوچھا ۔
بلال نے ایک لحظہ کو رک کر زوار کے چہرے کو دیکھا ۔
”میجر آپکا وعدہ ہے تو آپ اسے چھوڑ دیجئیے گا یہ آپ دونوں کا معاملہ ہے ۔“ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا ۔
فہد کریمی بری طرح پھنس گیا تھا اگر زوار کو منع کرتا تو جان سے جاتا اور اگر تنظیم سے غداری کرتا تو بھی مارا جاتا تبھی اس کے ذہن میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا۔
”میجر زوار ۔۔۔“ وہ بڑی مشکل سے کھڑا ہوا ۔
”وا للہ حبیبیی زوار تمہاری نازک سی حور شمائل بیوی ہمارے قبضے میں ہے اگر اس کی زندگی اور عزت عزیز ہے تو ہمیں چھوڑ دو ورنہ اسے بھول جاؤ ۔“ فہد کریمی نے مکاری سے کہا
” فہد کتے میری بیوی پہ ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں ہے جب تو ہی مرجائے گا تو ! بول تو پھر تو کیا کرسکے گا۔“زوار نے اسے اپنی ٹھوکروں پر رکھ لیا تھا
شہزاده فہد کریمی مار کھا کھا کر مرنے کے قریب تھا جب زوار نے گن نکال کر اسکے ماتھے پر رکھی
”مجھے مت مارو “ وہ ہزیانی انداز میں چیخا
زوار نے ٹریگر پر دباؤ بڑھایا ۔
” میں میں تمہیں بڑے اڈے لے چلتا ہوں جیسا کہو گے ویسا ہی کرونگا بس تم یہ گن ہٹاؤ ۔“ فہد کریمی گڑگڑایا
زوار نے گن جیب میں رکھی فہد کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے بلال کے ساتھ پیچھے بٹھایا اور صوفیہ کو آگے بیٹھنے کا اشارہ کرکے خود پائیلٹ کی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔
ہیلی کاپٹر اسٹارٹ ہوچکا تھا زوار کا رخ دوحہ کی جانب تھا اس کے لب سختی سے بھینچے ہوئے تھے چہرے پر موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا اس کے دماغ کا ایک حصہ مسلسل زویا کو سوچ رہا تھا ۔
”بس تھوڑی دیر اور مسز زی میں آرہا ہوں ۔“
بلال نے فہد کریمی پر پوری نظر رکھی ہوئی تھی اور اس کے بتائے راستے پر ہیلی کاپٹر اڑ رہا تھا ۔
***********************
کیپٹن حمید کاک پٹ بند کئیے جہاز کو مہارت سے اڑاتا عرب امارات کی حدود میں داخل ہوچکا تھا کسی بھی ائیر ٹریفک کنڑول نے اسے نہیں روکا تھا بلکہ اسے شہزادہ فہد کریمی سمجھ کر راستہ دیا جارہا تھا ۔سامنے اسکرین پر بڑے اڈے کا نقشہ تھا اور کیپٹن حمید اپنی منزل سے کچھ گام کے فاصلے پر تھا ۔
اس نے اپنا فون نما ٹرانسمیشن ڈیوائس اٹھائی ۔
”کیپٹن حمید رپورٹنگ سر ۔۔۔پلین پر قبضہ ہوچکا ہے میں منزل سے بہت قریب ہوں ۔۔“
***************************
رات کے اندھیرے میں رگوں کو کاٹتےتند خنک ہوا کے جھونکے اس کے نازک سے وجود کو اڑائے لے جارہے تھے اسے لگ رہا تھا کہ اس کا دل بند ہونے کو ہے وہ سو تک گنتی گننا بھول گئی تھی قریب تھا کہ بیہوش ہوجاتی کہ اس کے کانوں میں زندگی سے بھرپور آواز گونجی
” مسز زی۔۔۔آرام سے اب تم بلکل محفوظ ہو “
”شش زویا میں ہونا ۔۔۔سب ٹھیک ہے چپ ہوجاؤ ۔۔۔“
”کدھر ہیں آپ میجر سر کدھر ہیں ۔“ زویا کی آنکھ سے آنسو نکلا
