امی چلیں نا! پہلے ہی زیاد کے صبح سے تین فون آچکے ہیں ۔ وہ ابھی لینے آنا چاہ رہا ہے ۔ میں نے شام تک کی اجازت لی ہے ۔ اور اب اگر اس کے آنے کے وقت میں گھر میں ہونے کی بجائے مارکیٹ میں گھوم رہی ہوئی تو ڈانٹ پڑنی پکی ہے ۔۔ "" عمارہ نے سر پیٹ لیا۔۔ "" ثمرہ میں سخت تنگ ہوں تمہارے ان کاموں سے ۔ دو دن سے تم جارہی ہو بازار اور پھر بھی تمہاری چیزیں نہیں پوری ہوئی ہیں ۔چڑی کے بوٹ سا تمہارا بچہ الگ پریشان ہوتا ہے اوپر سے اس وقت گھر پہ آپا اور اعجاز بھائی آئے ہوئے ہیں ۔ انکو اکیلا بٹھا کر میں گھر سے نکل جاؤں؟ کوئی عقل سے کام لیا کرو اور ایسی کوئی ایمرجنسی نہیں ہے کہ سب کچھ ابھی ہی آئے ۔ جو چیزیں رہ جائیں گی ۔ بعد میں ہم خرید کر واصف کے ہاتھ بھیج دیں گے ۔ اب جاؤ، جاکر اپنا سامان پیک کرو پھر زیاد غصہ کرے گا جب عین وقت پر چیزیں اکٹھی کرنے بیٹھو گی ۔۔ "" عمارہ کی باتوں پر ثمرہ صبر کے گھونٹ بھرتی بولی ۔۔۔ "" سامان امثال نے سارا پیک کر دیا ہوا ہے ۔۔ "" عمارہ کی تیوری چڑھ گئی ۔ "" میری بیٹی کی طبعیت ابھی پوری طرح سنبھلی بھی نہیں اور تم نے اپنے کام اس کے سر ڈال بھی دیئے ۔ "" ثمرہ نے ناک سے مکھی اڑائی ۔ "" معاف کیجیے گا مگر آپ کی جو بیٹی ہے نا، مجھے تو کسی کام کو ہاتھ تک نہیں لگانےدیتی کہ جیسے قیامت ہی آ جائے گی ۔ "" عمارہ گہری سانس کھینچ کر رہ گئیں ۔ کیونکہ ثمرہ سچ ہی کہہ رہی تھی ۔ ثمرہ نے ماں کے چہرے پر اداسی دیکھی تو اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے پاس آگئی ۔ "" آپ امثال کو سمجھاتی کیوں نہیں ہیں ۔ سات ماہ پورے ہوگئے ہیں ان لوگوں کی شادی کو اور اس دن پہلی دفعہ بھائی نے براہ راست امثال کو مخاطب کیا تھا ۔ اور اسکا جو نتیجہ ہوا آپ نے بھی دیکھ لیا ہے ۔ اب بالکل ٹھیک سب کے ساتھ ہنس بول رہی ہوگی ابھی بھائی آجائیں تو دیکھئے گا اسکے چہرے کا رنگ ہی بدل جاتا ہے ۔ "" عمارہ نے اداسی سے سر اثبات میں ہلایا ۔ "" میری تو خود سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں ۔ تم ذرا ابسام کا نمبر ملاؤ نا! اسکی تو خبر لوں ۔۔ "" ثمرہ نے پرس سے اپنا موبائل برآمد کیا۔۔ "" ابھی تو آفس میں ہونگے ۔ہوسکتا ہے فون نہ اٹھائیں ۔ "" ثمرہ نے نمبر ملایا اور چوتھی بیل پر ہی اس نے فون اٹھا لیا تھا۔۔ "" اسلام علیکم ہمشیرہ خیریت جو اس وقت کال کی ۔۔ "" ثمرہ کے چہرے پہ مسکراہٹ دوڑ گئی کیونکہ وہ اسے ہمیشہ شام کے وقت ہی فون کرتی تھی ۔ "" آپکی بیگم صاحبہ آپکے لئے اداس ہو رہی تھیں کہ بہت دن سے اپنے سرتاج کی آواز تک نہیں سنی میں نے سوچا آ پ سے انکی بات کروا کر نیکی ہی کما لوں ۔۔ "" دوسری طرف خاموشی چھا گئی بات تو وہ کوئی اور کرنے جا رہی تھی مگر اسی وقت امثال کو دیکھ کر شرارت سوجھی جو کہ عمارہ کو سکندر کا پیغام دینے آئی تھی کہ وہ آپکو باہر بلا رہے ہیں ۔ "" خالہ جانی آپکو باہر بلا رہے ہیں ۔ " "" لائن کی دوسری طرف بھی یہ آواز گئی تھی ۔ دھڑکنوں میں کچھ اتھل پتھل ہوئی تھی ۔ ثمرہ نے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر فون امثال کے حوالے کیا ۔"" بھابھی اگر اس گھر کے کسی فرد سے تھوڑی سی بھی محبت ہے نہ تو پلیز لائن مت کاٹنا ۔ ہم سب کا اتنا خیال رکھتی ہو ہمیں بھی تو موقع دو اپنے لئے کچھ کرنے کا ۔ ان کے رو برو ہوکر بات نہیں کرنی تو نہ کرو دونوں فون پر تو حال احوال پوچھ سکتے ہو ناں ۔ بھائی تم بھی پلیز فون بند مت کرنا ۔۔۔ "" اپنی بات مکمل کر کے ثمرہ نے عمارہ کا ہاتھ تھاما ۔۔ ""آئیں امی باہر خالہ لوگوں کے پاس چل کر بیٹھتے ہیں ۔ اگلے لمحے وہ باہر نکل کر دروازہ باہر سے بند کر گئی ۔ امثال ہکا بکا اپنی جگہ کھڑی رہ گئی ۔ جس ہتھیلی پہ فون رکھا تھا وہ ہتھیلی بری طرح کانپ رہی تھی ۔ وہ کبھی بند دروازے کو دیکھتی کبھی ہتھیلی پر رکھے فون کو۔ اچانک فون کی تاریک سکرین روشن ہوئی تو سامنے وہ تھا ۔ تھری پیس سوٹ پر سوبر سا ہیر سٹائل خوبصورت چہرے پہ نرمی کا تاثر ۔ امثال کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ بھی اسکو دیکھ رہا تھا ۔ فون کو سامنے رکھ کر کتنی دیر تک اسکے چہرے کو دیکھتی رہی ۔ جو کہ بے حس و حرکت نظر آرہا تھا ۔ جب امثال کو یقین ہونے لگا کہ وہ لائیو نہیں بلکہ اسکی تصویر نظر آرہی ہے تو دوسری طرف اسکے وجود میں حرکت پیدا ہوئی ۔ اچانک پیچھے کچھ آوازیں آئی تھیں جیسے کوئی دروازے پہ ناک کرکے اندر آیا ہو ۔۔ ابسام نے فون کی سکرین سے نظر ہٹا کر سامنے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ "" یار میری میٹنگ ذرا کینسل کر دو اور دیکھو جب تک میں نہ کہوں کسی کو اندر مت آنے دینا ۔۔۔ "" آنے والا جو کوئی بھی تھا " یس سر !" کہتا ہوا دروازہ بند کرکے چلا گیا ۔ اب ایک دفعہ پھر وہ دونوں آمنے سامنے تھے ۔ کچھ دیر تک یونہی خاموشی سے تکتے رہنے کے بعد وہ بولا تو لہجے میں انتہا کی نرمی تھی ۔ "" تمہاری طبیعت اب کیسی ہے ۔۔ ؟؟ "" اس نے ضبط کرنے کی بہت کوشش کی مگر آنسو نے اختیار ہو کر بہتے چلے گئے ۔ اسکے سوال کے جواب میں ڈھیر وں آنسو دیتی چلی گئی ۔ دوسری جانب اسکے چہرے سے ہی اسکی بے چینی چھلکنے لگی ۔ پہلے تو تحمل سے انتظار کرتا رہا کہ اب چپ کرتی ہے مگر جب سلسلہ طویل نکل پڑا تو سختی کے ساتھ حکم دیا ۔۔ "" امثال ۔۔۔ !! .. ۔ اب بس ۔۔۔ !! .. ۔ سنا تم نے میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔No more tears, woman!
۔۔ امثال کی مزید شدت سے ہچکی بندھ گئی ۔ ابسام نے اپنی لیپ ٹاپ کی سکرین پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے اسکے آنسو صاف کرنے چاہے ۔۔۔ "" کیوں کر رہی ہو ایسا ۔۔ ؟؟ "" تھوری دیر تک اسکو اپنی سرخ ہوتی آنکھوں سے دیکھتا رہا ۔ پھر اپنی سیٹ سے کھڑا ہوکر جیکٹ اتار کر کرسی کی پشت پر ڈالی کف کھول کر فولڈکئے اور ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے کالر کا اوپری بٹن کھولتا ہوا واپس اپنی جگہ پہ بیٹھ گیا ۔۔ یہ سب عمل اس نے اپنا اضطراب اور بے چینی کو کم کرنے کی ایک کوشش میں کیا تھا ۔"" کبھی تمہیں یہ خیال آیا ہے کہ میں بھی گوشت پوست کا بنا ہوا ایک عام سا انسان ہوں امثال ۔۔۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اداس ہو ، دکھی بھی ہو ، جانتا ہوں بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا ۔۔۔ مگر یہ بھی تو سوچو! زندگی نے اچھا تو میرے ساتھ بھی نہیں کیا ۔ میری دوست چھن گئی ۔ وہ لڑکی جسکو بچپن سے ہی دل میں بٹھا دیا گیا تھا کہ میری ہے اچانک سے کسی اور کے حوالے کردی گئی ۔ جانتی ہو ان گزرے سالوں میں ایک رات بھی میں سکون کی نیند نہیں سویا ہوں ۔۔ ایک وقت پہ مجھے لگتا تھا کہ میں پاگل ہو جاؤں گا ۔۔۔ پھر خود کو ملامت کرتا کہ یار! ایک لڑکی ہی تو تھی ۔ ہوگئی شادی کہیں اور what's the bloody big deal ...
