قیوم صاحب پچھلے 6 گھنٹے سے فیصل صاحب کو تسلی دے رھے تھے کہ دعا اور عیلی بالکل سہی سلامت انھیں مل جاہیں گی بس فیصل صاحب زیادہ ٹینشن نہ لیں کیونکہ فیصل صاحب ھارٹ پیشنٹ تھے
اور قیوم صاحب ڈر رھے تھے کہ کہیں ٹینشن لینے کی وجہ سے فیصل صاحب کی طبیعت خراب نہ ھو جائے
پچھلے 6 گھنٹے سے قیوم صاحب بے چینی سے انسپیکٹر منیر کی کال کا انتظار کر رھے تھے کیونکہ دعا اور عیلی انھیں بھی بہت عزیز تھیں پھر آ خر کار ان کا انتظار ختم ھوا اور ان کے موبائل پر انسپیکٹر منیر کی کال آ گئی
ھاں بولو منیر
گاڑی مل گئی تمہیں
قیوم صاحب نے فوراً کال پک کی اور پھر جلدی سے بولے
جی سر گاڑی مل گئی ھے ہمیں حیدرآباد سے کچھ فاصلے پر
اب ہم آ گے جا کر لڑکیوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں
لڑکیوں کی کوئی خبر ملتے ہی آ پ کو اطلاع کرتا ھوں
اللّٰہ حافظ
انسپیکٹر منیر نے کہہ کر کال کاٹ دی جبکہ فیصل صاحب بے چینی سے قیوم صاحب سے دعا اور عیلی کا پوچھنے لگے
مگر یہ خبر سن کر کہ عیلی اور دعا ابھی تک نہیں ملی ھیں دوبارہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے جبکہ قیوم صاحب انھیں پھر سے تسلیاں دینے لگے اب آ خر وہ اور کر بھی کیا سکتے تھے سوائے تسلی دینے کے
مگر فیصل صاحب کو اب ان تسلیوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑ رھا تھا
بلکہ ان کا دل زیادہ گھبرانے لگا تھا جیسے کچھ بہت برا ھونے والا ھو
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم جیسے ہی فارم ھاؤس میں داخل ھوا تو اسے کسی کے ہلکا ہلکا سا کراہنے کی آواز سنائی دی
اب یہ کون ھے
اور وہ بھی اس کمرے میں
جا کر دیکھتا ھوں
قاسم بولتے ھوئے کمرے میں جیسے ہی داخل ھوا تو اس کی نظر بیڈ پر گرے ھوے اسد پر پڑی جو درد سے کراہ رھا تھا
اسد بھائی
قاسم بھاگ کر بیڈ کے پاس گیا اور اسد کو ھوش میں لانے لگا جو کہ آ نکھیں بند کیے ھوے تھا
اسد بھائی کیا ھوا آپ کو
کس نے کیا یہ
چلیں جی اٹھیں آ پ کو ھسپتال لے چلتا ھوں
بھ۔۔۔۔۔۔بھا۔۔۔۔۔۔۔بھائ ککو بل۔۔۔۔۔بلاو
قاسم گھبرا کر جلدی جلدی بول رھا تھا جبکہ اسد نے ہلکی سے آ نکھیں کھولیں اور پھر بہت مشکل سے بولا
بھائی جی کو بلاؤ
جی جی مم۔۔۔۔میں ابھی بلاتا ھوں جی
قاسم بوکھلا کر بولا اور پھر تیزی سے موبائل نکال کر فہد کو کال کی
بھائی جی جلدی آئیں جی
اسد بھائی کے سر سے بہت خون نکل رہا ھے جی
وہ آ پ کو بلا رھے ھیں
جلدی آ جائیں جی
قاسم نے فہد کے کال پک کرتے ہی ایک ہی سانس میں ساری بات کر دی اور پھر فہد کا جواب سن کر کال کاٹ کر اسد کو دیکھنے لگا جو کہ اب بہت آ ہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیلی اور دعا بہت تیزی سے بھاگ رہی تھیں جبکہ فہد غصے میں ان کے پیچھے ہی گاڑی چلا رھا تھا کہ اچانک دعا کا پاؤں مڑا اور وہ سڑک پر گر گئی جبکہ عیلی اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگی
عیلی تم بھاگو پلیز
دیکھو مجھے لگ رھا ھے کہ یہاں پر پولیس آ رہی ھے
