‘‘چال چلئے بھگوان داس جی، کس سوچ میں پڑ گئے آپ‘‘ ؟
‘‘ہاں میاں آپ کہہ سکتے ہیں یہ بات، داؤں جو چل گیا ہے۔ ذرا بھاری پڑ گیا ہے اس دفعہ آپ کا ہاتھ۔ گھوڑا بچاتا ہوں تو رخ جاتا ہے، اور دونوں بچا لوں تو چند چالوں کے بعد مات کا اندیشہ ہے۔ ایسے میں آپ ہی بتائیں کروں تو کیا کروں ‘‘ ؟ بھگوان داس نے مسکرا کے پوچھا۔
‘‘بھئی اپنا اپنا نکتۂ نظر، اپنا اپنا کھیل‘‘ قاضی صاحب نے محتاط انداز سے جواب دیا۔
‘‘کھیل تو در اصل ایک ہی ہے قاضی صاحب، میری جگہ آپ بھی پیادہ ہی مروا دیتے ‘‘ بھگوان داس نے پیادہ آگے سرکا دیا۔
‘‘بھگوان داس، پیادہ ملے یا وزیر، چن چن کر مارے جاؤ‘‘ قاضی صاحب نے اب نسبتاً خوشگوار موڈ میں جواب دیا اور بساط پر سے سیاہ پیادہ ہٹا کر چارپائی پر رکھ دیا اور اس خانے میں اپنا سفید پیادہ آگے بڑھا دیا۔
‘‘ بھولوں گا نہیں ‘‘ بھگوان داس کے لہجے میں غراہٹ تھی ‘‘بس سمے کا انتظار کرو‘‘ ۔
رام دیال کی بائیں آنکھ آج صبح سے ہی پھڑک رہی تھی۔ کاروبار میں نفع نقصان تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ رام دیال نے بڑے سے بڑا نقصان مسکرا کر برداشت کیا تھا۔ کاروباری اونچ نیچ تو جیسے اس کی فطرت کا ایک جز تھا۔ پھر یہ آج صبح سے یہ بائیں آنکھ کیوں پھڑک رہی تھی؟دو برس پہلے اسٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی تو رام دیال ایک گھنٹے میں چار کروڑ ہار گئے، بائیں آنکھ تب بھی نہ پھڑکی تھی۔ پھر جب بیگم رام دیال بنا بتائے تھائی لینڈ میں ہوٹل کے اس کمرے میں آ دھمکی تھیں، تو محض اپنی حاضر دماغی سے ہی رام دیال نے اپنی ازدواجی زندگی بچا لی تھی، جس پر وہ اب بھی فخر کرتا تھا۔ مجال ہے کہ بائیں آنکھ کی رفتار میں ذرا سا فرق پڑا ہو۔ مگر یہ کمبخت آج صبح سے ایسے چل رہی تھی جیسے پچھلی کئی بار کا حساب بھی چکانا ہو۔ لیکن محض ایک آنکھ کے پھڑکنے سے وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ بستر پر لیٹے رہنے سے تو رہے۔ انہوں نے ایک آہ بھر کے قمیض کا سب سے اوپر والا بٹن لگایا اور ٹائی کا پھندا گردن کے گرد تنگ کر لیا۔ صوفے کی پشت سے سوٹ کی جیکٹ اٹھائی اور مرسڈیز کی چابی انگلی کے گرد گھماتے باہر دالان میں آ گئے۔ گاڑی میں بیٹھے تو سدھے ہوئے دربان نے میکانکی انداز میں لپک کر پھاٹک کھول دیا۔ رام دیال نے سر کے جھٹکے سے گویا بائیں آنکھ کی خود سری فراموش کرنے کی کوشش کی، عقبی شیشے میں راستہ صاف دیکھ کر گاڑی ریورس میں باہر نکالی۔ گیٹ کا دروازہ باہر سڑک کی سمت یوں کھلتا تھا کہ اس سے آنے والی موت نظر سے اوجھل رہی۔ گاڑی گیٹ سے کیا نکلی، تیز رفتار ٹرک جو سر پر آپہنچا تھا اپنی رفتار کم نہ کر سکا۔ کہتے ہیں کہ رام دیال کی موت تو ٹرک کی ٹکر سے پہلے ہی واقع ہو گئی تھی۔ ان کی چتا کو آگ لگا کر لوگ یہی بات کر رہے تھے کہ رام دیال کیسے آرام سے نکل گئے، بنا کوئی کشٹ اٹھائے۔ ابھی تھے، اب ایک سیکنڈ بعد نہیں ہیں۔ کروڑوں کا نفع نقصان اسی بائیں آنکھ کی ایک پھڑکن میں قصہ پارینہ ہو چکا تھا۔
‘‘کہئے قاضی صاحب کس سوچ میں ہیں، وہ کہتے ہیں ناں کہ ہاتھوں کے ہد ہد اڑ گئے، چال چلتے نہیں بن رہی۔ ‘‘ بھگوان داس کے لہجے میں طنز نمایاں تھا۔
‘‘ہاتھوں کے ہد ہد نہیں، ہاتھوں کے طوطے اڑنا محاورہ ہے ‘‘
‘‘آپ کے یہاں ہو گا۔ اب کیا ہمارے محاورے اور پرندے بھی ایک جیسے ہوں گے۔ نہیں صاحب ہمیں معاف ہی رکھیں۔ برتن بھانڈے، لباس، زبان چھوت چھات، ناپاکی جب اتنی علیحدگیاں ہیں تو ہم پرندے بھی الگ رکھیں گے۔ طوطا آپ کے ہاتھوں سے اڑا ہو تو ویسے بھی ناپاک ہو گیا، ہمارے کس کام کا۔ ہم ہد ہد سے گزارا کر لیں گے۔ چال چلئے قاضی جی‘‘
‘‘کیا چلیں، اس وقت تو گھر گئے ہیں۔ کیا فیل دے کر وزیر لے لیں۔ کچھ بھی ہو ہم آپ سے ڈر کر تو نہیں کھیل سکتے۔ شجاعت ہمارا ورثہ ہے میاں ‘‘ قاضی صاحب کے لہجے میں وہی فخر تھا جو کتنی ہی بار ڈبو چکا تھا
‘‘ہاں ہاں ضرور ہو گا۔ دکھاؤ شجاعت، ہم تو کب سے منتظر ہیں۔ فیل دے کر وزیر لے لو۔ ہمارا معاملہ تو بادشاہ سے ہے ‘‘ بھگوان داس نے چارپائی پر پہلو بدلا۔ بان ان کے تہہ بند میں ایسا گڑا ہوا تھا کہ کولہوں پر سرخ دھاریاں بند گئی تھیں، مگر شہ مات کی امید میں پہلو بھی نہیں بدل رہے تھے کہ قاضی صاحب کوئی غیر پارلیمانی ہاتھ نہ دکھا جائیں۔ نظریں شطرنج پر جمائے ہاتھ بڑھا کر حقے کی نے اپنی سمت کر لی۔ اور گڑ گڑا کر دھواں قاضی صاحب کی سمت چھوڑ دیا۔
‘‘لاحول ولا قوۃ‘‘ ہارنے والا تو ہتھے سے اکھڑنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہے۔ ‘‘ہٹاؤ جی ہم نہیں کھیل رہے۔ تم جان بوجھ کر یہ دھواں چھوڑتے ہو کہ ہمیں بساط صاف نظر نہ آئے ‘‘ قاضی صاحب کو موقع غنیمت معلوم ہوا کہ کھیل قبل از وقت ہی ختم کر دیں، بھگوان داس کا پلہ بھاری معلوم ہو رہا تھا۔
