تیزی سے پیچھے کی سمت بھاگتے درختوں کا درمیانی فاصلہ بڑھنے لگا، ٹرین کی رفتار آہستہ ہوتے ہوتے اب تھمنے کو تھی۔ پہیوں کی پٹری پر گرفت مضبوط ہو گئی اور ایک سیٹی کے ساتھ ٹرین رک گئی۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا مگر صبح کے دھندلکے میں اسٹیشن کا نام صاف پڑھا نہ جا سکا۔ کیا یہی میرا آخری اسٹیشن ہے، کیا میری منزل آ گئی۔ میں عجیب تذبذب میں تھا اتروں کہ نہیں اتروں۔ اگر ہمیں اسٹیشن آنے سے پہلے معلوم ہو جائے کہ یہی ہمارا آخری اسٹیشن ہے تو آدمی اپنا زادِ راہ سمیٹ لے اور اترنے کا انتظام کرے۔ سفر میں کتنی بار ٹرین آہستہ ہوتی ہے اور پانی لینے، دم بھرنے یا ہمسفر لینے کو سواری رکتی ہے مگر اترتا تو آدمی اپنے اسٹیشن پر ہی ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ پورے پیٹ کی گندمی رنگ کی حاملہ سامنے آ گئی۔ چہرے پر مسکان سجائے جیسے مجھ پر ہنس رہی ہو۔ مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہی ہے کہ اتر جاؤ یہی تمھارا اسٹیشن ہے۔ مگر مجھے پتہ ہے وہ جھوٹ بول رہی ہے، مجھے وقت سے پہلے اتار دینا چاہتی ہے۔ دشمن کی سچی بات بھی جھوٹی لگتی ہے، اگر یہ واقعی میرا اسٹیشن ہوتا بھی تو بھی شاید میں نہ اترتا۔ کوئی فیصلہ ہو نہ پایا تھا کہ ٹرین ایک جھٹکے سے پھر چل پڑی، وہ حاملہ عورت ایسی غائب ہوئی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ ٹرین کے جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ یہ خواب مجھے اب ایک سال سے متواتر تنگ کر رہا ہے، گھر واپس آ گیا ہوں مگر اس سے جان نہیں چھوٹی۔ ذہن بیدار ہوا تو تقریباً سال بھر پیچھے چلا گیا:
پہلا ریڈار چوکی سے کوئی آدھے میل کے فاصلے پر تھا، پھر دوسرا کوئی پانچ سو گز کے فاصلے پر۔ نیلے رنگ کی یہ پرانی سی ٹیوٹا بہت تیزی سے چوکی کی طرف آ رہی تھی۔ ڈیوڈ نے آدھے میل کے ریڈار پر اس کی رفتار دیکھی تو چلا کر مجھے باخبر کیا۔ قصبے سے شہر کی سمت کئی سڑکیں آتی تھیں، یہ سب سے چھوٹی سڑک تھی اور شاذ و نادر ہی استعمال ہوتی تھی۔ نیم پختہ مٹی کی یہ سڑک کثرت آمد و رفت سے شاید خود ہی بن گئی تھی۔ دھول اور مٹی اتنی کہ گرد کا ایک بگولہ کار کے ساتھ ساتھ رقص کرتا آگے بڑھ رہا تھا لیکن کار سے آگے نہیں نکل پاتا تھا۔ دور دور تک میدانی زمین تھی اور کسی شے کا مستور رہنا نا ممکن نہیں تو دشوار ضرور تھا۔ اسی لئے صرف میں اور ڈیوڈ ہی اس پر معمور تھے۔ چوکی کے قریب آنے سے پہلے غالباً اس کی رفتار آہستہ ہو گئی تھی۔ کم از کم ڈیوڈ نے بعد میں مجھے یہی بتایا۔ شاید اس نے چیخ کر مجھے کہا تھا کہ اب کار آہستہ ہو رہی ہے مگر میری سماعت پرتو طاقت کا پہرہ بیٹھا ہوا تھا۔ کار چوکی کے نزدیک ہوئی تو میں چوکی سے باہر آ کر خود کار مشین گن اس کی سمت میں تان کر کھڑا تھا۔ دونوں پاؤں کے درمیان تقریباً تین فٹ کا فاصلہ، آنکھ شست پر اور انگلی لبلبی پر۔ خون میری کنپٹیوں میں رگوں سے باہر آیا چاہتا تھا۔ میرا خیال ہے میں نے کار کو رکنے کا اشارہ کیا تھا۔ آپ کو میری بات ماننی چاہئیے، میں جھوٹ کیوں بولوں گا۔ مجھے لگا جیسے کار کے ڈرائیور نے حکم ماننے میں چند ساعتوں کی تاخیر کی ہو، یہ گندمی رنگ کے جاہل اور نافرمان لوگ بات سمجھتے کیوں نہیں۔ اس شبہ میں کہ گاڑی رک نہیں رہی اور میرے لئے خطرے کا باعث بن سکتی ہے، لبلبے پر دبی انگلی حرکت میں آ گئی۔ فضا میں مشین گن کی آواز سے سلامتی کا سناٹا ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی۔ بارود کی بو نے انصاف اور رواداری کے حواس مختل کر دئیے۔ ایک ادھیڑ شکل کا انسانی ڈھیر کار سے نکل کر کچی سڑک پر لڑھک گیا۔ پچھلا دروازہ کھلا اس میں سے ایک پورے پیٹ کی حاملہ بلند آواز سے نوحہ کرتی اور اپنا سینہ کوٹتی برآمد ہوئی اور کار کی اگلی مسافر نشست والے دروازے کی جانب لپکی۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ وہ اس میں سے کوئی ہتھیار نکالے گی، ابھی میں نے اپنی مشین گن بلند کی ہی تھی کہ ڈیوڈ نے ’شٹِ‘ کہہ کر میری مشین گن کا رخ نیچے کر دیا۔ عورت نے مسافر سمت کا دروازہ کھولا تو اس کے منہ سے ایک طویل چیخ نکلی جو گھٹ کر ایک ناقابلِ بیان فریاد میں بدل گئی۔ کار میں سے ایک لڑکا لڑھک کر سڑک پر گرنا ہی چاہتا تھا کہہ عورت دھب سے زمین پر بیٹھ گئی اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ لڑکے کی عمر کوئی بارہ سال کے قریب رہی ہو گی۔ اس کی منہ اور ناک سے خون جاری تھا اور وہ کسی قسم کی مدد سے بے گانہ ہو چکا تھا۔
