فیضان صاحب کو بازو میں گولی لگی تهی شاہ زر نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اس معاملے کو پولیس کیس بننے نہیں دیا تها
ادهر ڈاکٹرز نے فورآ اپریشن کرکے گولی نکال دی تهی بروقت علاج سے اب انکی حالت خطرے سے باہر تهی
تبهی رضا نے شاہ زیب کو گهر پہ فیضان صاحب کی خیریت بتانے کا مشورہ دیا
"هیلو زیب فیضان کیسا هے"
سارہ بیگم نے فکرمندی سے پوچها
"جی مما اللہ پاک کا کرم هے بالکل خیریت سے هیں آپ لوگ سب پریشان مت هوں"
شاہ زیب نے انہیں تسلی دی
"اللہ تیرا شکر۔ ۔"
"اچها مما میں بعد میں کال کرتا هوں "
اور رابطہ منقطع کر دیا
۔
فیضان صاحب کی خیریت کی اطلاع پا کر سب لوگوں نے اللہ کا شکر ادا کیا بی جان اور نجمہ بیگم نوافل ادا کرنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئی ایمان اور سماهر کی بهی جان میں جان آئی
اس حادثے نے سماهر اور شاہ زر کی منگنی کی رسم وقتی طور پر کنسل کردی تهی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دو دن هوسپٹل میں رہ کر فیضان صاحب گهر آ چکے تهے خون بہنے کیوجہ سے وہ کسی حد تک کمزور هوچکے تهے
دوسری طرف سماهر هر وقت انکے ساتھ ساۓ کیطرح رهنے لگی تهی اس حادثے نے اسے اندر تکڈرا دیا تها جبکہ فیضان صاحب اسکے پیار کے انداز پہ مسکرا دیتے تهے
"بی جان بس اب جلد از جلد سماهر کی بهی منگنی کی ادهوری رسم ادا کر دیں"
فیضان صاحب بولے تو وهاں موجود سب لوگوں نے تائید کی
جبکہ سماهر چپ چاپ وهاں سے اٹهه کر چل دی
"هاں بیٹا میں بهی یہی سوچ رهی هوں۔ ۔ ۔۔ سارہ تمهارا کیا خیال هے"
"میں تو خود یہ نیک کام جلد از جلد پورا کرنا چاهتی هوں ۔ ۔ ۔ ۔ "
سارہ نے کہا
"بس تو پهر اس جمعہ کے مبارک دن میں سادگی سے دونوں کی منگنی کر دیتے هیں اور پهر باهمی مشورے سے شادی کی تاریخ بهی فکس کرلیں گے"
بی جان کے اس فیصلے پہ سب لوگوں نے رضامندی کا اظہار کیا
دوسری طرف جب سماهر کو پتہ چلا تو وہ ایک دم سے رو دی
"کیوں ۔ ۔ ۔ کیوں تم لوگ مجھ سے میرا بهائی چهینے کی کوشش کر رهے هو کیوں"
وہ تڑپ کر بولی اور ایمان کے گلے لگ کر رو دی ایمان کے پاس اسے تسلی دینے کے لئے الفاظ بهی نہ تهے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سماهر کو ایمان زبردستی پارلر لے گئی تهی اور تهوڑی هی دیر میں بیوٹیشن کے ماهر هاتهوں نے اسے اس قدر دلکش بنا دیا تها کہ وہ خود کو هی پہچان نہ پائی
"افففف خدایا!!! سماهر کتنی پیاری لگ رهی هو نظر نہ لگ جاۓ تمهیں"
ایمان بولیجبکہ سماهر حیران سی خود کو سامنے لگے آئینے میں دیکهے گئے
گرین اور ریڈ کلر کے ڈریس میں براؤن بال آگے کئے گرین آنکهوں اور دودهیا رنگت پہ لائٹ سا میک اپ کئے سلیقے سے دوپٹہ سر پر ٹکاۓ وہ نظر لگ جانے کی حد حسین لگ رهی گرین اور ریڈ کلر کے ڈریس میں براؤن بال آگے کئے گرین آنکهوں اور دودهیا رنگت پہ لائٹ سا میک اپ کئے سلیقے سے دوپٹہ سر پر ٹکاۓ وہ نظر لگ جانے کی حد تک حسین لگ رهی تهی
۔
۔
۔۔
جب چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتی وہ اسٹیج کی طرف بڑھ رهی تهی هر دیکهنے والی آنکھ میں ستائش اور پسندیدگی تهی
دوسری طرف سر جهکاۓ بیٹهے شاہ زر نے جونہی نظر اٹها کر دیکها وہ پلکیں جهپکنا تک بهول گیا
ٹهیک اسی لمحے محبت کے چور نے اسکے دل کے دروازے پہ نقب لگائی
"یہی تو تهی ۔ ۔ ۔ ۔ یہی تو وہ لڑکی تهی جس کی اسے تلاش تهی ۔ ۔ ۔ یہی تو تها وہ چہرہ جسکی وجہ سے اسے آج تک کوئی اور چہرہ اٹریکٹ هی نہ کرسکا تها۔"
اور اس وقت شاہ زر احمد نے اپنا دل هار دیا تها
۔
بے حد خوشگوار ماحول میں رسم ادا کی گئی
شاہ زر بهی بے حد خوش تها اس رسم کے بعد اگر کوئی اداس تها تو وہ سماهر فیضان تهی
۔
"تم سامنے آتی هو تو مجهے نشہ سا هونے لگتا هے جانم!!"
