رابعہ بہت دل لگا کر تیار ہو رہی تھی۔ پچھلے سال میلے پر زمیندارنی نے اپنا ایک پرانا ریشمی جوڑا دیا تھا جو رابعہ نے بہت سنبھال کر صندوق میں رکھ دیا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ اس جوڑے کو صندوق سے باہر کی ہوا لگا ئی جائے۔ صبح بہت سویرے باپ کے اٹھنے سے پہلے نہا چکی تھی۔ ماں کے مرنے سے اچانک جھگی کی آبادی ایک تہائی کم ہو گئی تھی۔ نہانے یا کپڑے بدلنے کے لئے رابعہ چارپائی کھڑی کر کے اس پر چادر تان دیتی۔ عموماً اس وقت نہاتی جب باپ کھیتوں پر ہوتا۔ لیکن آج کوئی کھیتوں پر جانے والا نہیں تھا۔
آج بجوکا کا سالانہ میلہ تھا۔
میلے میں سب ہاری اور ان کے خاندان اپنے بہترین لباس میں جشن مناتے۔ یہ الگ بات تھی کہ یہ بہترین لباس وہ ہوتا جو اکثر کسی نے بد ترین جان کر اپنے جسم سے علیحدہ کیا ہوتا۔ رابعہ کی تیاری کے پیچھے یہ راز بھی تھا کہ میلے میں سب ایسے مصروف ہوتے کہ کوئی اس بات پر نظر نہ رکھتا کہ رابعہ ریشمی جوڑا پہنے کھیتوں میں کیوں پھر رہی ہے۔ نہ ہی کسی کو اس بات کا پتہ چلتا کہ یارو بھی اسی وقت اسی کھیت میں جا گھسا ہے۔ پچاس جھونپڑیوں کے اس گاؤں میں صرف ہاری رہتے تھے یا غربت۔ ایسے میں کسی سے چھپ کر ملنے یا دل کی بات کرنے میں بڑی دشواریاں تھیں۔ یا تو کسی میلے تہوار کی بھیڑ کا سہارا لیا جائے، یا ایسے وقت ملاقات کی جائے کہ جب باقی دنیا کی آنکھیں بند ہوں۔ یارو کی چھیڑ خانیاں اب بڑھتی جا رہی تھیں۔ ہر ملاقات میں رابعہ کسی نئی انوکھی دھڑکن سے روشناس ہوتی۔ جو سبق ماں سمجھا گئی تھی وہ یارو کا ہاتھ روک دیتا، جسم و جاں میں دوڑتی سنسنی کچھ اور متقاضی ہوتی۔ یارو کا ہاتھ روکتے روکتے بھی رابعہ کو لگتا دل ایسی زور سے دھڑک رہا ہے کہ کوئی سن لے گا۔ اسی امید و خوف کے بین بین رابعہ کی تیاری جاری تھی۔ آنکھوں میں زمیندارنی کا دیا کاجل پھیر کے وہ جھگی سے نکل آئی۔
گاؤں میں عید کا سا سماں تھا۔ گلیوں کو رنگ برنگی تکونوں سے سجایا گیا تھا۔ گلی کے ایک نکڑ سے دوسرے نکڑ تک ستلی کا ایسا بے ہنگم جال بنا گیا تھا جیسے کوئی لنگڑی مکڑی اپنا راستہ بھول گئی ہو۔ لئی کی مدد سے رنگ برنگی کاغذ کی تکونیں پھر اس ستلیوں کے جال پر منڈھ دی گئی تھیں۔ گلی کی چھت پر جہاں صرف نیلے آسمان کی راجدھانی ہو تی تھی وہاں اب یہ تکونیں بہار دکھا رہی تھیں۔ کچھ جھگیوں کی باہر سے پتائی بھی ہوئی تھی۔ جھاڑو دے کر گلیوں کو صاف کرنے کی بھی کوشش کی گئی تھی مگر نتیجہ ایسا ہی تھا جیسے زنگ لگی پرانی سینی کو رگڑ رگڑ کے چمکانے کی کوشش کی جائے۔
