مجھے گلدان میں سجا اکلوتا پھول سخت ناپسند ہے۔ کل رات میری پڑوسن ملنے آئی تو پتلی گردن والے ایک گلدان میں لمبی ڈنڈی کی نوک پر جَڑا ایک پیلا گلاب رکھ کر لے آئی۔ پھول گلدستے کا حصہ ہو تو دائیں بائیں کے ہم جنسوں سے سہارا مل جاتا ہے، استقامت سے اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے۔ یہ اکلوتا پھول تو گلدان میں جس سمت جھکاؤ ہو، اسی سمت لڑھک جاتا ہے۔ کنارے کا سہارا لئے بنا اپنی استقامت سے خود سیدھا نہیں کھڑا رہ سکتا۔
‘‘موت پر یقین تو سب کو ہے لیکن یاد کسی کو نہیں رہتی‘‘ ، کیا بکواس ہے بھئی میں نے اکتا کر کتاب میں بک مارک رکھ کر اسے بند کر دیا۔ میری عمر میں تو موت کے علاوہ اور کوئی دوسری شے یاد ہی نہیں رہتی، یہ ادیب نجانے کیوں بے تکی باتیں لکھتے ہیں۔ چشمہ ناک سے سرکایا تو وہ ڈوری سے بندھا گلے میں جھول گیا۔ میں نے تھکن سے آنکھیں موند لیں۔ سفرِ حیات میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ آدمی بلاوجہ تھکا رہتا ہے۔ صبح اٹھے تو تھکاوٹ، دوپہر ہے تو تھکاوٹ۔ صرف رات میں، اگر چند گھنٹے کی نیند آ جائے، تو اس تھکن سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ میں نے تپائی پر سے پاؤں نیچے رکھے، اور اٹھنے کے ارادے سے آنکھیں کھولیں تو گلدان پر نظر پڑی۔ میں بھی تو اب ایک پیلا گلاب ہی ہوں۔ گلدان میں سجا، اکلوتا، باسی گلاب جو کنارے کے سہارے بنا سیدھا نہیں کھڑا رہ پاتا۔ ایسے ہی ایک دن گلاب کی گردن ڈھلک جائے گی اور پتیاں آہستہ آہستہ بکھر جائیں گی۔ صبح باغ سے جو پھول چن کر لائی تھی، اٹھ کر میں نے انہیں گلاب کے دائیں بائیں گلدان میں سجا دیئے۔ دیکھا، ذرا سا سہارا ملا تو یہ پیلا گلاب کیسے سیدھا کھڑا ہو گیا، اب اسے گلدان کے کنارے کا سہارا درکار نہیں۔
مجھے فلوریڈا منتقل ہوئے کوئی بیس برس ہو گئے ہیں۔ ساٹھ برس کی تھی جب جم کا انتقال ہوا۔ اس وقت جان کوئی تیس برس کا تھا۔ اسی عمر میں اس کے روشن مستقبل کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ اسی نے مشورہ دیا کہ میں اکیلی رہنے کے بجائے فلوریڈا منتقل ہو جاؤں۔ کتنا خیال رکھتا ہے میرا بیٹا۔ یہ مشورہ بہت اچھا ثابت ہوا۔ نیویارک تو واقعی ایک جنگل ہے، جوانی میں اس کی رفتار سے مسابقت نہیں کر پاتی تھی تو اس بڑھاپے میں تو وہ شہر مجھے سموچا ہی نگل جاتا۔ اچھا مشورہ تھا جان کا۔ فلوریڈا کی آب و ہوا بہت معتدل تھی، نیویارک کی برفانی سردی سے جان چھوٹی۔ یہاں آ کر میرا دمہ تو ٹھیک ہو گیا لیکن فضا کی رطوبت سے گٹھیا ذرا زیادہ تنگ کرنے لگا ہے۔