” مسز زی۔۔۔میں کسی کو بھی تمہیں مجھ سے چھیننے نہیں دونگا ۔۔۔تمہیں میرے ساتھ ہونا تھا اور دیکھ لو تم میرے ساتھ ہی ہو “ ۔۔۔۔زوار کی آواز دماغ میں گونج رہی تھی اسے حوصلہ دے رہی تھی
زمین قریب آرہی تھی اس نے آنکھ بند کرکے اللہ کو یاد کیا اور پوری جان لگا کر پیراشوٹ کی رسی کھینچی
ایک زور دار جھٹکے سے پیراشوٹ کھل کر اوپر کی طرف ہوا کے دوش پر اڑا پھر گول گول چکر کھانے کے بعد زمین کی طرف آنے لگا زویا ان تیز گول چکروں کی تاب نہ لاکر بیہوش ہو چکی تھی
#ایک_ہفتہ_پہلے
کیپٹن حمید کو تمام ہدایات دینے کے بعد کرنل جھانگیر پاسنگ آوٹ پریڈ ختم ہونے کا انتظار کررہے تھے پریڈ کے اپنے اختتام پر پہنچتے ہی وہ تیزی سے اپنے آفس کی جانب روانہ ہوئے ۔۔
تھوڑی دیر بعد ہیڈ کوارٹر پہنچ کر اردلی کو ہدایات دیتے ہوئے وہ اپنے آفس روم میں داخل ہوئے اور فون اٹھا کر کال ملائی۔۔۔
”گڈ ایوننگ بریگیڈیئر افتخار کم آن سیف لائن۔“ یہ کہتے ہی فون رکھ دیا ۔
کچھ ہی منٹ کے بعد کرنل جہانگیر کے سامنے رکھا آرمی کا مخصوص فون نما آلہ بجا ۔
”یس کرنل کیا ہوا ۔۔۔“ بریگیڈیئر افتخار کی بھاری آواز گونجی
”بریگیڈیئر افتخار کیا آپ کو اسوقت میجر زوار اور پروفیسر شبیر کی کوئی انفارمیشن ہے جو ہمیں نہیں پتہ ۔“ کرنل نے استفسار کیا
”کرنل جیسا کہ انٹیلیجنس کی رپورٹ آئی تھی کہ شبیر جیسے آدمی کو آئیرلینڈ میں دیکھا گیا ہے تو میجر زوار فوراً ادھر گیا تھا اور وہاں اس کا شبیر سے کانٹیکٹ ہوگیا تھا اسوقت شبیر اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور جلد ہی منظر عام پر آجائے گا ۔“ بریگیڈیئر صاحب نے تفصیل بتائی۔
”شبیر زندہ ہے ۔۔۔“ کرنل جہانگیر نے کنفرم کیا
”یس کرنل ہمارا شیری زندہ ہے ۔“ بریگیڈیئر افتخار نے جواب دیا
” افتخار آج اطلاع ملی ہے کہ قطری محل والے زوار کا ہمشکل ڈھونڈ رہے ہیں میونخ بھیجنے کیلئیے میں نے کیپٹن حمید کو پلاسٹک میک اپ میں زوار کے بھیس میں وہاں جانے کی ہدایت دے دی ہے مگر اس شہزادے کا اسطرح زوار کا ہمشکل ڈھونڈنا اس کے پیچھے کوئی بڑا گیم لگ رہا ہے ۔“ کرنل نے تفصیل بتائی ۔
”آپ کی بات درست ہے میں خود قطر کیلئیے روانہ ہوتا ہوں اور آپ کیپٹن حمید سے برابر رابطے میں رہیں اور ساتھ ہی ساتھ جوانوں کی ٹیم تیار کیجئیے میں چیف آف اسٹاف سے بات کرتا ہوں پشاور میں موجود قطری ہاؤس اور شپ کو تباہ کرنا ہے اور اس فہد کریمی جیسے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ کر جہنم رسید کرنا ہے ۔“ بریگیڈیئر افتخار نے ہدایات دی ۔
***********************************************
بریگیڈیئر افتخار پہلی فلائٹ سے قطر پہنچ چکے تھے اور پاکستانی سفارت خانے میں ساؤنڈ پروف روم موجود تھے جب انہیں ملاقاتی کے آنے کی اطلاع ملی ۔۔۔۔
لمبی اٹھان ورزشی جسامت رکھنے والا کیپٹن حمید زوار کے بھیس میں اندر داخل ہوا
بریگیڈیئر بھی ایک لمحہ کو اسے دیکھ کر دھوکہ کھا گئے تھے ۔۔۔
”کیپٹن حمید ایٹ یور سروس سر ۔۔۔“ کیپٹن حمید نے سلیوٹ مارا ۔
”ایٹ ایز کیپٹن اینڈ سٹ۔“ بریگیڈیئر افتخار نے سامنے رکھی کرسی کی جانب اشارہ کیا ۔
