نہیں ہے ایسا کہ تکلیف میں عذاب نہ ہو
پڑی کبھی جو ضرورت ، تو دستیاب نہ ہو
یوں کس طرح سے شناسائی درد و غم سے ہو
یوں کب تلک ہو ، مرے زخمِ دل گلاب نہ ہو
میں مر تو جاوں گا لیکن میں مر نہیں سکتا
کہ میرے بعد مرے شعر ، لاجواب نہ ہو
یہ کس طرح سے ہے ممکن کبھی نہ ہو ایسا !
کہ ہم کسی کے رہیں ساتھ ، ہم رکاب نہ ہو
یوں بے بسی میں جو بیمار تُو نے چھوڑ دیئے
ترے بِنا ہو شفا کیسے ، کامیاب نہ ہو
کسی کا دل نہ دُکھایا ہے آج تک عاقل
تو کیسے ہوگا کہ اِس پر مرے ثواب نہ ہو