غربت خوش ہونے کے بہانے ڈھونڈتی ہے۔ بجوکا کے میلے سے بہتر کیا بہانہ ہو سکتا ہے۔ ابھی گیارہ کم دو برس ادھر کی بات ہے، جس برس نبوُ کے ہاں کا لا بچھڑا پیدا ہوا تھا، پے در پے تین فصلیں خشک سالی کی نظر ہو گئیں۔ بارش تو خیر کیا ہوتی، آسمان جیسے رونا بھی بھول گیا۔ جو ذرا سی فصل اتری بھی تو وہ فاقہ زدہ پرندے چگ گئے۔ گاؤں میں ہا ہا کار مچ گئی، وہ زمیں جسے ماں سمان سمجھتے تھے لعن طعن کا شکار ہونے لگی۔ ماں نے غذا کی فراہمی سے کیا منہ پھیرا، اولادیں نافرمانی پر آمادہ تھیں۔ رابعہ کو اچھی طرح یاد ہے تین سال مسلسل زمیندارنی نے قمیض تو کیا شمیز تک نہ دی تھی۔ وہ تو بھلا ہو بڑے زمیندار کا کہ انہوں نے بڑے کھیت کے عین وسط میں بجوکا کا مجسمہ گاڑ دیا۔ لکڑی کے پھٹے سے بندھا تقریباً دو فٹ زمین کے اندر۔ جبکہ چھ فٹ اونچا ئی زمین کے سینے پر ایک سپاہی کی مانند ایستادہ۔ بجوکا بڑے زمیندار کی حویلی میں ہی تیار ہوا تھا۔ اس کی یہی اہمیت کیا کم تھی کہ زمیندار نے اعلان کر دیا کہ بجوکا کے ڈر سے پرندے بھاگ جائیں گے اور اگر بمجوکا خوش ہوا تو بارش بھی برسا دے گا۔ رب کرے بڑے زمیندار کی عمر میں اور اضافہ ہو، ہوا بھی ایسا ہی۔ اس سال بارش بھی ہو گئی اور پرندے بھی دو تین سال بے یقینی کا شکار رہے۔ پے در پے جو اچھی فصلیں اتریں تو بجوکا کی دھاک بیٹھ گئی۔ رابعہ کیسے بھول سکتی تھی کہ اسی سال یارو نے پہلی بار اس کی کمر میں چٹکی بھری تھی۔ بجوکا کے ساتھ بڑے چوہدری کے وقار میں بھی اضافہ ہوا۔ اب بڑے چوہدری صاحب ہی بتاتے تھے کہ بجوکا کن چیزوں سے خوش ہو گا۔ ادھر دو برس پہلے جب پھر قحط پڑا، نہ بارش ہوئی نہ فصل اچھی اتری تو چوہدری صاحب نے صاف اعلان کر دیا کہ یہ بجوکا کی ناراضگی کی وجہ سے ہوا ہے۔
اب ہر سال بجوکا کے جنم دن پر گاؤں میں ایک میلہ ہوتا تھا۔ یہ گویا بجوکا کی طاقت اور ہیبت کی سالا نہ یاددہانی تھی۔ ہر سال کٹائی کے بعد والی چاند رات کو بجوکا کا میلہ لگتا۔ ساری کٹی فصل میلے سے پیشتر ہی زمیندار کی حویلی میں پہنچ چکی ہوتی۔ جیسے جیسے فصل کٹتی جاتی زمیندار کی توند، تجوری اور حرص میں اضافہ ہوتا جاتا۔ امارت اور قناعت ساتھ ساتھ نہیں چلتے۔ قناعت بھرے گھر میں امارت کیسے پنپ سکتی ہے اور بڑا زمیندار تو پشتینی امیر تھا اور قناعت سے دشمنی بھی اتنی ہی دیرینہ تھی۔ بجوکا میلے والے دن ہاریوں میں اناج تقسیم ہوتا۔ سارے سال کی محنت، پسینے، گالیوں اور دھکوں کے بعد اناج کی چند بوریاں کما پاتے۔ اناج کی تقسیم کے کئی فارمولے تھے ؛ زمین کے کتنے رقبے پر اس ہاری نے کاشت کی ہے، ہاری کے گھر میں کتنے افراد ہیں اور فارمولے کا سب سے اہم عنصر یہ کہ بڑا زمیندار اس ہاری سے کتنا خوش ہے۔ تقسیم کے بعد یہ ہاری کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ چاہے تو اپنے حصے کے اناج کا کچھ حصہ بجوکا کو نذر کرے۔ اس باجگذاری سے اگلی فصل اچھی ہونے کے امکانات روشن ہو سکتے تھے۔ شاید ہی کوئی ہاری ایسا ہو جو بظاہر اس چھوٹی سی نذر اور قربانی کے عوض اپنے روشن مستقبل کا جوا نہ کھیلتا ہو۔ ہر چڑھاوے سے زمیندار کی حویلی میں ایک اور دیا روشن ہو جاتا۔ زمیندار کے کارندے بیان کرتے ہیں کہ خود زمیندار عقیدت سے بہت بھاری چڑھاوے بجوکا کی نظر کرتا ہے، لیکن بڑا زمیندار واقعی اتنا نیک تھا کہ اس کا دایاں ہاتھ دیتا تو بائیں ہاتھ کو کبھی خبر نہ ہوئی کہ کب کہاں اور کتنا دیا۔
