شاعر یا ادیب ایک انسان ہے، وہ باخبر انسان جو خواب دیکھتا ہے۔ اور انہی خوابوں کی ترغیب پر وہ کسی ادب پارے کو تخلیق کرتا ہے۔
سعید نقوی کہانی کاروں اور شاعروں کی صف میں داخل ہوا ہے، پیشے کے اعتبار سے وہ ڈاکٹر ہے۔ ڈاکٹری کے اس ہنر کے سبب اس کا واسطہ بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کے ساتھ اس کا تعلق نہ صرف خارجی ہے بلکہ بہت حد تک داخلی بھی ہوتا ہے۔ اس طرح اس کو ہر فرد کو اس کے حالات کے مطابق جاننے کا تجربہ حاصل ہوتا ہے، وہ ان تجربات کو اپنے اندر اتارتا رہتا ہے، اور پھر وہ اپنے فہم و بصیرت سے کہانی باہر نکالتا ہے۔
چیخوف نے کہا تھا کہ میڈیکل کی مشق نے اس کی بصیرت میں بہت اضافہ کیا اور اس چیز نے اس کو لکھنے میں مدد دی۔ اس کو مردوں اور عورتوں کے اندر جھانکنے سے جو علم و ادراک حاصل ہوا اس کی بدولت وہ subjectivity (موضوعیت) کے گڑھے میں گرنے سے بچ گیا۔
آج کی کہانی میں پہلے کی نسبت زیادہ موضوعات پر تجربات کئے جا رہے ہیں۔
Marinetti (اطالوی) نے جب مستقبلیت (Futurism) کا ضابطہ پیش کیا تو اس کی ایک شق میں لکھنے والوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے اندر کے جوش، لگن، حرارت اور تپش کی شاہ خرچی کریں کہ اس سے پیدا شدہ ولو، پہلے سے موجود عناصر کو صیقل کر کے تابناک بنا دے۔
سعید بھی اپنی فکری استعداد میں ایک ولولہ انگیز تازگی لے کر کہانی کے افق پر ابھرا ہے۔ اور لمحہ موجود میں موجود اپنے حصے کی توانائی کو بروئے کار لا کر ان سوزش زدہ مسائل کو کہانیوں کا موضوع بنایا ہے جس سے عہدِ حاضر گزر رہا ہے۔ اس کی ہر کہانی کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو منعکس کرتی ہے۔
ایک سچا کہانی کار سماجی انصاف کی جستجو کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سعید کی کہانی کی سطح کو چھو کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ لکھنے والے کا رویہ انسانیت کی طرف دردمند ہے۔
زیادہ تر کہانیاں علامتی ہیں۔ علامت ہمیشہ قاری کے سوال پوچھنے پر ہی اپنا دروازہ کھولتی ہے۔ سوال کی کمند جس قدر بلند ہو گی، علامت کا جلوہ یا نظارہ اتنا ہی واضح اور شفاف ہو گا۔ سعید کے کرداروں کی نفسیات اور ان کے رویوں کے اظہار سے کہانی زیادہ کھل کر سامنے آتی ہے۔
سعید کی کہانی ‘‘جنگل کا قانون‘‘ ایک علامتی کہانی ہے۔ جس میں مصنف نے جنگل کے سماج کے پیکر میں انسانوں کا سماج دکھایا ہے۔ جنگل کی مورنی، انسانوں کی دنیا کی عورت ہے۔ وہ عورت جو صدیاں گزرنے پر بھی زمین کے اوپر ہونے کے باوجود زیرِ زمین رکھی جاتی ہے، تاکہ روشنی سے دور رہے۔ مورنی کو جنگل کے جانور بے عزت کرتے ہیں۔ مگر عورت کی بے حرمتی تو اشرف المخلوقات کے ہاتھوں روزانہ ہو تی ہے۔ کبھی ننگا کر کے جلوس نکالنا، کبھی گینگ ریپ تو کبھی زندہ دفنانے کا بہیمانہ عمل۔ یہ سب کام طاقت کے زور پر انجام پاتے ہیں، اتنی طاقت کہ سرکار اور عدالتیں بھی مجبور ہیں۔
