"بات سنیں!!!"
نجمہ بیگم نے فیضان صاحب کو مخاطب کیا جو کتاب کا مطالعہ کرنے میں مصروف تهے
"ہاں جی بیگم سنائیں"
کتاب بند کرتے هوۓ بولے
"آج سارہ آئی تهی"
"اچها یہ تو بڑی انوکهی بات بتا دی هے آپ نے"
مسکرا کر بولے
"پوری بات تو سن لیں پہلے"
سٹپٹا کر بولیں
"اوکے اوکے سنائیں جی میں ہمہ تن گوش هوں"
کتاب سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر پوری طرح انکی طرف متوجہ ه
ہوۓ
"آج سارہ هماری ایمان کے لئے شاہ زیب کا پرپروزل لائی تهی"
"اچها!! پهر تم نے کیا کہا؟"
"میں نے کہہ دیا آپ سے پوچھ کر هی جواب دونگی"
"همهم۔۔۔ اور بی جان نے کیا کہا اس بارے میں"
"انہوں نے بهی یہی کہا مگر فیضان مجهے وہ بہت پریشان سی لگ رهیں تهیں میں نے پوچها بهی کیا بات هے مگر انہوں نے ٹال دیا"
نجمہ بیگم بولیں تو فیضان نے چونک کر انہیں دیکها
"پریشان تهیں۔ ۔ ۔ ۔ مگر کس بات پہ؟"
"وهی تو مجهے سمجھ نہیں آ رهی"
"چلو میں پهر صبح پوچھ لو گا بی جان سے تم ٹنشن مت لو"
"جی تو پهر آپ نے شاہ زیب اور ایمان کے بارے میں کیا سوچا"
انکی سوئی وهی اٹکی هوئی تهی
"سوچنا کیا هے مجهے تو شاہ زیب پسند هے اچها خاصا بچہ هے پڑهالکها هے دیکها بهالا اپنا بزنس هے ماشاءاللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمهیں کوئی اعتراض هے کیا"
فیضان صاحب بولے
"وہ سب تو ٹهیک هے مگر سماهر بڑی هے اور اصولا پہلے سماهر کی بات پکی کرنی چاهیے"
نجمہ بیگم کو سماهر کی فکر تهی
"اففف او بیگم!! سماهر کا جب نصیب هوگا تب اسکا بهی رشتہ آ جاۓ گا اور ویسے بهی رشتے آسمانوں پہ طے هوتے هیں"
"آپ سمجھ نہیں رهے میری بات سماهر ایمان سے زیادہ خوبصورت هے تعلم بهی مکمل کر چکی هے جبکہ ایمان ابهی تک پڑھ رهی هے اور پهر لوگ کیا سوچیں گے بڑی کو چهوڑ کر چهوٹی کا رشتہ کیا۔۔ ۔ کیسی کیسی غلط باتیں کرتے هیں آپ کو بهی اندازہ هے"
فیضان صاحب کو قائل کرنے کی کوشش کی
"اچها چلو تم ٹنشن نہ لو کل میں بات کرو گا بی جان سے پهر دیکهتے هیں کیا هوتا هے"
اور اس بات پہ نجمہ بیگم نے سر هلا دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
"تو کیا جلے پیر کی بلی بنی گهوم رهی هے صبح سے"
سماهر کچن سے برتن سمیٹ کر لوٹی اور بیڈ پہ بیٹھ کر ادهر ادهر بے چینی سے گهومتی ایمان کو دیکهکر بولی
"پهپهو آ گئیں کیا؟"
"نہیں ابهی تک تو نہیں آئیں۔۔۔ ویسے خیریت هے تمهیں کیوں پهپهو کا انتظار هے"
سماهر اسے دیکهتے هوۓ بولی
"نہیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بس ویسے هی"
اس سے پہلے کہ سماهر کچھ بولتی نجمہ بیگم کمرے میں داخل هوئیں
"سماهر چار کپ چاۓ بنا کر بی جان کے کمرے میں لے آؤ"
نجمہ بیگم اسے کہہ کر واپس مڑی
"لو جی آ گئیں پهپهو۔۔"
سماهر ایمان کو دیکهتے هوۓ بولی اور اٹهه کر چاۓ بنانے کی غرض سے کچن کی جانب هولی جبکہ ایمان مسکرا دی
تبهی اسکے موبائل کی میسج ٹون بجی
شاہ زیب کا میسج تها
"اکیلے اکیلے مسکرانا از بیڈ هیبیٹ"
"اچها تو پهر میں وزیراعظم صاحب کو کہتی هوں پورا پاکستان بهیج دیں انکے ساتھ ملکر مسکرا لیتی هوں اوکے"
ساتهه هی غصے والا ایموجی سینڈ کیا
"اوۓ لڑکی خبراردار تمهارا وزیراعظم صدر چیف جسٹس سب کچهه میں هی هوں"
شاہ زیب کا میسج پڑهه کر اسکی مسکراهٹ گہری هوئی
"ویری فنی۔"
"اینڈ یو ویری بیوٹی فل"
باۓ"
ایمان نے سینڈ کیا
"هاۓ۔ "
ساتھ هی بے تحاشہ ٹوٹے دلوں کا ایموجی تها
