پچھلے آ دھے گھنٹے سے عیلی گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی ھوئی رو رہی تھی جب سے دعا کو اس گاڑی میں لے جایا گیا تھا وہ بہت ڈر گئی تھی اور بری طرح کانپ رہی تھی
وہ جو اپنی آ پی کے بغیر کچھ بھی نہیں تھی اب یہاں سنسان جگہ پر اکیلی رہ گئی تھی
اب میں کیا کروں
آپی کو میری ضرورت ہے مگر میں کیا کر سکتی ھوں
اکیلی یہاں پر
لیکن اگر ان لوگوں نے آپی کو کچھ کر دیا تو
نہیں نہیں نہیں
ایسا نہیں ھو سکتا
مجھے کچھ تو کرنا پڑے گا آپی کے لئے
ان کی زندگی کے لئے
عیلی گاڑی کی سیٹ سے کمر لگا کر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ پھر اچانک بولی
می۔۔۔۔۔میں
میں پولیس کے پاس جاؤں گی اور آ پی کو واپس لے کر آؤں گی
مگ۔۔۔۔مگر اکی۔۔۔۔اکیلے ککیسے
اور ی۔۔۔یہاں پ۔۔۔پر تو پ۔۔۔۔پتہ نہیں پولی۔۔۔۔پولیس س۔۔۔سٹیشن ھے بھی کہ نہی۔۔۔۔نہیں
تتو پھر ھا۔۔۔۔۔ھاں
م۔۔۔۔م۔۔۔۔میں بابا کو ک۔۔۔۔کال کر۔۔۔۔کرتی ھوں
عیلی نے کانپتے ھاتھوں کے ساتھ اپنی جینز کی پاکٹ میں سے موبائل نکالا اور فیصل صاحب کو کال کی
بابا پل۔۔۔۔۔پلیز
کا۔۔۔۔۔کال پک کر۔۔۔۔۔۔کریں
پلیزززز
عیلی روتے ھوئے مسلسل فیصل صاحب کو کال کر رہی تھی مگر فیصل صاحب کال ریسیو نہیں کر رھے تھے
اسلام و علیکم بیٹے
اتنی جلدی پہنچ گئے لاھور
عیلی نے جب تیسری دفعہ کال کی تو فیصل صاحب کی آ واز سنائی دی
با۔۔۔۔۔بابا اااپی
عیلی نے جب فیصل صاحب کی آ واز سنی تو بھرائی ہوئی آواز میں بولی مگر کچھ لفظوں سے زیادہ اس سے بولا ہی نہیں گیا
بیٹے کیا ھوا آپ رو کیوں رھے ھو اور
کیا ھوا ھے دعا
کہاں ھے دعا اسے فون دو
فیصل صاحب پریشانی سے بولے
بابا آ۔۔۔۔آپی ککو ک۔۔۔۔۔۔کچھ
نہیں نہیں نہیں پلیز
ابھی نہیں
پلیز
عیلی ابھی فیصل صاحب سے بات کر ہی رہی تھی کہ اس کا موبائل لو بیٹری کی وجہ سے شٹ ڈاؤن ھو گیا کیونکہ گھر سے نکلنے سے پہلے عیلی نے موبائل چارج نہیں کیا تھا اور جو تھوڑی بہت بیٹری تھی وہ آ دھے راستے تک عیلی نے موبائل پر گیم کھیل کر لو کر دی
اور دعا کا موبائل دعا کے پاس ہی تھا یعنی اب جو کرنا تھا وہ صرف عیلی کو کرنا تھا
یا اللّٰہ میرے پیارے اللّٰہ
پلیز میری مدد کریں تاکہ میں آ پی کی مدد کر سکوں
یہاں کیسے ڈھونڈوں میں آ پی کو
سوری آ پی میں آ پ کی مدد نہیں کر پا رہی
عیلی کہ کے دوبارہ گھٹنوں میں سر دے کر زور زور سے رونے لگی
میں اتنی خود عرض کیوں ھو رہی ھوں
وہ بھی آ پی کے لئے
جنہوں نے ہمیشہ مجھے ہر مصیبت سے بچایا ہمیشہ میری حفاظت کی
آج انھیں میری ضرورت ہے تو میں خود غرض بن رہی ھوں
نہیں آ پی میں آ پ کو بے سہارا نہیں چھوڑوں گی
کچھ بھی کر کے آ پ کو بچاؤں گی ان لوگوں سے
عیلی نے سوچتے ھوئے دوبارہ گھٹنوں سے سر اٹھا اور کھڑکی سے باہر دیکھا
تو سورج کی روشنی بہت کم رہ گئی تھی یعنی مغرب ھونے میں کچھ دیر ہی باقی تھی
آ پ فکر نہیں کریں آ پی