قاری کو کہانی میں مورنی کی دہلا دینے والی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔ مگر وہ خاموش چیخیں زیادہ دردناک اور بلند ہیں اور تا دیر سنائی دیتی ہیں، جو وہ اپنوں سے رد کئے جانے پر چپ چاپ خود کو موت کے حوالے کر کے پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔
سمرسٹ ماہم نے اپنی کہانیوں کی کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ موپاساں پڑھنے والے کے دماغ کو تیار کرنے کے لئے کہانی کو ہمیشہ ایک تعارف کے ساتھ شروع کرتا ہے، جب کہ چیخوف ایک دم حقائق سے شروع کر دیتا ہے۔ سعید اپنے شعور کے جس تہہ خانے کی ورکشاپ میں ایک کہانی تیار کرتا ہے وہ اس مدھم روشنی میں دھیرے دھیرے باہر نہیں آتی، بلکہ اچانک چھم سے خود کو فاش کر دیتی ہے۔ گو ایسا کرنا افسانہ نگار کے لئے ایک آزمائش ہوتی ہے کہ آیا وہ قاری کی دلچسپی کو برقرار رکھ سکے گا یا نہیں۔ لیکن سعید بڑی فنکارانہ مہارت سے کہانی کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں میں عادتیں، رویے، احساسات، بولنے کا طریقہ جس ہنر مندی سے بھرتا ہے، اس سے وہ قاری کو اپنی جانب بلا لیتا ہے۔
سعید حال کے زیاں پر کڑھتا ہے۔ لمحوں کے بے ثمر گزر جانے پر شاکی ہے۔ ‘‘ٹک ٹک دیدم‘‘ اسی احساس کا اظہار ہے۔ کہانی میں شہر کا گھنٹا رک جاتا ہے۔ کاروبارِ زندگی رک جاتا ہے۔ کلاک کا رک جانا جمود کی علامت ہے۔ امریکی شاعر W.C.W کہتا ہے کہ ‘‘وقت حرکت نہیں کرتا، صرف حماقت اور جہالت چلتی ہے ‘‘ ۔ مصنف اشارے کر رہا ہے کہ ہمارے معاشرے کو آمادۂ عمل کرنے والی کوئی پر جوش طاقت ملک میں موجود نہیں۔ ملک مفاد پرست عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حال کو بنا استعمال کئے ماضی میں گرتا دیکھ کر پریشان ہے کہ جس جگہ خود فریبی کی شکار قومیں نیستی بنتی ہوں، من و سلویٰ کے انتظار میں تسبیح چلتی ہو، تعصبات کی ہوا ہو، ملک میں جمہوریت کی جگہ بوٹ والوں کا راج ہو وہاں وقت رک جاتا ہے۔ سوئیاں تب چلتی ہیں جب لوگ کام کی لگن میں جد و جہد کرتے ہیں، کہانی میں عمدہ اور شستہ نثر نگاری کے نمونے ملتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتا ہے ‘‘جوتوں کی آوازیں اور سنگینوں کے سر کیا نظر آئے، تبدیلیِ اوقات کے امکانات معدوم ہو گئے۔ بھاری جوتوں، باریش جنت کے طلب گاروں اور وقت کے آگے بھاگتے کمشنروں کے درمیان منجمد وقت کو دوبارہ چلانے کی کیا امید رہ گئی تھی؟‘‘