’یہ تم نے کیا کیا جم ؟‘ ڈیوڈ کی آنکھوں میں وحشت تھی۔
’کیا کیا، ‘ مجھے اپنی آواز کسی کنویں سے آتی سنائی دی۔ ’اس سے پہلے کہہ یہ دہشت گرد ہمیں مار سکتے، میں نے اس کا سدِ باب کر دیا‘
’ لیکن یہ تو ایک حاملہ عورت غالباً اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ڈاکٹر کے پاس جا رہی تھی۔ اور اس لڑکے کا کیا قصور تھا؟‘
’احمقانہ باتیں مت کرو۔ اگر ان کی نیت صاف تھی تو رک کیوں نہیں رہے تھے ؟‘
’ رک تو رہے تھے، میں تمھیں چیخ کر بتایا بھی تھا کہ کار آہستہ ہو رہی ہے، اور یہ بارہ سالہ لڑکا‘
’سنپولیا ہے یہ بھی۔ میں نے اچھا کیا ابھی سے اس کا سر کچل دیا‘۔
’ اب کیا کریں، انکوئری ہوئی تو دونوں پھنسیں گے۔ میں اس کار کے پیچھے جا کر دو چار فائر تمھاری سمت میں کروں گا جس سے لگے کہ گاڑی ہم لوگوں پر فائر کر رہی تھی۔ ‘
’لیکن اس کی کیا ضرورت ہے، ہمارا فرض ہے یہاں قانون نافذ کریں اگر کوئی اس سے روگردانی کرے تو اس کو قرار واقعی سزا دیں ‘
’ہاں لیکن اگر روگردانی کرے تو ناں ‘ یہ کہہ کر ڈیوڈ کار کے پیچھے چلا گیا اور چوکی کی سمت دو فائر کئیے۔ پھر بھاگتا ہوا آیا اور اس حاملہ عورت کا وزن ہلکا کرنا چاہا۔ اس عورت نے حقارت سے ہماری جانب دیکھ کر زمین پر تھوک دیا اور لڑکے کا سرگود میں رکھے بیٹھی رہی۔ پھر ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑ کر زمین پر لیٹ گئی۔ مکر کر رہی ہے یقیناً۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، جیسے ہی میں اس کے قریب جاؤں گا یہ شاید خود کش حملہ کر دے۔ ابھی میں اس ادھیڑ بن میں ہی تھا ڈیوڈ مجھے دھکا دے کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
’جم فوراً جا کر ایمبولنس کے لئے وائرلیس کرو، مجھے بچے کا سر نظر آ رہا ہے ‘۔ مجھے تذبذب میں دیکھ کر گویا بے بسی سے بولا۔ مجھے ہچکچاتا دیکھ کر پھر گویا ہوا۔
’اگر ان سب کو مار دیا تو جمہوریت کس کو سکھائیں گے ‘۔
جتنی دیر میں ایمبولنس پہنچتی قدرت نے مزید انتظار سے انکار کر دیا۔ ایک نومولود زندگی نے اپنی آمد کا اعلان کیا تو ڈیوڈ نے مجھے اس کی ناف کاٹنے پر مجبور کیا۔ ہر نئی زندگی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان رو کر کیوں کرتی ہے، کبھی ہنستے گاتے کیوں نہیں آتی۔ ایمبولنس آ کر اسے لے گئی، مجھے اور ڈیوڈ کو شام میں سارجنٹ میجر کے پاس اپنے بیان قلم بند کرانے کی ہدایت مل گئی۔
’ میری سمجھ میں نہیں آتا تم ان لوگوں سے کس چیز کا انتقام لے رہے ہو‘ ڈیوڈ نے ایمبولنس جانے کے بعد مجھے گھیر لیا۔
’ انتقام کس چیز کا لینا ہے، کوئی تمھارے گھر پتھر پھینکے تو تم اس کا جواب دو گے یا نہیں ؟‘
’ضرور دوں گا لیکن یہ خیال ضرور رکھوں گا کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے ‘
’دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے ‘ میں نے ہنس کر جواب دیا۔
’تمھاری سوچ میں طاقت زہر گھول رہی ہے ‘ ڈیوڈ نہ جانے کس کی حمایت کر رہا تھا
’طاقت سے لہجے نہیں بدلا کرتے۔ ہم یہاں اپنے ملک سے اتنی دور ان جانوروں کو جمہوریت اور تہذیب سکھا رہے ہیں، انہیں تو ہمارا شکر گذار ہونا چاہئیے ‘
’طاقت اور دولت دونوں سے لہجے بدل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی بھی ایک کا نشہ ہو اور گفتگو میں نہیں جھلکے اس کے لئے بہت ظرف بہت وسعت درکار ہوتی ہے۔ اور جہاں تک ان کے جانور ہونے کا تعلق ہے تو جانور بھی بہت سی قسموں کے ہوتے ہیں۔ کچھ وہ جو پالتو ہوتے ہیں، دوسرے وہ جنگل میں راج کرتے ہیں اور جنہیں سدھایا نہیں جا سکتا۔ ایک قسم وہ ہے جو کانچ کی دکان میں توڑ پھوڑ مچا دے تو اک وہ جن کی دلچسپ حرکتوں سے ہم اپنے بچوں کا دل بہلاتے ہیں۔ جنگل میں راج کرنے والوں کو سدھانے کی کوشش خطرناک بھی ہو سکتی ہے ‘ ڈیوڈ کا لہجہ معنی خیز تھا، مجھے لگتا تھا اس نے بات غیر مکمل چھوڑ دی ہے۔
’ڈیوڈ تم آخر کس کی طرفداری کر رہے ہو‘ مجھ سے رہا نہیں گیا۔
’تمھاری طرف نہیں ہوتا تو ٹیوٹا کی سمت سے فائرنگ کر کے تمھارے جرم پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا‘ وہ طنزیہ لہجے میں بولا