آ واز آ رہی ھے تمہیں یہ پولیس کی ہی گاڑی ھے
مجھ سے اور بھاگا نہیں جاے گا عیلی اس لئے تم جلدی سے آ گے بھاگو اور پولیس کو یہاں لے کر آو
تم سمجھ رہی ھو نا کہ میں کیا کہہ رہی ھوں
دعا نے عیلی کے پریشان سے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا تو عیلی نے ھاں میں سر ہلایا اور پھر دعا کو ہگ کر کے بولی
میں ابھی آ تی ھوں آ پی پولیس کو لے کر
پھر ہم یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلے جائیں گے
ٹھیک ھے آ پی
آ ئ ریلی لو یو
عیلی نے ایک بار پھر دعا کو ہگ کیا اور پھر اپنی فل سپیڈ کے ساتھ سڑک پر دوڑنے لگی
اس بات سے انجان کے اس کے پیچھے فہد دعا تک پہنچ چکا ھے
عیلی کہاں ھے
فہد نے دعا کے پاس سڑک پر بیٹھتے ھوئے کہا
نہیں بتاؤں گی اور تم عیلی سے دور رھو سمجھے
اپنا دل بہلانے کے لئے کوئی اپنی جیسی ڈھونڈو
دعا نفرت سے فہد کو دیکھ کر بولی جبکہ فہد نے مٹھی میں دعا کے بال دبوچے اور اس کا چہرہ اوپر کر کے بولا
رھے گی تو وہ ہمیشہ میرے پاس ہی
پھر چاھے تمہیں یا اسے اچھا لگے یا برا
اس سے میرا کوئی مطلب نہیں ھے
فہد غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا اور پھر دعا کے بالوں کو زور سے جھٹکا جس سے دعا سڑک پر گرتی گرتی بچی
بولو عیلی کہاں ھے ورنہ میں تمہیں جان سے
اس سے پہلے کہ فہد اپنی بات مکمل کرتا اس کے موبائل پر قاسم کی کال آ نے لگی
ھاں قاسم بولو
اسد آ یا فارم ھاؤس پر
فہد فوراً کال پک کر کے بولا جبکہ قاسم کی بات سن کر فہد کے ھاتھ سے فون گرتے گرتے رہ گیا پھر فہد نے قاسم کو آ نے کا بول کر کال کاٹی اور پھر سے دعا کے بالوں کو پکڑ کر کھینچا جس سے دعا زور سے چیخی
اسد پر کس نے حملہ کیا
جواب دو میری بات کا
فہد زور سے دھاڑا تو دعا نے زور سے اپنی آ نکھیں بند کر لیں
زندگی بستی ھے میری اسد میں
اور اس کی زندگی لینے کے بارے میں سوچنے والے کو بھی میں جان سے مار دوں گا
بولو کس نے کیا ھے اسد پر حملہ
اب کی دفعہ فہد کہتے ھوئے اٹھا اور پھر اپنی گاڑی سے گن نکال کر لایا اور دعا کے سر پر رکھ کر بولا
بولو ورنہ میں تمہیں ابھی شوٹ کر دوں گا
تم نے مارا اسد کو یا پھر عیلی نے
فہد اس وقت کوئی پاگل جنونی انسان ہی لگ رھا تھا جو اپنے ھوش و حواس میں نہ ھو
مم۔۔۔۔میں نے
می۔۔۔۔میں نے ما۔۔۔۔۔مارا ھے تم۔۔۔۔۔تمہارے بھا۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی کو
دعا نے یہ سوچتے ھوئے جھوٹ بولا کہ اگر اس نے عیلی کا نام لیا تو فہد عیلی کو جان سے مار دے گا اور وہ عیلی کو مرتا ھوا کیسے دیکھ لیتی
اور ویسے بھی عیلی نے دعا کو بچانے کے لئے ہی اسد پر حملہ کیا تھا تو عیلی کو اس بات کی سزا کیوں ملے
تم نے تم نے مارا اسد کو
کیا سوچا تم نے کہ اسد کو مار کر تم خود بچ جاؤ گی
ھاں اسد کو تو میں بچا لوں گا مگر اس سے پہلے تمہیں اس جرم کی سزا دے دوں
فہد نے بولتے ھوئے گن دعا کے پیٹ پر رکھی اور پھر ٹریگر دبا دیا
جس سے ایک چیخ کے ساتھ دعا سڑک پر گری اور خون تیزی سے سڑک پر بہنے لگا جبکہ عیلی جو کہ سڑک پر تیزی سے بھاگ کر پولیس کی گاڑی کی طرف جا رہی تھی