”کیپٹن حمید ابھی تھوڑی دیر بعد تمہیں فہد کریمی کے محل بھیج دیا جائے گا تم ہر ممکن حد تک ان کے ساتھ مل کررہنا اور فہد کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھنا اور کرنل کو رپورٹ دیتے رہنا ۔“ یہ کہہ کر بریگیڈیئر افتخار نے اپنا بریف کیس کھولا اور ایک کالا تعویذ نکال کر کیپٹن کی جانب بڑھایا۔
”کیپٹن یہ تعویذ کی شکل میں ایک جدید ٹریکنگ ڈیوئس ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم تمہاری آواز بھی سن سکتے ہیں اور تم بھی مورس کوڈ میں پیغام بھیج سکتے ہو ۔“
کیپٹن نے ہاتھ بڑھا کر تعویذ لیا اور اپنے گلے میں پہن لیا ۔۔۔
”گڈ لک کیپٹن ۔“ بریگیڈیئر افتخار نے کہا اور کیپٹن حمید سلام کرتا اپنے مشن پر روانہ ہوگیا ۔
*********************************************
بریگیڈیئر افتخار کیپٹن حمید کے گلے میں موجود تعویذ نما ڈیوائس میں موجود مائکرو فون کے ذریعے دشمن کی ایک ایک حرکت سے واقف ہو رہے تھے اور جب انہیں یہ پتہ چلا کہ زویا سر فورڈ کے پاس ہے تو انکا غصہ سے برا حال تھا جو بھی تھا زوار کو زویا کو چارہ بنا کر نہیں ڈالنا چاہئیے تھا انہوں نے سوچ لیا تھا کہ اس مشن کے بعد زوار کو اور شبیر کو سبق سکھانا ہے ۔
کیپٹن حمید زویا کو بحفاظت لیکر فہد کریمی کے جہاز میں لیکر نکل گیا تھا اس نے کوڈ ورڈز میں آگے کی ہدایات مانگی تھیں ۔۔۔
کرنل جہانگیر آرمی کے جوانوں کے ساتھ میجر دلاور کی نگرانی میں بلوچستان میں موجود قطری شہزادے کی محل نما رہائش کی گھیرابندی کرچکے تھے اندر کئی دھشت گرد موجود تھے جو انسانی اسمگلنگ سے لیکر ڈرگز کی سمگلنگ تک میں ملوس تھے یہ محل ان کی پناہ گاہ اور عیاشی کا گڑھ تھا کئی معصوم بچیاں ان کی وحشت اور بربریت کا نشانہ بن چکی تھی مگر حکومت نے اس معاملے پر اپنی آنکھیں بند کررکھی تھی ۔
یہ پاک آرمی کا آپریشن تھا اشارہ ملتے ہی جوانوں نے دھاوا مار دیا تھا اس آپریشن کی خاص بات یہ تھی کہ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑنا تھا چن چن کر ان کے وجود سے پاک سرزمین کو پاک کرنا تھا اور مغوی بچوں بچیوں کو آزاد کرانا اور اسلحہ کو اپنے قابو میں لینا تھا ۔
ایک طرف پاک فوج کے جوان اس آپریشن میں مصروف تھے تو دوسری جانب فضاء میں موجود کیپٹن حمید کو ہدایات دی جاچکی تھی کسی بھی حکومتی اور بیرونی دباؤ کی پروا کئیے بغیر قطر کے نواحی علاقہ میں موجود تنظیم کے سب سے بڑے تربیتی اڈے کو تباہ کرنا تھا اس عمل سے ان دھشت گردوں کی کمر ٹوٹ جانی تھی ۔
********************************************
ہیلی کاپٹر تیز رفتاری سے اپنی منزل کی طرف گامزن تھا سامنے ڈیجیٹل اسکرین پر قطر کا نقشہ پھیلا ہوا تھا زوار شارٹ کٹ استمال کرتے ہوئے ائیر ٹریفک کنٹرول کی مدد سے قطر کی طرف گامزن تھا پچھلی سیٹ پر زخمی وجود لئیے فہد کریمی بلال کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا حالات کے پلٹنے پر حیران و پریشان فہد کریمی ابھی بھی ہار ماننے کو تیار نہیں تھا اس کے ہاتھ پیچھے کی جانب سختی سے بندھے ہوئے تھے وہ پوری کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اپنی انگلی کو حرکت میں لاکر اپنی انگھوٹی میں نصب ہیرے کے اندر چھپے پینک بٹن کو دبا سکے جس سے تنظیم والوں کو خطرے کا سگنل مل جاتا اور ہیلی کاپٹر کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی ان کے استقبال کی تیاری ہوجاتی ۔۔
