بتاو دوستوں ساجن اُداس ہے کہ نہیں
حسین بھی ہے زمانہ شناس ہے کہ نہیں
کہ مسکرا کے وہ یہ کہہ رہی تھی تتلی سے!
عجب مہک ہے کوئی آس پاس ہے کہ نہیں
ملا جو درد تو نم ہوگئیں آنکھیں مِری
کہیں یہ درد کی راہ ِنکاس ہے کہ نہیں
جو دیکھتی ہے یوں پروانہ وار محفل میں
مِری نظر کو کہیں ان کی پیاس ہے کہ نہیں
میں بار بار یہی پوچھتا رہا دل سے
بغیر اُس کے کوئی اور آس ہے کہ نہیں