آپی مجھے معاف کر دیں پلیز
میری وجہ سے آپ کی موت
آئی ایم ریلی سوری آ پپی
سب میری غلطی ھے نہ میں آ پ کو اکیلے وہاں سڑک پر چھوڑ کر جاتی اور نہ آ پ کو گولی لگتی
مجھے معاف کر دیں آ پی پلیز معاف کردیں
آ پ کہ بہن بہت بری ھے آ پی جو آ پ کی مدد بھی نہ کر سکی
آ پ کو اکیلا مرنے کے لئے چھوڑ دیا
آ ئ ایم سوری آ پی
عیلی روتے ھوئے مسلسل دعا سے معافی مانگ رہی تھی
جو کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے کر رہی تھی
اور بابا آ پ
آ پ نے بھی ثابت کر دیا نا کہ آ پ کو صرف آ پی سے محبت تھی میں تو کچھ تھی ہی نہیں آ پ کے لئے
آ پ نے ایک دفعہ بھی نہ سوچا بابا کہ میں کس طرح رہوں گی اکیلی اس دنیا میں
آ خری دفعہ مجھے اپنے سینے سے بھی نہیں لگنے دیا اور مجھ سے اتنا دور چلے گئے کہ اگر چاھوں بھی تو یہ فاصلہ ختم نہیں کر سکتی
اگر چاہوں بھی تو آ پ دونوں کے گلے لگ کر رو نہیں سکتی
میرا تھا ہی کون بابا آ پ دونوں کے علاوہ
مگر آ پ دونوں نے ہی میرے ساتھ بے وفائی کی
میں بہت تکلیف میں ھوں بابا
بہت اکیلی ھو گئی ھوں کوئی نہیں ھے میرا جو میرے درد کو سمجھے جو میری تکلیف دور کرے
جو مجھے سکون دے سکے
مجھے سمجھ نہیں آ تا بابا میں کیا کرو
اگر خودکشی حرام نہ ھوتی نا تو کب کی میں کر چکی ھوتی مگر پھر اس طرح تو میں پھر کبھی بھی آ پ دونوں سے نہیں مل سکوں گی
کیونکہ آ پ دونوں تو جنت میں ھوں گے نا
اور میرے خودکشی کرنے سے میں پھر آ پ دونوں سے دور ھو جاؤں گی
اس ڈر سے خود کشی بھی نہیں کر رہی مگر میں تھک گئی ہوں بابا یہ تکلیف سہتے سہتے اب اور برداشت نہیں ھوتی
مجھے سکون چاھیے بابا
ہمیشہ کے لئے
آ ج پھر عیلی قبرستان میں موجود دعا اور فیصل صاحب کی قبر پر زاروقطار رو کر اپنی تکلیف بیان کر رہی تھی جو کہ وہ پچھلے چھ ماہ سے ہر ہفتے یہاں پر آکر کرتی تھی
اس طرح کچھ تو دل کا درد کم ھوتا تھا جیسے کہ اب عیلی خود کو کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی
اسی طرح کچھ دیر عیلی مزید وہاں بیٹھی رہی اور پھر سورت فاتحہ پڑھی اور دعا اور فیصل صاحب کی مغفرت کی دعا کر کے اٹھی اور قبرستان سے باہر نکل گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیلی بلیک فراک پہنے بڑی سے بلیک ہی چادر میں بس سٹینڈ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی آ ج بس معمول سے زیادہ لیٹ ھو گئی تھی
لیکن اب جو بھی تھا انتظار تو کرنا ہی تھا بس کا
اور وہ چپ چاپ کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی
جبکہ اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی وہاں کھڑے بس کا ہی ویٹ کر رھے تھے
اچانک بس سٹینڈ سے کچھ فاصلے پر فہد کی گاڑی خراب ھو گئی
فہد جو آ ج کسی ضروری میٹنگ کے لئے کراچی آ یا تھا اس بات سے انجان کہ آ ج اس کی چھ ماہ کی تلاش پوری ھونے والی ھے
فہد نے غصے میں دو تین دفعہ گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر گاڑی میں کچھ زیادہ ہی بڑی خرابی ھو گئی تھی
تو فہد غصے میں گاڑی سے باہر نکلا اور قاسم کو کال کرنے لگا مگر قاسم کا نمبر بزی جا رھا تھا اور یہ بات فہد کو اور غصہ دلا رہی تھی
