۔۔۔۔۔۔ دل سنبھل تو جائے گا پر سنبھلے نہیں ۔
تم ہی کوئی رستہ دکھلاؤ نا ۔۔۔۔۔
بس یہی میں چاہوں کوئی بات کرو ۔۔۔۔۔
ہے سونا من تجھ بن آؤ ناں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
تورے نام کردوں جو بھی ہے مجھ میں ۔۔۔۔
تورے نام کردوں جو بھی ہے مجھ میں ۔۔۔۔۔۔
بولے بولے دل تیرا نام مجھ میں بولے بولے دل ۔۔۔۔
۔ گاڑی کے سٹیریو سے گونجتی عاطف اسلم کی آواز کو اس نے ہاتھ مار کر بند کر دیا ۔۔۔۔ ماتھے پہ تیوری چڑھی ہوئی تھی ۔۔ "" سارے فساد کی جڑ ہی یہ بے غیرت دل ہے ۔۔۔ "" بہ آواز بلند بڑ بڑاتے ہوئے گاڑی کی بریک پر پاوٴں کا دباؤ ڈالتے ہوئے ہارن مارا ۔۔۔۔ دوسرے لمحے ہی گیٹ کھلتا چلا گیا ۔۔۔ اس نے پورچ میں کھڑی پہلی ایک گاڑی کے برابر میں لاکر اپنی کار کا انجن بند کر دیا ۔۔۔ ۔ ساتھ والی سیٹ پر رکھا اپنا موبائل اور جیکٹ اٹھا کر باہر نکل ا۔۔۔ "" آج آپ اتنی دیر سے کیوں آئے ہیں ۔۔۔ ؟؟ "" اندر کی طرف جاتے اسکے قدم عاقب کے سوال پر تھم گئے ۔۔ مڑ کر عاقب کو دیکھا ۔۔ "" محترم جناب عاقب صاحب! میں آزاد ملک کا ایک آزاد شہری ہوں ۔۔۔۔۔ اسلیے جب میرا جی چاہے گامیں اس وقت گھر آؤنگا ۔۔۔ میں تمہیں جواب دینے کا پابند ہوں ہی نہیں ۔۔۔ "" ایڑیوں پر گھوم کر قدم پھر سے آگے بڑھا دیئے ۔۔۔ عاقب کی آواز پھر آئی ۔۔۔ "" تو آج موڈ خراب ہے ۔۔۔۔ کیا آفس میں کسی سے جھگڑا ہو گیا ۔۔ ؟؟؟ "" اس نے موبائل سٹنگ روم کے ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھا ۔۔ "" او یار !میرا موڈ نہیں، میں بذات خود سر سے پاؤں تک ایک خراب بندہ ہوں ۔۔۔ اور جھگڑا کیوں ہو گا میرا کسی کے ساتھ۔۔۔ تمہیں میں کوئی جھگڑالو قسم کا انسان لگتا ہوں کیا ؟۔۔۔ "" ہاتھ میں پکڑی جیکٹ بھی یونہی صوفے پر پھینک دی ۔۔۔ عاقب نے اسکی گاڑی میں سے نکالا اسکا بریف کیس لیجا کر سیدھا اسکے بیڈ روم میں رکھ دیا جبکہ وہ کھڑے کھڑے ہی ریموٹ اٹھا کر چینل بدلنے لگا ۔۔۔۔ عاقب کمرے سے باہر آتے ہوئے پھر نہ چپ رہ سکا ۔۔۔۔ "" ویسے اگر امثال باجی یہاں آجائیں تو آپ تب بھی کیا ایسے ہی سڑو قسم کے رہیں گے ۔۔۔ "" اسکے لب بھینچ گئے ۔۔ بری طرح عاقب کو گھورتے ہوئے وارن کیا ۔۔۔ "" اس وقت میرے سامنے اس عورت کا نام مت لو ۔۔۔ اور وہ یہاں میرے پاس کیا لینے آئے گی اسکا سب کچھ تو ادھر ہے جہاں وہ رہتی ہے ۔۔۔ میں اسکے لئے ہوں ہی کیا۔۔۔ بقول شاعر "" زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا ۔۔۔۔ دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا ۔۔۔۔ "" ۔۔۔ عاقب نے ساتھ ہی توبہ استغفار پڑھنا شروع کر دیا ۔۔ "" مریں آپکے دشمن !!! ۔۔۔ ۔۔ "" ابسام نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔ "" ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔۔ اور جانتے ہو میرا سب سے بڑا دشمن کون یے ۔۔۔۔۔ میرادل ۔۔۔۔۔۔ ایسا کوئی بے غیرت دل ہے دن میں نہ جانے کتنی دفعہ صرف اسکے لئے دھڑکتا ہے جسکو ہفتوں کبھی میرا خیال بھی نہیں آیا ہوگا ۔۔۔۔ خیر، ایم سوری یار! آج میں سارا دن بہت اپ سیٹ رہا ہوں ۔ اسی لئے تمہارے سامنے یہ ساری بکواس کر رہا ہوں ۔ میری باتوں پر غور نہ کرنا۔ میں بس تھوڑا فیڈ اپ ہوں ۔۔۔۔۔ تم کھانا نکالو !میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔۔۔۔ "" ۔۔۔۔ بیڈ روم کا دروازہ کھولتے ہی سیدھی نظر اس پہ پڑی ۔۔۔ آج بھی اس نے ایک نظر بھی اس پر نہ ڈالی ۔۔۔۔ اپنے پیچھے دروازہ بند کرنے کے بعد وہ آکر اسکے عین سامنے صوفے پر نیم دراز ہوگیا ۔۔۔ ڈارک گرے ٹراوزر پہ سفید شرٹ کے اوپر سرخ ٹائی میں وہ تھکا تھکا ساآنکھیں بند کرکےچند منٹ تک یونہی پڑا رہا ۔۔۔ پھر آنکھیں کھول کر اسکی جانب دیکھنے لگا تو ایک ٹک دیکھتا چلا گیا۔۔۔ کافی دیر بعد اٹھا جوتے اتارے اور واش روم کے سلیپر پہن کر دروازے کے پیچھے غائب ہوا تو امثال نے کب سے روکی ہوئی سانس خارج کی ۔۔۔۔۔ اسکی کی گئی ساری باتیں امثال کا بلڈ پریشر بڑھا رہی تھیں مگر وہ عاقب کے دئیے گئے واسطوں کی خاطر خا موش چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی ۔ ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کر رہی تھی جس وقت واش روم کے لاک کھلنے کی آواز آئی فوراً ہاتھ پہلو میں گر گیا ۔۔ وہ باہر آیا تو آف وائٹ شلوار سوٹ میں ملبوس تھا ۔۔۔ گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتا اسکے ساتھ آکر بالکل پاس بیٹھ گیا ۔۔ تولیا ایک طرف اچھال کر بولا تو نظریں نیچی اور لہجہ ہارا ہوا تھا ۔۔ "" امثال تم ایک ہی دفعہ مجھے بتا کیوں نہیں دیتیں کہ تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ؟؟ ۔۔ "" کچھ دیر چپ رہنے کے بعد پھر بولا ۔۔۔ "" امی کہتی ہیں کہ مجھے لاہور تمہارے پاس رہناچا ہیے ۔۔۔ اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں انہیں کیسے بتاوں کہ یہاں تو تم میرے ساتھ ہوتی ہو وہاں جاتا ہوں تو بہت دور بہت اجنبی نظر آتی ہو ۔۔۔ جب پرسوں میں نے تم سے ریکویسٹ کی تھی کہ یہاں آجاو ٹکٹ بھی کر وادی تھی ۔۔ پھر کیوں نہیں آئی ہو ۔۔جب صبح سے ابو نے کال کرکے بتایا ہے کہ ہفتے دو بعد شائد آؤ میں تب سے خود سے لڑ رہا ہوں ۔۔۔ آج سارا دن کام کرنے کا بالکل من نہیں کیا پر تم سے بچنے کے لئے آفس میں جھک مارتا رہا ہوں۔ گھر لیٹ بھی تمہاری وجہ سے ہی آیا ہوں ۔۔۔ ۔۔ کیونکہ مجھے پتا تھا سامنے بیٹھی ملوگی ۔۔۔ تم نے میرے لئے وہ کہاوت بالکل سچ کر دی ہے ۔۔ کہ دریا کے پاس پیاسا ۔۔۔۔ میں ہوں وہ ۔۔۔۔ تم سامنے ہوتی ہو بیٹھی رہتی ہو ہاتھ بڑھا کر پکڑنے کی دیر ہوتی ہے وہیں غائب ہو جاتی ہو ۔۔۔۔ "" وہ نہ جانے اور کیا کچھ بتاتا مگر امثال کا ضبط جواب دے گیا اس سارے وقت میں پہلی دفعہ سر اٹھا کر اس سے مخاطب ہوئی تو وہ اچھل پڑا ۔۔۔۔ "" تمہارا کھانا کمرے میں ہی لاوٴں یا باہر بیٹھ کر کھاؤ گے؟ ۔۔۔۔ ""
