نہ خواب جیسے بھلایا تو مِرا نام نہیں
نہ میں نے تجھ کو رلایا تو مِرا نام نہیں
تیری حسین ادا کی قسم میں کھاتا ہوں
نہ سر تمہارا جھکایا تو مِرا نام نہیں
کہ جتنا تم نے ستایا ہے مجھکو اے جاناں
اسی قدر نہ ستایا تو مِرا نام نہیں
ہو جیسے گزرا ہوا وقت ، تجھ کو بھول گیا
جو تجھ کو دل میں بسایا تو مِرا نام نہیں
ہے تیری شرط ، تو منظور ہے مجھے عاقل
نہ تیرے دل کو دُکھایا تو مِرا نام نہیں