خیر اب آدھا دن تو گذر ہی گیا۔ صبح سے اٹھ کر دودھ کے ساتھ ڈبل روٹی کا ناشتہ کیا، کچھ باغبانی کی، تھوڑی دیر ایک کتاب پڑھ لی، اب کیا کروں۔ ‘‘ اب کیا کروں ‘‘ یہ بہت عجیب سوال ہے ؛ اب کیا کروں۔ ایک وقت وہ تھا کہ اس کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی، کاموں کی ایک لمبی فہرست میں سے جو سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتا وہ شروع ہو جاتا، جب کہ دوسرے بیسیوں کام ذہن کے کسی نہاں خانے میں چھپے اپنی باری کا انتظار کرتے، سر اٹھاتے رہتے۔ لیکن میری موجودہ عمر میں ‘‘اب کیا کروں ‘‘ ایک سنگین سوال ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارا بڑھاپا ایک کرسی پر گذر جائے، منہ سے ایک نلکی لگی رہے جس کا دوسرا سرا کسی جنتی گلاس میں ہو کہ کبھی خالی ہی نہ ہو۔ جب خواہش ہوئی ذرا سا مشروب پی لیا۔ نگاہوں کے سامنے ٹی وی یا کوئی کتاب دھری رہے۔ ورق الٹتا جائے، دن بدلتے جائیں، اسی طرح دس بیس بس گذر جائیں اور پھر پردہ گر جائے۔ مگر نہیں یہاں تو جیسے ہونے کی سزا دینی مقصود ہے۔ دن ہوا ہے، تواب شام ہونی بھی ضروری ہے، پھر وہی مسئلہ درپیش ہے کہ اب کیا کروں۔
سوچتی ہوں شام کے کھانے کا کچھ انتظام کر لوں اس طرح کچھ وقت بھی بہل جائے گا۔ ابھی دوپہر تو ہلکی سی سبزی اور پھل سے گزارا ہو جائے گا۔ فریج کا دروازہ کھولا تو سامنے ٹن میں بلی کی غذا رکھی نظر آئی۔ جب تک سلومی زندہ تھی، میں نے ایک آدھ بار ایسے ہی اس کے ڈبے کی غذا سے ایک آدھ بوٹی چکھ لی۔ ایسی مزیدار لگی کہ اب بلی کے انتقال کے بعد بھی اکثر اس کی غذا اٹھا لاتی ہوں۔ سپر مارکیٹ والے ہاتھ میں اس کی غذا دیکھ کر اکثر سلومی کا حال پوچھ لیتے ہیں۔ نہ معلوم کمبختوں کو کیا عادت ہے دوسروں کے معاملے میں ناک گھسیڑنے کی۔ بھئی خدا غارت کرے ان دوا فروشوں کو، علاج معالجے کے بعد جیب میں کچھ بچتا ہی نہیں۔ یہ بلی کی غذا اتنی سستی ہوتی ہے۔ ذرا سی پیاز لال کر کے اس میں بھون لیں، تھوڑا سا نمک، پھر چاہے ڈبل روٹی کے ساتھ کھا لو یا ویسے ہی اسٹیو کی طرح۔ سلومی کے بعد میں نے کوئی بلی نہیں پالی۔ جان دور رہتا ہے تو کم کم یاد آتا ہے، پاس رہ کر دور ہو جائے تو اس کا دکھ دگنا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ کہ شاید جان ہی آ جائے، توایسے میں ایک بلی کی کیا ضرورت ہے۔ واقعی جان آ جائے تو کیسی رونق ہو جائے۔ بے چارہ کیسا مصروف ہو گا اپنی نوکری میں۔ پھر اس کی بیوی بھی کیسی خوفناک عورت ہے۔ کم از کم میں اور مار تھا ایک دوسرے کے سامنے تو خوش اخلاقی کا مظاہرہ ضرور کرتے ہیں۔ ورنہ اصل میں تو پوری چڑیل ہے کمینی۔ جان ابھی دو برس پہلے ہی تو ہو کر گیا ہے، مگر ہاں تین مہینے سے اس کا کوئی فون نہیں آیا۔ میں خود ہی کر لوں گی آج۔ مگر نہیں وہ خود ہی کر لے تو اچھا ہے۔ مصروف ہو گا جب ہی تو نہیں کیا فون۔ اب اگر مصروف ہے تو میں کیوں دخل دوں اس کی مصروفیت میں۔ پھر میں فون کروں اور مار تھا اٹھا لے تو اور طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔
فون کی گھنٹی بج رہی ہے شاید۔ کئی کئی دن اگر فون نہ بجے تو سماعت اس کی عادی نہیں رہتی۔ تنہائی کی سماعت اور ہوتی ہے۔ لیکن جہاں ہر آواز پر یہ امید ہو کہ شاید فون کی گھنٹی ہے۔ ایسے میں فون نہ بھی بج رہا ہو تو کان دھوکہ دیتے ہیں کہ شاید بج رہا ہے۔ ایسے میں اگر واقعی فون بج اٹھے تو یقین آتے آتے تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ میں نے فریج کا دروازہ ایسے ہی کھلا چھوڑ دیا کہ کہیں دروازہ بند کرنے میں وقت ضائع نہ ہو۔ اسی جلدی میں جو پاؤں رپٹا تو قالین پر اوندھے منہ گر پڑی۔ ہائے، کہیں کوئی ہڈی تو نہیں توڑ بیٹھی۔ اب میرے شعور میں دو خوف حکمرانی کرتے ہیں ؛ کولہے کی ہڈی نہ تڑوا بیٹھوں اور دوسرایہ کہ فالج کا شکار نہیں ہوں۔ دیگر تمام خوف اس سفر میں کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں یا ان پر قابو پانا سیکھ گئی ہوں۔ عمر کے ساتھ ساتھ خوف بھی لباس بدلتا رہا۔ بچپن میں دنیا کا خوف، جوانی میں پکڑے جانے کا خوف، ادھیڑ عمری میں اکیلے رہ جانے کا خوف۔ اب میں شاید خوف کی سیڑھی کے سب سے اونچے قدمچے پر کھڑی ہوں۔ نہیں پیر ٹوٹا تو نہیں تھا۔ صوفے کا سہارا لے کر جب تک کھڑی ہوتی فون بند ہو گیا۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ نہ معلوم کس کا فون تھا، شاید پھر کر لے ؟ اسی امید پر فرج بند کر کے فون کے برابر بیٹھ گئی اور فون گود میں رکھ لیا۔ میرا اندازہ بالکل ٹھیک تھا۔ چند ہی لمحے گذرے تھے کہ فون کی گھنٹی پھر بجی۔ ٹرن ٹرن کی سریلی آواز کانوں کے راستے روح کی شاداب وادی میں کہیں جا کر بس گئی۔ جو سماعت سے محروم ہوں ان کا کیا حال ہوتا ہو گا؟
‘‘ہیلو‘‘ میں نے فون کا چومگا اٹھا کر کہا۔
‘‘ہیلو ممی‘‘ دوسری طرف سے جان کی مانوس آواز تنہائی کے سوکھے دانوں پر بارش کے قطروں کی مانند اتری۔
رنج و خوشی سے میری آواز گندھ سی گئی۔ ایک لمحے کو کچھ بول نہ سکی۔
‘‘ ممی، ممی تم فون پر ہونا؟‘‘
‘‘ہاں، کیسے ہو جان‘‘ میں نے آنکھوں سے نمی پوچھتے ہوئے اپنی آواز کو ممکنہ حد تک ہموار کیا۔ مجھے لگا جیسے کھڑکی سے سلومی اندر کمرے میں آ کودی ہو، کمرے میں مانوس انسیت کی خوشبو پھیل گئی۔
