ابھی تک تم نے کھانا نہیں کھایا عیلی
فہد بیڈ پر عیلی کے پاس بیٹھتے ھوئے بولا جبکہ عیلی سر جھکا کر چمچ اٹھانے لگی کہ اچانک فہد نے ھاتھ بڑھا کر خود چمچ اٹھا لیا اور پھر بریانی سے چمچ بھر کر عیلی کے منہ کی طرف بڑھایا
میں خود کھا لوں گی سائیں جی
عیلی نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ کہیں فہد کو برا ہی نہ لگ جائے اور وہ دعا کو یہاں سے بھیجنے سے انکار کر دے
جبکہ فہد عیلی کو دیکھ کر پہلے تو مسکرایا اور پھر بولا
کوئی بات نہیں عیلی آ ج تم میرے ھاتھ سے کھا لو
شادی کے بعد میں روزانہ تمہارے ھاتھ سے کھا لیا کرو گا
اب ٹھیک ہے
چلو منہ کھولو
فہد عیلی کو بچوں کی طرح ٹریٹ کر رھا تھا جبکہ عیلی بھی مجبوری میں فہد کے ھاتھ سے بریانی کھانے لگی
آ خر اور کر بھی کیا سکتی تھی وہ
سوائے فہد کی بات ماننے کے
جبکہ فہد نے عیلی کو ساری پلیٹ بریانی کھلای اور پھر ٹشو سے عیلی کے منہ کو صاف کرتے ھوئے بولا
عیلی صبح تمہاری بہن یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی اس لئے تم اپنی بہن سے ابھی مل لو کیونکہ صبح تمہیں ٹائم نہیں ملے گا اس سے ملنے کا
اور ھاں اپنی بہن کو اچھے سے سمجھا دینا کہ تم خود اپنی مرضی سے میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی
اور تم نے وعدہ کیا ہے کہ تم مجھے کبھی بھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گی
اس لئے میں تمہاری بہن کا کوئی ڈرامہ برداشت نہیں کروں گا اور اگر اس نے تمہیں مجھ سے دور کرنے کی کوشش کی نا
تو اسد تو کیا مارے گا اسے اس سے پہلے ہی میں خود تمہاری بہن کو اپنے ھاتھوں سے جان سے مار دوں گا
اور تم جانتی ھو عیلی
میں یہ کر سکتا ہوں
کیونکہ رہنا تو تمہیں ہمیشہ میرے پاس ہی ھے تو چاھے کسی کو اچھا لگے یا برا مجھے اس بات سے کوئی مطلب نہیں ھے
تو چلو اٹھو تمہیں تمہاری بہن کے پاس لے جاؤں تاکہ تم آخری بار اس سے مل لو
فہد نے اٹھتے ہوئے عیلی کے سفید پڑتے ھوئے چہرے کو دیکھ کر کہا جبکہ عیلی بے جان ھوتے قدموں سے کے ساتھ اٹھ کر فہد کے پیچھے چل پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آ آپی
عیلی دعا کے کمرے میں داخل ھوتے ہی دعا کو دیکھ کر بولی جو کہ ابھی بھی سر جھکا کر گھٹنوں کے گرد بازوؤں کا گھیرا بنا کر بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک عیلی کی آ واز پر چونک کر سر اٹھایا اور پھر بے یقینی سے عیلی کو دیکھنے لگی
جبکہ عیلی نم ھوتی آ نکھوں کے ساتھ بھاگ کر دعا کے پاس آئی اور پھر اس کے گلے لگ کر زور زور سے رونے لگی
جبکہ فہد عیلی کو روتا ہوا دیکھ کر خود فوراً کمرے سے باہر نکل گیا آ خر کب وہ عیلی کو یوں روتا ہوا دیکھ سکتا تھا
عیلی کچھ دیر تک دعا کے گلے لگی رہی اور روتی رہی جبکہ دعا کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ھو رہی تھی پھر کچھ دیر بعد عیلی خود کو سنبھالتے ھوئے دعا سے الگ ھوئی اور دعا کو غور سے دیکھ کر بولی
آ پ ٹھیک تو ہو نا آ پی