رابعہ نے دائیں بائیں دیکھا تو کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ زیادہ تر مرد زمیندار کی چوپال کے نزدیک جمع تھے جہاں بھنگ گھوٹی جا رہی تھی۔ ایک ہاری کے گلے میں نواڑ کی پٹی سے بندھا ڈھول لٹک رہا تھا جسے وہ مستانہ وار بجائے جا رہا تھا۔ درخت کے نیچے لکڑیاں جمع کر کے آگ جلائی گئی تھی جس پر ایک بڑی دیگ میں نجانے کب سے چائے پک رہی تھی۔ ایسے میں کسے فرصت تھی کہ رابعہ کی فکر کرتا۔ رابعہ کھیتوں کے درمیان پگڈنڈی پر چل پڑی، تھوڑی ہی دوری پر درمیان میں ذرا سی جگہ صاف تھی جہاں یارو اس کا منتظر تھا۔ رابعہ کو دیکھتے ہی اس کا چہرا کھل اٹھا۔ بے صبری سے ہاتھ بڑھا کر اسے کھینچ کر اپنے پاس ہی گرا لیا۔
’کیسا بے صبرا ہے تو‘ رابعہ شوخی سے مسکرائی
’اور تو آنے کے لئے بے چین نہیں تھی ‘ یارو نے اسے گدگدایا۔
’آں، آں ‘، رابعہ نے حدود مقرر کر رکھی تھیں اور ان پر سختی سے کاربند تھی۔
’کون ہے یہاں سب میلے میں مست ہیں ‘
’سامنے دیکھ، بجوکا بابا ہی دیکھ رہا ہے ‘
’بجوکا بابا‘ یارو کی ہنسی میں تضحیک تھی۔ چھ جماعتیں کیا پڑھ گیا تھا یارو اپنے آپ کو بہت ہشیار سمجھتا۔ رابعہ کو علم تھا یارو کو بجوکا کی طاقت پر بالکل بھروسہ نہیں تھا، جبکہ رابعہ بجوکا کی ان دیکھی قوت کی دل و جان سے معتقد تھی۔ اسے پتہ تھا یارو صرف اس کی محبت میں بجوکا کو کھل کر برا بھلا نہیں کہتا تھا لیکن اکثر یارو اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا تھا۔
’دیکھ بجوکا اپنے کاندھے پر بیٹھا کوا تو اڑا نہیں سکتا، فصلوں کا کیسے خیال کرتا۔ یہ افیون ہے، جس سے تو اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ہے۔ ‘
’یارو، ایسی بات کرے گا تو میں تجھ سے بات کرنا چھوڑ دوں گی‘ رابعہ سچ مچ ناراض ہو جاتی۔
’بجوکا، بجوکا، بجوکا، بجوکا دیکھ رہا ہے ‘ اس وقت بھی بجوکا ان کے درمیان آ گیا تو الجھ کر یارو نے رابعہ کی نقل اتاری۔
’یارو وقت جا رہا ہے ‘۔ رابعہ اس تنہائی کو ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ’یارو ایک بات بتا، کیا تجھے وقت نظر آ رہا ہے ‘
’نہیں، وقت بھلا کس کو نظر آتا ہے ‘ یارو نے اس کا مذاق اڑایا
’تجھے وقت نظر نہیں آتا، لیکن اس پر یقین ہے، موت نظر نہیں آتی مگر اس پر بھی یقین ہے، میری محبت نظر نہیں آتی مگر اس پر بھی اعتبار، بجوکا بابا کی طاقت نظر نہیں آتی تو اس کو کیوں نہیں مانتا؟‘
’یہ کیا بات ہوئی‘ یارو کو رابعہ کی بات کا جواب نہ بن پڑا تو الجھ کر چل دیا۔
’یارو‘ رابعہ کی پکار بھی اسے واپس نہ لا سکی۔
’بجوکا بابا کا اپمان کرے گا تو بہت نقصان ہو گا یارو‘ رابعہ اپنے ہاتھوں میں منہ چھپا کے رو پڑی۔
