وہ صبح ''لاکھانی لاج " کی خاموش ترین صبح تھی۔
طوفان تھم چکا تھا لیکن تا حد نظر ہر چیز اکھڑی پڑی اپنی بربادی کا رونا رو رہی تھی۔ رشتوں کا مان ٹوٹ چکا تھا' وہ اونچا شملہ جو بڑی شان سے سجا ہوا تھا پیروں تلے روندا جا چکا تھا۔ چہار سو ویرانی ہی ویرانی' اجارپن' دل کو دہلا دینے والا سناٹا چھایا تھا' بھری پوری حویلی پر جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھماکر اس کے مکینوں کے احساسات کو منجمند کر دیا ہو حویلی جہاں محبتوں کے گیت گائے جاتے تھے آج کسی آسیب ذدہ پر اسرار محل کی مانند مایوسیوں بد بختیوں اور کرب ناک رسوائیوں کے گھپ اندھیرے میں ڈوب چکی تھی۔
" لاکھانی لاج" کے گرین ہاوس کے باہر لٹکایا چھوٹا سا "برڈہاوس"جہاں سویرے سویرے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ چڑیوں کے گیت اس وقت بہیت بھلے معلوم ہوتے تھے۔لیکن آج ان چڑیوں کی چیخ وپکار کسی کے کانوں تک نہ پہنچ رہی تھی' وہ دانوں کی تلاش میں کبھی کہاں جا بیٹھتیں تو کبھی کہاں لیکن وہاں کسی کو پروا نہ تھی۔کچھ دیر یونہی شور مچانے کے بعد ساری چڑیاں مایوس ہو کر لوٹ چکی تھیں اور پل بھر کو جو چہل پہل ہوئی تھی جس کی بدولت لاکھانی لاج میں پھیلے وحشت ناک سناٹے منتشر ہوے تھے زندگی کا تصور ابھرا تھا وہ اب پھر ماند پڑ چکاتھا۔
آج سے پہلے اس کی زندگی کی صبح اتنی ویران کبھی نہ ہوئی تھی۔اس کی زندگی میں ابھرنے والے اجالوں نے کبھی اتنی وحشتیں اس کی جھولی میں نہ ڈالی تھیں۔ایک عجیب سراسیمگی اور رنجیدگی نے اس کی روح کو جکڑ رکھا تھا۔دل گزیدہ احساس اور ان دیکھے گھاؤسے اٹھتی ٹیسوں سے گھبرا کر وہ اٹھی 'تھکن زدہ 'پژمردہ چہرے' ملگجے حلیے'بے خواب آنکھوں سے کھڑکی میں کھڑی خالی الزہن کے ساتھ باہر دیکھنے لگی تو اس کی نظر کمرے کے سامنے بنی کیاریوں پر پڑی جہاں ہر سال کی طرح اب کے برس بھی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں جہاں زندگی جنم لے رہی تھی' جہاں بہار کے رنگ بکھرنے کو تاب تھے ٹکٹکی باندھے وہ اپنے اس چھوٹے سے گلشن کو دیکھے جا رہی تھی۔جس پر جب جب بہار آئی اس کی آنکھوں میں بھی خوشی کے ہزاروں دیپ روشن ہو جاتے تھے اپنی محنت کے پھل پر پھولے نہ سماتی تھی' لیکن .......... لیکن اب کے برس یہ کیسی بہار آئی ہے جس نے اس کی آنکھوں کے دیپوں کو بجھا دیا تھا اس کی خوشیوں اور امیدوں پر یا سیت کے پہرے بٹھا دئیے تھے اس کی ہنسی پر مصیبتوں کی نا مہرباں دیوی قابض ہو چکی تھی ڈھیروں ڈھیر اضطراب نے اس کو اپنے شکنجے میں جکڑا تو وہ زندگی سے بیزار ہو نے لگی..........اکتا گئی ان وحشتوں سے گھبرا اٹھی ان تنہائیوں سے.............!
" تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا ؟"اس نے فروٹ کی پلیٹ سے چھری اٹھا کر اپنی کلائی پر رکھی ہی تھی کہ نسرین لاکھانی کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے ہاتھ سے چھری چھنیتے ہوے اس کو ڈانٹنے لگیں۔۔
" پہلے کیا کم رسوائیاں لکھ چکی ہو تم ہم سب کے نام جو اب ایسا کرکے اپنے آپ کو بھی جہنم میں دھکیل رہی ہو؟"غصیلہ لہجہ کسی بھی قسم کی ہمدردی اور لگاوٹ سے پل کی پل اس کی آنکھوں کے پانیوں نے ضبط کھو دیا'لیکن اس وقت اس کو تسلی دلاسے دینے والا کوئی نہ تھا جس کے کندھے پر سر رکھ کر اپنا دکھ درد بیان کر سکے کوئی نہ تھا جو اس کا ہاتھ پکڑ کر اتنا ہی کہ سکتا کہ تم فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو گا وہ آنسو بہاتی رہی لیکن وہ متوجہ نہ تھی ۔
" یہ لو دودھ پی لو اور کھانا کھا لو " وہ اس کے لیے کھانا لائی تھی نوکیلا لہجہ روح کو چھلنی کرتے الفاظ نے اس کی ساری بھوک اڑا دی تھی۔اس نے بولنا چاہا لیکن حلق میں پھنسے آنسوؤں کے گولوں نے سارے الفاظ بے جان کردئیے تھے۔وہ لفظوں کے تیر برسا کر جاچکی تھیں اور وہ تنتنہا بد قسمتی کے تپتے صحرا میں ننگے پاؤں آس وامید کا دیا تھامے اس دلدل سے نکلنے کے لیے رستے تلاش کر نے لگی ۔