بِنا قصور کے وہ خوامخواہ ہی روٹھا ہے
بھلا میں کِس سے کہوں پیار میرا جھوٹا ہے
کسی نے دِل ہے چرایا کسی نے گھر میرا
مجھے تو مل کے زمانے نے ایسا لُوٹا ہے
میں پتھروں کے زمانے سے دِل لگا بیٹھا
کہ آئینے کی طرح بار بار ٹوٹا ہے
بہت سے لوگ یہاں فیض یاب ہوتے ہیں
مِرے قلم سے یہ چشمہ عجیب پھُوٹا ہے
وہ ایک شخص جو ہنستا تھا آج محفل میں
نہیں پتہ ہے کہ اندر سے کتنا ٹُوٹا ہے
یہی تھی بات کہ میں تھا غریب کا بیٹا
یہی تھی بات کہ بس ہاتھ ان کا چُھوٹا ہے
مٹا نہ پائے گا لکھے کو ، صبر کر عاقل
نہیں ہے دوش کسی کا نصیب پھوٹا ہے