وہ بھی انسان ہے جدا تو نہیں
کوئی معبود یا خدا تو نہیں
ان کے ہاتھوں پہ نام تھا جو مرا
وہ ابھی تک کہیں مٹا تو نہیں
ہوں مسافر میں تیری راہ کا گل
راہ تجھ سے مِری جدا تو نہیں
سنتا رہتا ہوں اپنے دل میں سدا
کیا مِرے یار کی صدا تو نہیں
پیار کرنا مِری سزا تو نہیں
پیار عاقل مِری خطا تو نہیں