دل دھڑکتا ہے جس کے سینے میں
لطف وہ ڈھونڈتا ہے جینے میں
تا حیات یہ خمار نا اُترے
نین کا جام ان سے پینے میں
مشک و عنبر کی بو سے بڑھ کر ہے
ہے جو خوشبو ترے پسینے میں
وصل اپنا سرور رکھتا ہے
ہے مزہ ہجر کے شبینے میں
زخم دلدار کی نشانی ہے
تِیر ہے اس لئے تو سینے میں
اس کی صورت بنی ہوئی عاقل
ہر جگہ دل کے آب گینے میں