عیلی کو کھڑے ھوئے مزید 5 منٹ ہی ھوئے تھے کے بس سٹینڈ پر بس آ کر رک گئی
اور لوگوں کی افراتفری مچ گئی کوئی بس سے اتر رھا تھا تو کوئی بس میں چڑھ رھا تھا
جبکہ عیلی نے کچھ دیر ویٹ کیا کہ رش کم ھو جائے اور پھر اچھے سے دوبارہ اپنی چادر ٹھیک کی اور بس میں چڑھنے لگی
ابھی عیلی نے بس میں ایک پاؤں ہی رکھا تھا کہ ایک بچی اچانک سے عیلی کے سامنے آئی اور بس سے اترنے لگی جس کی وجہ سے عیلی کا اس بچی سے ٹکراؤ ہوا اور وہ بچی بس سے گر گئی
مگر عیلی نے اسے پکڑنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں اس بچی کو زیادہ چوٹ نہیں آئی
مگر پھر بھی عیلی اس بچی کو اچھے سے چیک کر رہی تھی کہ کہیں اسے زیادہ چوٹ تو نہیں آئی
کہ اچانک اس بچی کی والدہ عیلی کے پاس آ کر اپنی بچی اٹھانے جبکہ عیلی نے جلدی سے اس بچی کی والدہ سے سوری کی مگر وہ عورت کو ریلی کو باتیں سنسنی ہی شروع ھو گئی جبکہ عیلی بار بار سوری بول بھی رہی تھی مگر اس عورت کے عیلی کو بخشنے کے کوئی ارادے نہیں تھے
اسی لڑائی جھگڑے میں عیلی کو اتنا ھوش ہی نہیں رھا کہ اس کی چادر چہرے سے ہٹ چکی ھے اور اس کا چہرہ واضح ھو رھا ھے
ورنہ عیلی ہمیشہ اپنا چہرہ چھپانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرتی تھی مگر آ ج پریشانی میں اس کا اس بات پر دھیان ہی نہیں گیا
فون اٹھا قاسم
کہاں مر گیا ہے تو
فہد نے غصے میں بولتے ہوے چھٹی دفعہ قاسم کو کال کی مگر پھر ناکامی کی صورت میں فہد نے غصے سے موبائل واپس اپنی پاکٹ میں ڈالا اور پھر غصہ کم کرنے کے لئے ادر گرد دیکھتے ھوئے لمبے لمبے سانس لینے لگا
کہ اچانک اس کی نظر عیلی پر پڑی
جو کہ کسی بچی کو زمین سے اٹھانے میں مدد کر رہی تھی
جیسے ہی اچانک عیلی کی نظر خود کو دیکھتے ہوئے فہد پر پڑی تو عیلی نے ڈر کر جلدی سے اپنا چہرہ چھپایا اور اس عورت کو لڑتا ھوا چھوڑ کر تیزی سے بس میں چڑھ گئی
جبکہ فہد بھی تیزی سے بس کی طرف بھاگا لیکن بس اب سپیڈ پکڑ چکی تھی
اور فہد کی نظروں سے دور ھوتی جا رہی تھی
آ آ آ ہ
اس دفعہ تو تم مجھ سے بچ گئی عیلی مگر کب تک بچ پاؤ گی
آ نا تو تمہیں میرے پاس ہی ھے
فہد زور سے چیخا اور پھر دانت پیستے ہوئے بولا
کہ اچانک اس کے موبائل پر قاسم کی کال آ گئی
جسے فہد نے فوراً اٹینڈ کیا اور پھر جلدی سے بولا
قاسم عیلی مل چکی ھے
یہاں کراچی میں ھے وہ مجھے ابھی دکھی ھے بس سٹینڈ پر
مجھے کل تک عیلی کی ہر خبر چاھیے کہ وہ کہاں رہتی ھے
کیا کرتی ھے
اس کی ٹائمنگ کیا ھے
سب کچھ کل شام تک مجھے بتانا ھے تو نے
تو جلدی آ یہاں دوسری گاڑی لے کر
میری گاڑی خراب ہو گئی ھے
جلدی آ یہاں
فہد نے قاسم کو اس بس سٹاپ کا ایڈس بتایا اور فون بند کرکے عیلی کے بارے میں سوچنے لگا
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
عیلی تقریباً بھاگتے ہوئے ھوسٹل میں داخل ھوئ اور جلدی سے اپنے روم کو لاک کر کے بیڈ پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی
کیا ھوا تمہیں علیشاہ
اتنی ڈری ھوئی کیوں ھو
فاطمہ(عیلی کی روم میٹ) نے پریشانی سے عیلی کے پاس بیٹھتے ھوئے پوچھا
آ ج کیونکہ سنڈے تھا اس لئے کالج سے چھٹی تھی اور فاطمہ بھی اسی لئے ابھی ابھی اپنے گھر سے واپس ھوسٹل آی تھی
