ادھورا چاند اکیلا ، خموش تارے ہیں
شبیھہ حسین ہے ، سُندر سے استعارے ہیں
کہ دل بھی تکتا نہیں نیند بھی نہیں آتی
کسی کی یاد کے وارے ہیں اور نیارے ہیں
دو پرندے ہیں جنہیں دیکھ کر میں زندہ ہوں
مجھے دیئے ہیں خدا نے جو حد سے پیارے ہیں
زمانہ بیتا ملے تھے ، جہاں پہ ہم دونوں
وہاں پہ اب تجھے معلوم ہے فوارے ہیں
ملن محال ہمارا تجھے نہیں معلوم
کہ جان ہم تو سمندر کے دو کنارے ہیں
سلگ رہا ہوں کسی آگ کی طرح عاقل
مری رگوں میں کسی یاد کے شرارے ہیں