بلال کے چوکننا بیٹھنے کی وجہ سے فہد کریمی زیادہ ہل جل نہیں پارہا تھا تبھی اس نے زوار کو مخاطب کیا ۔۔۔
”میجر زوار میں تمہارا ساتھ دینے کو تیار ہوں مجھے آزاد کردو میں تمہیں سارے ٹھکانے اور راز بتا دونگا بلکہ ایسا کرو تم ان محترمہ کو میرے ساتھ محل میں بھیجو اور خود تنظیم کے اڈے پر چلے جاؤ میں ساری فائلز اور اسلحہ محترمہ کے حوالے کردونگا ۔“ ۔
”بلال تم اس کمینے کریمی کو چپ کرواتے ہو یا میں آؤ ۔“ صوفیہ نے فہد کریمی کی بات کاٹتے ہوئے بلال سے کہا ۔
”میجر بلال اس کوشاید اندازہ نہیں کہ محترمہ کے ہاتھوں ہی اس محترم کا قیمہ بننے والا ہے ۔“ زوار نے بلال کو بیک مرر سے دیکھا ۔
”زوار بھائی یہ تو محترمہ کے ہاتھوں کی مار بھی تبرک سمجھے گا اس سے تو میں نبٹونگا ۔“ بلال نے مسکرا کر کہا۔
یہ لوگ اردو میں بات کرہے تھے جو فہد کریمی کے سر سے گزر رہی تھی منزل قریب آرہی تھی تینوں چوکنے ہوچکے تھے صحرائی علاقہ میں موجود بڑے بڑے ٹیلوں کے درمیان میں دھشت گردو کا اڈا نظر آرہا تھا ۔۔۔
”میجر اس اڈے کی دیوراوں کی نچلی سمت دیکھیں یقیناً اندر زمین دوز بھی کوئی عمارت موجود ہے ۔“ نائٹ گاگلز لگائے صوفیہ نے سنجیدگی سے کہا
زوار نے اثبات میں سر ہلایا اور ہیلی کاپٹر کو ایک بڑے سے ریت کے ڑیلے کے پیچھے اتار لیا ۔
” ایجنٹ ًصوفیہ تم یو ایس بی ریڈی رکھو تمہارا کام ان کے ماسٹر کمپیوٹرز تک رسائی حاصل کر کے ڈیٹا چرانا ہے تاکہ ان کے دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک کی ساری تفصیل ہمارے پاس ہو ۔“ یہ کہہ کر زوار بلال کی جانب مڑا
”میجر بلال تم بیک اپ میں رہو میں اس فہد کریمی کے ساتھ اندر داخل ہونگا پیچھے تم اور صوفیہ آؤگے اندر جاتے ہی تینوں نے بکھر جانا ہے بلال اور میں دائیں اور بائیں فائرنگ شروع کرینگے اور صوفیہ تم اس افراتفری کا فائدہ اٹھا کر کمپیوٹر روم میں کام کروگی انڈرسٹینڈ ٹیم مورل ہائی ٹیم ۔“
”یس میجر مورال ہائی میجر ۔“ صوفیہ اور بلال نے ایک ساتھ جواب دیا
”تم لوگوں کا دماغ درست ہے اندر ہزاروں کی تعداد میں اسلحہ سے لیس تنظیم کے ورکرز موجود ہیں یہ تو سراسر خودکشی ہے ۔“ فہد کریمی حیرت سے بول اٹھا ۔
”ہم اپنے سر سے کفن باندھ کر گھر سے نکلتے ہیں جو سامنے ہے وہ ہے آگے کی فکر ہمیں نہیں ہے ۔“ زوار نے جواب دیا ۔
”دیوانے ہوگئے ہو تم ۔۔“ فہد نے کاندھے اچکائے ۔
”ہماری فوج ہماری سرزمین ایسے دیوانوں سے بھر پڑی ہے تم ہماری فکر نہ کرو مین ڈور سے ہماری اینٹری کروا دو پھر مشن کے بعد اگر تم نے کارپوریٹ کیا تو تمہیں چھوڑ دینگے ۔“ زوار نے سخت لہجے میں کہا