‘‘ارے نہیں قاضی صاحب، قربان جاؤں آپ کے بھولپن کے ‘‘ بھگوان داس نے دونوں ہاتھوں کا پنکھا بنا کر دھواں ہٹا دیا ‘‘ہمیں شما کیجئیے، اور ایسی مکاری نہ دکھائیے صاحب، ہار رہے ہیں تو کھیل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وہ شجاعت کا معاملہ کیا ہوا‘‘ بھگوان داس کو معلوم تھا کون سے بٹن دبانے ہیں۔
‘‘ارے ہاریں ہمارے دشمن، ہم میدان سے بھاگنے والوں میں سے نہیں ‘‘ قاضی صاحب تکئے سے ٹیک لگا کر چال سوچنے لگے۔
بھگوان داس اپنی چال پر مطمئن و مسرور تھا، وہ قاضی کو پورا وقت دینا چاہتا تھا کہ کوئی بہانہ نہ بنے۔ اس نے حقے کا اگلا کش لے کر دھواں مخالف سمت میں اڑا دیا۔
‘‘میاں آخر وہی کرنا پڑے گا جو ایسے وقتوں میں کرنا چاہئیے ‘‘ قاضی صاحب کی سمجھ میں چال آ گئی تو اٹھ کر بیٹھ گئے
‘‘یعنی‘‘ ؟
‘‘یعنی کیا، تمھارا ہی بتایا ہوا نسخہ ہے، پیادہ قربان کر دو‘‘ قاضی صاحب نے سفید پیادہ آگے کر دیا۔
بھگوان داس نے ذرا منہ بنا کر اپنا پیادہ اٹھایا اور ایک جھٹکے سے سفید پیادہ بساط سے ہٹا دیا، ساتھ ہی منہ سے چچ چچ کی بناوٹی آواز نکالی جیسے بہت افسردہ ہو۔ ‘‘سب پیادے ہٹا کر ہی تو بادشاہ تک پہنچوں گا، لو ایک اور کم ہو گیا، خود ہی اپنا درد طویل کر رہے ہو۔ پیادوں کی قربانی سے بادشاہ کچھ دیر مزید بساط پر رہ سکتا ہے ‘‘ بھگوان داس نے کاندھے اچکائے۔
فصیح الدین نے سینہ دونوں ہاتھوں سے جکڑ لیا، جیسے درد کو اس میں سے نوچ پھینکے گا۔ ماتھے پر پسینے کی بوندیں امڈی آ رہی تھیں، اب سانس بھی بھاری چل رہی تھی۔ انہوں نے چاہا کہ چیخ کر بیوی کو آواز دیں مگر آواز جیسے جسم کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو گئی تھی۔ صبح سو کر اٹھے تو ٹھیک تھے۔ ناشتہ کرتے وقت ہلکا سا سینے پر وزن محسوس ہوا، وہم جان کر نظر انداز کر گئے۔ اب تیار ہونے کے لئے سیڑھیاں چڑھ کے اوپر کمرے میں آئے تو درد پوری شدت سے حملہ آور ہوا۔ اب سانسیں تیز چل رہی تھیں، دل کی دھڑکن بے ترتیب تھی، درد اتنا شدید تھا کہ دل چاہتا تھا موت آ جائے۔ جانے کیسی قبولیت کا وقت تھا کہ یہی خواہش بہانہ بن گئی۔ سینے کو تھامے پشت کے بل گرے اور قلب و نفس نے ساتھ چھوڑ دیا۔ ان کے عقیدے کے مطابق اگلی نماز کی ساتھ ان کی بھی نماز پڑھ دی گئی۔ نہ کسی کو دکھ دیا نہ کسی پر بوجھ بنے کیسے آرام سے جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے۔ جنازے میں شریک لوگ فصیح الدین کی اچانک موت کی یوں تعریف کر رہے تھے جیسے اچانک موت زندگی سے بہتر ہو!
