مِرا وہ عکس مرا خط سنبھال رکھا ہے
مِرے صنم نے مِرا یوں خیال رکھا ہے
تُو اپنے حسن پہ اتنا غرور مت کرنا
کہ ہر عروج میں آخر زوال رکھا ہے
یہاں پہ درد و غم و رنج ساتھ چلتے ہیں
جہاں ہو درد وہاں پر ملال رکھا ہے
مجھے قسم ہے تُو گل میں دکھائی دیتا ہے
کہ ہر کلی میں تیرا ہی جمال رکھا ہے
ہے میری آنکھ میں اسکا جواب بھی عاقل
جو تیرے نین نے کب سے سوال رکھا ہے