زوار اور فہد کریمی آگے بڑھ رہے تھے ان کے ہیچھے ہی صوفیہ اور بلال تھے اندر پہنچ کر فہد کریمی نے اپنی داہنی آنکھ سیکیورٹی اسکینر پر رکھی اور دروازہ کھل گیا وہ تینوں بڑی تیزی سے اندر داخل ہوئے احاطہ پورا ویران تھا زوار نے چلتے چلتے اچانک مڑ کر فہد کریمی کے سر پر زور سے گن کا دستہ مارا جس سے وہ بیہوش ہو کر گر گیا اسے سامنے بوریوں کے پیچھے لٹا کر زوار نے ہاتھ اٹھا کر مشن اسٹارٹ کرنے کا اشارہ کیا اور گن سنبھالتا دائیں جانب مڑ گیا اس سے پہلے صوفیہ بھی روانہ ہوتی بلال نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا ۔۔۔
”کیا ہوا میجر دیر ہورہی ہے ۔“ صوفیہ جھنجھلائی
”صوفیہ وعدہ کرو اپنا خیال رکھو گی میں اس بار تمہیں کھونے کا رسک نہیں لے سکتا ۔“ بلال نے آنچ دیتے لہجے میں کہا ۔
صوفیہ نے چند لمحے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا ۔
”اوکے صوفیہ جلد ملتے ہیں یا تو غازی بن کر یا جام شہادت پا کر جنت میں ۔“ بلال اسکا ہاتھ آزاد کرتے ہوئے بولا اور بھاگتے ہوئے بائیں جانب غائب ہوگیا ۔
تھوڑی ہی دیر میں پوری عمارت گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی تھی ۔
*********************************************
بریگیڈیئر افتخار کو زویا کے صحرا میں اتارنے کی اطلاع مل چکی تھی وہ ابھی جیپ میں بیٹھ کر روانہ ہوئے ہی تھے کہ کرنل کی کال آگئی ۔
” بریگیڈیئر افتخار زویا بیٹی کو پیراشوٹ سے اتار دیا گیا ہے اور ہم آپریشن شروع کررہے ہیں آپ کیپٹن حمید سے کانٹیکٹ میں رہیں وہ جہاز پر قبضہ کرچکا ہے ۔“ کرنل نے انفارم کیا
کرنل سے بات کرنے کے بعد بریگیڈیئر افتخار نے کیپٹن حمید کی فریکیونسی ملائی ۔
”کیپٹن واٹس یور پلان۔“
”سر میں چند گھنٹوں بعد ان کے اڈے پر پہنچ جاؤنگا ان ہزاروں کی تعداد میں موجود دھشت گردو اور ان کے بارودی اسلحہ کو تباہ کردونگا ۔“
”کیپٹن کوئی اور طریقہ ۔“ انہوں نے بلا کی سنجیدگی سے پوچھا
”نہیں سر ان کی پوری آرمی کو موت کی گھاٹ اتارنے کیلئیے یہی واحد طریقہ ہے کہ میں یہ جہاز ان کے اڈے پر گرا دونگا ۔۔۔۔“ کیپٹن حمید نے جذبہ شہادت پانے کی شدت سے دوچار لہجے میں کہا
بریگیڈئر افتخار کپٹن حمید سے بات کرنے کے بعد صحرا کے وسط میں پہنچ چکے تھے اور اب نائٹ ویژن دوربین آنکھوں سے لگاۓ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے چاند کی روشنی پھیلی ہوئی تھی جب انہیں دور سے بلندیوں پر سے کوئی وجود گرتا ہوا نظر آیا انہوں نے فوراً فوکس کیا یہ یقیناً زویا تھی جو تیزی سے زمین کی جانب آرہی تھی ۔
"زویا بیٹی خدا کے لئے پیرا شوٹ کھولو "وه زمین سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی ۔
"یا اللّه اس بچی کی مدد کر "بریگیڈئر افتخار نے دعا مانگی ۔
زمین سے بہت قریب پہنچ کر پیرا شوٹ کھل گیا تھا اور ایک جھٹکے سے دوبارہ فضا میں بلند ہوا تھا ۔اب وه گاڑی میں بیٹھے اس پیرا شوٹ کا پیچھا کر رہے تھے ۔کافی آگے جا کر زویا زمین پر گری اور سارا پیرا شوٹ اس پر آگرا ۔بریگیڈئر صاحب جیپ سے اتر کر اسکی طرف بھاگے ۔
