پری کچن میں داخل ہوئی السلام علیکم حمدہ خالہ آگیا میرا بچہ ۔جی شاہ لے کے آئے اچھا شاہ بابا آگئے تو کھانا لگا دوں نی وہ کسی کام سے گئے ہیں ہم چینج کر کے آتے ہیں آج ہم خود شاہ کے لیےا ن کی پسندیدہ بریانی بنائیں گے۔ نہ بچہ شاہ بابا بہت غصہ ہوں گے ارے کچھ نہیں ہوتا آپ بس ہمیں بتاتے جائیے گا۔پری کے جانے کے بعد خالہ بربرائ کیا کریں پری کی بات نہ مانی تو وہ ناراض اور اگر شاہ بابا کو پتہ چلا تو ہماری خیر نہیں کیوں کے شاہ کے بقول پری بھی ان کاموں کے لیے چھوٹی تھی اللہ جی آج ہمیں بچا لیں ۔ پری دور سے ہی چلائ خالہ یہ کیا ایسے ہی کھڑی ہیں شاہ آنے والے ہوں گے ۔ پری ایسا کرکے شاہ کا موڈ ٹھیک کرنا چاہ رہی تھی۔ اب یہ تو کوئی نہیںجانتا تھا کہ موڈ ٹھیک ہونا تھا یا خراب ؟
پری کا ہاتھ گرمبرتن کو چھونے سے جل گیا حمدہ خالہ نے جلدی اس کا ہاتھ تھامہ دیکھا اب شاہ بابا سے ہمادی خیر نہیں ارے خالہ آپ نہ بتانا ہم بھی نی بتائیں گے۔آپ کے بارے میں ان سے کوئی بات چھپ نی سکتی پری نے اس بات پہ ناک سے مکھی اڑائی ۔-----
شاہ جب لوٹا تو سامنے کسی کے نا ہونے کی وجہ سے اس نے سکھ کا سانس کیوں کے اس حالت میں کو ئی دیکھتا اس سے کئی سوال پوچھتے۔کمرے میں آکے فریش ہوا ۔ کھانے کے لیے نیچے آیا تو پری کو ٹیبل لگاتے دیکھ اس کا دماغ گھوما ۔ پری سب ملازم مر گے جو آپ یہ کام کر رہی ہوں میں پوچھتا ہوں کہا کس نے ہے آپ سے ۔ان سب کو تو آج ہی فارغ کرتا ہوں کام کرنا نہیں تنخواہ وقت پہ چاہیے ہوتی۔ارے شاہ ہماری بھی توسنیں۔
اب اس معصومیت سے کہو گی تو جان بھی دے دوں پری کی آنھوں میں آتی نمی دیکھ فوراً ہی لائن پہ آیا۔یار آپکی اس عادت سے بہت تنگ ہوں ۔انگلی سے اس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔ شاہ پہلے وعدہ کریں غصہ نہیں کریں اوکے اب بتا بھی دو کیوں ہرٹ فیل کروانا ہے۔------
آج ہم نے آپکے لیے بریانی بنائی ہے اپنے ہاتھوں سے۔شاہ کی آ نکھوں میں آتی سرخی دیکھ فوراً بولی آپ وعدہ کر چکے ہیں اچھا یار آئندہ ایسا کوئی سٹنٹ بالکل بھی نہیں خاص کر جب میں آپکے پاس نہ ہوں ۔ایک بار پہلے یاد ہے نہ آپکو بس بھی کریں موڈ خراب نہ کریں ۔ہوا کچھ یوں تھا پری کچن میں چائے بنانے گئی تو اس کا دوپٹے کو آگ لگ گی تھی شاہ نے بر وقت دوپٹہ پری سے دور کیا اس کے بعد سے شاہ نے پری کا کچن میں جانا بند کیا ہوا تھاخالہ حمدہ سوچ رہی تھی انھی بس بتایا ہے پری نے بریانی بنانے کا تو شاہ کا یہ حال ہے جب پری کے ہاتھ جلنے کا پتہ چلا تو شاہ بابا طوفان کھڑا کر دیں گے آج تو بڑے مالک بھی نی جو شاہ کے غصے سے سب کو بچا لیں کیوں کہ آغا صاحب ہی اس شیر کو قابو کر سکتے تھے۔