دیہی امریکہ میں وہ سب سہولتیں موجود ہیں جنہیں ہم صرف شہروں کا حق سمجھتے ہیں۔ صاف پانی، بجلی، پکی سڑک، اسکول، کالج سینیما، پارک اور معالجے کی سہولیات، سب کچھ ہی ہوتا ہے۔ بس نہیں ہوتا تو آدمیوں کا وہ جنگل جو بڑے شہروں کا خاصہ ہے۔ یہ دیہات اور قصبے یا تو کسی جامعہ کے اطراف میں بس جاتے ہیں، یا کسی فیکٹری کے وسیلے سے۔ بہت سے قصبے گو زراعت کی بنا پر بھی زندہ رہتے ہیں۔ کیوں کہ بنیادی ضرورتوں کا فقدان نہیں لہذا نووارد تارکینِ وطن بھی یہاں قدم جمانے سے نہیں شرماتے۔ پانچ چھ ہزار کی بستیوں میں بھی آپ کو آٹھ دس گھرانے برِ صغیر سے درآمد ہوئے مل جائیں گے۔ ان میں سے اکثر کا تعلق طب، فارمیسی، ہوٹل یا کمپیوٹر سے ہوتا ہے۔ پورے قصبے میں صرف چھ یا آٹھ ہم زبان گھرانے ہوں تو انہیں مجبوراً ایک دوسرے سے مل جل کر ہی رہنا پڑتا ہے۔ وہ سماجی عیاشی جو ایک بڑے شہر میں میسر ہوتی ہے کہ آپ اپنے ہم مزاج دوست چن لیں، یہاں مفقود ہے۔ آپس میں بنا کر رکھنے کی ضرورت ان گھرانوں کو بظاہر نزدیک لے آتی ہے۔ یہ ہم آہنگی اس مجبوری سے پیدا ہوتی ہے کہ لڑ لئے تو ملیں گے کیسے۔ ضرورتِ باہمی ان خاندانوں کو برداشت اور رواداری سکھا ہی دیتی ہے۔
احمد صاحب فلوریڈا کے قصبے پالم لینڈ میں کوئی آٹھ سال سے مقیم تھے۔ مقامی یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس پڑھاتے تھے۔ ایک بیوی اور تین بچوں کے ساتھ زندگی سکون سے بسر ہو رہی تھی۔ پالم لینڈ میں تین پاکستانی، پانچ ہندوستانی اور ایک بنگلہ دیشی خاندان آباد تھا۔ ہر ماہ یہ سب گھرانے کسی ایک کے یہاں مدعو ہوتے۔ کپڑوں کی نمائش بھی ہو جاتی اور کھیلوں پر سیر حاصل تبصرہ بھی۔ مرد اسٹاک مارکیٹ کے شکوے کرتے تو عورتیں اپنی الگ محفل سجائے رکھتیں۔ بچے جو مخلوط تعلیمی ماحول کے عادی تھے لہذا وہ اپنا الگ گروہ بائے کوئی دلچسپی کا سامان ڈھونڈ ہی لیتے۔ ان نیم بدیسی بچوں کے لئے اپنے دیسی والدین کی محفلوں میں شرکت ایک آزمائش ہوتی۔ والدین کی دلچسپیاں اپنے تجربات، روایات اور سماجی تاریخ سے کشید ہوئی تھیں۔ بچوں کے تجربے اور ماحولیات امریکی تھی، ان کی دلچسپیاں بھی امریکی النسل تھیں۔
آج شنکر کے گھر پر اجتماع تھا۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ کا ون ڈے میچ تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ سب مل کر دیکھیں گے۔ اپنے گھروں سے کھانے کی ایک ڈش پکا کر سب شنکر کے یہاں لے آئے تھے۔ شنکر اسی کمروں کے ایک مقامی ہوٹل کا مالک تھا۔ خاندانی کاروباری تھا اس کی پشتوں میں کسی نے نوکری نہیں تھی۔ اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ پھر قصبوں، دیہاتوں میں زندگی ویسے بھی سستی ہوتی ہے۔ کشادہ بیٹھک میں نوے انچ کا ٹی وی اس کے اطراف لگے دو بڑے اسپیکر کسی سینیما کا منظر تھا۔ جدید اطالوی فر نیچر گھر والے کی مالی استطاعت کی گواہی دے رہا تھا۔ عارف، خالد، احمد سب ہی اپنے خاندانوں کے ساتھ موجود تھے۔ ساتھ ہی دنیش، امیت اور جیتندر کے خاندان بھی۔
‘‘یار آج اسلام صاحب نظر نہیں آ رہے ؟‘‘ امیت نے بنگلہ دیشی خاندان کی غیر موجودگی محسوس کی
‘‘بھئی ہو سکتا ہے انہیں نہیں بلایا ہو، ایسے سوالات غیر پارلیمانی ہوتے ہیں ‘‘ احمد نے شنکر کو چھیڑا
‘‘بھئی میں کیوں نہ بلاتا۔ یاد ہے پچھلی دفعہ جیتندر کے یہاں وہ بنگلہ دیش بننے میں بھارت کے کردار کی کتنی تعریف کر رہا تھا۔ مجھے تو شبہ تھا شاید تم اسے اپنے گھر نہ مدعو کرو؟‘‘ شنکر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
‘‘ارے نہیں بھئی وہ تو ایسے ہی جذباتی ہو جاتا ہے ‘‘ احمد کچھ کھسیا گیا۔
کھیل شروع ہو گیا تھا، پاکستان نے پہلے کھیلتے ہوئے بیس اوور میں سو رن بنا لئے تھے اور ابھی ان کا صرف ایک ہی کھلاڑی آؤٹ ہوا تھا۔
