عجیب تھا کہ یہ دل غم میں مسکراتا رہا
کسی کو درد نہ اپنا کبھی سناتا رہا
رقیب بن کے مرے سامنے وہی آئے
کہ جن کو زندگی کا فلسفہ بتاتا رہا
اسی تجربے سے سیکھی ہے زندگی میں نے
قدم قدم پہ زمانہ جو آزماتا رہا
تھی رات جنوری کی اور اس کی یادیں تھیں
وہاں پہ وہ تھا یہاں میں تھا گنگناتا رہا
یقین کرتا نہیں پھر بھی مری بات کا وہ
میں دل کی بات جسے ہر گھڑی بتاتا رہا
زباں سے ان کی نکلتی تھی لفظ کی آتش
جسے میں پیار کی زبان سے بجھاتا رہا