۔اسکے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ کمرے کا دروازہ کھو ل کر باہر نکل گئی ۔۔ وہ اپنی جگہ بیٹھا سوچنے لگا کہ یہ ہوا کیا ہے ۔۔ پھر لگا شائد میرا الوژن اب حد سے بڑھ گیا ہے جو آج وہ باتیں بھی کرتی نظر آئی ۔۔ "" عاقب ۔۔۔۔ !!! ... "" اگلے پل عاقب بوتل کے جن جیسے حاضر ہوا دانت نکالتے ہوئے ۔ "" جی بھائی ۔۔ "" وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا ٹھوڑی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے عاقب کی بتیسی کو گھورا ۔۔۔ دونوں ہاتھ پشت پر باندھتے ہوئے ۔۔ پوچھا ۔۔ "" کیا ہم دونوں کے علاوہ وہ بھی یہاں موجود ہے ۔۔ ؟؟ .. ۔۔ عاقب کی معصومیت دیکھنے لائق تھی ۔ "" وہ کون ۔۔۔ ؟؟, "" وہ چلتا ہوا آ کر عاقب کے سر پر کھڑا ہو ۔۔۔"" کچن میں کون ہے ۔۔ ؟؟ "" انتہا کی سنجیدگی تھی اور عاقب کی بتیسی ۔۔۔ "" کچن میں باجی امثال ہیں ۔۔ "" وہ بے ساختہ ایک قدم پیچھے ہٹا ۔۔۔ "" وہ کب آئی ۔ ؟؟ .. "" عاقب نے بتایا ۔۔۔ "" شام چار بجے کی فلائٹ سے ۔۔ اسی سیٹ سے جو آپ نے بک کروائی تھی ۔ آپکے ابو کی صبح کال آئی کہ آپکو ائیرپورٹ بھیج دوں ۔ پر بھائی آپکو سرپرائز ڈ دیکھنے کے چکر میں نہیں بتایا ۔ "" ابسام نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔ "" تمہارا سرپرائز تو اچھا ثابت ہوا ہے ۔ اسکا مطلب ہے اس نے میری کی گئی ساری بکواس بھی سنی ہے ۔۔۔ "" ابسام کی شکل دیکھ کر عاقب کی ہنسی نکل گئی ۔۔ "" یہی تو میرا مقصد تھا بھائی جو آپکے کمرے سے کبھی کبھی باتوں کی آوازیں آتی ہیں وہ انکے تصور کی بجائے آج براہ راست ان سے ہوں ۔۔۔ "" اس نے نرم نظروں سے عاقب کو گھورا ۔۔۔ "" یہ بات اسکے سامنے کی نا تو جوتے کھاؤ گے! چلو اب کھسکو یہاں سے ۔ اچھا خاصا بدھو فیل کر رہا ہوں ۔۔۔ "" عاقب اپنی ہنسی دباتا نکل گیا ۔۔ "" میری باجی نے کھانا لگا دیا ہے صاحب ! آکر کھا لیں ۔۔ "" عاقب اتنا کہہ کر بھاگ لیا ۔۔ "" باجی کا بچہ ۔۔۔ "" اس نے ہاتھ پھیر کر بال سیٹ کیے ۔۔۔ ۔ پھر خود سے کہا ۔۔ "" چلو بچارے ترسے ہوئے شوہر ! بیوی کے ہاتھ کا نکلا کھانا کھاؤ ۔۔۔ "" اپنی بات پر دلکشی سے مسکراتا کمرے سے نکل کر ڈائننگ ٹیبل تک آیا ۔۔ کھانا لگانے کے بعد وہ پانی کا جگ رکھ رہی تھی ۔ وہ خاموشی سے چِیئر کھینچ کر بیٹھ تو گیا مگر کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائے ۔ امثال جو کہ وہاں سے ہٹنے کا سوچ رہی تھی ۔ اس کے اس ردعمل پر بادل نخواستہ کرسی کھینچ کر بیٹھنے کے بعد پلیٹ میں چاول نکال کر تھوڑا سا رائتہ ڈالنے کے بعد کھانے لگی ۔ ابسام اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے پلیٹ میں سالن ڈال کر چپاتی کھانے لگا ۔۔ کھانا خاموشی میں کھایا گیا ۔ عاقب نے آکر برتن اٹھائے اور چائے کا پوچھا ۔ ابسام نے انکار کر دیا ۔۔ جبکہ امثال نے اپنے لئے خود ہی چائے بنا لی ۔ ابسام سٹنگ روم میں ٹی وی کھول کر امثال کا انتظار کرنے لگا جو کہ کچن میں برتن دھوتے عاقب کے ساتھ باتوں کے دوران اپنی چائے پی رہی تھی ۔ "" جتنے دن میں ادھر ہوں تم کاموں کی فکر چھوڑ کر اپنے امتحانات کی تیاری کرو ۔۔ کل سے میں یہ سب دیکھ لونگی ۔۔ "" عاقب نے جواب میں کانوں کو ہاتھ لگائے ۔۔ "" توبہ استغفار ! کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔۔ ایسا تو عاقب کی موت کے بعد ہی ہوگا کہ عاقب کی باجی یہ سارے کام کرے ۔۔۔ اور ویسے بھی کھانا پکانےکے علاوہ برتن دھونے کا مجھے جنون ہے ۔۔۔ اگر یہ کام نہ کروں تو سبق بھی یاد نہیں ہوتا ۔۔۔ سبق یاد نہ رہا تو فیل ہو جاوٴ نگا۔ فیل ہو گیا تو ابسام بھائی نے جو سارا خرچہ کیا ہے وہ تو ضائع جائے گا ہی اوپر سے بزتی الگ ہوگی ۔ انکے تو سبھی کولیگ و ماتحتوں کو علم ہے کہ میں اس سال سیکنڈائر کے پیپر دے رہا ہوں ۔۔۔ اندازہ لگا کر بتائیں ذرا! آپ کے کام کرنے کا مجھے کس قدر نقصان اٹھانا پڑے گا ۔۔۔ اور میری اماں جو میری چٹنی بنائیں گی وہ الگ ہے ۔۔۔ "" امثال نے ہنستے ہوئے اپنا کپ سنک میں رکھا اور اسکو شب بخیر کہتی باہر آگئی ۔ وہ تو کچن میں دیر لگا کر آئی تھی کہ ابسام اپنے کمرے میں جاچکا ہو گا اور اس سے سامنا کرنے سے بچ جائے گی ۔ مگر وہ نہ صرف باہر ہی موجود تھا بلکہ اسی کا منتظر بھی تھا ۔ وہ اسکو اگنور کرتی اس کمرے کی طرف بڑھ گئی جو اس نے اپنے لئے چنا تھا ۔ اسکا سامان بھی ادھر ہی موجود تھا ۔ اس نے بیگ میں سے سادہ سا گرم سوٹ نکالا اور واش روم کا رخ کیا ۔ لباس بدنے کے بعد جلدی جلدی دانتوں کو برش کیا اور باہر آگئی ۔ عشا کی نماز وہ کب کی پڑھ چکی تھی ۔ ویسے بھی اب تو ساڑھے بارہ ہو رہےتھے ۔ فوراً لائٹ اور دروازہ بند کرتی بستر میں گھس گئی ۔ یہاں لاہور کے مقابلے میں ٹھنڈ بھی زیادہ تھی ۔ ہر طرف سے ذہن کی کھڑکیاں بند کرکے ساری توجہ سونے پہ مبذول کی ۔۔۔ باہر سے ٹی وی بھی خاموش ہوگیا تھا ۔ جس کا مطلب تھا ابسام بھی اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔ تھا ۔ یہ سوچ ہی اس قدر سکون بخش تھی کہ اس پر نیند غالب آنے لگی ۔۔ تب ہی دروازہ وا ہوا اور اندر آنے والے نے ساری روشنیاں جلا کر بیڈ کے قریب پڑی کرسی کو اپنی مطلوبہ جگہ پر رکھا اور اس پر بیٹھنے کے بعد ٹانگیں بیڈ پر رکھ کر نیم دراز ہوگیا فوکس سارا امثال پر تھا ۔ جس نے برا سا منہ بناتے ہوئے اپنا سر بھی کمبل کے اندر کر لیا ۔۔ "" او کم آن امثال !سیریسلی تم اتنا سفر کرکے یہاں سونے آئی ہو ۔۔....Woman we need to talk .....