‘‘یار پاکستان کا یہ اوپنر تو خوب نکلا ہے۔ کیا زبردست چوکے لگا رہا ہے۔ ایک ہمارے اوپنر ہیں ‘‘ شنکر نے منہ بنایا۔ اپنی ٹیم برا کھیل رہی ہو تو خود اپنی کم مائے گی کا اعتراف دشمن کا منہ بند کر دیتا ہے۔
‘‘سب سفارشی ہیں بھئی۔ اسے دیکھو سیدھی گیند تک نہیں پھینک پا رہا ہے، ہر گیند لیگ اسٹمپ سے باہر‘‘ اجیت بھی اپنی ٹیم سے شاکی تھا۔
‘‘بھئی ابھی تو یہ پہلی اننگز ہے، ابھی تو تم لوگوں کی ٹیم کو بھی کھیلنا ہے، اور بھارت کی بیٹنگ تو بہت مضبوط ہے، کتنا بھی اسکور کر لو، کم ہی لگتا ہے ‘‘ احمد نے گویا انہیں تسلی دی۔
پاکستانی اوپنر نے اپنی کریز سے باہر نکل کر ایک شاندار اونچا شاٹ کھیلا جو چھ رن قرار پایا۔
‘‘بیٹنگ تو بیٹنگ کے وقت آئے گی، اس وقت تو لگ رہا ہے یہ مل کر کھیل رہے ہیں ہمارے باؤلر۔ کیسی آسان گیندیں پھینک رہے ہیں‘‘ ۔ شنکر اپنے صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔ اس کی دلچسپی اب کھیل میں کم ہو رہی تھی۔ دوسری جانب احمد، خالد اور عارف اپنی کرسیوں پر آگے جھک آئے تھے۔ وضع داری میں چوکوں، چھکوں پر دل کھول کر داد نہیں دے پا رہے تھے۔ بس دزدیدہ نظروں سے آپس میں ستائشی پیغامات کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ دو دیرینہ دشمن اپنی ٹیموں کو بر سرِ پیکار دیکھ رہے تھے لیکن مغربی برداشت اور وضع داری کے آئنے میں۔
‘‘یار یہ بالر آسان گیندیں جان بوجھ کر کیوں کرائے گا، اس وقت یہ اوپنر ذرا اچھی فارم میں ہے ‘‘ خالد نے لقمہ دیا
‘‘خیر اچھی فارم میں تو نہیں، ابھی پچھلے کھیل میں صرف تین رن بنا کر آوٹ ہو گیا تھا‘‘ اجیت نے یاد دلایا۔
اوپنر نے پھر باہر نکل کر اونچا شاٹ کھیلنے کی کوشش کی، مگر گیند گھوم کر اس کی پہنچ سے دور ہو گئی اور وکٹ کیپر نے فوراً اسے کھیل سے باہر کر دیا۔
‘‘وہ مارا‘‘ شنکر، امیت جیتندر اور دنیش سب ہی خوشی سے اچھل پڑے، مگر خالد، عارف اور احمد کے منہ لٹک گئے، جوش میں معقولیت کا فرضی جامہ اتر گیا۔
‘‘بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی‘‘ جیتندر نے فاتحانہ نظروں سے اپنے پاکستانی دوستوں پر نگہ ڈالی۔
‘‘بکرے کی کیوں، گائے کی کہو‘‘ عارف نے اوچھا وار کیا۔
‘‘گائے کی کیوں، مثال تو یہ ہے ناں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘ جیتندر نے خونی نظروں سے دیکھا
‘‘بھئی گائے کی ماں تمھیں زیادہ عزیز ہے میں تو اس لئے کہہ رہا تھا‘‘ عارف کے غیر متوقع جواب پر ایک لمحے کے لئے تکلیف دہ سناٹا چھا گیا۔ اب نیا کھلاڑی میدان میں آ چکا تھا۔ سب خاموشی سے کھیل دیکھنے لگے۔ سب محتاط تھے، کوئی چٹکلا ماحول کو مزید خراب کر سکتا تھا۔
‘‘بھئی اتنی خاموشی سے کھیل دیکھا جا رہا ہے، لگتا ہے پاکستان ہار رہا ہے ‘‘ جیتندر کی بیوی نے کمرے میں داخل ہو کر ذرا شوخی سے کہا۔
‘‘بھئی ابھی تک تو ہندوستان کو ہی رگڑا لگ رہا ہے ‘‘ عارف نے ذرا فخریہ لہجے میں کہا
‘‘ہاں لیکن ابھی ہماری باری آنی باقی ہے، یہ کھلاڑی بغیر بلے کے میدان میں نہیں اتریں گے ‘‘ جیتندر سے خاموش نہیں رہا گیا۔
‘‘یار میچ دیکھو لڑو نہیں، ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے ‘‘ شنکر نے ہنس کر ماحول کی کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی۔
‘‘میں تو صرف یہ کہنے آئی تھی کہ کھانا تیار ہے، آپ لوگ اپنی پلیٹوں میں یہیں نکال لائیں پھر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں ‘‘ جیتندر کی بیوی جلدی سے بولی۔
پاکستان کی ٹیم نے اپنے پچاس مقر رہ اوورز میں دو سو ستر رن بنا لئے۔ لیکن اب دوستوں کے تبصرے محتاط ہو گئے تھے۔ ایسے جملوں سے اجتناب کیا جا رہا تھا جس سے جارحیت کا شبہ ہو۔ بات ٹیکس اور امریکی سیاست کی ہونے لگی۔ لیکن کوئی اٹھنے کو تیار نہیں ہوا، سب کی آنکھیں اسکرین پر مرکوز تھیں۔ کھیل میں کھانے کا وقفہ ہوا تو یہ لوگ بھی اٹھ کر کھانے کے کمرے میں آ گئے۔