آ پ کو کچھ ھوا تو نہیں ان لوگوں نے آ پ کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچایا
کیا ھوا آ پی
آ پ کو خوشی نہیں ھوئی مجھے دیکھ کر
عیلی حیرانگی سے دعا کو دیکھ کر بولی جبکہ دعا شوکڈ سی کھڑی پتھرائی ہوئی نظروں سے عیلی کو دیکھ رہی تھی اور پھر عیلی کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے غصے سے بولی
تم یہاں کیا کر رہی ھو عیلی ھاں
تمہیں گاڑی میں رکنے چاھیے تھا نا
تمہیں پتہ بھی ھے عیلی کہ یہ لوگ کتنے خطرناک ھیں اور تمہیں کتنا نقصان پہنچا سکتے ہیں
اگر ان لوگوں نے تمہیں کچھ کر دیا تو
تم سمجھ بھی رہی ھو کہ میں کیا کہ رہی ھوں
دعا عیلی کو جھنجھوڑ کر بولی کیونکہ اسے عیلی پر بہت غصہ آ رھا تھا
مطلب کہ یہاں دعا عیلی کو سمجھا رہی تھی اور وہ بس مسکرا کر دعا کے چہرے کو ہی دیکھے جا رہی تھی
تم پاگل تو نہیں ہو گئی ھو عیلی جو مسکراے جا رہی ھو
میں تم سے کچھ پوچھ رہی ھوں
جواب دو میری بات کا
بتاؤ مجھے کہ تم یہاں پہنچی کیسے اور
اور کب سے تم یہاں پر موجود ھو
دعا نے عیلی کو پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا اور اب کی دفعہ کچھ نرمی سے بولی
کیونکہ دعا کو لگ رھا تھا کہ اس کے غصہ کرنے سے عیلی بلکل بھی اسے کچھ نہیں بتائے گی
اس لئے اب کافی پر سکون ہو کر عیلی سے پوچھ رہی تھی
آپی میں آ پ سے یہاں صرف آخری بار ملنے اور آ پ کو یہ بتانے آ ئ ھوں کہ آ پ کل صبح یہاں سے ہمیشہ کے لئے چلی جائیے گا
اور دوبارہ کبھی بھی یہاں آ نے کی ضرورت نہیں ہے
عیلی سر جھکا کر آ ہستہ آہستہ دعا سے بات کر رہی تھی جبکہ دعا نے غصے سے عیلی کا چہرہ اوپر کیا اور پھر بولی
کیا مطلب ھے تمہارا اس بات سے کہ تم مجھ سے آ خری دفعہ ملنے آ ئ ھو
اور کل صبح میں اکیلی یہاں سے چلی جاؤں
کیا کیا ھے تم نے عیلی
کہیں تم نے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر لیا نا
عیلی صاف صاف بتاؤ کہ تم ایسا کیوں کہ رہی ھو
کہیں تم نے
آ پی میں سائیں جی سے وعدہ کر چکی ھوں کہ اگر وہ آپ کو یہاں سے سہی سلامت ہمیشہ کے لیے بھیج دیں گے
تو میں ان کے ساتھ شادی کروں گی اور ہمیشہ ان کے پاس رھوں گی کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے ھیں اور انھوں نے یہ شرط رکھی ھے آ پ کی آزادی کی اور میں یہ شرط قبول کر چکی ھوں
آ پ کو نہیں پتہ آپی کہ سائیں جی کتنے خطرناک ھیں
اگر آ پ نے مجھے یہاں سے لے جانے کی ضد کی نا تو وہ آپ کو جان سے مار دیں گے آ پی
لیکن میں آ پ کو کھو نہیں سکتی
اس لئے آ پ پلیز کل یہاں سے چلی جائیں تاکہ مجھے بھی تھوڑا سکون ملے کہ اب آ پ محفوظ ہیں
عیلی نم آ نکھوں سے دعا کو دیکھتی ھوئی بولی جبکہ دعا نے زور سے اپنے سر پر ھاتھ مارا اور پھر بولی
تم مکمل پاگل ہو عیلی تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں یہاں اس جہنم میں اکیلے چھوڑ کر خود یہاں سے چلی جاؤں گی
اور وہ تمہارا سائیں جی وہ شادی کرے گا تم سے کیونکہ محبت ھو گئ ھے اسے تم سے
ایسے کیسے اچانک اسے تم سے محبت ھو گئ
