تمہاری یاد کے صدقے اُتار لیتے ہیں
کچھ اس طرح سے شبِ غم گزار لیتے ہیں
کبھی جو مبتلا ہوتے ہیں درد و رنج میں ہم
تو ایک بار تجھے پھر پکار لیتے ہیں
ہر اک ستم کو بھلاتے ہیں مسکراہٹ میں
ہم اپنے زخم اسی سے سنوار لیتے ہیں
کبھی نہ آئیں زباں پہ شکایتیں مری
کہ خامشی سے سمے ہم ، گزار لیتے ہیں
عجیب ہے کہ بے قراری کے سمے عاقل
ہم اہل ِذوق کس طرح قرار لیتے ہیں
عجیب ہے کہ بے قراری کے سمے عاقل
ہم اہل ِذوق کس طرح قرار لیتے ہیں