آ پ کی بہن آ پ کو ضرور بچائے گی
عیلی بولتے ھوئے گاڑی سے باہر نکلی اور سنسان سڑک پر چلنے لگی اب جو بھی تھا مگر وہ دعا کو کھو نہیں سکتی تھی
سچ ہی کہتے ھیں کہ انسان اپنے عزیز رشتوں کے لئے جن سے اسے بہت زیادہ محبت ھو ان کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتا ھے اور ویسے بھی انسان کی اصل ہمت تو مصیبت کے وقت نظر آ تی ھے
جیسے اس وقت عیلی
وہ جتنی بھی ڈرپوک سہی مگر اپنی آ پی کے لئے اس نے ہمت پیدا کر ہی لی
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پلیز چھوڑ دو مجھے
مجھے معاف کر دو پلیز
چاہو تو مجھے بھی تھپڑ مار لو لیکن پلیز مجھے جانے دو
دعا جو اسد کے ساتھ گاڑی میں موجود تھی اب اسد کے سامنے ھاتھ جوڑ کر اس سے معافی مانگ رہی تھی کیونکہ اپنی عزت سے بڑھ کر اسے اپنی آنا نہیں تھی
تھپڑ
ھاھاھاھا
فکر نہیں کرو وہ بھی مار لوں گا مگر پہلے اپنی طلب تو پوری کر لوں
اسد قہقہہ لگا کر بولا اور دعا کے گال کو سہلایا جبکہ دعا اس ایک بات سے ہی شوکڈ ھو گئی کہ اب اس کے ساتھ کیا ھونے والا ھے
نہیں اللّٰہ پلیز
اتنی بڑی ذلت میرا مقدر نہ بننے
دعا نے دل سے دعا کی
گھٹیا آ دمی ایسا کبھی نہیں ھو گا
میں مر جاؤں گی مگر تمہاری یہ غلیظ خواہش کبھی پوری نہیں ھونے دوں گی
دعا نے کہ کر گاڑی کا دروازہ کھولا اور سڑک پر چلتی گاڑی سے باہر چھلانگ لگا دی جبکہ اسد جو نشے میں مکمل ٹن ھونے کی وجہ سے گاڑی کو لوک تک نہیں کر سکا تھا اور یہ بات دعا نوٹ کر چکی تھی اس لئے سوچ سمجھ کر جب اسد کا دھیان سگریٹ جلانے میں تھا تب گاڑی سے چھلانگ لگا دی
اسد نے جب دعا کو گاڑی سے چھلانگ لگاتے دیکھا تو جلدی سے گاڑی رکوائی اور دعا کے پیچھے بھاگنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیلی بیٹے کیا ھوا آپ کو
ہیلو عیلی
عیلی کی اچانک کال بند ھونے سے فیصل صاحب پریشانی سے بول رہے تھے ان کا دل اس ایک بات پر بند ھو رھا تھا کہ دعا کہاں ھے اسے کچھ ھوا تو نہیں
جو عیلی اس طرح رو کر دعا کا ذکر کر رہی تھی
دعا کو کال کرتا ھوں
فیصل صاحب نے سوچتے ھوئے دعا کو کال کی
بابا
پلیز میری مدد کریں
دوسری بیل پر کال ریسیو ھوئی اور دعا کی ھانپتی ھوئ آواز سنائی دی
کچھ آ وارہ لڑکے میرے پیچھے پڑے ھیں اور وہ مجھے کڈنیپ کر کے لے جا رھے تھے
ایک دفعہ تو میں ان سے بچ کر بھاگ گئی ھوں مگر وہ مجھے ڈھونڈ رھے ھیں
دعا مسلسل لمبے لمبے سانس لے کر بول رہی تھی جیسے بھاگ بھاگ کر سانس پھول گئی ھو
بیٹے آ پ کہاں ھو مجھے جلدی سے لوکیشن بتاؤ
فیصل صاحب نے فوراً دعا سے جگہ پوچھی
بابا میں یہاں
چھوڑو مجھے
بابا بچائیں مجھے
دعا بیٹے کون ھے وہاں
دعا کے چیخنے کی آ واز آئی اور کال کٹ گئی جبکہ فیصل صاحب بولتے ھوئے دوبارہ دعا کو کال کرنے لگے مگر فون مسلسل بند جا رھا تھا
اے میرے پروردگار میری بچیوں کی حفاظت کرنا
بے شک تو رحیم و کریم ہے