"" بستر کے اندر سے ہی اسکی جھنجلائی ہوئی آواز آئی ۔ "" ضروری تو نہیں کہ آج ہی بات ہو۔ اگلے چند دنوں تک میں ادھر ہی ہوں کل کر لینا جو بھی بات ۔۔۔۔ """ اسکی بات منہ میں ہی تھی ابسام نے ایک جھٹکے سے اسکےاوپر پڑا کمبل کھینچ کر کمرے کے دوسرے کونے میں پھینک دیا ۔۔۔ وہ اس سے اس عمل کی توقع ہی نہیں کر رہی تھی ۔ ہکا بکا رہ گئی ۔ پہلا خیال دوپٹے کی طرف گیا جو کہ اسی کرسی پر رکھا تھا جہاں وہ برا جمان تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔امثال کی سمجھ میں نہ آیا کہ فوری طور پر کیسے خود کو چھپائے تیزی سے بیڈ سے اتر کر کھلے پڑے بیگ میں سےشال پکڑ کر اوڑھی ۔۔۔ اور غصے سے بھری اسکے سامنے آبیٹھی جس پر ابسام نے بیڈ پر رکھی ٹانگیں نیچے رکھ لیں ۔۔ ۔ "" مسٹر ابسام سکندر ! یہ ایک انتہائی گھٹیا ترین حرکت تھی ۔ اور کون فضول لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ تم بہت سلجھے ہوئے سوبر انسان ہو بولتے تو ہو ہی نہیں ۔۔۔ میرے ساتھ تو یہ دوسرا واقعہ ہے کہ تمہاری باتیں ہی ختم نہیں ہو رہی ہیں اور سوبر پن اتنا بھی نہیں کہ کسی کے کمرے میں آنے سے پہلے اجازت ہی لے لی جائے ۔۔۔۔ "" امثال کے غصے کے جواب میں وہاں گرم نرم سی مسکراہٹ تھی ۔۔۔ "" تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ مجھے تمہارے سوا کسی اور سے باتیں بگاڑنے کا رتی بھر شوق نہیں ہے تم الٹا غصہ کر رہی ہو ۔۔۔ اور میں مالک ہوں اس گھر کا ! جس کمرے میں جی چاہے جا سکتا ہوں ۔ اجازت مانگوں اور وہ بھی اپنی ہی بیوی سے ؟ واٹ ربش !!! ۔۔۔۔ کوئی اور اعتراض ۔۔ ؟؟ ... "" ۔۔ امثال کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی گہری ہو گئی ۔۔ "" ویسے تم ٹھیک ہی ہو ۔ ہمیں ایک ہی دفعہ بات کرکے اس موضوع کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہئے ۔۔۔ پہلے میں اپنا مسئلہ تمہارے سامنے رکھتی ہوں ۔ مسٹر جینئس ہو نا! تو نکالو کوئی حل ۔۔۔۔ ساتھ تمہارے میں رہنا نہیں چاہتی ۔۔۔۔۔ اور اپنے ماں باپ کی وجہ سے علیحدگی اختیار کر نہیں سکتی ہوں ۔۔۔ تو بتاؤ، مجھے کیا کرنا چاہئے ؟۔۔۔ "" ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایک ہاتھ کرسی کے ہتھے اور دوسرا ٹھوڑی کے نیچے رکھے گہری نظروں سے اسکا جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔ "" میرے ساتھ رہنے میں مسئلہ کیا ہے ۔۔۔ ؟؟ "" ... ۔۔ جواب میں امثال نے ہمت کرکے براہ راست اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔۔"" میں نہیں جانتی کہ کیوں تم اتنے بھولے ہونے کی ایکٹنگ کر رہے ہو اور یہ سب پیار و محبت کی باتیں ! کیا ہے یہ سب ۔۔۔۔ ؟؟؟ "".... ۔۔ان سب باتوں سے تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو ۔۔۔ کیونکہ جو حقیقت ہے وہ تم بھی جانتے ہو اور میں بھی جانتی ہوں ۔ تو پھر یہ دھوکہ دہی کس لئے ۔۔۔۔ اسلیے میں نے اس سب کا ایک ہی حل سوچا ہے کہ تم مجھے لاہور ہی رہنے دو اوریہاں اپنی مرضی سے شادی کر لو ۔۔۔۔ خالہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے اور جب مجھے کوئی اعتراض نہیں تو پھر کسی اور کی اہمیت ہی کیا رہ جاتی ہے زندگی تمہاری ہے تمہیں اپنی مرضی اور پسند سے جینی چاہئے ۔۔۔ "" ۔۔۔ ابسام نے دو بار تالیاں بجائیں ۔۔ "" تمہیں تو وکیل ہونا چاہئے تھا امثال اعجاز ۔ کیا خوب تقریر کرتی ہو ! ۔۔۔۔۔ مگر یہ زیادتی نہیں کہ ایک طرف تم مجھے میری اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے پر لیکچر دو اور پھر مجھے میری رضا بھی عطا نہ کرو ۔۔۔۔۔ میں کن الفاظ یا کس زبان میں کہوں گا تو یہ بات تمہاری موٹی کھوپڑی میں بیٹھے گی کہ میری چاہت تم ہو ۔۔۔۔ میری مرضی تم ہو ۔۔۔۔ اتنے کھلے الفاظ میں بتا چکا ہوں پھر بھی تم میرا اعتبار کیوں نہیں کرتی ہو ۔۔۔۔۔۔ اب کیا فلمی ڈائیلاگ ماروں ۔۔۔ چاند تارے توڑ لانے کی قسمیں کھاؤں ۔۔۔ یا تمہارے ہجر میں گزرے دنوں پر داستان عشق لکھوں ۔۔۔ کوئی ایسا عمل جو میری کی گئی ساری بکواس کو حقیقت ثابت کردے ۔۔۔۔ "" امثال کے آنسو دیکھ کر اس نے سر پیٹ لیا ۔۔۔"" چلو اب رونے بیٹھ جاؤ۔۔۔ یعنی حد ہو گئی ہے! ادھر بات شروع کرو ادھر بارش شروع ہو جاتی ہے ۔۔۔ "" امثال نے آنکھوں کو سختی سے پلو کے ساتھ رگڑا ۔۔۔۔ "" تو اور کیا کروںَ ۔۔۔حقیقت بھی تو مجھے ہی پتا ہے تو رونا بھی تو میں نے ہی ہے ناں ۔۔۔۔ تم نے یہ شادی کی ہی مجھ سے انتقام لینے کے لیے ہے ۔۔۔ اور مشکل یہ ہے کہ کسی کو یہ نظر ہی نہیں آتا۔ میرے ابو تک تمہیں بڑا شریف سمجھ رہے ہیں ۔۔۔ "" اس نے حیرت سے اپنے سامنے کالے اور سرخ امتزاج میں ملبوس آنسو بہاتی عورت کو دیکھا ۔۔ "" اچھا یہ تو بتاؤ کس قسم کا انتقام بنتا ہے تمہاری طرف میرا ۔۔۔۔ "" .. ۔۔ امثال نے زورو شور سے بتانا شروع کیا ۔۔۔ "" ابو نے تمہیں نکھٹو بولا تھا اور میری شادی کہیں اور کر دی اب خالہ نے تمہارا میری محبت میں مجبورہو کر نکاح پڑھوادیا ۔۔۔ اور وہ کیا تھا ۔۔ ٹھہرو ابھی دیتی ہوں میں نے اسی لمحے کے لئے سنبھال کر رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔"" اٹھ کر ابسام کی تعاقب کرتی نگاہوں کو نظر انداز کرتی جاکر اپنے ہینڈ بیگ کی اندرونی جیب سے سنبھال کر رکھا ہوا چیک نکال لائی ۔۔ لاکر اسکی گود میں پھینک دیا ۔۔۔۔ .. "" اتنا بڑا حق مہر رکھ کر لوگوں کو یہ بتانے میں تو کامیاب رہے ہو کہ انہوں نے اسی دولت کے لئے بیٹی کہیں اور بیاہی تھی آج میرے پاس ہی واپس آگئی ۔۔ اور کچھ لوگ تو یہی سمجھتے ہونگے ناں کہ تمہارے نکاح میں آئی ہی اتنے حق مہر کی وجہ سے ہوں ۔۔۔۔ "" وہ تو سوچ رہی تھی اب بھانڈا پھوٹ گیا ہے تو گھبرا جائے گا مگر وہ اسی تحمل سے بیٹھا رہا ۔۔۔ بلکہ پوچھا "" اور کچھ ۔۔ ؟؟ ... ۔"" امثال نے ناراضگی سے نظر پھیر لی اعلیٰ درجے کی ہٹ دھرمی تھی ۔۔ "" پہلی بات تو یہ کہ شادی کی بات مجھ سے امی ابونے نہیں بلکہ میں نے ان سے کی تھی ۔۔۔ ۔ دوسری یہ کہ تمہارے ابو سے تمہارا رشتہ پہلے میں نے خود مانگاتھا پھر امی لوگوں کو تمہارے گھر بھیجا گیا ۔۔ اور تیسری بات یہ کہ تمہارے مسلسل انکار کو اقرار میں بدلنے کے لئے اعجاز ماموں کو آئی سی یو کا چکر لگانے کا مشورہ بھی میں نے دیا تھا ۔۔ جب تم لوگ باہر لابی میں رو دھو رہی تھیں ۔ میں اور ماموں اندر بیٹھے ڈرائی فروٹ اور چائے کا لطف اٹھا رہے تھے ۔۔ اور اب آ جاتے ہیں تمہارے اس چیک کی طرف ۔ تو بیگم! کیا تمہیں میری ماہانہ تنخواہ کا علم ہے ۔۔ ؟؟ .. ۔۔ یقیناً نہیں ہے ۔۔ .. ۔ اب دماغ کی تسلی ہوئی کہ نہیں ۔۔ ؟؟؟ ... "" .. ۔۔۔ امثال کو یقین نہ آیا مگر ابسام کے چہرے پہ لکھا تھا کہ اس کا کہا ہر حرف سچ ہے ۔۔۔ "" کیا انہی باتوں کو سر پہ سوار رکھ کر اینٹی ڈیپرسنٹ کھا رہی ہو اور وہ جو نروس بریک ڈاوٴن ہوا تھا ۔۔ "" امثال نے اسے درمیان میں ٹوک دیا ۔۔۔ "" اگر تمہارے مطابق یہ شادی تمہاری مرضی سے ہوئی تھی تو تم خوش کیوں نہیں تھے ۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم نے نیا سوٹ تک نہیں بنوایا تھا ۔ اور مووی میں بھی سارا وقت سڑی سی شکل بنا کر بیٹھے ہوئے ہو ۔۔۔ "" ابسام کی ہنسی نکل گئی ۔۔ "" چلو ایک بات تو ثابت ہوئی ! براہ راست نہ سہی مووی میں توتم مجھے غور سے دیکھتی رہی ہو ۔۔۔ اور رہا تمہارا سوال تو بھئی کیوں اتنا بن ٹھن کر جاتا مجھے کونسا روایتی انداز میں تیار اور منتظر بیوی ملنے والی تھی ۔ جس طرح تم سے تین دفعہ ہاں کہلوانے کے لیے سارے پاپڑ بیلنے پڑے تھے ۔ میرا تو موڈ ہی سخت آف تھا ۔ وہ نکاح تم نے مجبور ہوکر قبول کیاتھا ۔۔ جب اپنی خوشی اور مرضی سے مجھے قبول کرو گی ۔۔تب میں بھی خوشی کا اظہار کروں گا ۔ ۔۔۔ "" امثال کچھ دیر تک پیر کے انگوٹھے سے کارپٹ کو کھرونچتی رہی ۔۔۔۔ "" تمہاری ساری وضاحتوں ، دلیلوں اور اظہارے محبت سننے کے بعد بھی اگر میں یہ کہوں کے میں اس رشتے سے خوش نہیں ہوں آزادی چاہتی ہوں تو ۔۔۔ ؟؟؟ ... "" ابسام کے چہرے اورآنکھوں سے ساری مسکراہٹ غائب ہو گئی ۔۔ .. "" ۔ کیا؟ ۔۔۔۔۔