اب چوپال پر زمیندار کے آنے کا وقت تھا۔ گاؤں کے سب ہاری جمع تھے۔ اناج کی تقسیم کے وقت غیر حاضری ہوتی تو اناج تو دوسرے دن مل جاتا مگر غیر حاضری ٹیکس منہا کر کے۔ اپنی کھال میں مست ہاری رقصاں تھے۔ ڈھول، تاشے، باجے خوش ہونے کے سب ہی بہانے تو جمع تھے۔ زیادہ تر ہاری ننگے پاؤں، ننگی زمین پر براجمان تھے۔ زمین سے رشتہ ایسا مضبوط تھا، ننگا پاؤں ننگی زمین پر جما رہتا، تپتی رتیلی زمین ہو یا برف جیسا سرد پانی، ان کے پاؤں کا زمین سے رشتہ جما رہتا۔ کچھ نوجوان ہاری ایک ڈھول والے کے گرد حلقہ بنائے رقص کر رہے تھے، نواڑ کی پٹی سے بندھا ڈھول بھنگ کی تال پر ان تھک بجے جا رہا تھا۔ حویلی کے دروازے سے داخل ہوں تو ایک بڑا دالان، یوں سمجھئے چھوٹا سا میدان تھا جہاں سب ہاری ایک سا لباس، چہروں پر امید کی یک رنگی کرن لئے حویلی کی جانب رخ کئے بیٹھے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ غربت کا ایک ہی لباس ہے، ایک نظر میں دور ہی سے پہچان میں آ جائے۔ دالان میں جس رخ پر حویلی کا دروازہ کھلتا تھا ایک پکا چبوترا تھاجس پر زمیندار کے لئے کرسی منتظر تھی۔ ذرا ہٹ کر پیچھے کی جانب ایک جھلنگا پلنگ پڑا تھا جس پر زمیندار کے جانثار بیٹھتے۔ ابھی یہ جلوس حویلی سے برآمد نہیں ہوا تھا۔ پیاسے کو ذرا ترسا کے پانی دو تو پانی کی زیادہ قدر کرے گا۔
زمیندار بہت با وقار اور رعب دار شخصیت کا مالک تھا۔ صاف ستھرا تہہ بند، اس پر لمبا ریشمی کرتا۔ سر پر پگڑ، ستاروں سے بھری ٹوپی یا کچھ اور۔ ننگے سر باہر چوپال میں نہیں آتا۔ پاؤں میں بغیر موزوں اور بغیر فیتوں کے جوتے یا کھسّے۔ بڑے زمیندار صاحب برآمد ہوئے تو دالان میں شور مچ گیا، بھاری بھرکم جسّے پر لباس ویسا ہی تھا جیسا کہ متوقع تھا۔ مونچھوں پر ہلکا سا تاؤ دے کر زمیندار کرسی پر بیٹھ گیا۔ پیر سامنے پھیلا دئیے۔ پٹواری کی آنکھ کا اشارہ دیکھ کر زمیندار کے دونوں پیر ایک ایک ہاری کے ہاتھوں کی گرفت میں آ گئے۔ تھکے ہارے ہاتھ تنومند کاہل پیروں سے تھکن نکالنے میں لگ گئے۔
زمیندار نے اناج کے بٹوارے کا اشارہ کیا۔ ایک ایک ہاری آگے آتا، زمیندار کے پیر چھو کر اطاعت کی بیعت دہراتا۔ زمیندار اس کے سر پر ہاتھ رکھتا جبکہ پٹواری اس کے سر پر اناج کی بوری لاد دیتا۔ یہ سلسلہ گھنٹوں چلتا رہا اب تقریباً سب ہاری فارغ ہو چکے تھے۔ ایسے میں ایک کارندہ کھیتوں کی سمت سے بھاگا ہوا آیا اور زمیندار کے کانوں میں کوئی خبر داغ دی۔ بڑے آدمیوں کے کانوں میں کی جانے والی یہ سرگوشیاں بڑے دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہیں۔ کوئی اور بات ہوتی تو زمیندار اپنی رعایا اور اپنے درمیان عبودیت کا یہ سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیتا۔ مگر خبر کچھ ایسی ہی تھی کہ وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ پیر دبانے والے دونوں ہاری اپنے پیروں کی خیر منانے سہم کر پیچھے ہٹ گئے۔ پٹواری ہاتھ باندھ کر سامنے آ گیا۔