‘‘دامِ آگہی‘‘ امریکہ بہادر کی عراق اور افغانستان پر تھوپی ہوئی خونی جنگ کی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے۔ دنیا کی اس چھ فیصدی سپر طاقت کے عزائم کے شکار لاکھوں انسانوں کی کہانیوں میں سے یہ کہانی دو امریکی فوجی جوانوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔ ڈیوڈ اپنے ملک کی ہلاکت آمیز پالیسی کا نکتہ چیں ہے۔ مگر جم حکومت کا ایک ایسا ملازم ہے جو حکم کا بندہ ہے۔ ایک فوجی چوکی پر تعیناتی کے دوران وہ ایک مقامی کار کے نہ رکنے پر جم ایک بارہ سالہ مسافر بچے کو گولی مار کے ہلاک کر دیتا ہے۔ مصنف یہ بتانا چاہتا ہے کہ انسانی رویوں میں سب سے طاقتور احساس وہ ہوتا ہے جسے ضمیر کہتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ ہلا دینے والا جرم قتل کا ہوتا ہے۔ قتل کا پچھتاوا سب سے زیادہ قاتل کو ہوتا ہے۔ اس کا جرم اسے خوابوں اور خیالوں میں بھی ڈراتا ہے۔ ‘‘دامِ آگہی‘‘ میں بھی جم تمام وقت اس عذاب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ وہ عورت کے خود کش حملے میں زخمی ہو کر گھر واپس آتا ہے۔ مگر احساسِ جرم برداشت نہ کرنے کی صورت میں خود کشی کر لیتا ہے۔ امریکی عموماً کسی بڑے مقصد کے لئے فوج میں بھرتی نہیں ہوتے۔ شماریات کے مطابق ۵۲ فیصد تک فوجی جوان خودکشی کر لیتے ہیں۔ اس کہانی کے بعض جملے بہت اثر انگیز ہیں۔ مثلاً ‘‘مشین گن کی آواز سے سلامتی کا سناٹا ٹوٹ گیا، اور اس کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی۔ بارود کی بو نے انصاف اور رواداری کے حواس مختل کر دئیے۔ ‘‘
ایک اور کہانی ‘‘پرایا جرم‘‘ بہت حساس موضوع پر لکھی گئی ہے۔ کہانی ایک Autistic بچے کی کہانی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں ایسے بچوں کے بارے میں لوگوں کی معلومات بہت ناقص ہیں۔ ایسے بچوں کے ماں باپ ان کو اپنانے میں ہچکچاتے ہیں۔ بلکہ کچھ دہائیوں پہلے تک تو کچھ والدین ایسے بچوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے انہیں مزار وغیرہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ ڈاکٹر سعید نے کہانی میں Autistic بچے کی کہانی اس کی اپنی زبانی بیان کی ہے۔ Autisitc بچے اندرونِ ذات میں گم رہتے ہیں اور شاید جتنی دیر جیتے ہیں اپنی ہی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ سعید نے اس کہانی کے کرداروں کے ردِ عمل کو گہرے مشاہدے کے بعد تحریر کیا ہے، مثلاً ‘‘اب پڑوسی ہر سیکنڈ کے بعد دزدیدہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے مجھ سے خوفزدہ ہو‘‘ ۔ ‘‘مجھے اجنبیوں سے آنکھیں ملانا پسند نہیں ‘‘ ۔ ایک Autisitc بچہ کس حد تک سوچ سکتا ہے کہا نہیں جا سکتا۔ سعید نے بچے کی اپنی دنیا میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک محنت طلب کام ہے۔ بیک وقت وہ خود کو بچے کی جگہ کھڑا کرتا ہے اور والدین کے احساسات کو بھی محسوس کرتا ہے۔ کسی درد یا دکھ کو آرٹ کی شکل دینا آسان نہیں ہوتا۔ روز افزوں بڑھتے ہوئے اس مسئلے پر قلم اٹھا کر سعید نے ایک اچھا کام کیا ہے۔