دونوں کھلاڑی بساط پر نظریں جمائے اگلی چال کی سوچ میں غرق تھے۔ ایک آنکھ بساط پر اور دوسری مخالف پر۔ بھروسے کا فقدان تھا۔ دونوں واقف تھے کہ ذرا آنکھ جھپکی اور مخالف یہ کھیل جیتنے کے لئے ہر حربہ استعمال کرے گا۔ بان کی چارپائی پر آسمانی بڑے خانوں کی چادر بچھی تھی۔ دونوں کی پشت سے گاؤ تکئے لگے تھے۔ جب دیکھو دونوں بساط بچھائے ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں۔ حقہ تازہ حاضر رہتا، دونوں ایک ہی نے سے کش لیتے، ویسے بہت چھوت چھات کا خیال رہتا مگر اس عیاشی میں کوئی عار نہیں تھا۔ بھگوان داس نے کتنی بار درخواست کی کہ قاضی صاحب بان کی چارپائی لے لیجئے یہ بہت گڑتی ہے۔ مگر انہیں کیا معلوم تھا اسی وجہ سے قاضی صاحب چارپائی نہیں بدل رہے تھے۔ اگر ذرا شبہ ہو جاتا کہ بھگوان کو بان کی چارپائی پر آرام آ رہا ہے تو کب کی بدل گئی ہوتی۔
‘‘بھگوان کس سوچ میں پڑ گئے، کوئی منتر الاپ رہے ہو، اپنے بھگوانوں کو آواز دو، رکھشا کے لئے آئیں۔ اتنے سارے ہیں کوئی تو سن ہی لے گا۔ لگتا ہے اب تمھیں کوئی چال نہیں سوجھ رہی‘‘ قاضی صاحب نے فقرہ کسا۔
‘‘میرے بہت سارے ہوں، مگر لگتا ہے تمھارا اکلوتا بھی کہیں اور مصروف ہے کہ تمھاری نہیں سن رہا‘‘ ۔
‘‘بھئی اب بات پیادوں سے بڑھ گئی ہے، زیادہ تر تو مارے جا چکے ہیں، اب تو کابینہ کی باری ہے تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ پیادے کا خون اور ہے کابینہ کا اور۔ اب ہر چال سوچ سمجھ کے چلنی پڑے گی کہ کوئی بھی چال شہ مات کی طرف لے جا سکتی ہے۔ سوچنے کا وقت دو۔ کھیل کا اختتام سامنے ہو تو فرشتہ بھی جانور بن جاتا ہے، میں تو محض بھگوان ہوں۔ یہ فیل اگر آگے بڑھاؤں تو یہاں رخ کے ساتھ قلعہ بندی ہو سکتی ہے۔ تمھارا وزیر تو ویسے بھی گھرا ہوا ہے، بچ نہیں سکے گا‘‘ ۔ بھگوان داس کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ بلند آواز سے اپنی چالوں کو بیان کر رہے تھے، گویا قاضی کو اس کی بے بسی کا احساس دلا کر چڑا رہے ہوں۔ بھگوان داس نے حقے کی نے کا رخ اپنی سمت کیا اور فتح کے نشے میں اتنا گہرا کش لیا کہ کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ قاضی صاحب نے بھگوان داس کو غیر متوجہ پایا تو ہاتھ کی صفائی دکھائی اور سیاہ رخ بساط سے ہٹا دیا، پھر حقے کی نے اپنی سمت کر کے خود بھی ایک گہرا کش لیا۔ یہ قاضی کا سکون ہی تھا جس نے بھگوان کو بے آرام کیا، وہ مشکوک ہو کر سیدھا بیٹھ گیا اور بساط کو غور سے دیکھنے لگا۔ قاضی بظاہر حقے کی چلم سے الجھا ہوا تھا۔