اچانک گولی کی آ واز سن کر پلٹی اور واپس دعا کی طرف دوڑنے لگی
ابھی وہ دعا سے کچھ فاصلے پر ہی تھی کہ اسے دعا سڑک پر گری ھوئی نظر آئی
آ آ پی
عیلی چیخ کر بھاگ کے دعا کے پاس گئی اور سڑک پر بیٹھ کر دعا کو اٹھانے لگی جو کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ آنکھیں بند کر رہی تھی جبکہ سانس بھی کم ھوتی جا رہی تھیں
اور پھر ایک آ خری سانس لینے کے بعد دعا عیلی کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی گئی جبکہ عیلی دیوانہ وار دعا کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی
آ پی اٹھیں نا پلیز
آ پ میرے ساتھ ایسے نہیں کر سکتیں
عیلی مسلسل روتے ھوئے دعا کو بولے جا رہی تھی جبکہ فہد جو کہ کچھ فاصلے پر کھڑا عیلی کو ہی دیکھ رھا تھا چلتا ھوا عیلی کے پاس آ یا اور پھر اس کا بازو کھینچ کر اسے اپنے ساتھ لے جانے لگا جبکہ عیلی ابھی بھی چیختے ہوئے دعا کو بلا رہی تھی مگر دعا تو کب کی اسے چھوڑ کر جا چکی تھی
چھوڑیں مجھے
آ پی بچائیں مجھے
عیلی نے روتے ھوئے فہد کے ھاتھ کو چھڑوانا چاہا مگر فہد کی پکڑ بہت مضبوط تھی
پھر عیلی نے جھک کر فہد کے ھاتھ کو کاٹا تو فہد نے عیلی کو چھوڑ کر ایک زور کا تھپڑ اس کے منہ پر مارا جس سے عیلی لڑکھڑا کر سڑک پر گر گئی مگر اس سے پہلے کے فہد دوبارہ عیلی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جاتا عیلی جلدی سے اٹھی اور فہد سے دور بھاگنے لگی
ابھی وہ تھوڑی دور ہی گئی تھی کہ اچانک ایک گاڑی اس کے سامنے آ ئ اور عیلی بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گئی
جبکہ فہد عیلی کو دوبارہ پکڑنے کا سوچتے ھوئے واپس اپنی گاڑی میں آ یا کہ اسے دوبارہ قاسم کی کال آ گئی
ھاں قاسم
بکواس مت کرو
میں ابھی آ رھا ھوں
فہد نے غصے سے کال کاٹی اور گاڑی اپنے فارم ھاؤس کی طرف موڑ لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم قاسم
کہاں ھو تم
فہد فاسٹ ڈرائیو کر کے فارم ھاؤس میں پہنچا اور تقریباً بھاگتے ھوے اندر داخل ھو کر زور زور سے قاسم کو آ واز دینے لگا جبکہ قاسم روتے ھوئے کمرے سے نکلا اور فہد کے گلے لگ گیا
بھائی جی وہ
وہ اسد بھائی چلے گئے ھیں جی ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر
قاسم روتے ھوئے بول رہا تھا جبکہ فہد نے یہ سنتے ہی کھنچ کر قاسم کو خود سے الگ کیا اور پھر اسے خونخوار نظروں سے دیکھتے ھوئے بولا
بکواس بند کرو اپنی
سمجھے تم ایسا کچھ نہیں ھے
بس تم بتاؤ مجھے کہ اسد پر کہاں ھے
فہد شیدید غصے میں قاسم کو مخاطب کر رھا تھا حالانکہ اس نے آ ج تک کبھی قاسم سے اس طرح بات نہیں کی تھی مگر اب سوال اس کے جان سے عزیز بھائی کا تھا اور قاسم اس کے بارے میں بقول فہد کے بکواس کر رھا تھا
جو کہ سچ بھی تھا مگر فہد اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر رھا تھا
آئیں جی
میرے ساتھ
قاسم نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا
اور فہد کی حالت کو سمجھتے ھوئے فہد کے رویے کا برا منائے بغیر فہد کو اسد کے پاس لے جانے لگا
قاسم کا باپ حیات صاحب کا ڈرائیو تھا اس لئے قاسم کا بھی فہد کے گھر بچپن سے ہی آ نا جانا تھا جس کی وجہ سے قاسم اسد اور فہد دونوں کے ساتھ ہی بڑا ھوا اور قاسم کو بھی اسد اور فہد دونوں سے بہت لگاؤ اور محبت تھی
اس لئے اب بھی وہ اسد کی موت سے ٹوٹ کر رہ گیا تھا جبکہ فہد اس کی تو جان بستی تھی اسد میں اس کا کیا حال ھو گا اسد کو مرا ھوا دیکھ کر
یہی سوچ کر قاسم پریشان ہو رھا تھا
اسد بیٹے جلدی اٹھو
پلیز اٹھو اسد
یار آ نکھیں کھولو بھی
اسد اٹھو نا
فہد نے جھنجھوڑ کر اسد کو ہلایا مگر اسد کے بے جان وجود میں کوئی حرکت نہ ھوئی
اسد اٹھ جاؤ یار دیکھو اب تو مجھے بھی رونا آ رھا ھے
مت تنگ کرو یار بھائی کو
سوری یار مجھے تمہیں روکنا نہیں چاہیے تھا
تم سہی کر رھے تھے اس لڑکی کے ساتھ وہ اسی قابل تھی
وہ دو ٹکے کی لڑکی اس کی اتنی ہمت کہ اس نے تم پر حملہ کیا
مگر اب مار چکا ھوں میں اسے لے لیا تمہارا بدلہ
لیکن عیلی وہ بھاگ گئی مگر تم فکر نہیں کرو اسے بھی میں ادھر ہی لے کر آوں گا تاکہ اس کی بہن جو مرتے وقت تک مجھے صرف یہ کہہ رہی تھی کہ میں ریلی سے دور رھو وہ مرنے کے بعد بھی عیلی کو میرے پاس دیکھ کر سکون سے نہ رھے
خیر چھوڑو یہ سب
اب بس تم جلدی سے ٹھیک ھو جاؤ پھر ہم سب خوشی خوشی رہیں گے اور اور پھر تمہاری شادی بھی تو کرنی ھے
اس لئے اٹھ جاؤ اسد یار ھوسپیٹل بھی تو جانا ھے
اٹھو نا
فہد دیوانہ وار اسد کو جھنجھوڑ کر اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا جسے دیکھ کر قاسم فہد کے پاس آ یا اور پھر فہد کو اسد سے الگ کرنے لگا جبکہ فہد پیچھے مڑا اور قاسم کو زور سے دھکا دے کر بولا
دور رھو مجھ سے
اسد کو کچھ نہیں ھوا سمجھے تم
فہد سرخ آ نکھیں قاسم کے وجود پر گاڑتے ھوئے بولا جبکہ قاسم دوبارہ فہد کے پاس آ یا اور اسے زور سے پکڑ کر اپنے گلے لگا کر بولا
بھائی جی اسد بھائی جا چکے ھیں
سنبھالیں خود کو
اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے وہ مر چکیں ھیں
قاسم نے جیسے ہی فہد سے یہ لفظ کہے فہد پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا جبکہ قاسم ابھی بھی فہد کو گلے لگائے ھوئے تھا
بھائی جی ایک بات بتانی ھے آ پ کو جس کے پورا ھونے سے اسد بھائی کو سکون ملے گا
اسد بھائی کو اس لڑکی نے نہیں مارا بھائی جی جسے آپ مار کر آئیں ھیں
میں سچ کہہ رھا ھوں بھائی جی اسد بھائی نے مجھے بتایا کہ اس لڑکی کی چھوٹی بہن نے اسد بھائی کے سر پر مارا تھا اسد بھائی آ پ کو یہی بتانا چاہتے تھے مگر پھر ان کے پاس وقت بہت کم تھا
اور آ پ آ نہیں رھے تھے تو انھوں نے مجھے بتا دیا
آ پ کو کمزور نہیں ھونا ھے بھائی جی بلکہ خود کو سنبھال کر اس لڑکی سے اسد بھائی کا بدلہ لینا ھے
آ پ سمجھ رھے ھیں بھائی جی میں کیا کہہ رہا ہوں
آ پ یا میں اب نہیں روئیں گے بلکہ ہمیں اس لڑکی کو تلاش کرنا ھے پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے اذیت دے دے کر ماریں گے
