کہ ملتے ہیں یوں کتابوں میں اور کہانی میں
کہانی بن گئے اب تو وہ بدگمانی میں
جو شیشہ ٹوٹ گیا ہے تو کوئی بات نہیں
کہ چہرے دیکھ لیں اب کے یہ اپنے ، پانی میں
ہمیں پتہ ہے کہ احساس کس کو کہتے ہیں
کہ مدتیں ہوئیں ہیں ان کی ترجمانی میں
ان سے پوچھو کہ زندگی کیسے گزرتی ہے
گزارتے ہیں جو اوقات پریشانی میں
اسے عزیز ہے اپنی انا ، مجھے عزت
وصالِ وقت گزرتا ہے آنی جانی میں
یوں عمر بھر کو وہ ناکام ہی رہیں عاقل
کہ تن آسانی جو کر لیں بھری جوانی میں