‘‘میں نے پانچ منٹ پہلے بھی فون کیا تھا، کسی نے اٹھایا نہیں ‘‘ سوال سے زیادہ یہ ایک تبصرہ تھا۔ کاش اس کا لہجہ سوالیہ ہوتا۔ پوچھتا ‘‘کیوں نہیں اٹھایا، سب ٹھیک تو تھا؟‘‘
‘‘ہاں میں ذرا باتھ روم میں تھی‘‘ ۔
‘‘تم کیسے ہو جان؟‘‘
‘‘ میں ٹھیک ہوں ممی‘‘ دو ہی جملوں کے بعد ہمارے درمیان ایک لمحے کو وقفہ آ گیا۔ دونوں طرف خاموشی تھی۔ دو ماں بیٹے جنہوں نے ایک دوسرے کو دو برس سے نہیں دیکھا تھا، تقریباً تین ماہ سے فون پر بات بھی نہیں کی تھی، اب ایک منٹ کی فون گفتگو کے بعد ان کے درمیان خاموشی تھی۔ ہم کیا بات کرتے ؟ میری مالی حالت، میری صحت، میرا بڑھاپا یہ سب ایسے موضوعات تھے جن پر گفتگو گرفت سے پھسل بھی سکتی تھی۔ کسی سمت بھی جا سکتی تھی، کوئی شرمندہ بھی ہو سکتا تھا۔ فون جلد بند ہونے کا بھی امکان تھا۔ لہذا گفتگو آزمودہ نکات تک محدود رکھی جائے تو بہتر ہے۔
‘‘فلوریڈا کا موسم کیسا ہے ممی‘‘
‘‘ٹھیک ہے بیٹا، نہ بہت سردی ہے نہ گرمی۔ بس ایک سا رہتا ہے (بالکل اپنے ساکنین کی طرح، میرا دل چاہا یہ فقرہ کہہ دوں مگر کہہ نہ سکی) اور نیویارک کا؟
‘‘نیویارک بھی اچھا ہے۔ اس دفعہ موسم عموماً خوش گوار ہی رہا ہے۔ کبھی کبھی ہلکی خنکی ہو جاتی ہے، لیکن اس شدت کا کہیں پتہ نہیں جس کے ہم نیویارک والے عادی ہیں ‘‘ وہ زور سے ہنسا۔
‘‘مار تھا کا کیا حال ہے ؟‘‘ میں نے کریدا
‘‘بس ممی کچھ نہ پوچھیں، ٹھیک تو ہے لیکن مجھ سے بالکل مختلف عادتوں کی ہے، میرا بالکل خیال نہیں رکھتی اور بہت زیادہ فضول خرچ ہے ‘‘
‘‘ارے نہیں اتنی اچھی تو ہے ‘‘ مجھے پتہ تھا جب تک میں تعریف کروں گی جان کھل کر اس کی برائی کرتا رہے گا۔ جہاں میں نے مار تھا کی برائی کے لئے منہ کھولا، وہ فوراً اپنے ازدواجی دفاع کے خول میں بند ہو جائے گا اور مار تھا کا دفاع شروع کر دے گا۔ عجیب سی حسیت ہے، اپنی چیز کی میں خود برائی کر لوں تو ٹھیک ہے جہاں آپ نے منہ کھولا وہاں مسئلہ پیچیدہ ہو گیا۔ ہم دونوں کچھ دیر اسی کھیل میں الجھے رہے۔
‘‘کہیں چھٹیوں پر چلے جاؤ دونوں، اتنا کام بھی تو کرتے ہو۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارو گے تو ایک دوسرے کی عادتیں بر داشت کرنے کی عادت بھی پڑے گی ‘‘
‘‘ممی پچھلے سال گئے تھے شمالی کینیڈا، چھٹیاں مختصر کر کے واپس آ گئے ‘‘
‘‘مختصر کر کے ؟‘‘
‘‘ہاں وہ کیلی فورنیا جانا چاہتی تھی میں شمالی کینیڈا، چھٹیوں میں ہر وقت ساتھ رہنے سے جو جھگڑے کبھی کبھار کے تھے وہ ہر وقت کا عذاب بن گئے ‘‘
‘‘تو کیلی فورنیا چلے جاؤ‘‘
‘‘سوچ رہا ہوں، شاید اگلے ماہ ایک ہفتے کے لئے چلے جائیں۔ میں تو پوری کوشش کر رہا ہوں ممی‘‘