شاہ کہاں کھو گئے ؟ ہاں کیا کچھ نی اب بریانی کھا کہ بتائیں کیسی بنی ہے۔اب اتنے پیار سے بنائی ہے تو کھلا بھی خود ہی دو۔پری کا تو سانس ہی رک گیا شاہ اسکی جھجھک کو دیکھتے ہوئےبولا کم آن پری آپ میرے نکاح میں ہیں اتنا تو حق میرابنتا ہے۔ادھر پری کی جان نکل رہی تھی اگر شاہ نے اسکا جلا ہوا ہاتھ دیکھ لیا تو کیا ہو گاوہ دل ہی دل میں آغا جان کے آنے کی دعا کر رہی تھی کیوں شاہ صرف ایک آغا جان کے ہی قابو میں آتا تھا۔پری اب کھلا بھی دیں پری نے ڈرتے ڈرتے بایاں ہاتھ پلیٹ کی طرف بڑھایا۔شاہ کا ماتھا ٹھنکا پری اپنا دایاں ہاتھ آگے کریں پری نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ آگے کیا جیسے ہی پری نے ہاتھ سامنے کیا ضبط سےشاہ کا چہرہ لال ہوگیا حمدہ خالہ شاہ کی آواذ سن کر حمدہ خالہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی۔آپ سے کام نہیں ہوتا تو بتا دیں میں آج ہی کسی اور کا انتظام کر لیتا ہوں حمدہ خالہ نے خاموشی میں عافیت جانی کیوں کہ شاہ کے غصے سے وہ واقف تھیں شاہ غصے میں ان پہ چلا رہا تھا اسے بالکل بھی خیال نہیں تھا کہ اس وقت اس کے سامنے عمر رسیدہ خاتون کھڑی ہیں۔پری کا صبر جواب دے گیا وہ کہاں اپنی خالہ کی انسلٹ دیکھ سکتی طیش میں پری نے بریانی اٹھائی اور فرش پر پھینکی برتن ٹوٹنے کی آواز پہ شاہ پلٹا پری کی آنکھوں میں نمیدیکھ کے بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا وہ غصے میں پری کی موجودگی کو فراموش کر چکا تھا ۔پری چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پاس آئی۔آپ بہت برے ہیں ماہم غلط کہتی ہے کہ آپکو پروا ہے ہماری ۔ہم نے آپکے لیے اتنی محنت کی اور آپ نے کیا کیا۔شاہ پری کے بازو پہ ہاتھ رکھنا چاہا پری فوراً پیچھے ہٹی۔کمرے کی طرف بھاگی۔شاہ نے غصے میں دیوار پر مکا مارا وہ چاہ کے بھی اس کے پیچھے نی جاسکا۔ وہ اچھے سے جانتا تھا پری اس وقت اسکی کوئی بات نی سنیں گی ۔------
صبح وہ نکھرا نکھرا سا ٹائی کی ناٹ لگاتا نیچے آیا۔ السلام علیکم آغا جان ۔برخودار کدھر کی تیاری ہے ۔ آغا جان آپ واقعے ہی بڈھے ہو گے ہیں میری مانے تو چھٹی لے لیں آغا جان نے اسے گھوری سے نوازا کان کھول کے سن لو ہم بڈھے نی ہیں دوسرا چٹھی والی خواہش تو کبھی بھی پوری نہیں ہوگی آپکی شاہ صاحب۔ہم آپ جیسا خونی شیر اپنے معصوم ایمپلائز پہ نی چھوڈ سکتے شاہ نے ناک سے مکھی اڑائی کب تک بچائیں گے انکو تو کام کیسے کیا جاتا سکھا کےرہوں گا بائے دا وائے آج شیرازی گروپ آف انڈسٹریز کے ساتھ میٹنگ ہے آغا جان ۔