سوادِ حسن میں تیرے سوائے بلائے کون
غیریبِ شہر پہ آخر کو رحم کھائے کون
جو تتلیوں کی سہیلی ہے حد سے پیاری ہے
کہاں ہے اس کا ٹھکانہ مجھے بتائے کون
جو تو نے ساتھ مِرا چھوڑ ہی دیا ہے تو !
ذرا بتادو کہ مجھ کو ابھی ستائے کون
کہ بعد مرنے کے مری یہی وصیت ہے
پرانے خط جو پڑے ہیں انہیں جلائے کون
یہ تیرا ذکر یہ عاقل جی اور یہ تصویر
یہ بات ان کو مِرے بار اب سنائے کون