کہانی ‘‘بے دخلی‘‘ بھی ایک علامتی کہانی ہے۔ کہانی کا سامنے کا چہرا بظاہر ایک مقروض فرد کا ہے، جو مڈل کلاس غیر ذمہ دار رویے کا مالک اور non productive کردار ہے۔ اور دوسرا کردار قرض دینے والے کا جو طاقت اور سرمائے کی علامت ہے۔ مگر پسِ پردہ ایک مقروض ملک کی کہانی ہے جہاں خرچہ آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ جو ملک اپنی پیداواری صلاحیتوں کو نہیں بڑھاتے وہ بڑی طاقتوں سے مالی امداد لے کر خود کو گروی رکھنے کے مقام پر لے آتے ہیں۔ امریکہ دنیا کی تیس فیصد انرجی کے حقوق قبضائے بیٹھا ہے۔ چھوٹے ملک ان کی بے عملی کے باعث امریکہ کی مٹھی میں ہیں۔ کہانی کا اختتامی جملہ بہت معنی خیز ہے ‘‘گھر اس کا ہوتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے، ورنہ ملکیت بدل جاتی ہے ‘‘ ۔
کہانی ‘‘سخت جانی ہائے تنہائی‘‘ کوئلے کی کان کے حادثے میں کان کنوں کے دب جانے کی کہانی ہے۔ افسانہ نگار نے یقیناً فنی کاری گری سے کان کے اندر اور کان کے باہر کی مشاقانہ تصویر کھینچی ہے۔ کرداروں کے تضادات کو بہت نمایاں کیا ہے۔ نور الدین کا کردار ایک اہم کردار ہے، جس کے اندر عناد بھی ہے اور ہمدردی بھی۔ اس کے اندر قائدانہ صلاحیت بھی ہے مگر اس کے پاس اخلاقیات کو ناپنے کا اپنا ہی پیمانہ ہے۔ کہانی میں جو ہلچل ہے وہ قاری کو اختتام تک مضطرب رکھتی ہے۔ کہانی کا اختتام خوشگوار ہے اور افسانہ نگار نے بڑے لطیف انداز میں بیان کیا ہے ‘‘سوراخ کے ذریعے ایک پرچہ اوپر آتا ہے جس میں درج ہے کہ کچھ دوائیوں کی سخت ضرورت ہے، ساتھ کچھ تاش کے پتے بھیج دو اور یہ سوپ ٹھنڈا ہے اسے گرم کرا کے دوبارہ بھیجو‘‘ ۔
ایک نہایت شگفتہ پیرائے میں لکھی ہوئی بہت بامعنی کہانی ‘‘رعنائی خیال‘‘ ہے۔ یہ ایک مردے کی روح کا عالمِ بالا کے سفر کی روداد ہے۔ یہ کہانی مذہبی ٹھیکیداروں کی دینی تشریحات اور تاویلوں پر ایک طنز ہے۔
Henri Michux (بلجیم) کہتا ہے ‘‘ وہ جو شیطان کو رد کر چکا ہو وہ اپنے فرشتوں سے ہماری جان کھاتا رہتا ہے ‘‘ ۔ سعید کی یہ کہانی بھی یادگار جملوں سے مزین ہے، مثلاً ‘‘پانچ فیصد انتہا پسندی نے پچانوے فیصد میانہ روی کی روح قبض کر رکھی ہے ‘‘ ، یا یہ جملہ دیکھئے کہ فرشتے نے پوچھا ‘‘لکھتے تھے تو کیا پڑھتے نہیں تھے ؟ لکھنے کے لئے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، مجھے اس کی منطق سمجھ نہیں آئی‘‘ ۔ یا یہ کہ ‘‘سیاہ سیاہ ہے اور سفید سفید ہے۔ درمیان کا راستہ دین کا رستہ نہیں ‘‘ ۔ افسانہ نگار جو خواب دیکھتا ہے اپنی حسِ ذکاوت، حسیاتی تجربے اور خیالات سے کہانی کی صورت میں اس خواب کو زندہ کر دیتا ہے۔ Aaron Williamson کہتا ہے کہ صفحے اور آواز کے باہمی عمل سے عبارت اپنے آپ زندہ ہو جاتی ہے۔