‘‘بھئی بچے کہاں ہیں، اتنی خاموشی کیوں ہے ؟‘‘ خالد کو اچانک بچے یاد آ گئے۔
‘‘بھئی میں نے Pizza منگوا لیا تھا۔ سب پیچھے بڑے کمرے میں بیٹھے کھا رہے ہیں ‘‘ شنکر کی بیوی نے تسلی دی۔ مختلف عمروں کے بچے تھے، سب جمع ہو جاتے تو کوئی تیس کی نفری ہوتی۔ پانچ سال سے لے کر بیس سال کی عمر تک کے۔ عارف کا بیٹا بیس برس کا اور بیٹی چودہ برس کی تھی۔ جیتندر کے تین بچے تھے، بارہ برس کے دو جڑواں بچے تھے اور اٹھارہ برس کی ایک لڑکی۔
‘‘میچ شروع ہو گیا ہے ‘‘ امیت نے کمرے سے آواز لگائی۔ یہ تو جیسے کوئی آسمانی ندا تھی کہ سب اپنی پلیٹیں اور گلاس اٹھا کے ٹی وی کی طرف چل دئے۔ اب بھارت کی ٹیم بیٹنگ کے لئے میدان میں اتری تھی۔ میچ شروع ہوتے ہیں پاکستانی باؤلر نے ہندوستانی اوپنر کو آؤٹ کر دیا۔
‘‘وہ مارا، ‘‘ عارف خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ اپنے جذبات چھپائے رکھے گا مگر بے ساختہ ردِ عمل چھپا نہ سکا۔ ‘‘باطل سے ڈرنے والے اے آسماں نہیں ہم‘‘ ۔
‘‘یار یہ تو کھیل ہے، اسے کھیل ہی رہنے دو، تم تو اور خطرناک ہو گئے، شعر وغیرہ پڑھنے لگے ‘‘ شنکر مسلسل میزبانی کا فرض ادا کر کے ماحول کو ہلکا پھلکا رکھنا چاہ رہا تھا۔
‘‘ بھئی اور کہیں تو جیت سکتے نہیں کرکٹ میں جیتنے پر ہی خوش ہو لینے دو‘‘ جیتندر کی بات پر تینوں پاکستانی جیسے بلبلا گئے۔ اب بات دوستانہ جملے بازی سے آگے نکل گئی تھی۔ باقی میچ یا تو خاموشی رہی یا موسم، سیاست اور معیشت پر بات ہوتی رہی۔ ظاہر تھا کہ سب کرکٹ دیکھ رہے ہیں مگر اس پر بات کرنے کا کسی میں حوصلہ نہیں۔ اس دن یہ میچ بھارت ہار گیا، ساتھ ہی ان دوستوں میں بھی ایک بظاہر دوستانہ میچ ختم ہوا۔
‘‘چلیں جیتندر میچ ختم ہو گیا، کون جیتا؟‘‘اس کی بیوی کمرے میں داخل ہوئی
کوئی پاکستانی منہ سے نہ بولا، گویا کہہ رہے ہوں کہ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا۔ جب بھارتی دوست بھی خاموش رہے تو شنکر کو پھر میزبانی کا فرض انجام دینا پڑا۔
‘‘آج تو پاکستان جیتا ہے بھئی‘‘
‘‘چلو چھٹی ہوئی، اب گھر جا کر بھی جیتندر کا منہ پھولا رہے گا‘‘ اس کی بیوی کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ جیتندر کی آنکھوں میں غصہ دیکھا تو اچانک پلٹ گئی ‘‘چلیں میں بچوں کو اٹھاتی ہوں ‘‘ ۔
‘‘بھئی آپ لوگ تو کھیل بھی ڈھنگ سے نہیں دیکھتے۔ کھیل میں اور مسئلہ کشمیر میں بہت فرق ہے لیکن آپ لوگوں کا ردِ عمل دونوں کے لئے ایک ہی ہے ‘‘ ۔
‘‘بھئی مجھے تو مت لے جایا کرو ان ہندوستانیوں کے گھر، ان سے اپنی شکست بر داشت نہیں ہوتی۔ کیسی متعصب قوم ہے، دیکھا کیسے منہ لٹک گئے تھے ‘‘ عارف نے گاڑی میں بیٹھتے ہی کہا۔ بیٹا شان اب کوئی ایک سال سے گاڑی چلا رہا تھا مگر شوق کا یہ عالم کہ مجال ہے جو اس کی موجودگی میں کوئی اور گاڑی چلا لے۔
‘‘کیوں کیا ہوا ابو ؟‘‘
‘‘ارے بیٹا ہونا کیا ہے ؟ ظاہر ہے جیتنا تو پاکستان کو ہی تھا، جیتندر صاحب کو پتنگے لگ گئے۔ ارے بس وہ ہی کیا سب ہی ہندوستانیوں کے منہ لٹک گئے تھے، ہار برداشت ہی نہیں ہوتی ان سے ‘‘ عارف کے لہجے میں تضحیک تھی۔
‘‘ابو اگر آپ انڈیا جیت جاتا تو آپ لوگوں کا بھی یہی حال ہوتا۔ یاد ہے جب ورلڈ کپ میں انڈیا نے ہرا دیا تھا تو آپ کتنے دن ناراض رہے تھے ‘‘ ۔
‘‘یار میں تو سمجھ رہا تھا کہ کم از کم تم تو ہماری طرف ہو‘‘ جیت کی خوشی میں عارف کا موڈ اتنا اچھا تھا کہ اسے شان کی بات بھی بری نہیں لگی۔
گھر پہنچے تو بچے اپنے اپنے کمروں میں بند ہو گئے۔ بچے جب تک گھر میں رہتے ان کے کمروں کے دروازے بند رہتے۔ عارف کو یہ بات بہت کھلتی تھی، مگر بچے عمر کے اس حصے میں تھے کہ زیادہ کچھ کہہ نہیں پاتا۔ پھر جب دوستوں سے ذکر نکلا تو معلوم ہوا کہ گھر گھر یہی کہانی ہے۔
