فٹ پاتھ پر جو آدمی سویا ہے آج پھر
بے بس غریب درد سے رویا ہے آج پھر
محفل میں آکے آج وہ تنہا سا رہ گیا
یادوں میں تیری پیار کے کھویا ہے آج پھر
گھیرا ہے اسکو یاد پرانی نے آج پھر
لگتا ہے وہ اسی لئے کھویا ہے آج پھر
یادوں کے اُس زمانے کو تُو نے کُرید کر !
ہاں درد میرے دل میں سمویا ہے آج پھر
یادوں نے ایک بار مجھے پھر رُلایا دیا
دامن کو اپنے اشکوں سے دھویا ہے آج پھر
کیوں پھر سے زندگی میں اے عاقل تُو آگیا
کیوں میری دھڑکنوں میں سمویا ہے آج پھر