کہ خود کو آج اسی طرح سے سدھار دیا
ہاں میں نے ذات کے اندر کسی کو مار دیا
مجھے کبھی بھی نہ محسوس ہوگی تنہائی
قدم قدم پہ کسی نے مجھے یوں پیار دیا
کسی کی یاد نے اتنا سکون دے دیا ہے
کسی کی یاد نے دل کو مرے قرار دیا
عجیب ہے بڑا تقدیر کا خلاصہ بھی
کسی کو نور دیا تو کسی کو نار دیا
وہ شخص آج مرے نام سے مکھر سا گیا
کہ جس نے آج مجھے جرم پہ ابھار دیا
کہ آج مجھ سے جہالت کی انتہا ہوگئی
کہ بحث بحث میں ، میں نے کسی کو ہار دیا
چلا گیا وہ کسی راہ ناشناس عاقل
کہ درد و رنج کا مگر بوجھ بے شمار دیا