‘‘بھئی بیگم چائے تو بناؤ‘‘ عارف کا موڈ جیت کے نشے میں سر شار تھا۔
‘‘چائے تو بناتی ہوں مگر آپ سے کچھ بات کرنی تھی‘‘
‘‘ایسی کیا بات ہو گئی۔ کیا احمد کی بیوی کسی نئی بوتیک کا پتہ دے گئی‘‘
‘‘نہیں بھئی‘‘ عارف کی بیوی کی آواز دھیمی ہو گئی۔ ‘‘وہ جیتندر کی بیٹی ہے ناں، شوبھا‘‘
‘‘ہاں بھئی بہت اچھی لڑکی ہے۔ پڑھائی میں اچھی اور تمیز دار۔ شکر ہے ماں باپ پر نہیں گئی‘‘ عارف ہنس کر بولے
‘‘یہ ہمارے شان صاحب شوبھا میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہے ہیں ‘‘
‘‘کیا‘‘ عارف اس اطلاع کے لئے بالکل تیار نہیں تھا، اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کس قسم کے ردِ عمل کا مظاہرہ کرے۔
‘‘کیا مطلب ہے، تمھیں ضرور غلط فہمی ہوئی ہو گی، ابھی تو بچہ ہے۔ کتنا، کوئی بیس سال کا ہے ناں ؟ اس عمر میں مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ لڑکی کہتے کسے ہیں ‘‘ وہ ہنس کر بولا
‘‘عارف یہ سنجیدہ بات ہے، کچی عمر ہے کوئی حماقت ہی نہ کر بیٹھے ‘‘
‘‘ارے کیا مطلب ہے اس بات کا‘‘ عارف ہتھے سے اکھڑ گیا۔ ‘‘وہ ہندو کی اولاد، دماغ ٹھیک ہے شان کا، جان سے مار دوں گا۔ میں نے دوستوں کی طرح رکھا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ‘‘ ۔
‘‘شان، شان‘‘ عارف نے غصے سے آواز دی
‘‘عارف آرام سے۔ اس عمر میں خود بخود بغاوت کو جی چاہ رہا ہوتا ہے، بہت آرام سے سمجھائیے گا‘‘
خدا معلوم، عارف نے بیوی کی بات سنی بھی یا نہیں۔ اس نے شان کے کمرے کا بند دروازہ کھولا، تو شان اوندھے منھ بستر پر لیٹا تھا، کانوں پںر ہیڈ فون چڑھے تھے، اور کمپیوٹر پر کوئی فلم چل رہی تھی۔ عارف نے ہاتھ بڑھا کر ہیڈ فون عارف کی کانوں سے نیچے اتار دئیے ،ت شان کو عارف کی موجودگی کا پتہ چلا۔
‘‘شان یہ میں کیا سن رہا ہوں ‘‘
‘‘ابو آپ کو کھٹکھٹا کر اندر آنا چاہئیے ‘‘
‘‘بکو مت، یہ بتاؤ کہ امی کیا کہہ رہی تھیں ‘‘
‘‘ابو آپ ہی نے کہا تھا ناں ایک بار کہ کمرے میں کھٹکھٹا کر داخل ہونا چاہئیے، چاہے وہ ماں باپ کا کمرہ ہی کیوں نہ ہو‘‘ عارف کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کے ذہن میں برسوں پرانا وہ منظر گھوم گیا جب شان عین اس وقت بغیر کھٹکھٹائے کمرے میں داخل ہوا تھا جب عارف بیوی سے بے تکلف ہو رہا تھا۔
‘‘باہر آؤ ذرا باورچی خانے میں ‘‘ عارف یہ کہہ کر پلٹ گیا۔ باورچی خانہ اس گھر کا مرکز تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں گھر کے سب معاملات طے ہوتے تھے۔
‘‘شان یہ کیا معاملہ ہے ‘‘ عارف نے بیوی کی معیت میں پہنچ کر اپنا سوال دہرایا۔ ‘‘یہ شوبھا کا کیا سلسلہ ہے ‘‘ ؟
‘‘کوئی سلسلہ نہیں ابو، میں سمجھا نہیں آپ کی بات‘‘ شان نے شکوہ بھری نگاہوں سے ماں کو دیکھا۔
‘‘سنا ہے تم شوبھا میں بہت دلچسپی لے رہے ہو‘‘
‘‘آپ کو نہیں پسند، آپ ہی تو کہتے ہیں بہت اچھی لڑکی ہے ‘‘
‘‘ہاں اچھی لڑکی ہو گی مگر ہندو ہے، اور تم ابھی زمین سے بھی نہیں نکلے ہو، بیس برس بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ یہ کالج میں تمھارا تیسرا سال ہے، تم لڑکیوں کے چکر میں پڑ گئے۔ کوئی پاکستانی لڑکی دیکھو یار‘‘ عارف نے مزاحیہ انداز میں شان کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
‘‘ابو میں کون سا ابھی شادی کرنے جا رہا ہوں۔ امی نے اس دن پوچھا تھا کہ کوئی لڑکی پسند ہے تو میں نے بتا دیا تھا؟‘‘
‘‘کیا بتا دیا۔ دماغ خراب ہو گیا ہے۔ آج کے بعد اس سے ملنے کی کوشش نھی نہیں کرنا‘‘