ؒؒ ’ حکم ہو بادشاہو‘
’پٹواری یہ کھیت میں ایک چھوٹا بجوکا کس نے گاڑا ہی ‘ زمیندار کی گرج میں آنے والی قیامت کی خبر تھی۔
’ابھی معلوم کراتا ہوں سرکار‘
چند ہی لمحوں میں چارپائی پر بیٹھے جان نثار یارو کو دھکے دیتے ہوئے سامنے لے آئے۔
پٹواری کی آنکھ کے اشارے کے باوجود یارو زمیندار کے پیروں پر نہیں گرا، سر جھکائے کھڑا رہا۔ یہ جرم کسی اور ناکردہ گناہ سے زیادہ سنگین تھا۔ زمیندار کے روئیے سے بالکل ظاہر نہیں ہوا کہ اسے یہ سرکشی گراں گذری ہے۔ صدیوں کی نسل در نسل تربیت نے اسے اس کھیل میں مشاق کر دیا تھا لیکن پٹواری کی جہاندیدہ آنکھوں نے ماتھے پر پڑی سلوٹوں میں ایک شکن کا اضافہ دیکھ لیا تھا۔
’کوئی غلطی ہو گئی زمیندار صاحب‘ یارو نے ہاتھ جوڑ کر زمیندار سے آنکھیں ملائیں۔ پٹواری نے ٹھنڈی سانس لے کر اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
’غلطی؟‘ بڑے زمیندار کی آواز پر کسی سانپ کی پھنکار کا گمان ہوتا تھا۔
’غلطی، بجوکا کا اتنا بڑا اپمان۔ اس کے مقابلے میں ایک اور بجوکا لا کھڑا کیا تو نے۔ کیا سمجھتا ہے یہ کوئی بت ہے، کوئی بھی اس جیسا لا کر کھڑا کر دو؟‘۔ ’ جانتا ہے اب بجوکا کی ناراضگی ہمیں کتنی مہنگی پڑے گی۔ کتنی فصلیں برباد ہوں گی‘
یارو کو اپنے سنگی ساتھیوں کی نگاہیں اپنی پشت پر نیزوں کی طرح گڑتی محسوس ہوئیں۔ بغیر اناج کے سب کیسے گذارا کریں گے۔ ہاریوں کے ذہن میں چند برسوں پہلے کا قحط گھوم رہا تھا۔
’سائیں غلطی ہو گئی‘ یارو نے حالات کی سنگینی کا اندازہ کر کے زمیندار کے پیر پکڑ لئے۔
’چھوڑ میرے پیر، حرامی، کتے کی اولاد، نجس کر رہا ہے میرے پیر‘۔ زمیندار نے لات مار کر اپنے آپ کو چھڑانا چاہا۔ یارو کو پتہ تھا جب تک پیروں میں پڑا ہے امان میں ہے۔ دو جاں نثاروں نے آگے بڑھ کر یارو کو زمین سے نوچا اور اٹھا کر زمیندار کے سامنے سیدھا ایستادا کر دیا۔
’باندھ دو اس بد بخت کو سامنے درخت سے اور جب تک ہمارا حکم نہ ہواسے نہ کھولا جائے ‘۔ زمیندار کے حکم کے بعد تو یارو کی ماں کی بھی ہمت نہ ہوتی کہ یارو کو آزاد کر سکتی، رابعہ کی تو اوقات ہی کیا تھی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔ جس طرح یارو بجوکا کی توہین کرتا تھا ایک دن تو کچھ ایسا ہونا ہی تھا۔ یارو اپنی سزا سن کر نیم جان سا ہو گیا۔ اسے پتہ تھا کہ اب تین چار دن درخت سے بھوکا پیاسا بندھے رہنے کے بعد جب وہ نیم جاں ہو جائے گا تو زمیندار اسے اپنی نجی قید میں چند سالوں کے لئے بیڑیاں کسوا دے گا۔ امکان غالب تھا کہ اب دوبارہ کھلی فضا میں سانس لینا نصیب نہ ہو گا۔