سعید کی ایک کہانی ‘‘راہزنِ ایماں ‘‘ فرقوں کے آپسی بعد کا قبرستان میں منظر نامہ ہے۔ جنازے میں شرکت کرنے والوں کی درجہ بندی اور تقسیم کا منظر افسانہ نگار کے مشاہدے کا پتہ دیتا ہے۔ مردے کو سپردِ خاک کرتے وقت، اور مٹی کو مٹی میں ملانے کے بعد بھی لواحقین کے تضادات اپنی جگہ اٹل ہیں۔ کہانی کا دلچسپ حصہ گورکن ہیں جو ہر عقیدے سے مبرا، ہر فرقے کے لوگوں کو دفنائے جا رہے ہیں اور خود گناہ و ثواب کے بوجھ سے آزاد ہیں۔
سعید کی تین کہانیاں انسانی رشتوں کے بارے میں ہیں۔ جہاں کچھ رشتوں کے باہمی تعلقات میں گرم جوشی ہے تو کچھ میں ٹھنڈک اور بے التفاتی۔ کہانی ‘‘دھوپ کی تپش‘‘ باپ بیٹے کی ملاقات کی سادہ سی کہانی ہے۔ مگر قاری کے اندر احساسِ تحفظ کی ایک لہر چھوڑ جاتی ہے۔ قاری خود کو کہانی کے اندر موجود اور ایک دستِ شفقت کے لمس کو محسوس کرتا ہے۔ یہ کہانی پڑھنے سے زیادہ محسوس ہونے والی کہانی ہے۔ مجھے ایک دم ایک چینی شاعر Shikawa Takubuko کی اپنی بیٹی کے بارے میں ایک چھوٹی سی نظم یاد آ گئی:
جانے کیا تھا جس نے اس کو اکسایا
اپنا کھلونا پھینک کے اک جانب
آرام سے میرے پاس وہ آ کر بیٹھ گئی
کہانی کو پڑھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ ماں باپ کی موجودگی جیسے آسمانی سخاوت ہو۔ پوری کہانی تعلق کی خاموش حرارت سے دہکتی ہے۔ پیلے ربن کو درخت سے باندھنا بیٹے کے کسی مسئلے یا الجھن کی علامت ہے۔ اور جس کو والد سے ملاقات کے بعد وہ کھول دیتا ہے۔ گویا باپ کی موجودگی سے ساری تاریکی چھٹ گئی۔ اس کہانی کی بنت بہت خوبصورت ہے اور جملوں کا استعمال جو اس مصنف کا خاصہ ہے ‘‘ بڑھ کر ان سے بغل گیر ہوا تو لگا اپنے آپ سے مل رہا ہوں ‘‘ ، یا یہ کہ ‘‘شاید ان کی آواز میں اپنی آواز کی بازگشت سنائی دی‘‘ ۔ اس مجموعے میں سعید کی اور بھی بہت سی کہانیاں شامل ہیں، جس میں اس نے انسانی مسائل اور مصائب کے مضامین باندھے ہیں جو نوعِ انسانی کو سہنے پڑ رہے ہیں۔ اس نے وہ لکھا ہے جس کو لکھنے کے لئے جرات چاہیے، اور ایسی باتوں پر قلم اٹھایا ہے جو کہنا مشکل ہیں۔
سعید کے اندر ایک جوت ہے۔ بقول Robin Dario ‘‘وہ حساس دل جو دنیا کے لئے دھڑکتا ہے، وہ انسانیت کا بیمار ہے ‘‘ ۔ سعید کے پاس ابھی کہنے کو بہت کچھ ہے۔ بہت سارے بند اسرار کے ڈاٹ کھلنا باقی ہیں۔ ابھی کئی جزیروں کو سمندروں سے باہر نکال کر لانا ہے، کئی حیرتیں صفحوں پر آنے کے لئے کسمسا رہی ہیں۔
٭٭٭