سب سے پہلے مجھے مارا، مرا قاتل نکلا
بعد میں مری بھلائی کا وہ قائل نکلا
میں سمجھتا تھا کوئی غیر پرایا ہوگا
پر جو دیکھا تو مرا دوست مقابل نکلا
وہ سمجھتا تھا گناہ نام بھی لینا تیرا
یاد سے تیری وہ اس طرح کا غافل نکلا
اور کوئی نہ تھا مرا ، مری تنہائی تھی
مرے احساس کا آخر یہی حاصل نکلا
جی رہا تھا وہ کسی اور کی خاطر عاقل
وہ کسی غیر کی جانب بڑا مائل نکلا