’دیکھو اس کمبخت کی وجہ سے کیا عذاب آتا ہے۔ بجوکا بہت ناراض ہے، اس کے حصے کا اناج بھی بجوکا کو باجگذار کرو‘ زمیندار نے کارندوں کو حکم دیا۔ میلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ دالان میں ایک طرف جو بھنگ گھوٹی جا رہی تھی وہ بھی زمیندار کے جان نثار اپنے ساتھ لے گئے۔ درخت سے بندھے یارو سے نظریں چرائے سب ہاری اپنے اپنے دائروں میں قید ہو گئے۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ ایک کوا بجوکا کے کندھے پر بیٹھا اسے ٹھونگے مانگ رہا ہے۔ جب بجوکا ناراض ہو کر قحط لا سکتا ہے، بارش روک سکتا ہے اور فصلیں خراب کر سکتا ہے تو اس کوے کو کیوں نہیں اڑا سکتا، رابعہ کے کانوں میں یارو کی آواز گونجی۔ یہ باتیں ہاریوں کی منطقی سطح سے اوپر تھیں۔ سوچ کے پر مستقل کترتے رہیں تو سوچ کی پرواز کوتاہ ہو جاتی ہے۔ ہاری کی سوچ کے پر کتر کے اسے اناج، بارش، فصل، بھوک، زمیندار اور خوف تک محدود کر دیا گیا تھا۔ ہاتھی کے پیر میں رسی کی بیڑیاں ڈال کر اسے لکڑی کے پنجرے میں قید کر دیں تو ہاتھی بیڑیوں کے خوف سے رسی تڑانے کی فکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی سوچ گنے، مہاوت اور چیونٹیوں تک محدود ہو جاتی ہے۔
زمیندار کے ڈرانے پر اس سال بجوکا کو بہت چڑھاوے دئیے گئے۔ اس سال برسات میں بجوکا پر چڑھا لباس جگہ جگہ سے مسک گیا۔ اس کی کھوکھلی ساخت کیا عریاں ہوئی کہ پرندوں کے غول کے غول در آنے لگے۔ بجوکا کا ملمع کیا اترا کہ پرندوں سے اس کا خوف اتر گیا۔ ٹولیاں اڑ اڑ کر آتیں اور بچی کچی فصلوں سے ایسے سیراب ہوتیں گویا یہ دسترخواں ان ہی کے لئے بچھا ہے۔
’یہ سب اسی حرامی کی وجہ سے ہوا ہے ‘ زمیندار نے نجی قید میں بند یارو کے مزید پچاس جوتے مارنے کا حکم دیا کہ اس سے شاید بجوکا رضا مند ہو جائے۔ بجوکا کے بت پر نیا غلاف چڑھا، کچھ ہاری دن رات بڑے کھیت میں گذارنے لگے کہ شاید اس خدمت سے بجوکا راضی ہو جائے۔ بجوکا راضی ہوا یا نہیں لیکن پرندوں کی یلغار تھم گئی۔ اس کا سہرا یقیناً زمیندار کے سر پر بندھا۔ اس کی مونچھ میں پھر تاؤ آ گیا۔ پگڑ کی کلغی کا کلف کچھ اور اکڑ گیا۔ ہاریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ فصل نسبتاً اچھی اتری تو گاؤں پر سے گویا بجوکا کا عذاب ختم ہوا۔ اس سال بڑے زوروں کا میلہ ہوا۔ اس خوشی میں یارو کو بھی آزادی مل گئی۔ اچھی فصلوں کے موسم میں زمیندار اپنے سب سے محنتی ہاری کو قید کر کے کیا کرتا۔
پرندوں کو لیکن بجوکا کی حقیقت پر شک ہو چلا تھا۔ اگلی بوائی پر پھر غول کے غول اترنے لگے۔ اس بار چڑھاوے بھی کام نہ آئے۔ ہاریوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب بجوکا کس بات پر ناراض ہے۔ زمیندار کا کہنا تھا کہ بجوکا کے سب معاملات خود زمیندار کی سمجھ میں نہیں آتے۔ اک دن چشمِ حیرت نے کیا دیکھا کہ بجوکا کے سر پر ایک پرندے کی گند پڑی ہے جو اس کے سر سے ٹپک کر عین ناک پر جم گئی ہے۔