زویا زمین پر بیہوش پڑی تھی افتخار صاحب نے اسے اٹھا کر جیپ کی پچھلی سیٹ پر اسے آرام سے لٹایا اور اب انکا رخ پاکستانی سفارت خانے کی طرف تھا ۔
بوجھل ہوتے دماغ کے ساتھ اس نے آنکھیں کھولیں تو چاروں طرف روشنی ہی روشنی بکھری ہوئی تھی ایک عربی نرس اس پر جھکی ہوئی تھی وه ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔
"کن حذرا کن حذرا " نرس نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
تبھی دروازہ کھلا اور باوقار سے بریگیڈئر افتخار اندر داخل ہوئے زویا انہیں دیکھتے ہی پہلے حیران اور پھر بالکل پرسکون ھو گئی ۔
"سلام پاپا انکل "
"وعلیکم اسلام بیٹی اب کیسا محسوس کر رہی ھو " بریگیڈیئر افتخار نے پاس آکر شفقت سے پوچھا
زویا انہیں اپنے بارے میں بتانے لگی وه کرید کرید کر اس سے ساری تفصیلات پتا کر رہے تھے ۔
"زویا بیٹی آپ میرے ساتھ آؤ "وه زویا کو لیکر اندر ڈاکٹر کے کمرے کی جانب بڑھے ۔
"ڈاکٹر صاحب کیا آپ اپنے سرجیکل آلات سے ہماری بیٹی کے گلے میں پڑی یہ چین اور کانوں کے ٹاپس کاٹ کر اتار سکتے ہیں "ڈاکٹر سے سلام دعا کرنے کے بعد انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا ۔
"پاپا انکل یہ بابا کا تحفہ ہیں ۔"زویا تڑپ کر بولی ۔
"بیٹی انکے اترتے ہی وه تمہارا نامعقول باپ اور ناہنجار شوہر تیر کی طرح سیدھے ہو کر تمہارے پاس آئینگے ۔"افتخار صاحب نے کہا ۔
"کیا بابا مل گئے ۔"زویا کی آنکھوں میں چمک اتر آئی ۔
"وه کھویا ہی کب تھا چلو بس اب چپ چاپ یہ زنجیر اور ٹاپس اترواؤ ۔" افتخار صاحب گویا ہوئے ۔۔
ڈاکٹر نے بڑی احتیاط سے زویا کے گلے اور کان سے جیولری کاٹ کر اتاری اور پلاسٹک میں بند کرکے افتخار صاحب کو دے دی ۔
"چلو بیٹی زویا "
افتخار صاحب نے اسے چلنے کا اشارہ کیا ۔وه زویا کو لیکر پاکستانی سفیر کے گھر پہنچے ۔
"بیٹا آپ ادھر آرام کرو میں صبح تک آتا ہوں ۔پھر ہم باپ بیٹی مل کر پاکستان چلیں گے "۔انہوں نے زویا کو ہدایات دی
"پاپا انکل وه میجر سر اور بابا وه کدھر ہیں " ۔زویا نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا
"بیٹا ابھی آپ ان دونوں سے نہیں ملو گی جب تک انہیں یہ احساس نہیں ھو جاتا کہ انہیں آپ کے جذبات سے نہیں کھیلنا چاہئے تھا تب تک آپ میرے مری کے کاٹیج میں رہو گی ٹھیک ہے "وه اسکا سر پیار سے سہلاتے ہوئے بولے ۔
بریگیڈئر افتخار زویا کو چھوڑ کر اپنی جیپ میں دوبارہ صحرا کی طرف جا رہے تھے انکے لب بھینچے ہوئے تھے اور چہرے پر تفکر تھا ۔
پاکستانی فوج کا ایک جیالا جان باز سپاہی اپنی جان قربان کرنے والا تھا اور ان کے سگنل کا انتظار کر رہا تھا ۔
کپٹن حمید جہاز کو اڈے کے اوپر لے آیا تھا اور اب جہاز گول دائرے میں اڈے کے اوپر گھوم رہا تھا اسے بریگیڈئر افتخار کے آخری اشارے کا انتظار تھا پاکستان میں قطری محل پر ریڈ اور یہاں حملہ ایک وقت پر کرنا تھا ۔
*******************************************