میں جس سفر پہ بھی نکلا تو بے نوا نکلا
جو مرا بنتا تھا ہر اِک کا ہمنوا نکلا
کسی کے وار پہ جب ہم نے مُڑ کے دیکھا تو !
تھا جس کے ہاتھ میں خنجر وہ آشنا نکلا
انہوں نے ڈالا کبھی قرعہ جو محبت کا
تو میرے نام کے آگے ہمیشہ نا نکلا
غریب تیری کرے ہمسری بتا کیسے
تمہارے جبر کا انداز ہی جدا انکلا
مِرے خدا کی یہ دنیا عجیب دنیا ہے
میں جس کے پاس گیا ہوں وہی خدا نکلا
جو ایک ساتھ تھے خوابوں بھری تمنا میں
حقیقتوں میں مگر کتنا فاصلہ نکلا