۔کیامجھے اور لڑکی نہیں ملنے لگی؟ ۔۔ اور اس مقام پر میرا دل چاہتا تھا عورتوں کی طرح اونچی اونچی آواز میں بین کرکے روؤں ۔۔۔ کہ یار مجھے لڑکیوں سے کیا لینا؟ میری تو وہ تھی ۔۔ "" امثال نے اسے درمیان میں ٹوکا ۔۔ "" جب تم آخری دفعہ مجھ سے ملے تھے تم نے خود کہاتھا کہ تمہیں مجھ سے کوئی عشق نہیں تھا جو دکھی گانے سن کر روتے رہو گے پھر تمہیں تو سکون کی نیند سونا چاہئے تھا ۔۔ "" ابسام کے چہرے پہ خوبصورت سی نرم مسکراہٹ پھیل گئی ۔ "" وہ میری غلط فہمی ثابت ہوئی ۔۔ جب تک تم قریب رہیں ۔۔۔کبھی ایسا کوئی خیال جو نہیں آیا تھا ۔ ایک دفعہ دور کیا ہوئی ہو ہر طرف تم ہی تم رہ گئیں تھیں ۔ ابسام کی تو ذات ہی ختم ہوگئی۔ امثال مجھے اندازہ تک نہیں تھا ۔ یقین کرو میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم نےمیرے اندر اتنی گہرائی تک جڑیں پھیلائی ہوئی ہیں ۔ "" وہ ا یک ٹک اسکا چمکتا ہوا چہرہ دیکھ رہی تھی ۔ ۔۔ اچانک امثال نہ جانے کس احساس کے زیر اثر پریشان سی ہوگئی ۔ تھوڑی دیر پہلے جو اپنی سی لگ رہی تھی یک دم پھر اس کی آنکھیں اجنبی ہو گئیں ۔ وہ جو بہت غور سے اسکو پڑھ رہا تھا ۔ فوراً الرٹ ہوا ۔۔۔ "" میری ایک دو باتیں غور سے سن لو پھر میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لونگا تم بڑے آرام سے جاکر اپنے خالہ خالو اور دوسرے سب رشتوں کی خدمتیں کرتی رہنا ۔۔۔ تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو ۔۔۔ یہ بات اگر تم نہ بھی کہو تو تمہارے چہرے پہ اتنی واضح لکھی ملتی ہے کہ پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔۔۔ تم ٹینشن کا شکار مت ہوا کرو ۔ ٹینشن کری ایٹ کرنے والی تو میری ذات ہی ہے نا! کیونکہ باقی سب فیملی کے ساتھ تو تم نارمل ہو۔ اک فقط میری ذات سے تمہیں سب بکھیڑے ہیں تو میں ختم کردونگا ۔۔۔۔ پہلے بھی جب تم نے اپنے والد صاحب کا ساتھ دیا تھا میں نے کوئی اعتراض تو نہیں کیا تھا ۔ ہاں تھوڑا سا احتجاج تو یارا میرا حق تھا ۔
ورنہ بقول شاعر ۔۔۔
"" میں نے خوش ہو کر لٹنا گوارا کیا ۔۔۔ سمجھا تیری خوشی کو میں اپنی خوشی ۔۔۔ """ میں نے تیرے اشاروں کا رکھا بھرم ۔۔۔ """ تو نے چاہا جہاں میں وہاں لٹ گیا ۔۔۔ """
اور یہ بھی شاعر نے شائد میرے لئے ہی کہا کہ
"" تو نے اپنا بنا کر نظر پھیر لی میرے دل کا سکون نہ رہا لٹ گیا ۔۔۔ مجھ کو لوٹا تیرے عشق نے جانِ جاں ۔۔۔۔۔ میں تیرے عشق میں جانِ جاں لٹ گیا ۔۔۔۔ """ ۔۔۔۔ میں کل بھی خاموشی سے ایک طرف ہو گیا تھا ۔ آج بھی ہو جاؤنگا۔ بتاؤ! اس سے تمہاری پریشانی کم ہو جائے گی ۔۔ ""