محبت کوئی مزاق نہیں ھے عیلی
اور تم میں ایسا کیا خاص تھا حالانکہ تم اس سے تقریباً 20 سال چھوٹی بھی ھو پھر بھی
ایسے لوگ کسی بھی عام سی لڑکی سے محبت یا شادی نہیں کرتے بلکہ اپنے خاندان کی لڑکی کو اپنی عزت بناتے ھیں
بکواس کر رھا ھے وہ
تمہیں صرف استمعال کرنا چاہتا ھے کیونکہ پسند آ گئی ھو گی تم اسے
اس لئے اپنا مطلب پورا کرنا چاہتا ھے تم سے
اور جب اس کا مطلب پورا ھو جائے گا تو پھینک دے گا تمہیں کسی کباڑ کی طرح
اس لئے یہ سب بکواس باتوں کو اپنے ذیہن سے نکالوں کیونکہ تم کل میرے ساتھ جاؤ گی یہاں سے ہمیشہ کے لئ
میں تمہیں اور مزید بے وقوفی نہیں کرنے دوں گی عیلی
تو چپ چاپ میری بات مانو
جو میں کہہ رہی ھوں
ہم دونوں کل صبح فجر کے وقت یہاں سے ہمیشہ کے لئے نکل جائیں گے
سمجھ آ ئ تمہیں
دعا نے جواب طلب نظروں سے عیلی کی طرف دیکھا تو عیلی نے بے تاثر چہرے کے ساتھ سر ھاں میں ہلا دیا
ابھی تم جاؤ یہاں سے اور ھاں کل صبح یاد سے تم آ ؤ گی میرے پاس کیونکہ مجھے یہ لوگ اس کمرے میں لوک رکھتے ھیں تو تمہیں ہی لوک کھولنا پڑے گا
ٹھیک ھے
جی آ پی
عیلی نے بہت آ ہستہ سے جواب دیا کہ دعا بھی بہت مشکل سے سن پائی
جاؤ اب اور نارمل رہنا ورنہ تمہارے سائیں جی کو شک ھو جائے گا تم پر اور ہمارا پلین فلوپ
تو نارمل رھو ٹھیک ھے
جی آ پی
عیلی نے دعا کو دیکھ کر کہا اور پھر چپ چاپ کمرے سے باہر نکل کر اپنے کمرے (جہاں وہ پہلے بند تھی) کی طرف چل پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد باہر ھال میں ہی بیٹھا عیلی کا ویٹ کر رھا تھا کہ اس سے بات کر سکے
اور ابھی ابھی اس نے عیلی کو واپس روم میں جاتے ھوئے دیکھا تھا اس لئے اٹھ کر عیلی کے پاس جانے لگا کہ اچانک اپنے فون پر قاسم کی کال دیکھ کر حیران رہ گیا
یہ قاسم کیوں اس وقت کال کر رھا ھے کہیں اسد نے غصے میں کچھ
فہد سوچتے ھوئے کال پک کی اور پھر حیرانگی سے بولا
ھاں بولو قاسم
کیا ھوا کال کیوں کی
اور یہ اسد کہاں پر ھے بات کرواؤ میری اس سے
بھائی جی
اسد بھائی غصے میں ڈرائیو کر رھے تھے جی
اور ان کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے چوٹیں بھی آی ھیں مگر وہ ھوسپیٹل نہیں جا رھے ھیں جی
اس لئے میں نے آ پ کو فون کیا ھے کہ آ پ خود آ کر انھیں ھوسپیٹل لے جائیں
اس سے پہلے کہ خون زیادہ ضائع ہو جاے
جلدی کریں جی
قاسم نے جلدی جلدی اپنی بات مکمل کی اور فہد کے جواب کا انتظار کرنے لگا
تم مجھے ابھی جگہ بتاؤ میں ابھی ابھی کچھ منٹس میں وہاں پہنچ رھا ھوں
ٹھیک ھے
تم بس اسد کو ھوش میں رکھنا اسے بے ھوش نہیں ھونے دینا ھے تم نے
ٹھیک ھے
جی بھائی جی
فہد کچھ دیر تک تو خاموش رھا پھر بوکھلا کر جلدی جلدی میں قاسم سے ایڈریس پوچھا اور ایک آخری نظر عیلی کے کمرے کے بند دروازے پر ڈال کر باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاسم بتاؤ اسد کہاں ھے
اگلے 15 منٹ میں فہد قاسم کی بتائی ہوئی جگہ پر کھڑا قاسم سے اسد کا پوچھ رھا تھا جبکہ قاسم مجرموں کی طرح سر جھکائے فہد کے سامنے کھڑا تھا
