سب کچھ بھلا چکے ہو تم اِک پل میں بے وفا
وعدہ شکن ہو چھوڑا ہے ، تجھکو بتا دیا
تجھکو غرض رہی ہے سدا اپنی ذات سے
میں کس طرح جیوں ، ہے تجھے اب اسی سے کیا
تم پر تھا اعتبار ، گیا میرے چارہ گر
تیری نہیں تھی کوئی ، ہر اِک میری تھی خطا
جائیں کہاں بتا کریں کس سے کوئی گِلہ
وہ یار بے وفا تھا سو ، کرتا رہا جفا
دنیا تمہاری چھوڑ کے میں جا رہا ہوں جاں
عاقل کو اب نہیں تِری یاری کا آسرا