‘‘ابو آپ کے دوست کی بیٹی ہے پھر آپ خود کہتے ہیں کہ اچھی لڑکی ہے ہندو ہے تو کیا ہوا، ہم سب کون سے بہت مسلمان ہیں مجھے تو نہیں یاد یہاں کس نے آخری بار نماز پڑھی تھی‘‘ شان یہ کہہ کر کمرے کی طرف لوٹ گیا۔
‘‘شان، شان‘‘ عارف غصے میں چیخنے لگا، بیٹے کے پیچھے جانا چاہتا تھا کہ بیوی نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ملتجی نظروں سے روک لیا۔
‘‘عارف بہت احتیاط سے اور سوچ کر اس معاملے کو سلجھانا ہو گا، ورنہ بات بگڑ جائے گی۔ ابھی وہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں والدین دشمن لگتے ہیں، جس بات سے منع کرو وہ اور زیادہ پر کشش لگتی ہے ‘‘ ۔
‘‘کب سے چل رہا ہے یہ سلسلہ‘‘ ؟
‘‘میرے خیال میں کوئی ایک سال سے ‘‘
‘‘ایک سال سے اور تم مجھے اب بتا رہی ہو‘‘
‘‘بھئی میرا خیال تھا یہ تجربوں کا دور ہے خود ہی ختم ہو جائے گا۔ مگر آج احمد صاحب کی بیوی بھی مجھ سے کہنے لگیں کہ شان پر نظر رکھو۔ غالباً کالج میں اور اس کے بعد بھی یہ دونوں سارا وقت ساتھ ہی گزارتے ہیں۔ پچھلے اتوار بھی جب یہ لائبریری گیا تھا تو اصل میں یہ دونوں ڈیٹ پر گئے ہوئے تھے ‘‘ ۔
‘‘تو اب تم ہی کوئی حل نکالو‘‘
‘‘نہیں بھئی میں بات کر کے دیکھ چکی ہوں، اب آپ ہی کسی مناسب وقت دوبارہ یہ ذکر نکالئے گا‘‘ ۔
‘‘سنئے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ‘‘ جیتندر کی بیوی نے بستر پر شوہر کی جانب کروٹ لی
‘‘یہی ناں کہ آج میں بہت سندر لگ رہا تھا اور تم سے برداشت نہیں ہو رہا‘‘
‘‘وہ تو خیر ہے ہی، مگر بات یہ ہے کہ میں خود شوبھا سے بات کر چکی ہوں مگر میری بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ عارف بھائی کا بیٹا ہے ناں شان‘‘ ؟
‘‘بھئی آج تو وہ عارف بہت کمینگی دکھا رہا تھا۔ کمبخت ایک کرکٹ میچ کیا جیت گئے، کیسے چھچورے ہوتے ہیں یہ پاکستانی، کشمیر لے کر دکھائیں ‘‘
‘‘جیتندر‘‘ بیوی کے لہجے میں برہمی تھی ‘‘بہت سنجیدہ بات ہے، آپ کی کرکٹ گئی بھاڑ میں، میرے خیال میں شوبھا شان میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہی ہے ‘‘
‘‘کیا‘‘ جیتندر بستر میں اٹھ کر بیٹھ گیا ‘‘تمھارا دماغ خراب ہو گیا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے ‘‘
‘‘جیتندر، میں نے کئی دفعہ شوبھا سے بات کی ہے۔ آج امیت کی بیوی بھی کہہ رہی تھی کہ اپنی بیٹی کو سنبھالو‘‘
‘‘بھگوان، بات یہاں تک پہنچ گئی اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں ‘‘
‘‘شوبھا، شوبھا‘‘ جیتندر آوازیں دیتا بستر سے نکل کر شوبھا کے کمرے کی سمت بڑھ گیا جو حسبِ معمول بند تھا۔ ‘‘جیتندر، جیتندر‘‘ اس کی بیوی آوازیں دیتی اس کے پیچھے دوڑی، شوہر کے غصے سے واقف تھی۔
‘‘شوبھا‘‘ جیتندر کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا
‘‘پتا جی، آپ کو کھٹکھٹا کر اندر داخل ہونا چاہئیے ‘‘ شوبھا نے مسکرا کے باپ کی سمت دیکھا
‘‘بکواس مت کرو، یہ شان کا کیا سلسلہ ہے ‘‘ ؟ عارف اس کے سر پر جا کھڑا ہوا
‘‘مسئلہ کوئی نہیں، مجھے شان سے محبت ہے ‘‘ شوبھا نے بے خوفی سے کہا
‘‘دماغ ٹھیک ہے تیرا، اور دکھاؤ اسے سلمان خان کی فلمیں ‘‘ جیتندر نے شوبھا کی کمر پر ایک دھموکہ جڑ دیا
‘‘ممی، ممی یہ آدمی مجھے مار رہا ہے ‘‘ شوبھا کمرے سے بھاگی
‘‘یہ آدمی، یہ آدمی، یہ آدمی تیرا پتا ہے ‘‘ جیتندر کی آنکھوں میں خون اتر آیا
‘‘میں پولیس کو فون کر رہی ہوں، یہ انڈیا نہیں ہے، یہاں آپ مجھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے ‘‘ شوبھا نے فون اٹھا کر ۱۱۹ ڈائل کرنا شروع کر دیا۔
‘‘بھگوان کے لئے ‘‘ شوبھا کی ماں نے فون اس کے ہاتھ سے لے کر کریڈل پر رکھ دیا اور پچکار کے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا
‘‘جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھاتے شرم نہیں آتی، خبر دار جو میری بیٹی کے نزدیک بھی آئے۔ اس طرح معاملات حل ہوتے ہیں، جاؤ شوبھا اپنے کمرے میں جاؤ، صبح بات کریں گے ‘‘ بیوی جیتندر کو کھینچ کر کمرے میں لے آئی۔
‘‘شکر ہے بھگوان کا کہ میں وقت پر پہنچ گئی۔ ورنہ آپ شوبھا کو جانتے ہیں، وہ پولیس کو فون کر چکی ہوتی‘‘
کرنے دو فون، آ جائیں کمینے۔ اس ذلت سے تو حوالات ہی بہتر ہے ‘‘ جیتندر کے لہجے میں بے بسی تھی۔ ‘‘وہ مسلا کمبخت، سنپولیا، کیسا آگے پیچھے پھرتا تھا، انکل یہ کر دوں، انکل وہ کر دوں۔ اب نظر آئے مجھے، بھرتہ نہ بنا دوں اس کا‘‘
‘‘آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے ‘‘ بیوی نے جیتندر کو ڈانٹا ‘‘آپ رہنے ہی دیں، میں خود ہی سنبھال لوں گی‘‘ اس کی آواز میں طنز تھا ‘‘جوان بیٹی پر ہاتھ اٹھا لیا، وہ تو میری تربیت ہے کہ اس نے جان بوجھ کر صرف فون اٹھایا، ملایا نہیں، ورنہ ابھی یہاں وردی والے بیٹھے ہوتے ‘‘
‘‘تو کیا کروں ‘‘ جیتندر تقریباً رو دیا
‘‘ایسے طے کرتے ہیں معاملے کو‘‘ بیوی نے جیتندر کو روہانسا دیکھا تو بڑھ کر گلے لگا لیا ‘‘مل کر کوئی طریقہ سوچنا پڑے گا‘‘
‘‘شان کل ہمارے گھر بہت ہنگامہ ہوا‘‘ شوبھا نے شان کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ شان نے اسے خود سے تقریباً چپکا لیا اور اس کے ہونٹ چوم لئے۔ دونوں لنچ کے وقفے میں کالج کے برآمدے میں نیم دراز تھے۔ لڑکے، لڑکیوں کے غول ادھر ادھر جمع تھے۔ کچھ کھا رہے تھے، کچھ ایسے ہی بیٹھے تھے، بائیں جانب ایک لڑکی ایک لڑکے کی گود میں سر دئیے لیٹی تھی۔ شان اور شوبھا کی بے تکلفی کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، یہ ایک عام سا منظر تھا۔
‘‘ارے واقعی، ہمارے گھر میں بھی عارف صاحب بہت چیخ رہے تھے ‘‘ شان جب باپ سے ناراض ہوتا تو ان کے نام سے پکارنے لگتا ‘‘یہ شوبھا کا کیا چکر ہے ‘‘ شان نے باپ کی نقل اتاری
‘‘پھر کیا چکر بتایا تم نے ‘‘ شوبھا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں
‘‘ میں نے کہا اسے نماز سکھا رہا ہوں ‘‘ دونوں ہنس پڑے۔ شوبھا نے شان کے کان کی لوؤں کو چبانا شروع کر دیا۔
‘‘میرے پتا جی بھی آپے سے باہر ہو رہے تھے، تمھارے متعلق ہی پوچھ رہے تھے ‘‘ شوبھا نے اپنے گھر کا ہنگامہ اس اطمینان سے بیان کیا جیسے کوئی مسئلہ ہی نہ رہا ہو۔ ‘‘یہ دونوں کو ایک ساتھ کیسے خبر ہو گئی‘‘ شوبھا نے تعجب سے سوال کیا۔
‘‘ بھئی یہ جو کرکٹ کے لئے جمع ہوتے ہیں تو بس یہی gossip ہو رہی ہوتی ہے، ان FOBs کا یہی مسئلہ ہے ‘‘کرکٹ کی جان نہیں چھوڑتے، جہاں ملتے اپنے بچوں کی شادی کا رونا روتے رہتے ہیں، سمجھتے ہی نہیں کہ ہمارے لئے یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے جیسا ان کے لئے تھا‘‘ شان نے پھر سختی سے اسے خود سے لپٹا لیا ‘‘اب کریں کیا‘‘ ۔
‘‘ میں ابھی دو چار سال شادی نہیں کرنا چاہتی، لیکن اگر زیادہ ہنگامہ کریں گے تو شادی کر لیں گے، آہستہ آہستہ خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے۔ تم بھی اٹھارہ سے زیادہ کے ہو اور میں بھی‘‘ شوبھا کا اعتماد اور سکون دیدنی تھا
‘‘گھر سے نکال دئے گئے تو‘‘
‘‘بھئی تمھاری ایسوسی ایٹ کی ڈگری تو ہو ہی چکی ہے، ایک سال بعد گریجویشن ہو جائے گی۔ میری اگلے سال ایسوسی ایٹ کی ڈگری ہو جائے گی، نوکری کریں گے اور پڑھیں گے بھی۔ مسئلہ کیا ہے۔ دعا کرو دونوں اسے اپنی عزت کا مسئلہ نہ بنا لیں ‘‘
‘‘میری سمجھ میں نہیں آیا کہ مسئلہ کیا ہے۔ میرے ابو اور تمھارے پتا دوست ہیں، ویسے دونوں ہم دونوں کو پسند بھی کرتے ہیں پھر مسئلہ کیا ہے ‘‘ شان نے سوال کیا
‘‘وہی مذہب۔ میرا تو مذہب بھرشٹ ہو جائے گاویسے گائے کا گوشت بھی کھائیں گے، پوجا پاٹ کا سوال ہی نہیں۔ بھگوان کے کبھی درشن کئے نہیں ہیں، بس میری شادی سے ان کی حمیت جاگ اٹھی ہے ‘‘