قاسم میں کچھ پوچھ رھا ھوں تم سے
بکو بھی اسد کہاں پر ھے
فہد غصے میں زور سے دھاڑا تو قاسم ڈرتے ڈرتے بولنا شروع ھوا
بھائی جی وہ
وہ کیا
بتاؤ بھی
قاسم اتنا ہی بولل کر چپ ھو گیا تو فہد نے قاسم کو گھورتے ھوئے جلدی سے کہا کہ قاسم اسے فوراً جواب دے
بھائی جی اسد بھائی کو کچھ نہیں ھوا ھے
وہ جی انھوں نے مجھے زبردستی آ پ سے فون کرنے کو کہا تھا تاکہ آ پ ادھر آ جائیں اور اسد بھائی اس لڑکی سے بدلہ لے سکیں
میں کیا کرتا جی مجبور تھا
مجھے معاف کر دیں بھائی جی
قاسم فہد کی منتیں کرتے ھوئے بولا جبکہ فہد کا سارا دھیان اس وقت عیلی کی طرف تھا کہ وہ اسے وہاں اکیلا چھوڑ آ یا ھے وہ بھی دروازے لوک کیے بغیر اور اگر دعا اور عیلی وہاں سے بھاگ گئیں تو
میں کیا کروں گا عیلی کے بغیر کیسے جی سکوں گا
نہیں عیلی تم مجھے چھوڑ کر نہیں جاؤ گی آ خر تم نے پرومس کیا ھے میرے ساتھ
لیکن اگر تم نے وہ پرومس توڑا نہ عیلی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ھو گا
میری محبت کو محبت ہی رہنے دو تو بہتر ھے
فہد نے دل میں سوچا اور پھر جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر بولا
بیٹھو گاڑی میں قاسم جلدی
فہد نے چیخ کر قاسم سے کہا اور پھر اس کے بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ٹینشن اور کچھ تھکاوٹ کی وجہ سے عیلی بیڈ پر لیٹتی ہی سو گئی
مگر ابھی اسے سویے ھوئے مشکل سے پندرہ منٹ ہی ھوئے ھوں گے کہ اس کی آ نکھ دعا کے چیخنے سے کھلی
آ پی
آ پی کو کیا ھوا
عیلی نے گھبرا کر کہا اور پھر جلدی سے اٹھ کر دعا کے کمرے کی طرف دوڑنے لگی
جیسے ہی عیلی نے دعا کے کمرے کا دروازہ کھولا تو اسے دعا بیڈ پر گری ھوئی نظر آئ جبکہ اسد اس پر جھکا ہوا تھا
دعا مسلسل اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی تھی مگر دعا جیسی نازک سی لڑکی اسد کے سامنے بہت کمزور ثابت ھو رہی تھی
عیلی نے جیسے ہی دعا کو اس حال میں دیکھا تو بھاگ کر دعا کے پاس گئ اور اسد کو کھینچ کر دعا سے دور کرنے لگی مگر عیلی بھی آ خر کیا کر سکتی تھی وہ بھی تو ایک نازک سی کمزور سی لڑکی ہی تھی جبکہ اسد نے اٹھ کر عیلی کو دھکا دیا اور وہ کافی دور جا کر زمین پر گری جس سے سر زمین سے ٹکرایا اور عیلی کے سر پر کافی گہری چوٹ لگ گئی جس سےخون نکلنا شروع ھو گیا
چھوڑو مجھے گھٹیا انسان
پیچھے ہٹو
ورنہ میں تمہیں جان سے مار دوں گی
دعا نے بولتے ھوئے خود پر دوبارہ جھکتے ھوئے اسد کو دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا جس سے دعا کے ناخنوں کی کھروچ اسد کے گلے پر لگ گئی
جب کے اسد نے غصے میں ایک زور کا تھپڑ دعا کے منہ پر مارا اور پھر اس جیسے دو تین اور تھپڑ دعا کے مارے جبکہ ایک ھاتھ سے دعا کا گلہ دباتے ھوئے اسے بے بس کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ احتجاج کرنا بند کر دے اور دعا اپنی روکتی ھوئی سانسوں کی وجہ سے بے بس ھو بھی گئ