ایمان مسکرا دی
۔
۔
۔
۔
"سارہ مجهے کوئی اعتراض نہیں هے مگر نجمہ پہلے سماهر کا رشتہ طے کرنا چاهتی هے اور ایک طرح سے صحیح بهی هے"
فیضان صاحب بولے تو نجمہ نے سکون کا سانس لیا
"هاں بهائی جان مگر هم صرف ایمان اور شاہ زیب کی منگنی کردیتے هیں باقی شادی وغیرہ سماهر کی شادی کے بعدهی هوگی میں نے بهابی کو یہ بات کہی تهی"
سارہ نے وضاحت دی
"ایک منٹ اب تم سب میری بات سنو ذرا"
کسی کے کچهه کہنے سے پہلے بی جان بولیں اور سب انکی طرف متوجہ هوگکسی کے کچھ کہنے سے پہلے بی جان بولیں اور سب انکی طرف متوجہ هوگئے
"میں نے اپنی سماهر کے لئے لڑکا دیکھ لیا هے اور مجهے امید هے تم سب کو بهی کوئی اعتراض نہیں هوگا"میں نے اپنی سماهر کے لئے لڑکا دیکھ لیا هے اور مجهے امید هے تم سب کو بهی کوئی اعتراض نہیں هوگا"
اپنی بات مکمل کرکے وہ رکیں اور سب نے سوالیہ نظروں سے انکی طرف دیکها
"میں نے سماهر کے لئے شاہ زر کو پسند کیا هے"
انکی یہ بات سن کر سب نے حیران هوکر ایکدوسرے کیطرف دیکها
"مگر بی جان ۔ ۔ ۔ ۔ شاہ زر اور سماهر تو بہن بهائی۔ ۔ ۔"
نجمہ بیگم کی بات پوری هونے سے پہلے هی بی جان بولیں
"وہ بهائی بہن نہیں ۔ ۔ ۔ بالکل شاہ زیب اور ایمان کیطرح کزن هیں"
"مگر دونوں نہیں مانیں گے کسی صورت"
فیضان صاحب نے بهی اپنے خدشہ کا اظہار کیا
"یہ میرا فیصلہ هے اور ان دونوں کے لئے حکم هے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سارہ تمهیں کوئی اعتراض تو نہیں"
آخر میں وہ اپنی بیٹی کی طرف متوجہ هوئیں
"بی جان اگر ایسا هو جاۓ تو میرے لئے اس سے زیادہ کوئی خوشی کیبات نہیں هوگی۔ ۔ ۔ ۔ "
سارہ خوشی سے بهرپور لہجے میں بولیں
سماهر اور ایمان کو سارہ بیگم ایشال اور منال کیطرح هی پیار کرتیں تهیں انکے لئے یہ بہت بڑی بات تهی کہ اپنی جان سے پیاری بهتیجیوں کو اپنی بہوؤں کے روپ میں اپنی بیٹیاں بنا کر ہمیشہ کے لئے اپنے گهر لے آئیں
"بس تو پهر طے هوا چاروں بچوں کی منگنیاں اگلے ہفتے هونگی"
بی جان نے اعلان کیا
"اور سارہ تم شاہ زر کو فون کرکے یہاں بلا لو میں اس سے بات کر لوگی اور نجمہ تم ابهی سماهر کو میرے پاس بهیجو!"
اور پهر خوشی خوشی وهاں سے اٹھ گئے
۔
"سماهر بیٹا بی جان بلا رهی هیں تمهیں"
نجمہ نے سماهر کو کہا اور وہ جی مما کہہ کر بی جان کے روم کیطرف چل دی
۔
جبکہ دوسری طرف سارہ بیگم نے کال کرکے شاہ زر کے ساتھ شاہ زیب ایشال اور منال کو بهی بلا لیا تها
۔
۔
"بی جان آپ نے بلایا؟"
گهر کے بڑے رضیہ بیگم کو بی جان بولتے تهے انہی کی دیکها دیکهی باقی سب بهی انکو بی جان پکارنے لگے گهر کی بڑی هونے کیساتھ سب ان کی رعب دار شخصیت سے مرعوب تهے اور انکا ایک بار کیا گیا فیصلہ پتهر پہ لکیر هوتا تها
"هاں آؤ بیٹا ادهڑ آؤ"
اپنے پاس بیٹهاتے هوۓ بولیں
"دیکهو بیٹا اب تم ماشاءاللہ سے بڑی هوگئی هواور ایک نہ ایک دن تم نے شادی کرکے اس گهر سے رحصت هونا هے"
سانس لینے کو رکیں جبکہ سماهر انہیں دیکهنے لگی
"اور اس گهر کی بڑی بزرگ هونے کے ناطے میں نے تمهارا رشتہ طے کردیا هے اور مجهے پورا یقین هے میرے اس فیصلے سے تمهیں کوئی دقت نہیں هوگی"
"بی جان مجهے آپکے کسی فیصلے پہ کوئی اعتراض نہیں "
سر جهکا کر بولی اور رضیہ بیگم جی جان سے خوش هوئیں
"جیتی رهو ۔ ۔ ۔ خوش رهو"
دعائیں سمیٹ کر وہ باهر کی جانب چل دی
نجانے کیوں دل کسی انہونی کے خیال سے بے چین هوا۔
۔ ۔ ؟ ۔