ہاں ہمارے ذہن سے نکل گیا۔ساتھ حمدہ خالہ کو آواز دی کہ شاہ کو ناشتہ دے ۔حمدہ خالہ نے شاہ کی طرف دیکھے بغیر پلیٹ شاہ کے سامنے رکھی ۔حمدہ خالہ آپ اپنے شاہ سے اتنی خفا ہیں اسکی طرف دیکھیں گی بھی نی۔آپ جانتی خالہ میں آپکو خالہ کہتا ہی نہیں مانتا بھی ہوں۔ آپکو پتا ہے غصے میں مجھے خود پہ قابو نہیں رہتا۔سوری ۔حمدہ خالہ نے فوراً شاہ کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا میرے شاہ با با سے میں کبھی خفا ہو سکتی۔ ہاں اس کا ثبوت اپکا شاہ چند لمحے پہلے دیکھ چکا ہے ۔حمدہ خالہ خفیف سی ہو گئیں اچھا اب آپ ناشتہ کریں ۔اوکے سویٹ لیڈی ۔آغا جان نے ان دونوں کو نہ سمجھی سے دیکھا پھر بولے ہمیں بھی بتائیں ازمیر شاہ نے اب کونسا کارنامہ انجام دیا ہے ۔شاہ نے جلدی سے جواب دیا کیوں بتائیں ہمرا سیکرٹ ہے مبدا حمدہ خالہ بتا ہی نہ دے ۔اگر آغا جان کو پتا چل جاتا تو اسکی شامت آ جانی تھی چاہے حمدہ خالہ تھی تو ملازمہ مگر سب ہی انکی بہت عزت کرتے تھے۔ --------
آفس کی پارکنگ میں جیسے ہی شاہ کی بی ایم ڈبلیو رکی۔چوکیدار نے فوراً احمر (شاہ کے سیکرٹری) کو مس کال کی۔احمر جو آفسکی ایمپلائی کے ساتھ فلرٹ کرنے میں مصروف تھا۔موبائل دیکھتے ہی اپنے کیبن کی طرف بھاگا ارے سر اب کہاں جا رہے بات تو پوری کیجیے آمنہ ڈئیر آج اس شیر کے ہاتھوں قتل کروا دوگی۔میں مزاق کر رہا تھا۔کیا مطلب میرے بال خوبصورت نی۔میں ابھی سر کو بتاتی ہوں کہ آپ انکی غیر موجودگی میں سب کو تنگ کرتے ہیں نہ میری بہن یہ ظلم مت کرنا احمر نے باقائدہ ہاتھ جوڑے۔آمنہ مسکرا دی جائیں معاف کیا کیا یاد کریں گے آپ۔آمنہ اچھے سے جانتی تھی کہ احمر دل کا برا نی ہے وہ ایک ذندہ دل انسان ہے سب کو خوش کرنے کے لیے وہ ایسی حرکتیں کرتا رہتا تھاوہ اگر اس آفس میں نہ ہوتا تو اب تک سب کام چھوڈ کے بھاگ چکے ہوتے شاہ سے سب کو وہی بچا لیتا تھا جیسا کے ابھی اطلاع ملتے ہی باہر بھاگا تھا سب کو بتانے۔شاہ اپنے روم میں داخل ہوا احمر دستک دے کر اندر آیا گڈ مارنگ سر۔
سر شیرازی سر میٹنگ روم میں آپکا انتظار کر رہے ہیں اوکے تم فائل لے کے آٶ۔اپنا کوٹ ہاتھ میں لیتا میٹنگ روم کی طرف بڑھا ۔السلام علیکم شیرازی صاحب۔ ہمارے لیے خوش نصیبی کی بات ہے کہ شاہ گروپآف انڈسٹیریز کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔شیرازی کے اس طویل جملے کے جواب میں شاہ نے بس مسکرانے پر اکتفا کیا--