‘‘قاضی صاحب یہ کیا بے ایمانی ہے، میرا رخ غائب کر دیا‘‘ ؟
‘‘ہم پر بے ایمانی کا الزام لگا رہے ہو۔ خود ایک مکار اور بد ذات ہو‘‘ ۔ قاضی صاحب نے چمک کر جواب دیا۔ ان کے جھوٹ میں ایسا غصہ اور یقین تھا کہ ایک لمحے کو بھگوان داس بھی گڑبڑا گیا۔ پھر بساط کو غور سے دیکھا تو معاملہ صاف سمجھ میں آ گیا۔ اپنا رخ چارپائی سے اٹھا کر بساط پر اس کے خانے میں رکھا، ‘‘یہ، یہاں تھا میرا رخ، بے ایمان شرم نہیں آتی‘‘ ۔
قاضی صاحب بھی آپے سے باہر ہو گئے۔ لگتا تھا دونوں گتھم گتھا ہو جائیں گے کہ فادر جوزف نے کرسی سے اٹھ کر ان کے کندھوں پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا۔
‘‘بھئی بیٹھ کر کھیلو، یہ کیا بد تمیزی ہے ‘‘ فادر جوزف اس گاؤں کے پادری تھے۔ اکثر اس شطرنج کے کھیل میں بارھویں کھلاڑی، ریفری یا ناظر۔ ان کی کرسی چارپائی کے قریب ہی لگی رہتی۔ کبھی کھیل سکون سے ختم ہو جاتا تو تینوں ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے، مذہب اور سیاست پر بحث کرتے، خوب محفل جمتی۔ لیکن اکثر یہ کھیل کسی ایک فریق کی بے ایمانی کے سبب جھگڑے پر ہی ختم ہوتا۔ اس میں فادر جوزف کی ثالثی شامل نہ ہوتی تو شاید ایک دوسرے کو ختم ہی کر دیتا۔ لیکن فادر ایسا ہو جانے دیتے تو کھیل ہی ختم ہو جاتا، ان کی تفریح خاک میں مل جاتی۔ دونوں کھلاڑیوں کو شبہ تھا کہ فادر جوزف خود شطرنج کے ایک ماہر کھلاڑی ہیں، لیکن وہ خود کبھی شامل نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اکثر وہ آنکھ بچا کر قاضی کو اشارے سے چال بتاتے تھے تو قاضی کو یقین تھا کہ وہ بھگوان داس کو بھی چال بتاتے ہوں گے۔
‘‘آپ سن نہیں رہے، یہ ہم پر بے ایمانی کی تہمت رکھ رہا ہے ‘‘ قاضی صاحب نے ڈھٹائی سے کہا۔
‘‘فادر آپ ہی بتائیں یہ قاضی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ مجھے اس حقے سے کھانسی کا دورہ پڑا تو اس نے آنکھ بچا کر میرا رخ ہی غائب کر دیا‘‘ بھگوان نے دہائی دی۔
‘‘بھئی میں دیکھ رہا تھا۔ در اصل قاضی صاحب کی آستین سے یہ رخ ہٹ گیا تھا، خود قاضی صاحب کو شاید پتہ نہیں چلا ہو کہ ان سے یہ بے ایمانی سرزد ہو گئی ہے، انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ رخ واپس اس کی جگہ پر رکھ کر کھیل وہیں سے شروع کر دیتے ہیں ‘‘ فادر جوزف نے ہاتھ بڑھا کر رخ واپس بساط پر رکھ دیا اور قاضی صاحب کو آنکھیں دکھائیں گویا بھانڈا پھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہوں۔