‘‘بیٹا کوئی اولاد وغیرہ کا ارادہ نہیں، اس سے اس کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ جائے گا‘‘
‘‘اور پالے گا کون؟‘‘
‘‘تم دونوں اور کون‘‘
‘‘نہیں ممی نہ اسے فرصت ہے نہ مجھے، اور ابھی اتنے پیسے نہیں کہ بچوں کی نگہداشت پر کسی کو رکھ سکیں ‘‘
‘‘لیکن بیٹا‘‘
‘‘ لیکن کیا ممی، بس چھوڑیں اس موضوع کو‘‘
بات ایک مقر رہ ایجنڈے اور حدود کے درمیان ہو گی، یہ ایجنڈا ایک فریق ہی طے کرے گا۔
‘‘ممی آپ اکیلی تو نہیں ہو جاتیں ‘‘ اس نے جھجک کر پوچھ ہی لیا۔
‘‘ارے نہیں بیٹا، اس میں اکیلے پن کا کیا سوال ہے۔ اور پھر اس اکیلے پن میں ایک شخصی آزادی بھی تو ہے، کسی گلدان میں رکھی اکیلی ٹہنی کی مانند‘‘
‘‘گلدان میں رکھی اکیلی ٹہنی کی طرح‘‘ وہ نہیں سمجھا۔
‘‘ہاں، جیسے وہ تنہا اور با وقار لگتی ہے، ویسے ہی۔ میں نے اسے کچھ نہ کہتے ہوئے بھی کچھ کہ دیا۔
وہ اگر سمجھا بھی تو اس نے اس کا اظہار نہیں کیا، فون پر پھر ایک خاموشی چھا گئی۔ مجھے لگا سلومی پھر کھڑکی سے کود کر باہر بھاگ گئی۔
‘‘کیوں پوچھ رہے ہو، تم آ رہے ہو کیا؟‘‘ یہ میں نے کیوں پوچھ لیا، میں نے اپنے آپ کو کوسا۔ میں نے سوچا تھا کہ اس سے یہ سوال نہیں پوچھوں گی۔ پھر یہ بات کیوں زبان سے نکلی۔ کیا عمر کے ساتھ ہمیں اپنی خواہشات پر قابو پانے میں ناکامی ہوتی ہے۔ شاید میں اپنے بچپن کی طرف لوٹ رہی ہوں، ندیدہ پن تو یہی بتاتا ہے۔ بچپن میں بھی تو چاکلیٹ نہ ملے تو رال ٹپکنے لگتی تھی۔
‘‘ ممی آپ کو پتہ ہی ہے کتنی مصروفیت ہے، ذرا مہلت ملے تو اُڑ کر آ جاؤں ‘‘ نہ جانے کیوں مجھے لگا وہ اس سوال کے لئے تیار بیٹھا تھا۔ ہاتھ میں ایک دفاعی خود لئے۔ کب یہ تیر چلے اور وہ یہ خود پہن کر خود کو بچا لے۔
اور وہ شمالی کینیڈا، کیلیفورنیا۔ مگر بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو دہرانے سے خوفناک ہو جاتی ہیں
‘‘تمھارا کمرہ ویسا ہی سجا ہے، جیسا دو سال پہلے چھوڑ کر گئے تھے ‘‘ میری آواز ’لفظ دو سال پہلے ‘ کہتے وقت تھم گئی تھی، اپنا مفہوم واضح ہو گیا تو یہ آگے بڑھے
‘‘واقعی اتنا وقت گذر گیا‘‘ اس کی آواز میں حیرت تھی۔ یہی بہت تھا، میرا تو خیال تھا اسے یاد ہی نہیں رہے گا کہ اس نے کیا سنا ہے
‘‘جب چاہے آ جاؤ، میں نے تو تمھارے ناپ کی کچھ قمیضیں بھی خرید کر الماری میں لٹکا دی ہیں، نا وقت آ جاؤ تو مشکل نہ ہو‘‘
‘‘ممی آپ کو تو پتہ ہی ہے ‘‘ اس ادھورے جملے سے اس نے اپنا جواب مکمل کر دیا۔ اس میں وہ سارے امکانات وہ سارے جواز ڈال دئیے جو اس کے نہ آنے سے مجھے مطمئن کر سکیں، جو میرے لئے زیادہ قابلِ قبول ہو وہ میں چن لوں۔
