کسی نے جھوٹ کہا ہوگا کہ جیا تھا میں
تمہارے بعد بڑی دیر تک خفا تھا میں
خوشی میں بھیڑ تھی لوگوں کی ، مرے گِرد مگر
اور اس کے بعد اکیلا کھڑا ہوا تھا میں
ادھورا چاند ، اور تھا عجیب سناٹا
خاموش رات تھی اُن کے لیے کھڑا تھا میں
نہیں تھی دل میں بھی جینے کی آرزو کوئی
اسی لیے تو اکیلا بُجھا بُجھا تھا میں
میں اعتبار بھلا دوستی کا کیوں کرتا
کہ بار بار اِسی نام پہ مرا تھا میں
پلٹ کے دیکھنا تم سے نہ ہو سکا عاقل
آخیر وقت تھا تِرے لئے رُکا تھا میں