پھر جا کر اسد بھائی کو سکون ملے گا
قاسم آ ہستہ آہستہ بول کر فہد کے ذیہن اور دل میں زہر بھر رھا تھا جبکہ فہد بھی یہ بات سن کر قاسم کی بات ماننے کے لئے راضی ھو گیا تھا کہ وہ عیلی کو کہیں سے بھی ڈھونڈ کر اپنے پاس لے آ ے گا اور پھر اسے پل پل مارے گا
چھ ماہ بعد
وہ بہت تیزی سے بھاگ رہی تھی بغیر پیچھے دیکھے بس بھاگے جا رہی تھی کہ اچانک اسے ایک چیخ سنائی دی
آ ۔۔۔۔۔اپی
اس نے رک کر کہا اور پلٹ کر پیچھے بھاگی
وہ بھاگ کر آ ئ تو اپنی بہن کو زمین پر خون میں بھرے گرے ھوئے دیکھا
آ پی
آ پی اٹھیں پلیز
آ آ آ پی
آ پ کو کچھ نہیں ھو گا
ہم ابھی یہاں سے نکل جائیں گے
آ پی پلیز آ نکھیں کھولیں
آ پ سن رہی ھیں کہ میں کیا کہ رہی ھوں
آ پی اٹھیں نا
وہ زاروقطار رو کر اپنی بہن کو پکار رہی تھی
مگر اکھڑی ھوی سانسوں کے علاوہ اسے کوئی
جواب نہیں مل رہا تھا
اور پھر ایک آ خری جھٹکا کھا کر اس کی بہن
اسے اکیلا چھوڑ جاتی ھے
آ پی
آ پی اٹھیں پلیز
آ پ میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتیں
میں مر جاؤں گی آ پ کے بغیر
چھوڑو مجھے
چھوڑووو
ھاتھ مت لگانا مجھے
آ پی مدد کریں میری
اٹھیں نا
آ پی
عیلی چیخ کر اٹھی اور خود کو پسینے میں شرابور پایا
یہ خواب عیلی پچھلے چھ ماہ سے آ رھا تھا
جب سے دعا کی موت ھوئی تھی
چھ ماہ پہلے جب عیلی کا ایکسیڈنٹ ھوا تو وہ پولیس کی گاڑی تھی جس میں سے انسپیکٹر منیر باہر نکلا اور عیلی کو ھوسپیٹل لے کر گیا جہاں عیلی تین دنوں تک بے ھوش رہی
اور جب اسے ھوش آ یا تو اسے ایک اور جان لیوا خبر سننے کو ملی کہ دو دن پہلے دعا کی لاش ملتے ہی فیصل صاحب ھاٹ اٹیک سے فوت ہو چکے تھے
یعنی عیلی اب اس دنیا میں بالکل اکیلی رہ گئی تھی
اگر قیوم صاحب عیلی کو نہ سنبھالتے تو یقیناً عیلی خودکشی کر چکی ھوتی پھر جیسے تیسے عیلی نے خود کو سنبھالا کیونکہ اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا
آ خر زندگی تو گزارنی ہی تھی
اور اوپر سے فہد کا ڈر بھی تھا اس لئے عیلی نے قیوم صاحب سے مدد لیتے ھوئے اپنے گھر سے ضروری سامان اور پیسے لیے اور اپنا گھر چھوڑ کر ھوسٹل میں رہنے لگی
حالانکہ قیوم صاحب نے اسے کہا بھی تھا کہ وہ عیلی کو لاھور اس کے ریلیٹیوز کے پاس چھوڑ آ تے ھیں مگر عیلی نے منع کر دیا
اور تو اور عیلی قیوم صاحب کے لاکھ پوچھنے کے باوجود بھی فہد کے بارے میں کچھ نہ بولی
تو تھک ہار کر قیوم صاحب نے دعا کا کیس بند کر دیا
جبکہ دوسری طرف جب حیات صاحب کو اسد کی موت کا پتہ چلا تو انھیں ھاٹ اٹیک آیا
فری ھوسپیٹل لے جانے سے زندگی تو ان کی بچ گئی مگر فل بوڈی پیرالایز ھو گئی
جس سے فہد پر اب ساری ذمہ داریاں آ چکی تھیں اور وہ انھیں باخوبی نبھا بھی رھا تھا اور ساتھ ساتھ عیلی کا بھی پتہ لگا رھا تھا مگر عیلی کے گھر چھوڑ دینے کی وجہ سے وہ ابھی تک عیلی کو ڈھونڈنے میں ناکام ھو رھا تھا
لیکن یہ بات تو طے تھی کہ فہد عیلی کو چھوڑنے والا تو نہیں تھا