اس کی بات نے مجھے ایک لمحے کے لئے لاجواب سا کر دیا، پھر اچانک مجھے خیال آیا تو میں نے پوچھا ’میرے جرم پر، میں نے کیا جرم کیا ہے ؟
’اس بارہ سالہ لڑکے اور اس کے باپ کی ہلاکت کو کس کھاتے میں ڈالو گے جم؟‘
’اگر وہ وقت پر کار روک لیتے تو میں کیوں اپنی گولیاں برباد کرتا‘۔
ڈیوڈ نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ ہماری شفٹ ختم ہونے کا وقت آ رہا تھا۔ کمپنی ہیڈ کوارٹر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔ عموماً گشت پر جانے والی ٹولیاں اٹھارہ سے بیس جوانوں کی ہوتیں، بڑی چوکیوں پر پانچ سے چھ فوجیوں کی ضرورت ہوتی۔ یہ چوکی کیوں کہ چھوٹی تھی اس لئے یہاں صرف دو ہی جوانوں کی ضرورت تھی۔ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد سائمن اور جیسن مجھے اور ڈیوڈ کو فارغ کر دیتے۔ ڈیوڈ ایسے منہ بنائے پھرتا رہا جیسے کوئی بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہو۔ یہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا تھا۔ ظاہر ہے جنگ میں جانیں نہیں جائیں گی تو اور کیا ہو گا۔ پھر شاید اس نے دیکھا ہی نہیں ایک سنپولئے کے مرنے سے پہلے ہی ایک اور وہیں سڑک پر پیدا ہو گیا تھا، قدرت کہاں تک حساب برابر کرے گی۔
شام میں ہم دونوں کا بیان لیا گیا۔ میں نے شکر کا سانس لیا جب ڈیوڈ نے بھی وہی بیان دیا جو میں نے دیا تھا۔
ٹرین اب پھر آہستہ تو ہو رہی تھی مگر لگتا تھا رکے گی نہیں۔ کھڑکی سے باہر اکا دکا گھر نظر آ رہے تھے، جن میں چراغ جل اٹھے تھے۔ میں اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ چھوٹے اسٹیشن پر گاڑی بہت تھوڑی ہی دیر رکتی ہے۔ مگر دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ پھر میرا راستہ روکے کھڑی تھی۔ پورے دنوں سے، لگتا تھا اس کا پیٹ کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے۔
ہونٹوں پر وہی تاؤ دلانے والی مسکراہٹ۔ انگوٹھے کے اشارے سے دروازے کی طرف اشارہ ہے کہ اتر جاؤ۔ مگر ٹرین بجائے رکنے کے اب دوبارہ تیز ہو گئی، میں نے طنزیہ اس کی جانب مڑ کر دیکھا مگر وہ اب کہاں تھی۔
دوسرے دن ہم دونوں کی ڈیوٹی گشت پر تھی۔ بازار میں جانے والی گشتی پارٹی میں آج نو جوان شامل تھے۔ دو، دو کی ٹولیوں میں آگے پیچھے دائیں بائیں۔ بازار کھل چکا تھا۔ یہ علاقہ فتح ہوئے اب تقریباً آٹھ ماہ ہو چکے تھے اور ہماری کمپنی کا ایک دستہ روز گشت کرتا تھا لیکن پھر بھی وہ لوگ ہمارے عادی نہیں ہوئے تھے۔ اب بھی ہمارے داخل ہوتے ہی بازار کا ماحول تناؤ کا شکار ہو جاتا۔ لوگ کام کاج چھوڑ کر دکانوں کے سامنے آ کھڑے ہوتے۔ بازار کا بھاؤ تاؤ رک جاتا۔ مقامی لوگ اب بھی ہم سے بیماری کی طرح بچتے تھے۔ بازار میں ڈیوڈ بلاوجہ لوگوں سے گھلنے ملنے کی کوشش کرتا۔ اس سے بول اس سے ہنس۔ بلاوجہ کی چھیڑ چھاڑ۔ میری سمجھ میں نہیں آتاکہ وہ ان سے فاصلہ کیوں نہیں رکھتا۔
’ڈیوڈ تم ان لوگوں سے بلاوجہ اتنا گھلنا ملنا کیوں چاہتے ہو‘
’بھئی ان کے دل و دماغ جیتیں گے تب ہی کوئی تبدیلی لا سکیں گے۔ زبردستی کی لائی تبدیلی تو عارضی ہو گی‘ ڈیوڈ ہمیشہ کا فلاسفر تھا نہ جانے فوج میں کہاں سے گھس آیا تھا۔
’لیکن ہمیں دل و دماغ جیتنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ فاتح اور مفتوح میں کچھ تو فاصلہ ہونا چاہئیے۔ انہیں خود سمجھ میں نہیں آتا ہم جو انہیں سمجھا رہے ہیں ان ہی کے بھلے کے لئے ہے۔ بالکل گنوارو لوگ ہیں۔ دیکھا ہے کیسے سڑپ سڑپ آواز نکال کر طشتری میں چائے پیتے ہیں ؟‘
’تو طشتری میں چائے پینے میں کیا حرج ہے، ہو سکتا ہے یہی چائے پینے کا صحیح طریقہ ہو۔ بھئی چائے جلدی ٹھنڈی ہو جاتی ہے، منہ نہیں جلتا۔ آخر ہم بھی تو چائے دانی میں چائے نہیں پیتے، اسے پیالی میں نکال کر پیتے ہیں، یہ پیالی میں نہیں پیتے اسے طشتری میں نکال کر پیتے ہیں ‘ ڈیوڈ کی ایسی بے تکی منطق ہوا کرتی تھی۔