کہ اچانک سے عیلی کو اس طرح روم میں داخل ھوتا دیکھ کر اس سے وجہ پوچھنے لگی
جبکہ عیلی نے ڈری سہمی ہوئی نظروں کے ساتھ فاطمہ کو دیکھا اور پھر کانپتے ھوئے پانی مانگا
تو فاطمہ جلدی سے اٹھی اور پانی کا گلاس لا کر عیلی کو دیا جسے عیلی نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑا اور ایک ہی سانس میں سارا پانی پی کر گلاس واپس فاطمہ کو پکڑا دیا
اب بتاؤ علیشاہ
کیا ھوا تم اتنا ڈر کیوں رہی ھو
فاطمہ نے فکر مندی سے عیلی کو دیکھتے ہوئے پوچھا جبکہ عیلی نے چونک کر فاطمہ کی طرف دیکھا اور پھر خود کو ریلیکس کرتے ہوئے بولی
ککچھ نہیں فاطمہ وہ بس کچھ لڑکے میرے پیچھے لگ گئے تھے اس لئے بھاگ کر ھاسٹل آئی
تم ٹینشن نہیں لو
میں ٹھیک ھوں
تم یہ بتاؤ کہ تم تو شام کو آنے والی تھی نا
اب کیسے آ گئی
عیلی نے بات پلٹنی چاہی
جبکہ فاطمہ بھی عیلی کی بات کا یقین کرتے ھوئے بولی
ھاں وہ
مجھے نوٹس چاھیے تھے تمہارے
میرے پتہ نہیں کہاں گم ھو گئے ھیں
مل ہی نہیں رھے
خیر مجھے اپنے نوٹس دے دو
میں فوٹو کاپی کروا کر تمہیں واپس کر دوں گی
فاطمہ نے فوراً اپنے کام کی بات کی تو عیلی بھی جلدی سے بولی
ٹھیک ھے تم لے لو نوٹس اور میں ابھی منہ ھاتھ دھو کر واپس آ تی ھوں
عیلی نے نظریں چرا کر کہا اور باتھ روم میں گھس گئی جبکہ فاطمہ بھی کاندھے اچکا کر عیلی کے نوٹس لینے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت رات کے 12 بج رھے تھے سب لوگوں اپنے گھروں میں موجود نیند کی وادیوں میں گم تھے
مگر رات کے اس وقت فہد اپنے فارم ھاؤس میں موجود ڈرنک پر ڈرنک کرے جا رھا تھا کیونکہ جب سے اس نے عیلی کو دیکھا تھا تب سے ہی وہ سب تلخ یادیں کسی فلم کی طرح فہد کے دماغ میں چل رہی تھیں
اسد کی موت کے ساتھ ساتھ اسے دعا کی موت کا بھی دکھ تھا یعنی ایک دفعہ پھر وہ کسی بے گناہ انسان کو جان سے مار چکا تھا یہ سوچ ہی اسے جیتے جی مار رہی تھی جبکہ اس بات سے فہد کے دل میں عیلی سے بدلہ لینے کا جنون اور بڑھ رھا تھا بقول فہد کے یہ سب کیا دھرا عیلی کا ہی تھا مگر سزا عیلی کو تو نہ ملی بلکہ فہد کا جان سے عزیر بھائی اسے چھوڑ کر چلا گیا اور فہد بھی دعا کو جان سے مار کر خود ہر دن ٹورچر ھو رھا ھے اور یہی بات فہد کو عیلی سے بدلہ لینے پر اکسا رہی تھی
اسی لئے فہد خود کو ان تکلیف دہ سوچوں سے دور رکھنے کے لیے ڈرنک کررھا تھا جب بھی وہ حد سے زیادہ تکلیف میں ھوتا تو اسی طرح ڈرنک کرتا تھا تاکہ اس کے ذریعے وہ دنیا جہاں سے بے خبر ھو کر سو سکے کیونکہ سکون کی نیند تو اس پر جیسے ان چھ ماہ میں حرام ھو چکی تھی
فہد کو ڈرنک کرتے ھوئے 2 گھنٹے سے زیادہ وقت ھو چکا تھا مگر فہد ابھی تک ھوش میں تھا اور ان تکلیف دہ سوچوں کی وجہ سے اذیت برداشت کر رھا تھا اسی لئے وہ اور ڈرنک کرنا چاہتا تھا تاکہ نشہ اس پر اس قدر حاوی ہو جائے کہ وہ سو سکے
ھاں بولو قاسم
کیا خبر ھے
ملی وہ
ابھی فہد نے شراب اپنے گلاس میں ڈالی ہی تھی کہ قاسم کی کال آ گئی جسے فہد نے جلدی سے پک کیا اور لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں قاسم سے بولا
بھائی جی
وہ مل گئی ھے مجھے
