حصولِ زر کیلئے زندگی گنواتے ہیں
عجیب لوگ ہیں خود موت کو بلاتے ہیں
یہ سارے لوگ جو اکثر نبھا نہیں سکتے
مگر یہ ہم ہیں نبھاتے ہیں دل لگاتے ہیں
تمہاری یاد کو اے جان دل کے جھولے میں
سنا کے لوری محبت کی ہم سلاتے ہیں
یہاں کے لوگ تو قابل نہیں محبت کے
یہاں کے لوگ تو ایسے ہی دل دُکھاتے ہیں
جو اہلِ ذوق ہی ٹھہریں تو روشنی لازم
چراغ دل تو اسی واسطے جلاتے ہیں
خلوصِ دل سے ہی ملتے ہیں عام لوگوں سے
خلوصِ دل سے ہی ہم سارے زخم کھاتے ہیں
شعور اس کو محبت کا یوں دلاتے ہیں
قدم قدم پہ اُسے آئینہ دِکھاتے ہیں