جبکہ عیلی اپنے سر سے نکلتے ہوئے خون کی پرواہ کیے بغیر دوبارہ اٹھی اور پھر اپنے پاس پڑے بڑے سے واز کو اٹھا کر اپنی پوری فورس سے اسد کے سر پر مارا جس سے اسد نے ایک کراہ کے ساتھ نہ صرف دعا کو چھوڑ دیا بلکہ خود بیڈ پر اپنا سر پکڑ کر گر گیا جبکہ اسد کا سر سے بہتا ھوا خون بہت تیری سے بیڈ شیٹ کو سرخ کر رھا تھا
لیکن عیلی کو جب ھوش آ یا کہ وہ اسد پر حملہ کر چکی ھے تو وہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگی جبکہ دعا پہلے تو سمجھی نہیں کہ یہ اچانک ھوا کیا ھے مگر پھر جب سب سمجھ آ یا کہ عیلی نے اسد پر حملہ کر دیا ہے اور پھر عیلی کے رونے کی آواز سن کر دعا جلدی سے اپنا گلہ سہلاتے ہوئے اٹھی
اور پھر جلدی سے عیلی کے پاس جا کر بولی
عی۔۔۔۔عیلی اٹھ۔۔۔۔۔اٹھو چللو
کافی دیر تک گلہ دبانے سے دعا سے بولا نہیں جا رھا تھا لفظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ھو رھے تھے اور آ واز بھی بہت آہستہ آ رہی تھی مگر اب جو بھی تھا
اسے عیلی کو بھی تو سنبھالنا تھا اس لئے بہت مشکل سے زور لگا کر بولی
عی۔۔۔۔۔عیلی چ۔۔۔۔۔چلو پلیزززز
آ پی م۔۔۔۔میں نے اس۔۔۔۔اسے ما۔۔۔۔۔مار دیا
م۔۔۔۔۔۔م۔۔۔۔۔م۔۔۔۔میں اس۔۔۔۔۔ اسے مارنا نہ۔۔۔۔۔نہیں چاہتی تھی ما۔۔۔۔مگر وہ آاپ کو مار دیتا آ پی اس لئے میں نے
عیلی مکمل کانپتی ھوئ دعا سے بول رہی تھی کیونکہ آج تک اس نے کسی چیونٹی کو نہیں مارا تھا مگر اب تو وہ ایک انسان پر حملہ کر چکی تھی
عی۔۔۔عیلی تم نے جو بھ۔۔۔بھی کیا وہ می۔۔۔۔میری جان بچ۔۔۔۔بچانے کے ل۔۔۔لیے کیا ھے
اس میں تم۔۔۔۔تمہاری کوئی غل۔۔۔۔غلطی نہیں ھے یہ اس۔۔۔۔اسی قا۔۔۔۔قابل تھا
تو تم یہ س۔۔۔۔سب سوچنا چھ۔۔۔چھوڑو اور چلو ی۔۔۔یہاں سے ورنہ اس کا بھ۔۔۔۔بھائی آ جائے گا اور پھ۔۔۔۔۔پھر ہم دونوں کی م۔۔۔۔۔موت لازمی اس کے ھات۔۔۔۔ھاتھوں سے ھو ج۔۔۔۔جائے گی
تو پلیز چ۔۔۔۔چلو عیلی
دعا بہت مشکل سے بولتی ھوئی اٹھی اور پھر کانپتی ھوئی عیلی کا ھاتھ پکڑ کر اسے اٹھایا اور باہر کی طرف چل پڑی جبکہ اسد کی سانسیں اب اکھڑنے لگی تھیں کیونکہ چوٹ بہت گہری تھی اور خون بھی کافی سپیڈ سے نکل رھا تھا اور موت ہر گزرتے ھوئے لمحے کے ساتھ اس کے بہت قریب آتی جا رہی تھی
جیسے ہی دعا اور عیلی فارم ھاؤس سے باہر نکلیں تو انھیں فہد کی گاڑی آ تی ھوئی دیکھائی دی
آ آ پی سا۔۔۔۔۔ساییں جی آ گ۔۔۔۔۔گئے ھیں
عیلی نے دعا کو دیکھ کر کہا جو تیزی سے چل رہی تھی
کیا کہا ع۔۔۔۔عیلی
آ پی ادھر دی۔۔۔۔دیکھیں
عیلی نے فہد کی طرف اشارہ کیا تو دعا نے جلدی سے فہد کی طرف دیکھا اور پھر بھاگو عیلی بول کر عیلی کو کھینچتے ھوئے دوڑنے لگی جبکہ فہد نے ایک نظر بھاگتی ھوئی عیلی پر ڈالی اور پھر جلدی سے دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کے گاڑی کا رخ عیلی اور دعا کی طرف کر دیا جہاں وہ بھاگ رہی تھیں
مگر قاسم کو وہ گاڑی سے اتار چکا تھا یہ کہہ کر کہ وہ اسد کو دیکھے کہ وہ فارم ھاؤس پہنچا ھے یا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