شاہ زیب نے ایمان کودیکهکر کہا
جو کہ کچن میں برتن رکهنے آئی تهی جبکہ شاہ زیب پہلے سے هی وہاں موجود پانی پی رها جو کہ کچن میں برتن رکهنے آئی تهی جبکہ شاہ زیب پہلے سے هی وهاں موجود پانی پی رها تها"نگاهوں کو ذرا اپنی جهکا لیجئے صاحب!
میرے مذهب میں نشہ حرام هے"
کہہ کر برتن رکهه کر جانے کے لئے مڑی تبهی شاہ زیب نے اسکا ہاتھ تهام لیا
"واہ جی بڑی تاک تاک کے شعر و شاعری کر رهی هو پروین شاکر"
اسے خود سے قریب کرتا هوا بولا
"چهوڑیں ورنہ ۔ ۔"
"ورنہ کیا"
اسکی آنکهوں میں دیکهکر بولا
"ورنہ بی جان کو آواز دے لینی هے میں نے"
ایمان نے وارن کیا
"ایک تو تم هر وقت ڈوانلڈ ٹرمپ بنی دهمکیاں دیتی رهتی هو"
گرفت ڈهیلی کرتا بولا اور ایمان اسے زبان دیکها کر باهر کی جانب هولی جبکہ اسکی اس حرکت پہ وہ مسکرادیا
¤ ¤ ¤ ¤
" مخصوص دلوں کو عشق کے الہام هوتے هیں
۔
محبت معجزہ هے اور معجزے کب عام هوتے هیں"
شاہ زر منگنی کے بعد سے هر رات دیر تک اپنی اور سماهر کی منگنی کی پکچرز دیکهتا رهتا کسی میں سماهر نظر جهکاۓ بیٹهی هے تو کسی میں چہرہ پہ عجیب سی مسکراهٹ هے کہیں آنکهوں میں ویرانی تو کہیں کچھ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاہ زر پیار سے اسکی هر اک تصویر کو آنکهوں سےلگاتا
ایک بات اس نے نوٹ کی تهی اس نئے رشتے کے بعد سماهر اس سے کهنچی کهنچی رهتی جب بهی وہ اس کے گهر جاتا زیادہ تر اپنے روم میں بند رهتی
جس دشمن جان کی اک جهلک کے لئے وہ ترستا وهی اسے دکهائی نہ دیتی
۔
انکی منگنی کو ڈیڑھ ماہ هو چکا تها اور اس عرصے میں شاہ زر بہت کچهه طے کر چکا تها
"سماهر بیٹا جا کر تیار هوکر آؤ شاہ زر آ رها هے تم سب کو باهر لے جاۓ گا"
بی جان نے آکر کہا
اور انکے آگے سماهر کچهه بول نہ سکتی تهی انکار تو دور کی بات تهی
سو جی بی جان کہہ کر اٹھ گئی
نومبر کی ٹهٹهر دینے والی سردی تهی
وہ اس وقت سب کے ساتھ مشور ریسورنٹ میں بیٹهی تهی سب کهانا کها چکے تهے اور اب خوش گپیوں میں مصروف تهے
"اچها سنو تم لوگوں کو ایک نیوز دینی هے"
شاہ زر نے کہا تو سب کے سب اسکی طرف متوجہ هوگئے
"میں لندن جا رها هوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ همیشہ کے لئے اور یہ بات تم لوگ کسی کو نہیں بتاؤ گے اوکے"
باری باری سب کی طرف دیکهکر بولا جبکہ سماهر پہ نگاہ ٹک سی گئی
بلیک ڈریس میں بلیک هی شال سے خود کو لپیٹے وہ بہت حسین لگ رهی تهی
"مگر کیوں اسطرح آپ کیسے جا سکتے هیں وہ بهی همیشہ کے لئے"
شاہ زیب بولا باقی سب بهی جواب کے منتظر تهےجبکہ سماهر لاتعلق سی بیٹهی تهی شاہ زر کو اسکی خاموشی بہت تکلیف دے رهی تهی
"هاں بس میری وجہ سے کچھ لوگوں کی لائف ڈسٹرب هو رهی هے میرے جانے کے بعد سب ٹهیک هو جاۓ گا میرا چلا جانا هی بہتر "
اشارہ سماهر کی طرف تها اور اس بات کو سب نے هی محسوس کیا
"آپ کہیں نہیں جائیں گے شاہ زر بس میں نے کہہ دیا هے"
