تکرار میں جاہل سے جہالت نہیں کرتا
سچا ہوں مگر اپنی وکالت نہیں کرتا
اب رسمی محبت ہے وہ چاہت نہیں باقی
پہلی سی صنم مجھ پہ عنایت نہیں کرتا
تنقید ہی تنقید ہے حالات پہ ہر دم
کیا فرق پڑے گا جو بغاوت نہیں کرتا
کچھ بھی تو سلامت نہیں اس شہر میں اب کے
نادان یہاں ہے کہ جو ہجرت نہیں کرتا
لگتی ہے بُری مجھ کو تو انسان کی عادت
لیکن کھبی انسان سے نفرت نہیں کرتا
تُو جس کی محبت میں ہے پاگل دلِ ناداں
اس کا بھی یہ کہنا ہے کہ چاہت نہیں کرتا
ہر ایک کو دیتا نہیں دل اپنا میں عاقل
ہوں لاکھ سخی ایسی سخاوت نہیں کرتا