‘یہ بجوکا کا کس نے اپمان کیا ہے ؟‘ ایک ہاری نے دہائی دی۔ ہاریوں میں خاصی بددلی پھیل گئی۔ حیرت کی بات تھی کہ بجوکا جو پرندوں کو مار بھگا سکتا تھا اس کے سر پر بیٹھ کر کوئی پرندہ گند کر جائے۔ اس کے کاندھے پر بیٹھ کر کوئی کوا ٹھونگیں مار سکے۔ بجوکا بیچ کھیت میں کھڑا ہو اور پرندے اس کی موجودگی سے بے پرواہ غول در غول بیج ہضم کر جائیں۔
صبح ہونے سے پہلے بجوکا کے سر اور ناک پر سے پرندے کی غلاظت صاف ہو چکی تھی۔ لیکن اس بے احتیاطی سے صاف کی گئی تھی کہ صاف معلوم ہوتا تھا کسی نے جلدی میں کپڑے سے رگڑا ہے۔ راتوں رات بجوکا کی عزت بحال کرنے کی کوشش اسے اور ننگا کر گئی تھی۔ رابعہ کے ذہن میں اب کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ یارو ٹھیک کہتا تھا۔ بجوکا کی عظمت اور طاقت چوہدری کے ذہن کی پیداوار ہے۔ لیکن اپنے خیالات رابعہ نے اپنے ذہن میں مقید رکھے۔ بات کرتی بھی تو کس سے۔ خود یارو رہائی کے بعد سے اس سے کھنچ گیا تھا۔ رابعہ کی کوششوں کے باوجود اس سے کتراتا تھا۔ زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ یارو اب زمیندار کے جاں نثاروں میں شامل ہو چکا تھا۔ طاقت نے ایک اور روح مسخر کر لی تھی۔
اسی سال چوہدری کو بیماری نے ایسا گھیرا کہ پلنگ سے لگ گیا۔ اب ہر ہفتے چوہدری اپنی بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر شہر علاج کرانے جاتا۔ کبھی کبھی تو علاج کرانے کی خاطر ہفتہ دس دن شہر ہی میں ٹھہرنا پڑتا۔ ایسے میں بڑے چوہدری کا ولی عہد، چھوٹا چوہدری نادر اپنی پوری کوشش کر رہا تھا کہ بات بگڑنے نہ پائے۔ بڑے چوہدری کے جاں نثاروں کی کھسر پھسر سے یہ بات پھیل گئی تھی کہ چوہدری کو جانے ’کینسر‘ یا اس سے ملتے جلتے نام کا کوئی مرض لگ گیا تھا۔ بہت موذی مرض ہے کہ جو شاید کسی ہاری کی قربانی سے بھی ٹھیک نہ ہو۔
یہ سال بہت خراب گزرا۔ بڑے چوہدری کی بیماری کی وجہ سے بجوکا کا میلہ بھی نہیں ہوا۔ کہتے ہیں پٹواری اور چوہدری نادر تو بہت چاہتے تھے کہ سالانہ میلہ ہے اس میں کسی سال ناغہ مناسب نہیں مگر بڑی چوہدرائن کسی طرح راضی نہ ہوئی۔ بڑے سائیں بستر سے لگے ہیں اور تم لوگوں کو میلے کی سوجھی ہے۔ بڑا سائیں ٹھیک ہو جائے تو تم لوگوں کا کیا حشر کرے گا۔ پٹواری اس ڈر سے کہ کہیں واقعی بڑا چوہدری ٹھیک ہی نہ ہو جائے اچانک میلے کیا مخالف اور چودھرائن کا حامی ہو گیا۔ فصل خراب ہو گئی۔ کسانوں کے ہاں غربت میں فاقے پڑ گئے۔ کہتے ہیں ہر کام میں کوئی مصلحت ہوتی ہے تو یقیناً بڑے چوہدری کی بیماری کا ایک اچھا پہلو یہ نکلا کہ بڑی چوہدرائن نے بیماری کے صدقے ہاریوں میں اناج تقسیم کیا۔ ورنہ بڑے چوہدری کے ساتھ کتنے ہی ہاری مارے جاتے۔ کیا معلوم دیہاتوں میں ستی کی یہ رسم پڑ جاتی کہ زمیندار کے ساتھ کچھ ہاری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
