کبھی میں موت سے یوں جنگ کر نہیں سکتا
کہ مر تو جاوں گا لیکن میں مر نہیں سکتا
ہوں ایسا رنگِ حِنا دیر تک جو رہتا ہوں
میں تیرے دل سے کبھی بھی اُتر نہیں سکتا
کہ کرلی پار محبت میں آخری حد بھی
بس اِس مقام سے آگے گزر نہیں سکتا
میں اپنے رب کو رحیم و کریم کہتا ہوں
میں اپنی قبر میں بالکل بھی ڈر نہیں سکتا
ہوں تجھکو دیکھتا رہتا پرائی محفل میں
کہ زخم ایسے تو اپنے میں بھر نہیں سکتا
ہیں حسرتیں مری سب خاک ہوچکیں عاقل
مثالِ گل میں کھبی بھی سنور نہیں سکتا