گشت کے دوران ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا اور اچانک ہمارے سامنے سے راستہ کاٹ کر گذر گیا، ابھی یہ فیصلہ کر ہی رہے تھے کہ اس خطرے کی نوعیت کیا ہے کہ ایک اور سر پھرا اس کے تعاقب کرتے سامنے سے دوڑا۔ جیکب نے بندوق سیدھی کر کے چلا کے کہا رکو، ورنہ گولی مار دوں گا۔ پیچھے بھاگنے والا بچہ ٹھٹک کر رکا، جب اسے سمجھ ہی نہیں آیا ہو کہ اپنے دوست کے پیچھے بھاگنے میں حرج ہی کیا ہے۔ بچوں کو ایک دو منزلہ عمارت میں غائب ہوتے دیکھا تو ڈیوڈ نے بندوق کا نشانہ تان لیا، فائر کرنا ہی چاہتا تھا کہ کپتان نے آرڈر دے کر اسے روک لیا۔ اس قسم کی چالبازی اکثر خطرے کا سائرن ہوتی ہے۔ سپاہیوں کو اپنے تعاقب میں الجھا کر بھاگتے اور پھر کسی ویران یا سنسان جگہ باقی پارٹی سے علیحدہ رہ جانے والے سپاہیوں کو اپنی بقا کی جنگ کرنی پڑتی۔ کپتان کے اشارے پر سپاہیوں نے مورچے بنا لئے، پھر کپتان کے حکم پر میں اور ڈیوڈ ان کے تعاقب میں سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ لینڈنگ پر وہ دونوں بچے ایک عورت کے عقب میں چھپ رہے تھے۔ عورت خاصی ہراساں نظر آ رہی تھی۔ مرغی کی طرح دونوں بچوں کو اپنے پروں میں سنبھال کسی بھی ممکنہ صورتِ احوال سے نبٹنے کو لئے تیار۔ پانی کی ایک دھار بچے کی نیکر کو گیلا کر کے پیر سے ہوتی، اس کے جوتے سے بہہ کر فرش کو گیلا کر رہی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے کور دینے کا اشارہ دیا اور سامنے والی فلیٹ کے دروازے کے ٹھوکر سے کھالا۔ نیچے بازار میں اب سناٹے کا راج تھا حالانکہ لوگوں کی تعداد اب یقیناً پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔
ڈیوڈ نے عورت کو ایک طرف دھکا دیا کہ سیڑھی پر راستہ صاف ہو سکے تو وہ فلیٹ کی تلاشی لے سکے۔ عورت بچے کی حفاظت کے لئے کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے کھڑی تھی کہ اپنا توازن نہ سنبھال سکی۔ بچہ جو عورت کی گھیر دار شلوار پیچھے سے تھامے تھا، بروقت خود کو علیحدہ نہ کر سکا اور سیڑھیوں پر لڑھکنے لگا۔ اس کا سر ایک دیوار کو ٹکرایا اور اس کی گردن عجیب غیر فطری سے انداز میں ایک طرف کو ڈھلک گئی۔ ڈیوڈ بہت دور اندیش تھا، اس نے فوراً نیچے واکی ٹاکی پر بات کر کے کیپٹن سے کمک طلب کر لی۔ بچے پر دھیان دینے کا اب وقت نہیں تھا، سب سے پہلے یہ ضروری تھا کہ فلیٹ کی تلاشی لے کر عمارت کو محفوظ کیا جائے۔ ڈیوڈ ایک اور سپاہی کے ساتھ فلیٹ میں داخل ہوا تو وہاں صرف ماتمی سناٹا تھا۔ پہلا بچہ ہاتھ میں ٹینس کی گیند لئے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سپاہیوں کو دیکھ کر اس نے ہاتھ بڑھا کے ٹینس کی گیند ان کی طرف پھینکنا چاہی تو ڈیوڈ نے چیخ کر سب کو زمین پر لیٹنے کا اشارہ کیا اور بندوق بچے کی سمت تان لی۔ اپنے دوسرے بچے کو سیڑھیوں پر چھوڑ کر وہ عورت لپک کر فلیٹ میں داخل ہوئی اور گیند بچے کے ہاتھ سے نکال اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور سر سے اوپر بلند کر کے کھڑی ہو گئی۔ ڈیوڈ کی درخواست پر نیچے سے ایک بم کو ناکارہ بنانے والا ماہر آیا۔ وہ گیند واقعی صرف گیند ہی نکلی۔ سپاہیوں نے وقت کے زیاں پر بچے کو گھورا اور ایک کے پیچھے ایک اتر گئے۔ سیڑھیوں پر گرا بچہ اب کسی مدد سے بے نیاز ہو چکا تھا۔ چلو ایک سنپولیا اور گیا۔
یہ شاید کوئی بڑا جنکشن تھا۔ کافی لوگ اتر اور چڑھ رہے تھے۔ شاید یہی میری منزل ہے۔ میں تیزی سے دروازے کی سمت بڑھا مگر اندر آنے والے مسافروں کے ریلے نے واپس اندر دھکیل دیا۔ ’مجھے یہاں اترنا ہے میں نے چیخ کر کہا مگر لگتا تھا سب مسافر جیسے بہرے ہو گئے ہوں یا میں انہیں نظر ہی نہیں آ رہا ہوں۔ ان سب آنے والے مسافروں کے اوپر وہ ایسے تیر رہی تھی جیسے کوئی بادل اپنے پانی کے بوجھ کے باوجود اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی سبب کرتا ٹرین پھر چل پڑی اور وہ حاملہ بھی نہ جانے کہاں اُڑ گئی۔ میں تھک کر بنچ پر کیا بیٹھا میرا ذہن پھر ماضی میں بھٹکنے لگا۔
گھر سے دور صحرا میں رات کا وقت بہت دشوار ہوتا تھا۔ دن بھر میں کچھ سوچنے کا موقع ملتا تو شاید دن بھی طویل ہو جاتے۔ لیکن دن بھر تو فوجی مشغولیات میں آناً فاناً گزر جاتا، رات کاٹنی مشکل ہو جاتی۔ دن کاتپتا رتیلہ صحرا رات میں ٹھنڈا ہو جاتا تو چاروں سمت سناٹے کا راج دل میں اتھل پتھل مچا دیتا۔ میں نے سرہانے سے لوسی کی تصویر نکالی اور ہونٹوں سے لگا لی۔ ابھی ہماری شادی کو چار ہی سال ہوئے تھے۔ میری پہلی بیوی سے ایک لڑکا تھا جو تقریباً بارہ سال کا تھا۔ پہلی بیوی کینسر سے کیا مری کہ لڑکے کیذ مہ داری بھی میرے کاندھوں پر آن پڑی۔ لوسی سے ملاقات ہوئی تو لگا قدرت نے یہ ملاقات کسی مقصد سے ہی کروائی ہے۔ لوسی کے اپنے پہلے شوہر سے دو بچے تھے۔ یوں چار سال میں اب ہم تین بچوں کے والدین تھے۔ لوسی کی یاد کیا آئی میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے خفت سے دائیں بائیں دیکھا اور کمبل منہ کے اوپر کر لیا۔ سپاہی رویا نہیں کرتے۔ اور وہ بھی فاتح سپاہی۔ کیا ہم کبھی یہ جنگ جیت بھی سکیں گے۔ اس قسم کے سوالات ہمیں اپنے خیال و خواب میں کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ فتح تو ہمارا مقدر ہے۔ ہم ایک بہتر تہذیب، بہتر مذہب اور بہت زیادہ بہتر فوجی طاقت کے حامل تھے۔ کیا لوسی اب سو گئی ہو گی۔ میرے اپنے شہر میں اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ ہفتے میں تین فون کالوں کی اجازت تھی۔ ایک کال میں پرسوں اتوار کو کر چکا تھا، اب دونوں کالیں بچا کر رکھ رہا تھا، غالباً جمعہ اورا توار کو کروں گا۔ ا توار کو چرچ سے آ کر لوسی سے بات ہوتی تو وہ سب کا مختصر احوال بھی بتا دیتی۔ میں خود تو شاذونادر ہی چرچ جاتا تھا لیکن اب یہاں صحرا میں گھر سے دور خیال آتا کہ کتنا وقت ضائع کیا ہے میں نے۔ واپس جا کر باقاعدگی سے چرچ جاؤں گا۔ لوسی اب کیا کر رہی ہو گی۔ ہمارے سامنے والے گھر میں جان اکیلا رہتا ہے۔ اس نے کبھی شادی کی ہی نہیں۔ کہتا ہے جب اس کے بغیر کام چل رہا ہے تو یہ جنجال کیوں پالوں۔ لوسی ہے بہت خوبصورت اور تھوڑی سی فلرٹ بھی۔ پب میں وہ خود ہی میری طرف متوجہ ہوئی تھی اور اس ہی نے مجھ سے ڈانس کی فرمائش بھی کی تھی۔ میں اسے پہلی رات ہی گھر لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ لیکن میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں، اب تو لوسی بہت خوش ہے میرے ساتھ۔ اس وقت تو تنہا تھی، اب وہ تنہا نہیں ہے، اب یقیناً اس میں ٹھہراؤ آ گیا ہے۔ نہیں لوسی غالباًاس وقت بچوں کو باغ میں لے گئی ہو گی۔ میرے بیٹے کو بیس بال کا بہت شوق ہے وہ بیس بال کے کھیل میں گیا ہو گا۔ لوسی میرے ساتھ بہت خوش ہے، لیکن مجھے یہاں آئے بھی تو آٹھ مہینے گذر چکے ہیں۔ میں نے آتے وقت جان سے کیوں کہا تھا کہ وہ لوسی کا خیال رکھے ؟
آج کا دن کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ آج پھر ایک چوکی پر پوسٹنگ ہے۔ آج میرے ساتھ ڈیوڈ تعینات ہے۔ میری ڈیوڈ سے زیادہ بنتی ہے۔ وہ بھی مقامیوں کو ان کے مقام پر رکھنا پسند کرتا ہے۔ ہم دونوں آج تک یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ قبائلی بدو ہمارے شکر گزار کیوں نہیں۔ انہیں تو ہمارا بہت مشکور ہونا چاہئیے کہ ہم انہیں کمپیوٹر دور میں لے جائیں گے۔ یہ احمق سمجھتے ہیں ہم ان کی معدنی دولت کے لئے یہاں آئے ہیں۔ وہ خود اتنے پیچھے ہیں کہ اس سے استفادہ کر بھی نہیں سکتے تھے، پھر اگر یہ معدنیات نکال بھی لی جائیں تو اس سے مقامی لوگوں کو ہی تو روزگار ملے گا۔ ان کی ترقی اور بہتری کے لئے یہ سارے اقدامات ہیں۔ اور یہ اپنی پہلی فرصت میں ہمیں نقصان پہچانے کے درپے رہتے ہیں جیسے ہم کوئی بیرونی حملہ آور ہیں کہ جس نے ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے ان کو بے دخل کر دیا ہو۔
پچھلے چند دنوں کے واقعات سے فضا کچھ ایسی ہو گئی ہے کہ ایک باہمی خوف سے امن قائم ہے۔ ہم نے جنگجو قبائلیوں کو عبرتناک سزائیں دے کر جتا دیا ہے کہ ہم یہاں کھیلے نہیں آئے اور سرکشی برداشت نہیں کی جائے گی۔ لیکن سرکشی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ اپنے آگے کسی کو گردانتے ہی نہیں، صرف وقت کی بات ہے یہ پھر جمع ہو کر اپنی سی کوشش کریں گے۔ چوکسی اور بے رحمی سے ہی ان سے نبٹا جا سکتا ہے۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہمیشہ یہاں چوکی کی ڈیوٹی پر بھیج دیتے ہیں۔ ہر آنے والی گاڑی سے خطرہ ہوتا ہے کہ چلتا پھرتا میزائل ہی نہ ہو۔ وہ کپتان ہے بھی تو بہت متعصب۔ ایک تو کمبخت جنوب کا ہے اور پھر ہے بھی یہودی۔ میرے خیال میں یہ عیسائیوں سے پرخاش رکھتا ہے۔ جم بھی یہودی ہے اسے اکثر کیوں ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈیوٹی ملتی ہے۔ میں یقیناً واپس جا کر کمانڈنٹ کو ایک مراسلہ بھیجوں گا، وہ شمال کا ہے اور پروٹسٹنٹ بھی، وہ سمجھے گا میری بات کو۔