بڑے چوہدری کا انتقال بڑا المناک تھا۔ چوہدرائن دیواروں سے ٹکریں مار مار کر رو رہی تھی۔ بیماری نے اتنا آناً فاناً گرفت کیا تھا کہ اپنے دل کو سمجھانے کا وقت بھی نہیں ملا۔ ہاریوں میں بھی مایوسی اور دل گرفتگی تھی۔ کیسا بھی تھا اپنا چوہدری تھا۔ ادھر بجوکا بھی مجہول سا اعتقاد کے بانس پر چڑھا ہوا تھا۔ لیکن بجوکا کا خوف اور دبدبہ مٹی ہو چکا تھا۔ جس پرندے کا دل چاہتا ٹھونگا مار دیتا۔ سر، کان، شانے جگہ جگہ پرندوں کی غلاظت پڑی تھی۔ رابعہ یارو سے ملنے بات کرنے کے لئے بے چین رہتی، مگر یارو کا زیادہ وقت چوہدری نادر کے ساتھ گذرتا۔ چوہدری کو دفنا کے سب واپس آئے تو سب ہاری حویلی کے دالان میں جمع ہو گئے۔
چھوٹا چوہدری صاف ستھرا تہہ بند، لمبا ریشمی کرتا اور پیروں میں کھسّے اٹکائے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ باہر آیا۔ ایک شاہ مر گیا دوسرے کی تاج پوشی ہو گئی، سلطنت چلتی رہی۔ چوہدری نادر کو دیکھ کر ہاریوں کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چھوٹے چوہدری نے کرسی پر بیٹھ کر دونوں پیر آگے کر دئیے اور پٹواری کے اشارے پر دو ہاریوں نے آگے بڑھ کر دائیں بائیں اس کے پیر دبانے شروع کر دئیے۔
’بڑے چوہدری صاحب مرحوم، اللہ انہیں بخشے ‘ چوہدری نادر نے کہنا شروع کیا۔ ’بجوکا دو سال پہلے ان سے ایسا ناراض ہوا کہ پھر نہ راضی ہوا۔ اپنا پتلا کھڑا چھوڑ کر بجوکا خود دو سال پہلے ہمیں چھوڑ گیا تھا۔ اسی لئے فصل بھی برباد ہوئی اور بڑے چوہدری بھی اپنی جان سے گئی‘۔ چوہدری نادر کے اشارے پر یارو ایک نیا بجوکا، پہلے سے تقریباً دوگنا بڑا شاندار بجوکا لے کر حویلی سے برآمد ہوا۔ اب یہ بجوکا ہم سب کی حفاظت کرے گا۔ اسے بڑے کھیت کے وسط میں نصب کر لو۔ خبر دار اس کے چڑھاووں میں کمی نہ ہونے پائے ‘۔
چوہدری نادر کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ سب ہاری خوشی سے نعرے مارتے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چند ایک نے بجوکا کو یارو کے ہاتھ سے لے کر بلند کر رکھا تھا اور بڑے کھیت کے وسط کی جانب بڑھ رہے تھے۔ باقی کچھ ڈھول، تاشے پیٹ رہے تھے۔ کچھ مست رقصاں تھے، بجوکا واپس آ گیا تھا، اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ہاریوں کو مصروف دیکھ کر یارو رابعہ کی جھگی میں جا گھسا۔ چوہدری نادر کا حواری ہونے کے ناطے یارو کا دائرۂ اختیار بڑھ گیا تھا۔ رابعہ جھگی سے نئے بجوکا کا جلوس دیکھ چکی تھی۔
’رابعہ اب ہم ساتھ ہیں، میں نے کتنا تیرا انتظار کیا ہے۔ منحوس بڑے چوہدری کا انتقال، مرتا ہی نہیں تھا بڈھا‘
رابعہ نے یارو کے بڑھے ہوئے ہاتھ کی پذیرائی نہیں کی۔
’کیوں ڈر رہی ہے، اب تو چوہدری بھی اپنا ہے اور بجوکا بھی‘ یارو نے تسلی دی۔
’ڈر نہیں رہی، جب تو نے میری آنکھیں کھولیں تو خود اپنی بند کر لیں۔ اب تو بجوکا کا ہاتھ تھام، تو بڑے چوہدری کی طرح مہان ہو گیا ہے، میں تیرے قابل نہیں رہی‘۔ یارو کو لگا مرنے کے باوجود بڑا چوہدری اس کو سزا دے رہا ہے۔
٭٭٭