‘‘آپ نے اس کا پٹا ہوا رخ واپس بساط پر رکھ دیا۔ میری آستین سے ایسا ہو جائے اور مجھے پتہ بھی نہ چلے ایسا کیسے ممکن ہے۔ اب رخ کو دوبارہ زندہ کرنے سے تو یہ جیت جائے گا‘‘ قاضی صاحب تنکے کا سہارا چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔
‘‘اچھا ایسا کریں یہ رخ تو رکھ دیں جگہ پر، اگر آپ یہ فیل یہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دیں تو بھگوان کی چال کا توڑ ممکن ہے ‘‘ فادر جوزف نے راہ سجھائی۔
‘‘بھگوان کی چال کا توڑ صرف آپ ہی نکال سکتے تھے ‘‘ قاضی صاحب نے اطمینان سے فادر جوزف کی بتائی چال چل کر فاتحانہ انداز سے بھگوان داس کی سمت دیکھا۔
‘‘یہ کیا بے ایمانی ہے فادر؟ یہ تو گویا میرا اکیلا ذہن آپ دونوں کے ذہنوں کا مل کر مقابلہ کر رہا ہے۔ آپ بیچ میں کیوں کود پڑے۔ خاموشی سے کھیل دیکھتے، مگر آپ تو کھلم کھلا ان کا ساتھ دے رہے ہیں ‘‘ ۔ بھگوان داس نے یقینی شہ مات کو ہاتھ سے نکل دیکھا تو ناگواری سے کہا۔
‘‘ارے صاحب ناراض کیوں ہوتے ہیں۔ دیکھئیے یہ اپنا وزیر یہاں رکھئیے، لیجئیے قاضی صاحب پھر پھنس گئے ‘‘ ۔
‘‘بھئی آپ کس کے ساتھ ہیں ‘‘ قاضی صاحب چلبلا گئے۔ ‘‘انہیں بھی چالیں بتا رہے ہیں، مجھے بھی بتا رہے ہیں، یہ کس قسم کے تماشائی ہیں آپ‘‘ ۔
‘‘ جب آپ کو چال بتائی تھی، اس وقت تو آپ نے انکار نہیں کیا تھا ‘‘ فادر نے مسکرا کے جواب دیا۔
‘‘ میں نے نہیں لیکن بھگوان داس نے تو انکار کیا تھا۔ آپ کی تو وہی مثال ہے کہ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا‘‘
‘‘کتا کہہ رہے ہیں آپ مجھے ؟‘‘ فادر جوزف غصے سے کھڑا ہو گیا ‘‘کتا کسے کہا ہے ‘‘
‘‘میں اپنے آپ کو تو کتا کہنے سے رہا اور بھگوان داس کے متعلق بھی مجھے علم ہے کہ ان کا عالم حیوانات سے تعلق نہیں۔ آپ کا بھی نام تو نہیں لیا تھا میں نے، بس یہ یاد دلا یا تھا دھوبی کا کتا کہیں کا نہیں ہوتا‘‘ ۔
‘‘بھگوان داس آپ کچھ نہیں کہہ رہے انہیں ‘‘ فادر نے بھگوان داس کی طرف بھی غصے سے دیکھا
‘‘بھئی بات تو صحیح کہہ رہے ہیں یہ۔ آپ کبھی ان کی مدد کرتے ہیں کبھی میری۔ اس طرح یہ کھیل طول کھینچتا جا رہا ہے، ایسا ہی شوق ہے تو خود کیوں نہیں کھیلتے، آ جائیے ‘‘ بھگوان داس نے ذرا سرک کر جگہ بنائی گویا دعوتِ مبارزت دے رہے ہوں۔
‘‘بھئی لعنت ہے آپ دونوں پر، چلئیے قاضی صاحب آپ کی چال ہے ‘‘ فادر جوزف پھر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ اپنے مفادات کے لئے وہ ایسی چھوٹی موٹی گستاخیاں پی جایا کرتے تھے
‘‘پھر بیٹھ گئے آپ تو۔ اتنا کچھ سننے کے بعد تو امید تھی کہ بوریا سمیٹ لیں گے ‘‘ ؟
‘‘ارے چال چلئیے صاحب، اتنا پر لطف کھیل ہو رہا ہے، کیوں مزا کر کرا کر رہے ہیں ‘‘ فادر اپنی لطف اندوزی میں کسی دخل اندازی کو گوارا کرنے پر تیار نہیں تھے۔