‘‘ہاں جان، میرے بیٹے میں سمجھتی ہوں ‘‘
‘‘ممی وہاں کا موسم کیسا ہے ‘‘
‘‘یہ تم پہلے ہی پوچھ چکے ہو جان‘‘
‘‘واقعی اتنی ساری باتوں میں بالکل دھیان سے اتر جاتا ہے ‘‘
اتنی ساری باتیں ؟ خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ ملاقات کا وقت ختم ہونے والا ہے، جلدی جلدی سب سمیٹ لو۔
‘‘جان تمھارے ہاں اولاد کیوں نہیں ہو رہی، کیا میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہو۔ کیا میں اپنے پوتی پوتے کو دیکھے بغیر ہی چلی جاؤں گی‘‘ میں نے اپنے احساسات کو برہنہ کر دیا۔ اس کی اپنی اولاد ہو تو شاید ممتا کے دکھ کا ادراک ہو۔
‘‘لیجئیے آپ نے بھی پہلے کیا ہوا سوال دوبارہ کر ڈالا۔ ‘‘ اس نے ہنس کر ماحول کو ہلکا رکھنا چاہا۔ ماحول سبک رہا تو وقت جلدی گذر جائے گا۔ گھمبیر ہو جائے تو بیچ میں کہیں لٹک جاتا ہے۔ ‘‘ ممی مار تھا کو اپنے جسم کی اتنی فکر ہے۔ وہ ابھی اس چکر میں نہیں پڑنا چاہتی۔ کہتی ہے فگر خراب ہو جائے گی۔ آپ سنائے غذا کیسی چل رہی ہے آپ کی۔ ‘‘ میرے ذہن میں بلی کے چھیچھڑوں کی غذا در آئی۔
‘‘بہت اچھی بیٹا، دیکھو اسی کے پیٹے میں ہوں لیکن کیسی مضبوط ہڈیاں لے کر آئی ہوں ‘‘ جو گرنے سے بھی نہیں ٹوٹتیں !
‘‘بیٹا اب تم کس عہدے پر پہنچ گئے ‘‘
جان کسی چوہے کی طرح چوکنا ہو گیا جسے بلی کی خوشبو آ جائے۔ میرا گلا سوال خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے سوچا اس کو جڑ سے ہی کاٹ دوں۔
‘‘ اب آپ کی آواز بہت خراب ہو گئی ہے۔ کیا آپ فون لے کر ٹہل رہی ہیں۔ یہ فون کمپنی اتنی اطمینان بخش نہیں ہے۔۔ ہیلو ہیلو، ممی، ہیلو‘‘
میں نے دھیرے سے فون کریڈل پر رکھ دیا۔ اپنی ہی اولاد کو شرمندہ نہیں کرتے۔ ‘‘ اب تم کس عہدے پر پہنچ گئے ہو‘‘ ، پھر یہ کہ، ‘‘تنخواہ بڑھی کیا‘‘ ۔ جان کو پیچیدگیوں کا احساس ہو گیا تھا۔ لہذا اسے آواز آنا بند ہو گئی۔ میں نے اپنی آواز گھونٹ دی تاکہ وہ جھوٹ کی شرمندگی سے بچ جائے۔
فون رکھ کر میں دوبارہ صوفے پر آ بیٹھی۔ عینک ناک پر رکھی اور کتاب اٹھا لی ‘‘ قدرت نے ہر چیز پہلے سے طے کر رکھی ہے، بس ہماری آنکھ سے اوجھل رکھا ہے۔ کہ ہم اس اشتیاق میں رہیں کہ آئندہ کیا ہے، اگلی ساعت ہمارے لئے اپنے پہلو میں کیا چھپائے بیٹھی ہے۔ قدرت خود خاموش تماش بین بنی بیٹھی ہے۔ ‘‘ میں دو سطریں پڑھ کر کتاب پھر بند کر دی۔ یہ ‘‘قدرت کون ہے ‘‘ ، ہمارے ادیب اس قدر فلسفہ لکھتے ہیں کہ طبیعت اکتا جائے لیکن یہ نہیں کہتے کہ لفظ ‘‘قدرت‘‘ میں انہوں نے انسان کی ساری بے چارگی اور لاعلمی سما دی ہے۔ اب کیا کروں ؟ اب کیا کروں ؟، پھر یہ مہیب سوال درپیش ہے۔
٭٭٭