ایشال کی بولتے بولتے آنکهیں بهر آئیں
"ایشی پلیز۔ ۔ ۔ ۔ اور زیب تم میرے پیچهے سب کا دهیان رکهنا"
شاہ زر ضبط کی انتہا پہ تها
سب نے بہت منتیں کیں بہت واسطے دئیے سواۓ سماهر کے مگر شاہ زر فیصلہ کرچکا تها
۔
۔
۔
"اگر آپکی وجہ سے شاہ زر بهائی ملک چهوڑ کر گئے تو هم آپ کو کبهی معاف نہیں کریں گے یاد رکهنا آپ"
شاہ زر فون سننے کی غرض سے اٹھ کر جونہی باهر گیا ایشال پهٹ پڑی
اور باقی سب کی نظروں میں بهی اسے نفرت دکهائی دی
"میں نے اپنا بهائی کهو دیا هے تم لوگوں کو کیوں میرا درد نظر نہیں آتا"
سماهر پہلی بار ٹوٹے لہجے میں بولی
"سماهر۔۔۔ میں هوں نا تمهارا بهائی۔ ۔ ۔ ۔ پلیز شاہ زر کو روک لو"
شاہ زیب بولا
"مجهے نہیں روکنا اچها هے چلے جائیں وہ یہاں سے"
سماهر بولی
"کتنی مطلبی هو تم"
ایمان کو افسوس هوا تها
اسکی وجہ سے سب تباہ هونے والاتها اور اسی کو پروا نہ تهی
سب جتنا خوش خوش گئے تهے واپسی پہ سب اتنا هی دلگرفتہ تهے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاہ زر کی ٹکٹ کنفرم هو چکی تهی دو دن بعد اسکی فلائٹ تهی جب سے شاہ زر نے جانے کا کہا تها سماهر کو عجیب سی چپ لگ گئی تهی باقی سب بهی خاموش خاموش تهے جبکہ گهر کے بڑوں کو اس نے بس اتنا هی بتایا تها کہ وہ کسی بزنس ٹور پہ جا رها هے کسی نے اعتراض نہ کیا تها
۔ ۔
۔ ۔
۔ ۔
آج رات تین بجے اسکی فلائٹ تهی آج کا ڈنر فیضان صاحب کی طرف سے دیا گیا تها
"بیٹا خیر سے جاؤ اور جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا"
بی جان نے کہا تو شاہ زر چور سا بن گیا جبکہ ایمان زیب منال ایشال نے بے چینی سے پہلو بدلا
شاہ زر ضروری کام کا کہہ کر معذرت کرتا باهر کی طرف بڑها جہاں زوروں کی بارش هو رهی تهی
"کس دوراهے پہ لا کر کهڑا کر دیا هے تم نے مجهے سماهر"
بے بسی سی بے بسی تهی
تبهی اسے کسی کی سسکیاں سنائی دیں
ادهر ادهر نظر دوڑائی تبهی بجلی چمکی اور اسے لان میں بیٹها بارش میں بهیگتا دکهائی دیا
بارش کی پروا کئے وہ اسکی پاس پہنچا
قریب جا کر دیکها تو وہ سماهر تهی جو چیئر پہ بیٹهی گهٹنوں میں سر دئیے رو رهی تهی
"سماهر"
دهیرے سے پکارا سر اٹها کردیکها بجلی کی چمک میں شاہ زر کا چہرہ دکهائی دیا اسے دیکهکر ایک جهٹکے سے اٹھ کهڑی هوئی
"آپ کب سے اتنے خود غرض هوگئے آپ نے کیسے سوچا آپ مجهے چهوڑ کر چلے جائیں گے اور میں آپکو جانے دونگی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ هاں کیسے ۔ ۔ ۔ آپ نے ۔ ۔ سوچا کہ۔ ۔"
الفاظ منہ میں هی رہ گئے اور حواس ساتھ چهوڑ گئے اس سے پہلے کہ وہ گرتی شاہ زر نے اسے تهام لیا
تبهی اسے لگا اس نے گرم انگارے کو چهو لیا هو
ٹهنڈی بارش میں بهی اسکا وجود آگ کی طرف تپ رها تها
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بهاری هوتے سر کے ساتھ اس نے آنکهیں کهولی وہ اپنے روم اپنے بیڈ پہ تهی
"سماهر۔ ۔ ۔ ۔"
ایشال کی آواز سنائی دی