ھوسٹل میں رہ رہی ھے ایک لڑکی کے ساتھ جبکہ وہ لڑکی ہر ہفتے اپنے گھر چلی جاتی ھے اور پھر اتوار کی شام کو واپس آ جاتی ھے یعنی یہ لڑکی اس وقت اکیلی ھو گی ھوسٹل میں
آ پ چاھیں تو تب اپنا کام کر سکتے ھیں
نہیں تو اس کے علاوہ 2 ہفتوں بعد کالج میں چھٹیاں ھو رہی ھیں اور یہ لڑکی پچھلی دفعہ بھی چھٹیوں کے دوران یہیں ھوسٹل میں رکی تھی
یعنی اب بھی وہ اس چھٹیوں میں ادھر ہی ھو گی
تو اگر آ پ تھوڑا احتیاط سے کام کرنا چاھیے ھیں تو ان چھٹیوں میں اپنا کام کرلیں
ورنہ اگر ہم جلدی کے چکر میں پڑے تو ہماری بدنامی ھو سکتی ھے بھائی جی
اب بتائیں بھائی جی
کہ کیا کرنا ھے میں تو آ پ کے حکم کا غلام ھوں جی جو آ پ حکم دیں گے وہی کروں گا جی
قاسم نے ٹھہر ٹھہر کر پر سکون انداز میں فہد سے ساری بات کی اور پھر فہد کے جواب کا انتظار کرنے لگا
جبکہ فہد ساری بات سن کر بالکل خاموش ھو گیا اور پھر کافی دیر بعد کچھ سوچتے ھوئے بولا
ٹھیک ہے قاسم
ہم انتظار کرتے ھیں میں کوئی جلدبازی نہیں کرنا چاہتا
لیکن تم عیلی پر نظر رکھو مجھے اس کے پل پل کی خبر ملی چاھئے
وہ کیا کرتی ھے
کہاں جاتی ھے
کس سے ملتی ھے سب کچھ
اور جیسے ہی اس کے ھوسٹل میں چھٹیاں ھوں تو تم فوراً مجھے اطلاع کرو گے
فہد بہت مشکل سے قاسم سے بات کر رھا تھا کیونکہ اس کی آ نکھیں اب زبردستی بند ھو رہی تھیں
یعنی دماغ مکمل سن ھو چکا تھا
ٹھیک ہے بھائی جی
آ پ ٹینشن نہ لیں آ پ کو اس لڑکی کی ہر خبر مل جائے گی میں اس پر نظر رکھے ھوئے ھوں
چلیں پھر بھائی جی اب آ پ سو جائیں
میں فون بند کر رھا ھوں
اللّٰہ حافظ
فہد کے بولتے ہی قاسم نے جلدی سے کہا اور پھر کال کاٹ دی کیونکہ فہد کی آواز سے قاسم کو یہ تو اندازہ ھو گیا تھا کہ فہد بہت زیادہ ڈرنک کر چکا ھے تو یقیناً اب وہ سونا چاہتا ھو گا اس لئے قاسم نے فہد کو جواب دے کر فوراً کال بند کر دی تاکہ فہد اب آ رام کر سکے
فہد کو دیکھے ھوئے عیلی کو تقریباً دو ہفتے ھو چکے تھے اور عیلی یہ سوچ کر اب کافی ریلیکس ہوگئی تھی کہ فہد کو اس کے ھوسٹل کے بارے میں پتہ نہیں چلا اس لئے فہد نے اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا
اسی سوچ سے عیلی اب کافی پر سکون ہو گئ تھی کہ اب اسے فہد سے کوئی خطرہ نہیں ہے
ورنہ عیلی نے اپنے پیپر بھی اسی ٹینشن میں دیے تھے کہ کہیں فہد اسے ڈھونڈ نہ لے
حالانکہ عیلی اچھی طرح اپنا چہرہ چھپا کر فاطمہ کے ساتھ کالج جاتی تھی مگر پھر بھی ایک ڈر تھا عیلی کے دل میں کہ فہد اسے کسی طرح بھی ڈھونڈ ہی لے گا
جبکہ دوسری طرف قاسم عیلی کے پل پل کی خبر فہد کو دے رھا تھا اور اس نے فہد کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ پرسوں عیلی کے کالج میں چھٹیاں ھو رہی ھیں
فہد تو گویا گن گن کر دن کاٹ رھا تھا کہ کب سارا ھوسٹل خالی ھو
یعنی جب سب لڑکیاں اپنے اپنے گھروں میں چھٹیاں گزارنے کے لئے چلی جائیں گی تو تب فہد اپنا کام کر سکے
اور آ خرکار وہ دن آ ہی گیا تھا جس کا فہد کو بے چینی سے انتظار تھا
لیکن عیلی فہد کی سوچ سے انجان بہت خوش ھو رہی تھی کہ فہد سے اس کی جان چھوٹ گئی
لیکن یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا کہ آ گے کیا ھوتا ھے