نہیں قرار کسی کو بھی، بے قرار ہیں سب
عجیب بات ہے اس شہر میں بیمار ہیں سب
وہ میرا ماہ جبین مسکرا دیا ہے کہیں
اسی وجہ سے کچھ اسطرح ، خوشگوار ہیں سب
ڈرے ہوئے ہیں ، کوئی بات کر نہیں سکتا
کسی کے جبر کا اور ظلم کا شکار ہیں سب
ملے ہوئے ہیں کسی پر نہ اعتبار کرو
تمہارے دوست کہاں پر وفا شعار ہیں سب
مکاں بنے ہیں دلوں میں جو بے حسی کے یہاں
اسی لیے یہاں خود آپ پر بھی بار ہیں سب
کسی کی راہ تکے ہیں جو آج تک عاقل
مزاجِ عشق ہے جو اتنے بے قرار ہیں سب