وہ پھر سے رونا شروع ہوگئی تو ابسام گہری سانس بھر کر رہ گیا۔۔ "" اگر میں تم سے بھی علیحدگی لے لونگی تو ابو یہی سوچیں گے کہ میں نے انکو معاف نہیں کیا حالانکہ مجھے ان سے سوائے تمہارے ساتھ شادی کروانے کے اور کوئی شکوہ نہیں ہے اگر مجھےذرا بھی علم ہوتا کہ یہ میری شادی تم سے کروا دیں گے تو میں کبھی فرید سے علیحدگی نہ لیتی ۔میں اس کے پیر پڑ جاتی کسی بھی طرح اسکو منا لیتی کہ اپنی چار دیواری میں رہنے دے ۔۔۔ ۔نہ رکھتا وہ مجھ سے کوئی تعلق بدلے میں، ہفتے میں ایک دفعہ ہاتھ اٹھانے کی بجائے روز مار لیتا مگر پھر بھی اُ س زندگی کی ذلت اس موجودہ زندگی سے کم ہی ہوتی۔ اب تو میں اپنے آپ سے بھی آنکھ ملانے کے قابل نہیں رہی ہوں ۔۔۔ "" وہ اپنی بھنووں کے درمیانی حصے میں انگلی پھیر رہا تھا ۔ بڑے ٹھہرے اور سرد لہجے میں شروع ہوا ۔۔۔ "" یہ ساری بکواس کرنے کی بجائے تم ایک ہی دفعہ مجھے گولی کیوں نہیں مار دیتی ہو ۔۔ یا کہو تو میں خود اپنے آپ کو شوٹ کرکے تمہاری پریشانی دور کر دوں ۔۔ "" امثال اسکے لہجے سے خائف ہو کر دھیمے سے بولی ۔۔ "" ایسی باتیں نہ کرو ۔۔۔ "" جواب میں جھنجلا اٹھا ۔۔ایسی نہیں تو اور کیسی باتیں کروں ؟ میری بیوی مجھے بولے کے میرے ساتھ زندگی گزارنا اسکے لئے ذلت کا باعث ہے تو کیا اس بات پر مجھے فخر سے سینہ چوڑا کرکے چوک میں اپنا بت لگوانا چاہئے کہ آنے جانے والے مجھ پر پھولوں کے ہار ڈال کر گزرِیں ۔۔۔ "" امثال اسکا غصہ دیکھ کر گڑبڑا گئی ۔ "" میں نے بیوی کی حیثیت سے تھوڑی ایسا بولا ہے ۔۔ """ اسکی بات پر فٹ سوال آیا تھا ۔۔ "" اچھا تو کیا میری گرل فرینڈ کی حیثیت سے ارشاد فرمایا ہے ۔۔ ؟؟,.. وہ آگے سے خاموش ہی ہو گئی ۔ ابسام نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا ۔۔ "" میری ایک بات ما نوگی ۔۔ ؟؟ ۔۔ میں اس وقت آفس میں ہوں زیادہ لمبی بات نہیں کرسکتا اور ویسے بھی یہ مسئلہ فون پہ بیٹھ کر حل ہونے والا نہیں ہے ۔۔ اس لیے میں تمہارے لیے ٹکٹ کروا دیتا ہوں تم ادھر آجاؤ! پھر بات کریں گے ۔۔ "" اسکی بات کے دوران ہی امثال نے نفی میں سر ہلانا شروع کر دیا ۔ "" میں ہرگز بھی وہاں نہیں آؤنگی ۔۔۔ "" ابسام کے ماتھے پر تعجب سے تیوری آئی ۔ "" پوچھ سکتا ہوں کہ کیوں نہیں ؟۔۔ "" اس نے پھر نفی میں سر ہلایا ۔۔۔ تو وہ نرم ہوگیا ۔۔ "" تمہیں علم ہے کہ ساری فیملی کو ہم دونوں کہ وجہ سے کتنی ٹینشن ہے اور تمہیں لگتا ہے کہ اعجاز ماموں کی صحت سٹریس برداشت کر سکتی ہے ۔۔۔ "" وہ درمیان میں ہی جھنجھلا کر قدرے اونچی آواز میں بولی ۔۔۔ "" یہ بھی اچھا طریقہ ہے ! اعجاز ماموں کی صحت دکھا کر نکاح نامے پر سائن کروالیے ۔اعجاز ماموں کی صحت دکھا کر آج اپنے پاس بلا رہے ہو ، کل کو اعجاز ماموں کی ہی صحت دکھا کر بچے پیدا کروا لوگے ۔۔۔ "" جذباتی پن میں بولتے ہوئے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کیا بول گئی ہوں ۔۔ مگر دوسری طرف ابسام کے بے اختیار اور بے ساختہ ابھرنے والے بھرپور قہقے نے شرمندہ کر دیا ۔۔۔ وہ بھی ہنسا تو ہنستا چلا گیا ۔۔۔ امثال کو اور کچھ نہ سوجھا تو لائن ہی کاٹ دی ۔۔۔ ""اب ایسی بھی کوئی بات نہیں بول دی کہ دانت ہی اندر نہ ہوں ۔۔۔ "" فون پر کال آرہی تھی مگر اس نےکال اٹھانے کی بجائے فون بیڈ پر پھینک دیا ۔۔۔ اور خود بڑبڑاتے ہوئے انگلیاں چٹخنے لگی ۔۔۔ فون جب چیخ چیخ کر بند ہوجاتا تو دو سیکنڈ کے وقفے کے بعد دوبارہ سے چیخنے لگتا ۔۔۔ اس نے جیسے کان ہی بند کر لیے فون وہیں چھوڑ کر باہر آگئی ۔ سیٹنگ روم کے دروازے کے پاس ہی پہنچی تھی کہ اندر موجود سب افراد اپنی باتیں چھوڑ اسکی شکل دیکھنے لگے ۔۔۔ اس نے تعجب سے باری باری سب کی شکل دیکھی"" کیا میرے سینگ نکل آئے ہیں ۔ ؟؟ "" پوچھنے کے ساتھ ہی اس نے اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔ سب سے اونچا قہقہہ اسکے اپنے والد کا تھا ۔ جو اسکو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ انکے چہرے پہ چمکتی خوشی نے امثال کو مبہوت کر دیا ۔۔۔ ذہن میں سوال ابھرا کہ کیا واقعی میری ذات میرے باپ کے لئے اتنی اہمیت کی حامل ہے ۔ میرے ابسام کے ساتھ بات کرنے سے ہی ان سب افراد کے چہرے کھل اٹھے ہیں ۔۔ ابو نے اشارہ کرکے اپنے قریب آکر بیٹھنے کا بولا تو وہ چلتی ہوئی انکے قریب آکر بیٹھ گئی اور اپنا سر انکے کندھے سے لگا لیا ۔۔ دنیا میں سب رشتوں میں اسے اپنا باپ عزیز تھا ۔ جو اس سے دھیمی سی آواز میں سہلیوں کی طرح پوچھنے لگے ۔۔۔ ""پھر کچھ بتایا تمہارے میاں نے کب گھر آرہا ہے ۔۔۔ "" ابھی فون پر بات کرنے سے پہلے وہ یہیں سے اٹھ کر اندر گئی تھی تب ابو بڑے سنجیدہ سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ بلکہ اک عرصہ ہوا اس نے انکو یوں شرارتی لہجے میں بولتے نہیں دیکھا تھا ۔ بہت ڈھیر سارے آنسو چپ چاپ دل کی زمین کو نم کرتے چلے گئے اور وہ بظاہر دھیمے سے مسکرا کر بولی ۔۔ "" نہیں ابو ابھی وہ نہیں آرہا ۔۔۔ "" ان کے چہرے پر تاریک سایہ لہرا گیا ۔۔ "" بلکہ مجھے وہاں آنے کا کہہ رہا ہے ۔۔ "" اسی پل وہ چہرہ پھر سے کھل اٹھا ۔آنکھوں میں نمی گھل گئی ۔سارے حال میں آوازیں گونجنے لگیں ۔۔ "" اچھا! یہ تو بڑی اچھی بات ہے تمہاری بھی آؤٹنگ ہو جائے گی ۔۔ "" یہ خالہ کی آواز تھی ۔۔ جبکہ خالو بولے ۔۔۔ "" میں ابھی سیٹ کنفرم کروانے کےلئے فون کرتا ہوں ۔۔ ہو سکتا ہے شام کی ہی مل جائے ۔۔۔ "" ثمرہ بولی ۔۔ "" چلو !آ! میں تمہاری وارڈروب میں سے اچھے اچھے کپڑے نکال دوں اور وہ جو میرا ہی پیرٹ سوٹ ہے نا! اسکی فٹنگ بہت زیادہ ہے وہ بھی تم رکھ لینا ۔۔۔۔ """ امی بولیں ۔۔ "" میں اور عمارہ مارکیٹ کا چکر لگا آتی ہیں ۔جو بھی چاہئے لسٹ بنا دو ۔۔۔ "" وہ حیران پریشان رہ گئی، اک دم چلائی ۔۔۔۔۔۔ ۔ با۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔س ۔۔۔ !!!! ۔ سب پہ خاموشی چھا گئی ۔۔ "" سچی میں مجھے علم ہوتا نا کہ آپ لوگ مجھے یہاں سے نکال کر اتنے خوش ہونگے تو میں کبھی بھی اپنے معصوم سے شوہر کو وہاں نوکروں کے اوپر چھوڑ کر یہاں نہ رکتی ۔۔۔۔ سچی کہتے ہیں کہ بھلائی کا کوئی زمانہ نہیں ہے ۔۔۔ اینڈ تھینک یو ویری مچ آپ لوگوں کو کچھ بھی تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے سیٹ وہ خود کروا کر بتا دیگا اور میرے پاس لا تعداد جوڑے رکھے ہیں مزید خرچے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔ اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں اپنے کچھ کام کر لوں ۔۔۔۔ '"" وہ اپنی بات پوری کرکے سب کو گھورتی ہوئی وہاں سے جانے لگی تو ثمرہ کی آواز آئی ۔۔۔ """ ارے لوگوں کیا یہ ابھی ادھر جو عورت تقریر کرکے ہٹی ہے کوئی بتائے گا کہ کون تھی ۔۔ "" واصف فٹ بولا ۔۔۔ "" عبداللہ کی نالائق ماں میں بتاتا ہوں تمہیں کہ وہ ہماری عظیم و شان اکلوتی بھابی ہیں ۔۔ ۔۔ارے کب؟ بھابی تو لگ ہی نہیں رہی! اسکے تو منہ میں زبان ہی نہ تھی ۔ ۔۔۔ "" واصف نے جیسے بہن کی عقل پر ماتم کیا ۔۔ "" عبداللہ کی ماں ! زبان تب تک نہ تھی جب تک انکا اپنے میاں سے خاموشی کا روزہ چل رہا تھا ۔ ابھی روزہ کھل گیا اسلیے اپنی خیر مناؤ ۔۔۔ "" ساتھ ہی خالہ خالو سے مخاطب ہوا ۔۔۔ ""کیا ہے یار ؟ بزرگو! میرے یار کو بھی ساتھ لے آتے کوئی گاڑی کا پیٹرول اسکے ساتھ آنے سے زیادہ تو نہیں لگنا تھا ۔۔ "" اعجاز مسکراتے ہوئے بتانے لگے ۔۔۔ "" نہیں بیٹے گھر پہ بھی تو کسی نے رکنا تھا تم ایسا کرو نا، واپسی پہ ہمارے ساتھ چلو ۔۔۔ بلکہ تمہارے دادا کو بھی ساتھ لیکر جانا ہے ۔ کپاس کی چنائی ہونی ہے۔۔ ڈیرے پہ آج کل بڑی رونق لگتی ہے ۔۔۔ "" دادا اسی وقت بولے ۔۔۔ "" عمارہ پتر ! میرا بیگ تیار کر دو۔ آج ثمرہ بھی جا رہی ہے ۔۔ امثال نے بھی جانا ہے اور یہ لومڑ واصف اگر ماسی ماسڑ کے ساتھ چلا گیا تو میں گھر پر تمہارے میاں کی سڑی ہوئی شکل نہیں دیکھ سکتا۔ اچھا یہی ہے کہ اعجاز کے ڈیرے پہ آنے والے چنگڑوں سے نئے نئے قصے سن کر آوٴں ۔۔۔ "" سکندر کی بے چاری سی بنی شکل دیکھ کر سب کی ایک دفعہ پھر ہنسی نکل گئی۔
★★★★★★★★. ★★★★★★★★
""سچی میں مجھے انتہائی شرم آرہی ہے ۔۔۔ _ "" ثمرہ نے اسکے بازو پہ اک ہاتھ رسید کیا ۔۔۔ "" سچی کی کچھ لگتیں نہ ہوں تو ۔۔۔ پچھلے ایک گھنٹے سے آپ دو سو بار یہی ایک فقرہ بول چکی ہو ۔۔ اور کچھ نہیں بچا کہنے کو ۔۔۔ ؟؟ ۔۔ اس نے ثمرہ کے گول گپے کے گال پر بوسہ لیا۔۔۔ "" مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں اسلام آباد نہیں بلکہ تیسری دنیا کے کسی ملک میں جا رہی ہوں جو یوں دو گاڑیاں بھر کر آپ لوگ مجھے ائیرپورٹ سی آف کرنے آئے ہیں ۔۔۔"" وہ واقعی بڑی پریشان سی صورت بنائے کھڑی تھی ۔ عمارہ نے دھیمے سے ہنستے ہوئے امثال کو خود میں بھینچ لیا۔۔ "" میری جان! یہ ہمارے بس کی بات تھوڑی ہے ۔۔ یقین جانو تم میاں بیوی نے یوں اچانک سے اپنی بول چال کا سلسلہ شروع کرکے ہمیں دوبارہ سے زندہ کر دیا ۔۔۔ ابسام کو تم منانا کہ وہ اب لاہور ہی شفٹ ہو جائے تمہاری بات کا انکار نہیں کرے گا ۔ مجھے تو ہمیشہ ٹال ہی دیتا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ "" واصف نے درمیان میں ہی ٹوک دیا ۔۔۔ "" میری بھولی ماں ! جس وجہ سے بھائی چھپے ہوئے تھے جب وہی وہاں جا رہی ہیں تو اب بھاگ کر بھائی نے واپس اپنی اماں کے پاس ہی آنا ہے ۔۔ "" ہنسی کے فواروں کے دوران وہ ایک ایک کرکے سب سے ملی ۔۔۔ "" سکندر نے اسکے سر پہ شفقت سے ہاتھ پھیرتے آگاہ کیا ۔۔۔ ۔۔ "" میری بات ہوئی ہے ابسام سے ۔ کہہ رہا تھا کہ کب تک امثال کو بھیجیں گے ۔میں نے کہا ہے ابھی ہفتہ دو تک ۔ صاحبزادے نے خاموشی سے فون رکھ دیا ۔۔ مگر تم فکر نہ کرو اسکے ملازم لڑکے کو میں نے فون کرکے کہہ دیا ہے وہ عین وقت پر اسے بتا کر ائیرپورٹ بھیج دے گا ۔۔۔ "" ویسے تو خاموشی سے سر اثبات میں ہلا دیا ۔۔ دل میں وہ سوچ رہی تھی ۔ ( آپ لوگوں کو اگر میرے یہاں سے جانے اور اسکے یوں بلانے کی حقیقت معلوم ہو جائے تو کیا ہو ۔۔ ) "" آخر میں ابو سے ملی تو انہوں نے کئی پل تک اسکو اپنے ساتھ لگائے رکھا دونوں باپ بیٹی کی نم آنکھیں دیکھ کر سبھی ایموشنل ہو گئے ۔ ابو نے اسکے گال پہ بہنے والے چند قطرے اپنی ہتھیلی پر سمیٹ لئے ۔۔ "" امثال ابسام تم میری وہ بیٹی ہو جس نے آج تک کبھی کسی مقام پر میرا سر جھکنے نہیں دیا ۔۔۔ تم یہ نہ سمجھنا کہ جو تمہارے دل پر بیت رہی ہے تمہارا باپ اس سے ناواقف ہے ۔ میری جان جب آپ ماں باپ کی رضا کو اپنی رضا مان کر انکا سینہ دنیا کے سامنے یوں چوڑا کر دیتے ہو تو ماں باپ تمہارے لبوں سے نکلنے والی ہر خاموش سسکی سن رہے ہوتے ہیں ۔ دل میں محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔ تمہیں یہی لگتا ہے کہ یہ رشتہ بس بڑوں نے ایک دفعہ پھر اپنا حق استعمال کرتے ہوئے جوڑ دیا ۔۔۔ ۔۔ جس کے پاس جا رہی ہو اسکو میں نے کہہ دیا ہے کہ تمہیں اس حقیقت سے واقف کرائے جو ابھی تک اس کے اور میرے درمیان محدود ہے ۔۔۔ خاموشی کی بکل مار کر بیٹھے ہو۔ مگر میری امثال نہ جانے کیا کیا سوچ سوچ کر خود کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔۔۔ "" اس نے تعجب سے سوالیہ نظریں اٹھا کر ابو کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔ "" کیسی حقیقت ابو جی ۔۔ ؟؟., "" ابو بس مسکرا دیئے ۔۔ "" اس سے پوچھ لینا بتا دیگا ۔۔۔ اب جاؤ! اللہ بیلی ۔۔۔۔ "" اور وہ سارے سوال اور دکھ دل میں ہی لئے اسلام آباد آگئی ۔۔ ۔۔ ارائیول ٹرمنل سے باہر نکلتے ہوئے دل یونہی گھبرائے جا رہاتھا ۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ وہاں استقبال کو آئے لوگوں کی شکلوں کو باری باری دیکھتے ہوئے اسے ڈھونڈ رہی تھی ۔ جس کےساتھ تعلق بہت مضبوط تو تھا مگر اس میں نہ دلی سکون تھا نہ اعتبار ۔۔۔ اور یہ ناؤ کسی نہ کسی جانب تو اب لگ کر رہنی تھی ۔ وہ جذباتی پن میں ہی یہاں آجانے کا فیصلہ کر بیٹھی تھی ۔ سب کے چہرے پر پھیلنے والی خوشی نے یہ فیصلہ کر وا دیا تھا ۔ اور اب وہ سارا وقت پچھتاوے کا شکار رہی تھی ۔۔ پر اب کیا ہو سکتا تھا ۔ وہ کہیں نظر نہ آیا ۔۔۔ دل کو نہ جانے خوشی ہوئی کہ مایوسی ۔۔۔۔ جب سترہ اٹھارہ سالہ لڑکا اسکے سامنے پھولوں کا بکے لیکر آیا ۔۔۔ "" اسلام علیکم باجی ۔۔۔ ویلکم ٹو اسلام آباد ۔۔۔۔ یہ پھول آپکے لیے ۔۔۔۔ "" وہ دماغ میں اندازے لگاتی جواب دینے لگی ۔۔ "" وعلیکم السلام ۔۔۔ آپ کون ۔۔۔ ؟؟؟ "".. ۔۔ وہ مسکرایا تو چہرے پر حد درجہ معصومیت اور خوشی تھی ۔ "" میرا نام عاقب ہوں ۔۔۔ "" امثال کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ "" تو تم ہو عاقب ؟