چلتےاسے ہمدانی صاحب والے پروجیکٹ کے بارے میں بریف کر رہا تھا ۔تبھی اس کے موبائل پر کال آئی ۔شاہ نے کال ریسو کی سر کام ہو گیا شاہ نے گھڑی کی طرف دیکھا شاباش بخش تم نے اپنے وقت سے پندرہ منٹ پہلے کام مکمل کیا ہے اس کا انعام تمہیں ملے گا اگر تم یہ کام وقت پہ نہ کرتے تو پندرہ منٹ بعد تمہارے گھر والے تمہارے لیے کفن کا انتظام کرتے۔بخش ہکلایا سر میں آپکو پہلے کال کر رہا تھا آپکا نمبر بند تھا۔شاہ نے جیسے سنا ہی نی ایڈریس بتاٶ۔ٹھیک دس منٹ بعد وہ اس گھر کے سامنے کھڑا تھا۔بخش شاہ کو دیکھتے ہی اس کی طرف بھاگا ۔سر آئیں میں آپکو اس کے پاس لے چلتا ہوں ۔کمرے میں داخل ہوتے شاہ کی نظر سامنے کرسی پر بندھے وجود پر پڑی۔وہ شہزادوں سی آن بان والا شخص اس وقت بے بس سا کرسی پر بندھا ہوا تھا۔ملگجے سے اندھیرے میں بھی شاہ اسکو پہچان چکا تھابھلا شکاری بھی شکار کو بھولتا ہے کبھی۔کرسی پر بیٹھا وجود شاہ کا چہرہ دیکھ نی پارہا تھا۔بخش نے لائٹ جلانے کے لیے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ کمرے میں شاہ کی آواز گونجی اندھیرا رہنےدو اگر اس کا چہرہ واضح ہو گیا تو میں غصہ پہ قابو نی کر سکوں گا میں اپنی پری کے لیے اسے ایک موقع دوں گا کیوں کہ پری نے بولا اس کی غلطی نی تھی تم جاٶ دروازہ بند کر دینا۔شاہ نے چاقو نکا لا اس وجود کی طرف بڑھا ۔اسکے منہ سے ٹیپ ہٹائی۔کون ہو تم ؟شاہ بولا اتنی بے خبری اچھی نی ہوتی ملک اذلان۔اذلان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔تم کیسے جانتے ہو مجھے میں تو یہ بھی جانتا ہوں تم لندن سے بیس دن پہلے واپس آئے اور والد کی طبیعت اور ضد کی وجہ سے یہی رہنے کا فیصلہ کیا اور اب پارٹ ٹائم میں یونی سے ڈگری مکمل کر رہے ہو تم ہو کون اذلان چلای تھے ہم او یونی کی بات ہو رہی وہ کیا ہے نہ اذلان ملک مجھے کسی بات سے کوئی مسلہ نی تھا لیکن تم نے غلطی کر دی غلطی بھی وہ جس کی معافی نی۔اذلان نے سوالیہ نظروں سے شاہ کی جانب دیکھا ۔تم نے پری کو چھوا یہ کہتے ہوئے شاہ کے لہجے کی سختی کو اذلان نے محسوس کیے۔میں نے ایسا کچھ نی کیا اتنی جلدی بھول گئے اذلان۔کل ہی کی بات ہے اذلان کی آنکھوں کے سامنے وہ معصوم سا سراپا لہرایا۔لیکن وہ ایک حادثہ تھا اذلان نے لب وا کیے۔تبھی تم اب تک سانس لے رہے ہو شاہ چلایا۔پھر چاقو سے اذلان کے ہاتھ پہ کٹ لگایا اذلان دردسے چلایا۔اب سکون ملاہے شاہ کو آئندہ خواب میں بھی میری پری کے نزدیک نی آو گے۔یہ کہتے ہی شاہ نے اس کے ہاتھوں پہ کٹ لگائے۔ جب اذلان بے ہوش ہو گیا شاہ پرسکون سا باہر نکلا بخش کو بولاہوش میں آئے تو جانے دینا۔کوئی نی کہہ سکتا تھا یہی انسان کچھ دیر پہلے جانور بنا ہوا تھا اپنی طرف سے شاہ نے قصہ ختم کیا تھا پر کو ن جانتا تھا یہ اختتام تھا یا آغاز۔