‘‘تم صحیح کہہ رہی ہو، میں نے بھی صبح ناشتے کی میز پر سنا تھا، عارف صاحب امی سے کہہ رہے تھے کہ اب کافر کی بیٹی کو کیسے گھر لاؤں۔ تمھیں پتہ ہے شراب یہ پیتے ہیں، نماز کبھی پڑھتے نہیں۔ لیکن اپنی اولاد کی شادی کے وقت اچانک یہ اچانک وطن اور مذہب کیوں یاد آ گیا، کچھ بھی ہو اب تمھیں کوئی مجھ سے جدا نہیں کر سکتا‘‘ شان نے پھر شوبھا کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئیے۔ شوبھا کو اچانک کوئی خیال آیا تو اس نے گھڑی دیکھی اور ہائے بھگوان کہہ کر شان کو دھکا دیا اور کلاس کی طرف بھاگی۔
جیتندر کمرے میں ٹی وی کے سامنے سر پکڑے بیٹھا تھا۔ بیوی کافی کا مگ لئے کمرے میں داخل ہوئی ‘‘کس سوچ میں ہو‘‘ ؟
‘‘ارے کیا کروں۔ پچھلے جنم میں یقیناً یہ کوئی چڑیل رہی ہو گی۔ کیسا میرے برہمن خاندان کو بٹہ لگا رہی ہے ہماری تو پشتوں میں بھی ایسا نہیں ہوا۔ کسی گورے سے کر لیتی مگر یہ ملچھ مسئلے سے تو نہ کرتی۔ سارے جاننے والے تھو تھو کریں گے۔ اور گھساؤ ان مسئلوں کو گھر، کتنا منع کرتا تھا میں ‘‘ ۔
‘‘ارے واہ جیتندر، یہ بھی خوب کہی، ان کے دوست تو خود بنے پھرتے ہو اور اب الزام مجھے، بھگوان سے پرارتھنا کرو کہ سب ٹھیک ہو جائے ‘‘
‘‘ارے پرارتھنا گئی بھاڑ میں۔ بھگوان ہوتا تو یہ سب ہوتا ہی کیوں۔ نہ جانے کس پاپ کا نتیجہ ہے یہ، کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا، سارے برہمن مجھ پر تھو تھو کریں گے ‘‘
‘‘اب ایسا بھی نہیں ہے جیتندر۔ وہ کشن صاحب کے بیٹے نے نہیں کی مسلمان سے شادی، اور وہ دوشی کی لڑکی۔ کتنی مثالیں دوں۔ شروع میں سب کتنا ناراض تھے، اب سب ملتے ہیں ان سے ‘‘ ۔
‘‘ہاں وجے کے بھائی کی تو فوراً علیحدگی بھی ہو گئی تھی‘‘
‘‘اب علیحدگی کا کیا ہے، یہاں تو یہ مرض عام ہے۔ جیتندر اگر دونوں بچے خوش ہیں تو کیا یہ ممکن ہے ‘‘ بیوی کی آواز میں ایک موہوم سی امید تھی
‘‘پاگل ہو گئی ہو کیا۔ آئندہ ایسا سوچنا بھی نہیں ‘‘ جیتندر نے یہ باب بند کر دیا۔
عارف کو رات بھر نیند نہیں آئی تھی۔ صبح وہ ناشتے کی میز پر شان کا منتظر رہا، شان نے بھی باپ کا سامنا نہ کرنے کا پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ عارف آفس سے جلد ہی گھر آ گیا
‘‘آج جلدی گھر آ گئے، خیریت‘‘ بیوی نے استہفامیہ نظروں سے پوچھا
‘‘ارے خیریت ہی تو نہیں۔ شان نے تو ناک کٹا دی ہے، میرا تو کام میں ذرا دل نہیں لگ رہا تھا۔ عزت دو کوڑی کی ہو جائے گی۔ اب اس سیدوں کے خاندان میں ہندومت کی قلم لگے گی۔ شجرہ نکال کر دیکھ لو، پچھلے چودہ سو سال سے خالص ہے ہمارا خاندان، اب اس سفیدے پر یہ خبیث کالک لگائے گا، سمجھاؤ اسے ‘‘
‘‘سمجھا تو رہی ہوں، کیا کروں، ایک سال سے سمجھا رہی ہوں، اس نے تو جیسے ضد پکڑ لی ہے ‘‘
‘‘بس یہی تمھارا قصور ہے، تم شروع میں ہی مجھے بتا دیتیں تو بات یہاں تک نہ پہنچتی‘‘ ۔ ‘‘میں تو سوچتا ہوں اس جیتندر خبیث کو فون کر کے کھری کھری سناتا ہوں کہ اپنی لڑکی کو قابو کرے، ہمارے خاندان کے نام پر بٹہ لگ جائے گا۔ اس ہندو کی تو قسمت کھل جائے گی، سیدوں میں جائے گی اس کی بیٹی‘‘
‘‘کوئی تدبیر سوچیں۔ شان کو اچھی مسلمان لڑکیوں سے ملاتی ہوں۔ میں نے تو منت مان لی ہے، آپ بھی نماز پڑھ کر دعا مانگیں، جس نے کبھی نماز نہ پڑھی ہواس کی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔ کتنا منع کرتی تھی میں شراب کو، مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ ایسے ماحول میں بچے باپ کی سنتے ہی نہیں۔ بالکل امریکی ہو گئے ہیں ‘‘ عارف کی بیوی بھی جیسے بھری بیٹھی تھی، ایکدم پھٹ پڑی
‘‘لو اس میں بھی میرا ہی قصور نکل آیا‘‘ عارف نے کھسیا کے کہا
‘‘فون کی گھنٹی بجی تو بیگم عارف نے کیتلی کا پلگ نکال کر چائے ادھوری چھوڑ دی اور فون اٹھا لیا