آج کا دن بھی روز جیسا ہی ہے۔ حالتِ جنگ میں ہر روز ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔ خواہ یہ جنگ ایک طرفہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اپنے خودساختہ خطرات سے ہوشیار، خوفزدہ، تنہا، مقامی آبادی کو سرنگوں کرنے کا عزم لئے روز صبح اٹھتے اور رات گئے اپنے زخم اور دشمن کی لاشیں گن کر اطمینان سے سو جاتے۔ یہی روز مرہ کا معمور رہا۔ خود اپنی طاقت اور فراست سے آگاہی ہے ادھر دشمن تقریباً غاروں کے زمانے کے ہتھیاروں سے لیس ہے۔ لیکن ڈر اس کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ اس کے جذبوں سے ہے۔ اسی طاقت کے زعم اور جذبوں کے خوف کی ملی جلی کیفیت میں پھر گشت کی تیاری ہے۔ آج کی گشت نسبتاً آسان ہونی چاہئیے۔ یہ علاقہ اتنا گنجان نہیں اور پچھلے کئی دنوں سے اس علاقے سے اچھی رپورٹیں آ رہی تھیں۔ لگتا ہے لوگوں نے مطیع ہو کر اب سرگرانی چھوڑ دی تھی۔ سارا ملک اسی عقلمندانہ روئیے کو اختیار کرے تو کتنا اچھا ہو۔ میں واپس جا سکوں لوسی اور اپنے بیٹے تھامس کے پاس۔ آج کل ان کی یاد کچھ زیادہ ہی تنگ کر رہی ہے۔ نہ معلوم یہ لوسی کی یاد ہے یا میری محبت کی بے یقینی۔ میں واپس جاؤں گا تو وہ یقیناً میرا انتظار کر رہی ہو گی۔ گشت پارٹی گیارہ سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ چار، تین چار کی فارمیشن میں۔ میں درمیان میں تین کی قطار میں تھا۔ ہم نسبتاً مطمئن تھے لیکن پھر بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے بڑھتے رہے۔ دائیں ہاتھ کی ایک دو منزلہ عمارت سے ایک عورت پیٹ پکڑے باہر آئی۔ سب کی بندوقیں تن گئیں، عورت درد کی شدت سے کراہ رہی تھی۔ ’یہ پورے دنوں سے ہے، وقت ہو گیا ہے ‘ اس کے پیچھے ایک نسبتاً بڑی عمر کی عورت نے کہا۔ غالباً اس کی ماں ہو گی۔
’جم تم دیکھو، باقی لوگ اپنی جگہ پر رہیں لیکن کور کریں ‘ سارجنٹ نے ہدایت کی۔
میں جانا نہیں چاہتا تھا لیکن ایک تو سارجنٹ کا حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا، دوسرے سب کو میرے ماضی میں نرس ٹریننگ کا علم تھا۔ عورت اب درد کی شدت سے وہیں سڑک کے کنارے لیٹ چکی تھی۔ بڑی عمر کی عورت بھی وہیں پھسکڑ مار کے بیٹھ گئی اور حاملہ عورت کا سر گود میں رکھ کر رونے لگی۔ میری ہچکچاہٹ دیکھ کر سارجنٹ نے پھر آواز دی۔ ’جم کس بات کا انتظار ہے ؟‘
آس پاس کی عمارتوں سے کچھ سر باہر جھانکنے لگے تھے۔ یہ بات یقینی تھی کہ کئی لوگ پردے کے عقب سے ہمارا ردِ عمل دیکھ رہے تھے۔ اس بات نے سارجنٹ پر دباؤ بڑھا دیا تھا کہ وہ کوئی عملی قدم اٹھائے۔ اب مزید تاخیر سے میرے ساتھیوں کو پتہ چل جاتا کہ میں کتنا خوفزدہ ہوں۔ میں نے اپنی خودکار بندوق اپنے ساتھی کو پکڑائی اور اس عورت کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔ جس لمحے مجھے احساس ہوا کہ اس عورت کی شکل دیکھی بھالی ہے، اس عورت سے کتنا ملتی ہے جو اس دن چیک پوسٹ پر ملی تھی، اسی لمحے میرے داہنے ہاتھ کو پتہ چل گیا کہ اس کے پیٹ کا ابھار مصنوعی ہے۔ اس کے انتقام کی رفتار میری حفاظتی پسپائی سے زیادہ تیز نکلی۔ اس کا جسم ایک دھماکے سے پھٹ گیا، مجھے لگا میرے دماغ میں کسی نے ہتھوڑا دے مارا ہو، آنکھوں کے سامنے ایک سفید پردہ آ گیا پھر میں ہر احساس سے بے گانہ ہو گیا۔ میری آنکھ فیلڈ ہسپتال میں کھلی۔ سارا جسم پٹیوں میں بندھا ہوا تھا۔ جسم کے ہر انچ پر لگتا تھا کوئی ہتھوڑے مار رہا ہو۔ پپوٹوں کی دراز سے کچھ ہیولے سے نظر آئے اور بس۔
’جم کو ہوش آ گیا ہے ‘ آواز کچھ مانوس سی تھی لیکن کس کی تھی یہ میں اندازہ نہیں کر سکا۔
’بھئی اب تو معجزوں پر یقین کرنا پڑے گا‘ ایک سفید کوٹ میں ملبوس شخص نے مجھ پر جھک کر اپنا اسٹیتھسکوپ میرے سینے پر رکھ دیا۔
’ڈاکٹر‘ میرے حواس تیزی سے واپس آ رہے تھے۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر اس سے مصافحہ کرنے کی کوشش کی تو بھک سے فیوز اڑ گیا۔ داہنا ہاتھ محسوس تو ہو رہا تھا مگر وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ کہنی سے نیچے جہاں کبھی، میرا ہاتھ تھا وہاں صرف ایک خلا تھی۔ فوراً تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ مگر ڈاکٹر میری ذہنی کیفیت کو بھانپ گیا۔
’معاف کرنا جم، تمھارا بچ جانا ایک معجزہ ہے، تمھیں یاد ہے تمھارے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘
میرے ذہن میں ایک حاملہ عورت کی شبیہ اتر آئی۔ وہ شاید مجھ پر ہنس رہی تھی۔ دل تو چاہا ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے یہ ہنسی اڑانے والی مسکراہٹ چھین لوں، مگر جتنی تیزی سے اس کی تصویر بنی تھی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو گئی۔ ’وہ ایک حاملہ عورت۔۔ ۔ ‘
’ہاں وہ کتیا حاملہ نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا لہجہ زہر آلود تھا۔ ’اس نے اپنے آپ کو اڑا کے تمھیں مار ڈالنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی، مجھے افسوس ہے کہ ہمیں تمھارا داہنا ہاتھ اور داہنا پیر کاٹنا پڑا، مگر تم کو بچانے میں کامیاب ہو گئے ‘۔
’آجکل تو ایسے مصنوعی اعضا نکل آئے ہیں کہ تم بہت جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ گے۔ میرا مطلب ہے بیساکھی کے سہارے چل سکو گے ‘ اس کی پیشہ ورانہ ذمہ داری نے اسے واپس حقیقت کی دنیا میں لا کھڑا کیا۔ تمھارے معدے کا آپریشن کر کے وہاں ایک نالی لگا دی ہے جس کے سہارے تمھاری خوراک چلتی رہے گی۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ پیشاب کی نلکی بھی فی الحال ایک دو سال رہے گی پھر دوبارہ صورتِ احوال کا جائزہ لیں گے ‘۔ اسے ساری تفصیل بتانے کی اتنی جلدی کیا تھی۔
’تم تو کہہ رہے تھے تم نے مجھے بچا لیا؟‘ میرا دماغ پوری طور پر کام کر رہا تھا۔
’ہاں، ہمیں امید تو نہیں تھی‘ ڈاکٹر کا دماغ شاید پوری طرح کام نہیں کر رہا تھا۔
اس رات وہ پہلی بار مجھے خواب میں نظر آئی تھی۔ میں ٹرین میں واپس گھر کی طرف رواں دواں تھا، اپنی معذوری سے بے خبر۔ یونیفارم پہنے، ہولڈال اٹھائے خوش خوش ٹرین میں جا بیٹھا ہوں میں نے اپنے حصے کی ڈیوٹی جو پوری کر لی ہے۔ لوسی سے ملنے کا اشتیاق، وطن کی بوباس۔ ایسے میں وہ دونوں ہاتھ پھیلائے اس تیزی سے میری سمت آئی تھی کہ میں ڈر کے پیچھے ہو گیا۔ مجھے ڈرتا دیکھ کر وہ ہنس پڑی، میری سامنے والی برتھ پر بیٹھ کر اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ نہ جانے میں اس سے کیوں اتنا خوفزدہ ہوا تھا کہ چیخ کر اٹھ بیٹھا۔ نرس دوڑتی ہوئی آئی اور میں سمجھا اس نے شاید کہا تھا Post Traumatic Stress پھر بازو میں ایک انجکشن کی چبھن یاد ہے۔
اس کے بعد کی کہانی ایک معذور و مفلوج کی کہانی ہے۔ نرسوں نے میرا بہت خیال رکھا۔ دن میں تین وقت میرے معدے کی نالی میں مائع خوراک انڈیل دی جاتی۔ کھانا تو سامنے تھا مگر میرا منہ اس کی لذت کو ترستا تھا۔ مجھے دو فزیو تھیراپسٹ اٹھا کر وہیل چئیر میں بٹھا دیتے، جیسے آپ کسی بھاری بوری کو ادھر سے ادھر منتقل کر دیں۔ ڈاکٹر کی امید کے برخلاف جہاں سے پیر کٹا تھا وہاں زخم میں پس پڑ گئی تھی اور میں مصنوعی پیر نہیں لگوا سکا۔ نہ معلوم کیوں مجھے ہر لحظہ یہی لگتا کہ حاملہ میری طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔ ایک دفعہ میں نے اسے وہیل چئیر سے جھپٹ کر پکڑنا چاہا تو وہ غائب ہو گئی اور میں منہ کے بل زمین پر گرا۔ ڈاکٹر نے البتہ مجھے ڈپریشن کی دوائیں شروع کر وا دیں، اس کے علاوہ وہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ فیلڈ ہسپتال کے علاج سے اتنا ہوا کہ میری حالت ’نازک‘ سے ’خطرناک‘ پھر ’اطمینان بخش‘ ہو گئی۔
’اب تمھیں واپس بھیجا جا رہا ہے۔ باقی کا علاج گھر کے پاس فوجیوں کے ہسپتال میں ہوتا رہے گا‘ ڈاکٹر نے اپنے تئیں مجھے خوش خبری دی۔ لوسی کو میری حالت کے بارے میں اطلاع پہلے ہی دیجا چکی تھی۔ کیا ساری زندگی لوسی مجھے وہیل چئیر پر سنبھال پائے گی۔ وہ تو صفائی ستھرائی کی اتنی عادی ہے، ذرا سی بو اسے ناگوار گذرتی ہے، میرے مستقل پیشاب کی نالی سے کیسے سمجھوتا کرے گی۔ وہ حاملہ عورت پھر مجھے چڑانے آ گئی۔ کاش میں اسے مار سکتا۔ کیسے ہوتے ہیں یہ لوگ، اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں۔ کوئی مہذب آدمی بھلا کیسے خود کش بمبار بن سکتا ہے۔ یہ کیوں اپنا اچھا برا نہیں پہچانتے۔ ہم انہیں جمہوریت دیں گے، بہتر تہذیب اور تمدن دیں گے۔ انہیں نہ جانے خود مختاری اور آزادی کی ایسی کیا مار ہے کہ اس کے لئے اپنے آپ کو اڑا دیں۔
ایرپورٹ پر لوسی میری منتظر تھی۔ مجھے وہیل چئیر پر آتے دیکھا تو بھاگ کر پاس آ گئی۔
