رابطہ ان سے سر سری ہی سہی
دوستی مجھ سے عارضی ہی سہی
میرے مرنے پہ یہ لگا ہے مجھے
فسردہ تھی وہ ظاہری ، ہی سہی
رات ہے درد ہے جدائی بھی ہے
ان کی یادوں میں شاعری ہی سہی
درد اور غم سے آشنائی ہے
درد اور غم سے دوستی ہی سہی
پیاس عاقل نہیں بجھی ہے ابھی
میرے لہجے میں تشنگی ہی سہی