‘‘ہیلو نیلم میں عارفہ بول رہی ہوں، کہاں ہو اتنے دنوں سے، تم نے تو ملنا جلنا ہی چھوڑ دیا‘‘ دوسری طرف سے مسز احمد کی آواز ابھری
‘‘ارے نہیں عارفہ، بس ایسے ہی مصروفیت میں وقت ہی نہیں ملا‘‘
‘‘نیلم پہلے تو ہر دوسرے ہفتے ملاقات ہو جاتی تھی، اب تو کوئی تین ہفتے ہو گئے ہیں، ایسی کیا بات ہو گئی ؟‘‘
‘‘ارے بات کیا ہوتی؟‘‘ نیلم نے انجان بن کر پوچھا
‘‘کچھ نہیں میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی، تم نظر آئیں نہ عارف بھائی، بچے کیسے ہیں ‘‘ ؟
‘‘بچے ٹھیک ہیں، اسکول گئے ہوئے ہیں ‘‘
‘‘نیلم‘‘
‘‘ہاں ‘‘
‘‘نیلم پتہ نہیں یہ بات مجھے کہنی چاہئیے یا نہیں ؟‘‘
‘‘دیکھو عارفہ، یہاں تم ہی میرے سب سے زیادہ قریب ہو، اور کس سے مشورہ کروں، کس کے پاس جاؤں، اب تم بھی ہچکچاؤ گی‘‘
‘‘بھئی شان میرے بیٹے ہی کی طرح ہے، اسی لئے زبان کھولنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے ‘‘
‘‘ہوں ‘‘
‘‘برا نہ ماننا‘‘
‘‘کہو تو، میرے خیال میں مجھے پتہ ہے کہ تم کیا کہنے والی ہو‘‘
‘‘نیلم، شان اور شوبھا کا سلسلہ اب بہت بڑھ گیا ہے، ہر جگہ ساتھ نظر آتے ہیں، ہر وقت ایک دوسرے سے چپکے، جوان عمر ہے خیال رکھنا اور کوئی سلسلہ نہ شروع ہو جائے ‘‘
‘‘کیا کروں عارفہ، وہ کمینے اپنی بیٹی کو ذرا نہیں سمجھاتے، کیسے ڈورے ڈال رہی ہے ‘‘
‘‘تم صحیح کہہ رہی ہو مگر یہ بہت چھوٹی جگہ ہے بات کو پر لگ جائیں گے۔ پہلے سے ہی کچھ سدباب کرو، پھر ہم لوگوں کے بچوں پر بھی بہت منفی اثر پڑے گا‘‘
‘‘عارفہ تم ہی بتاؤ کیا کروں ‘‘ نیلم رو پڑی ’‘ گھر میں ہنگامہ برپا ہے، باپ بیٹے میں بات چیت بند ہے۔ شان بالکل الف ہو گیا ہے، ایک نہیں سن رہا‘‘
‘‘نیلم یہ عمر ہی ایسی ہے، زیادہ جھکاؤ تو ٹوٹ ہی نہ جائے۔ میرے خیال میں تو دونوں خاندان آپس میں مل کر بیٹھو، دیکھو کوئی حل نکل آئے۔ تم چاہو تو میں ایک دن جیتندر اور اس کی بیوی کو بلا لوں، تم لوگ بھی آ جاؤ‘‘
‘‘تم نے احمد بھائی سے پوچھ لیا ہے ‘‘
‘‘یہ ان ہی کا خیال ہے ‘‘
‘‘اور کسی کو مت بلانا، میں عارف سے بات کروں گی‘‘ ۔
‘‘شوبھا آج میرے امی ابو باہر گئے ہوئے ہیں، لنکن ابھی نئی لگی ہے، کپری تھیٹر میں ‘‘
‘‘ واؤ، میرے ماتا، پتا بھی گئے ہوئے ہیں، مگر اس وقت دوپہر میں فلم چل رہی ہے ‘‘
‘‘ہاں کپری میں دوپہر بارہ بجے میٹنی شو ہوتا ہے، میں تمھارا انتظار کرہا ہوں، بس دس منٹ میں پہنچو‘‘ ۔
شان نے شوبھا کو دیکھا تو خوشی سے لپٹا لیا۔ ‘‘یہ رہے ٹکٹ‘‘ اس نے شوبھا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے دھکیلا ‘‘چلو شروع ہونے والی ہے، عارف صاحب احمد انکل کے گئے ہیں دو چار گھنٹے تو وہیں رہیں گے ‘‘
شوبھا چلتے چلتے رک گئی ‘‘عجیب بات ہے، ماتا پتا بھی وہیں گئے ہیں ‘‘
‘‘اللہ خیر کرے۔ لگتا ہے احمد صاحب دونوں کو ملوا رہے ہیں۔ انہیں عارف صاحب کے غصے کا اندازہ نہیں ‘‘
‘‘پتا جی تو کہتے ہیں اس مسلے کو دیکھا تو جان سے مار دوں گا‘‘ پھر ہنس کر بولی ‘‘تمھیں تو وہ سنپولیا کہتے ہیں ‘‘
شان کے فون کی گھنٹی بجی تو اس کی ماں کی ہسٹیریا بھری آواز آئی ‘‘شان۔ پولیس تمھارے ابو اور جیتندر صاحب کو لے گئی ہے، دونوں لڑ پڑے تھے، ڈر تھا خون ہی نہ ہو جائے، بیٹا جلدی گھر آؤ، ان کی ضمانت کر کے چھڑانا ہے ‘‘
شان نے شوبھا کا ہاتھ پکڑا اور کار کی طرف بڑھ گیا۔
‘‘شان دو گھنٹے لگا دئے بیٹا‘‘ نیلم نے شان اور شوبھا کے ہاتھ میں ڈالے ہاتھ کو نظر انداز کر دیا۔
‘‘امی سول کورٹ میں دیر ہو گئی، جج نے شادی کرنے میں اتنی دیر لگا دی‘‘
‘‘آنٹی اب وہ دونوں نہیں لڑیں گے، اب لڑنے سے کوئی فائدہ جو نہ ہو گا، چلئے ضمانت کرا کے گھر لے چلتے ہیں ‘‘ ۔ شوبھا نے شان کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔
٭٭٭