"ایشی۔ ۔ ۔ ۔ آج کیا ڈیٹ هے"
کمزور آواز میں پوچها
"آج چوبیس تاریخ هے ۔ ۔ ۔ ۔ "
یہ سن کر ایکدم سے اٹھ بیٹهی
"آرام سے ۔ ۔ ۔ ۔ کیا کر رهو هو تمهاری طبعیت ٹهیک نہیں هے"
اسکے اچانک اٹهنے پہ ایشال بولی
"شاہ زر ۔ ۔ ۔ ۔ شاہ زر کہاں هیں مجهے جانا هے"
گهومتے سر کو تهام کر کهڑی هوئی
"شاہ زر بهیا تین دن پہلے جا چکے هیں همیشہ کے لئے"
ایشال کی آواز سنائی دی اور وہ جو مشکل سے حواس قابو میں کئے کهڑی تهی یہ بات برداشت نہ کر پائی اور بے هوش گئی
۔
۔
۔
"سماهر۔ ۔"بے حد پیار سے اسے پکارا
"سماهر آنکهیں کهولو"
اور اس نے دهیرے سے آنکهیں کهولی
شاہ زر اس پہ جهکا پیار سے اسے دیکهه رها تها
"آپ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کہاں چلے گئے تهے"
اسے دیکهکر بولی آنسو موتیوں کی صورت اسکی آنکهوں سے گر کر تکیے میں جذب هونے لگے
"ششش!!! بس اب رونا نہیں میں یہیں هوں تمهارے پاس"
آنسو دهیرے سے اپنی پوروں پہ جذب کئے
تبهی سماهر نے اٹهنے کی کوشش کی شاہ زر نے تکیہ پیچهے لگا کر اسے سہارا دے کر بیٹهایا
اسے بخار اب بهی تها مگر شدت پہلے جیسی نہ تهی
اسے بیٹها کر ایک پیار بهری بهرپور نگاہ اس پہ ڈالی
میرون ڈریس بنا دوپٹہ لئے کچھ روئی روئی کچھ سوئی سوئی سی گرین آنکهیں براؤن بال جو بار بار اسکے بے داغ شفاف سفید معصوم چہرے پہ آ رهے میرون ڈریس بنا دوپٹہ لئے کچھ روئی روئی کچھ سوئی سوئی سی گرین آنکهیں براؤن بال جو بار بار اسکے بے داغ شفاف سفید معصوم چہرے پہ آ رهے تهے
"آپ نہیں گئے تهے نا"
معصومیت سے بولی اور شاہ زر کو اس پہ ٹوٹ کر پیار آیاهوا هے یہ سب"
اسکے اسطرح کہنے پہ سماهر حیران هوئی
"مگر آپ تو مجهے بہن سمجهتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں بی جان سے بات کروگی وہ یہ رشتہ ختم ۔ "
بات پوری کرنے سے پہلے شاہ زر نے اسکے هونٹوں پہ ہاتھ رکھ دیا
"بالکل نہیں ۔ ۔ ۔ اس رشتے میں میری پوری مرضی شامل هے ۔ اس نئے رشتے میں۔۔ میں نے تمهیں پوری سچائی سے چاها هے سماهر"
"تو یہ تها آپکا پیار ۔ ۔ مجهے چهوڑ کے جا رهے تهے "
آنکهیں نم هونے لگیں
"تو تم جو مجهے اگنور کر رهی تهی کیا کرتا میں"
اسکے آنسو صاف کرتا هوا بولا
"آپ بہت برے هیں"
" جانتا هوں۔ ۔ پتہ هے سماهر ۔ اس رات تم بارش میں کهڑی مجهه سے شکوے کر رهی تهی تبهی مجهے احساس هوگیا تها تم نے بهی مجهے قبول کر لیا هے۔۔۔۔ جب تم بے هوش کر میرے بازوں میں آئی میں ڈر گیا تها ۔ ۔ ڈر گیا تها کہ کہیں تمهیں کهو نا دوں سماهر میں تم سے بے حد پیار کرتا هوں آئی لو یو"
اسکے ہاتهوں کو اپنے ہاتهوں میں لے کر وہ اظہار کر رها تها
"اور میں مما کو کہتا هوں ذرا جلدی تمهیں اپنی بہو بنا لیں"
آنکهوں میں شرارت لے کر بولا اور سماهر اسکی اس بات پہ شرم سے سرخ هوگئی۔
چاهے جانے کا احساس واقعی خوبصورت هوتا هے کوئی چاهنے والا زندگی میں آۓ تو زندگی واقعی حسین هو جاتی هے"
ختم شد