بھگوان داس نے بھنوئیں اچکا کر استہفامی نظروں سے قاضی صاحب کی سمت دیکھا۔ دونوں میں جانے کیا اشارے ہوئے کہ بھگوان داس نے ہاتھ سے بساط الٹ دی۔
‘‘بھئی اب ہم مزید نہیں کھیلنا چاہتے !‘‘
‘‘ارے یہ کیا کیا، اتنا لطف آ رہا تھا کھیل ہی بگاڑ دیا‘‘ فادر جوزف روہانسے ہو گئے۔
پردے سے لگی بیگم قاضی اور بیگم بھگوان نے ایک دوسرے کو بے ساختہ گلے لگا لیا، انہیں امید ہو چلی کہ اب دونوں کھلاڑی انہیں کچھ وقت دے سکیں گے۔
بھگوان داس اور قاضی صاحب نے مل کر قہقہہ لگایا۔ فادر جوزف کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس کا منہ نوچ لیں۔
‘‘چلو شرط لگاتے ہیں کہ اس دفعہ قاضی صاحب جیتیں گے ‘‘ فادر نے ترغیب دی
‘‘لیکن یہ شرط کس سے لگ رہی ہے۔ شرط لگانے کے لئے دو فریقین کا ہونا ضروری ہے ‘‘ بھگوان داس نے یاد دلایا۔
‘‘بھئی میرا داہنا ہاتھ میرے بائیں ہاتھ سے شرط لگا لے گا۔ اگر قاضی صاحب جیت گئے تو میرا داہنا ہاتھ جیت جائے گا، اگر بھگوان داس جیتے تو میرا بایاں ہاتھ‘‘ ۔
‘‘چلو فرض کیا ہم دوبارہ بساط بچھا لیں ‘‘ دونوں بیگمات کی تو جیسے سانس رک گئی، انہوں نے ایک دوسرے کا اس زور سے ہاتھ دبایا کہ خون شریانوں کا ساتھ چھوڑ گیا ‘‘تو اگر بھگوان داس جیتا تو آپ کا بایاں ہاتھ جیتے گا، اگر میں جیتا تو داہنا ہاتھ۔ گویا کھیل کسی بھی رخ پر ہو، جیت آپ کی ہی ہو گی، خواہ وہ داہنے ہاتھ کی ہو یا بائیں کی‘‘ ؟
‘‘بھئی یہ تو ناک کو ہاتھ گھما کے پکڑنے کی بات ہے۔ آپ اس کو یوں نہیں دیکھتے کہ ہر صورت ہار میری ہی ہو گی، دائیں ہاتھ کی یا بائیں ہاتھ کی‘‘ فادر نے مسکرا کے جواب دیا۔ ‘‘چلئیے اب بحث چھوڑئیے اور بساط بچھائیے ‘‘ ۔
بھگوان داس اور قاضی صاحب نے ایسے سر ہلایا جیسے فادر کی بات سمجھ میں آ گئی ہو۔ بھگوان داس نے اپنی دھوتی اڑسی اور آلتی پالتی مار کے پلنگ پر بیٹھ گئے۔ قاضی صاحب نے بھی تنگ پاجامے میں پھنسے پاؤں سمیٹے، اور پیر اوپر کر کے بیٹھ گئے۔
‘‘لاؤ میاں بچھاؤ بساط، دیکھیں تم میں کتنا دم ہے۔ اس دفعہ ایسا پچھاڑوں گا کہ ماتا جی بھی نہیں بچا سکیں گی‘‘ ۔
‘‘ارے قاضی صاحب رہنے دیجئیے، یہ خواب لے کر کتنے ہی ہمارے گھر آئے اور چلے گئے۔ آپ نے ہمارے ہاتھ پہلے بھی دیکھے ہیں، آئیے ہو جائیں دو دو ہاتھ‘‘
پردے سے لگی خواتین ایسے ڈھے گئیں جیسے کسی نے جان سلب کر لی ہو۔
فادر نے مسکرا کے بہت شفقت سے قاضی صاحب کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا ‘‘چلئے قاضی صاحب آپ کی باری ہے ‘‘ ۔
٭٭٭