بھئی بڑے چرچے سنے ہوئے ہیں تمہارے تو ۔۔۔ "" وہ کھل کر ہنس دیا ۔۔۔ ۔۔ "" چرچے کہاں جی ! واصف بھائی کے منہ سے میری بے عزتی سنی ہوگی ۔۔۔ "" امثال اسکے درست اندازے پر بھی نفی میں سر ہلاتے ہوئے مسکرا دی ۔۔۔ ساتھ ہی ہاتھ بڑھاکر پھول پکڑلیے ۔۔۔ "" پھولوں کے لئے شکریہ عاقب ۔۔۔ "" شکریہ کی کونسی بات ہے باجی! لائیں اپنا سامان مجھے دیں ۔۔۔ گاڑی ادھر سائیڈ پر موجود ہے، آئیں ۔۔ "" سامان والی ٹرالی عاقب نے تھام لی اور وہ اسکے ساتھ چلتی ہوئی گاڑی تک آئی ۔۔ پہلے عاقب نے پچھلی سیٹ کا دروازہ اسکے لئے کھولا اسکے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کرتا سامان رکھنے کے بعد ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کے بعد اپنی منزل کو جانے والے رستوں پر گاڑی ڈال دی ۔۔۔ جب رش سے نکل آیا تو امثال سے مخاطب ہوا ۔۔۔ "" باجی آپکو برا تو لگا ہو گا کہ ابسام بھائی خود آپکو ائیرپورٹ پر لینے کیوں نہیں آئے مگر دیکھئے قصور انکا نہیں میرا ہے کیونکہ میں نے انکو انکے ابو کا پیغام دیا ہی نہیں ۔ وہ تو روٹین کے مطابق آفس گئے ہوئے ہیں ۔ اب دیکھئے گا کتنا مزا آئے گا ۔ جب آپکو اچانک سے شام کو اپنے سامنے دیکھیں گے ۔۔۔ "" امثال نے کنفیوز ڈ سی نظروں سے عاقب کے ردعمل کو دیکھا جو کہ امثال کے مطابق کچھ زیادہ ہی خوشی کا اظہار کر رہا تھا ۔ "" عاقب میری سمجھ میں ایک بات نہیں آرہی ۔۔ "" عاقب نے گاڑی کی سپیڈ تھوڑی کم کی ۔۔ "" وہ کیا باجی ۔۔ ؟؟ "" ... "" وہ یہ کہ میں پہلی دفعہ تم سے ملی ہوں اسکے باوجود تم نے کیسے مجھے پہچانا ۔۔۔ ؟؟ "" عاقب ہنس دیا ۔۔ "" باجی آپکو پہچاننا کوئی مشکل کام ہے بھلا ۔۔۔ "" امثال اس لڑکے کو سمجھ نہ پا رہی تھی ۔۔ "" اچھا مجھے تو علم ہی نہیں تھا کہ میں اتنی جانی پہچانی ہستی ہوں ۔۔۔۔ "" عاقب کا سارا دھیان سامنے سڑک پر تھا ۔۔۔ "" باجی ابھی آپ گھر تو جا ہی رہی ہیں خود ہی آپکو آپکے سوال کا جواب مل جائے گا ۔۔ "" وہ مزید کچھ نہ بولی ۔۔۔ ویسےبھی آنے والے وقت نے اسکی ساری توجہ منتشر کی ہوئی تھی ۔ ائیرپورٹ سے بیس منٹ کی مسافت کے بعد گاڑی ایک چھوٹے اور پوری طرح سبزے میں گھرے بنگلے کے سامنے رک گئی ۔۔ عاقب نے نیچے اتر کر پہلے گیٹ کھولا اورپھر گاڑی پورچ میں جا روکی ۔۔۔۔ اس وقت وہ دل میں شکر گزار بھی تھی کہ ابسام منظر پر موجود نہ تھا ۔ کچھ لمحے ہی سہی، سکون سے گزار سکتی تھی ۔ "" باجی آپ اندر چل کر اپنا گھر دیکھ لیں میں آپ کاسامان ٹھکانے پررکھ کر آپ کے لئے کچھ کھانے کو لاتا ہو ں ۔ ۔۔ "" امثال کو چونکہ بھوک پیاس کچھ محسوس نہ ہو رہا تھا اس لیے منع کر دیا ۔۔ "" نہیں میرے لئے کچھ لانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ جب ضرورت ہوئی مانگ لونگی ۔۔۔ "" ۔۔۔۔۔ اچھا باجی ! سٹنگ روم اور بیڈ روم دونوں جگہ بزر موجود ہے، کوئی بھی ضرورت ہو بزر کر دیجئے گا جن کی طرح فوراً حاضر ہو جاوٴ نگا ۔۔۔۔ "" امثال اسکی مثال پر ہنس دی ۔۔۔۔
۔۔ ★★★★. ★★★★