’آ گیا میرا بہادر شوہر۔ مجھے تم پر کتنا فخر ہے جم، تم جیسے سپاہیوں کی قربانی سے ہی ہماری آزادی بر قرار ہے ‘، اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی، آنکھوں میں آنسو۔ پھر بھی مجھے لگا وہ یہ جملے میرے لئے نہیں اپنی تسلی کے لئے بول رہی ہے۔ ’میرے جسم سے آتی پیشاب کی بو کے باوجود وہ میرے جسم سے لپٹ گئی۔ میرا منہ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر بے تحاشہ چومنے لگی۔ ’ذرا فکر مت کرو میں نے گھر پر سب انتظام کر لیا ہے، تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی‘۔ اس نے میرا ہاتھ دبایا۔ میرے سارے خدشات دور ہو گئے۔ مجھے لوسی پر پیار بھی آیا اور فخر بھی محسوس ہوا۔ اس نے اپنا آپ میرے لئے سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ اگلے کئی روز مجھے نہ ٹرین کا سفر ملا نہ ہی وہ حاملہ مجھے پریشان کرنے آئی۔ زندگی بیساکھیوں کے سہارے پہر چل پڑی۔ ایک اپاہج کی زندگی، کھانے، پینے، رفع حاجت کے لئے کسی کی محتاج زندگی۔ مجھے لگا جیسے گزرتے دنوں کے ساتھ لوسی کی تندہی میں کمی آ رہی ہے۔
’جم تمھاری پیشاب کی نالی بدلنے کا وقت ہو گیا ہے ‘ اس نے نلکی مجھے پکڑا دی۔ اس سے پہلے ہمیشہ نلکی لوسی نے خود بدلی تھی نلکی بدلتے وقت مذاق بھی کرتی، ایک بار تو اس نے سہلا نا شروع کیا مگر میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بات بدل دی۔
’ نلکی بدل لو تو مجھے آواز دے دینا‘ شاید مصروف ہو گی میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ اس رات وہ حاملہ پھر آ دھمکی۔ گندمی رنگ، بڑی بڑی روشن آنکھیں، جن میں اداسی گھُلی ہوئی تھی۔ میں اس سے نگاہیں ملا نہیں پاتا تھا۔ اس بار ٹرین اسٹیشن پر رکی تو وہ باقاعدہ مجھے کھینچنے لگی کہ گو یا ٹرین سے نیچے کھینچ لے گی۔ وہ تو میری چیخوں کی آواز سن کر لوسی نے مجھے اٹھا دیا ورنہ آج شاید کچھ ہو جاتا۔
میرے پیر کے زخم میں ابھی تک پس پڑی ہوئی تھی۔ ہر تیسرے روز پٹی تبدیل کی جاتی۔ آج تیسرا روز تھا۔ شروع شروع میں ایک نرس آ کر گھر پر پٹی بدل جاتی پھر اس نے لوسی کو سکھا دیا کہ زخم پر پٹی کیسے بدلی جائے گی۔ حکومت ایک اپاہج پر اب مزید اخراجات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’ میں آ رہی ہوں گرم پانی لے کر جم، پٹی بدلوانے کے لئے تیار ہو جاؤ‘ مجھے لوسی کی آواز سنائی دی۔ مجھے کیا تیاری کرنی تھی بس ذہنی طور پر اس درد کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو گیا جو پٹی بدلنے سے ہوتی تھی۔ لوسی کا شاید مقصد بھی یہی تھا۔ وہ پانی کا تسلہ، قینچی، پٹی اور مرہم لے کر آئی تو میں اسے دیکھ کر پہلے تو بھونچکا رہ گیا پھر ہنس پڑا، اس نے چہرے پر ڈھاٹا باندھ رکھا تھا۔
’یہ تم نے کیا حلیہ بنایا ہوا ہے ‘ میں نے پوچھا
’وہ در اصل، جم‘ اس کی آواز میں ہچکچاہٹ تھی۔ ’در اصل زخم سے بہت بدبو آتی ہے ‘ اس نے بالآخر جملہ پورا کیا۔ میری آنکھوں میں آنسو سے بے خبر وہ پٹی بدلنے میں مصروف ہو گئی۔ درد کی شدت سے میری تو چیخیں ہی بدل گئیں۔ ’بس ذرا صبر ابھی تمھیں درد کا انجکشن دے دوں گی‘ اس نے مجھے پچکارا۔ پٹی بدل کر اس نیک بخت نے واقعی مجھے انجکشن لگا دیا۔ میں درد کے اندھیرے سے نکل کر خواب کی وادی میں کیا گھسا کہ ٹرین کا سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ ٹرین پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی، میں نے قریبی ڈنڈا پکڑ لیا کہ گر نہ پڑوں۔ ’یہ بیت الخلا کے نزدیک کیوں بیٹھے ہو، یہاں سیٹ خالی ہے یہاں آ جاؤ‘ کسی نے آواز دی۔ بیت الخلا کی بو میں میری بو دب جائے گی، اب میں اسے کیا بتاتا ’بس یہیں ٹھیک ہوں ‘ بس اتنا ہی کہہ سکا۔ وہ حاملہ آج نہیں نظر آ رہی۔ میں نے چاروں طرف مڑ مڑ کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تو اچانک لوسی سامنے آ گئی۔
’جم تمھارا اسٹیشن آ گیا ہے ‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیار سے مجھے سمجھایا۔
’واقعی، لیکن میرے خیال میں تو ابھی بہت دور ہے، یہ اسٹیشن تو میرا نہیں ‘، اس سے پہلے کہ میں اس سے مزید الجھتا وہ غائب ہو چکی تھی۔ پٹی والا پیر شاید مسہری کے پائے سے ٹکرایا کہ درد کی شدت سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے اپنی پتلون سے بیلٹ کھینچی اور پنکھے سے باندھ کر اس کی مضبوطی کا اندازہ کرنے لگا کہ انسانی وزن سے کہیں ٹوٹ تو نہیں جائے گی۔ میرا اسٹیشن آ گیا تھا۔
٭٭٭