فیصل صاحب کو اب اپنی غلطی کا شدید احساس ھو رہا تھا کہ انھیں دعا اور عیلی کو اکیلے نہیں بھیجنا چاہیے تھا
مجھے قیوم کے پاس جانا چاہئے ھاں
وہ میری مدد ضرور کرے گا فیصل صاحب بولتے ھوئے گھر سے باہر نکلے اور قیوم صاحب جو کہ پولیس میں ڈی ایس پی تھے ان کے پاس جانے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑو مجھے
ھاتھ پیچھے کرو
خبر دار اگر مجھے ھاتھ لگایا تو
دعا جو گاڑی سے کود کر بھاگتی ھوئی وہاں موجود جھاڑیوں میں چپ گئی تھی اور تقریباً 2 گھنٹے تک وہیں چھپی رہی کیونکہ اسد اور وسیم اسے ادھر ہی ڈھونڈ رھے تھے
اندھیرا ھونے کی وجہ سے دعا انھیں نظر نہیں آ رہی تھی مگر پھر فیصل صاحب سے کال پر بات کرتے ھوئے اسد نے دعا کو ڈھونڈ لیا اور پھر اس کا موبائل وہیں پھینک کر خود دعا کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کی طرف لے جانے لگا
جبکہ دعا مسلسل چیختے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر اسد کی پکڑ اس دفعہ بہت مضبوط تھی
کافی دیر چلنے کے بعد اسد دعا کو کھینچ کر گاڑی تک لایا اور پھر گاڑی کا دروازہ کھول کر دعا کو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پیٹخ کر خود بھی دعا کے ساتھ بیٹھ گیا اور گاڑی کے دروازے لوکڈ کر دیے
جبکہ وسیم نے جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر دی
عیلی کافی دیر سے سنسان سڑک پر چل رہی تھی اور اب تو اندھیرا بھی ھونے لگا تھا
اللّٰہ اب میں کیا کروں
یہاں تو کوئی بھی نہیں ھے تو کس سے مدد مانگوں
پیاس بھی بہت لگی ھے
عیلی تھک کر وہیں زمین پر بیٹھ کر سوچنے لگی اور کچھ دیر تک وہیں بیٹھی رہی
کہ کچھ دیر بعد اسے اپنے پاس سے ایک عورت گزرتی ھوئی نظر آئی
ننگے پیر بھاری سے کپڑے جس کے دوپٹے سے اس نے اپنا آدھا چہرہ چھپایا ھوا تھا
اور ھاتھ میں ایک پوٹلی سی تھی
عیلی نے جب اس عورت کو یہاں سے گزرتے ھوئے دیکھ تو فوراً بھاگ کر اس کے پاس گئی اور پھر جلدی سے بولی
ایکسکیوزمی
کیا آ پ مجھے بتا سکتی ھیں کہ یہاں پر پولیس سٹیشن کہاں پر ھے
ایکچلولی مجھے پولیس کی ہیلپ چاھیے
میری آ پی کو کچھ لوگ کڈنیپ کر کے لے گئے ھیں تو کیا آ پ میری مدد کر سکتی ھیں
عیلی ایک ہی سانس میں ساری بات کر گئ جبکہ وہ عورت عیلی کا سر سے پیر تک جائزہ لینے میں مصروف تھی
آ پ میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہی ھیں
پلیز میری مدد کریں
عیلی نے دوبارہ اس عورت کو مخاطب کیا تو وہ ھوش میں آ کر بولی
کن اے تو
اور یہ کیا بل ریی اے
وہ عورت سندھی لہجے میں عیلی سے بولی جبکہ عیلی کو اس کی بات کی کچھ کچھ سمجھ آئی
وہ آ پ مجھے پولیس سٹیشن کا بتا سکتی ھیں پلیز
مجھے پولیس کی بہت ضرورت ہے
آ پ کا بہت بڑا احسان ھو گا مجھ پر
پلیز میری مدد کریں
عیلی التجاریہ انداز میں بولی جبکہ وہ عورت عیلی کو عجیب سی نظروں سے گھور رہی تھی
تو تھانے کی بت کر ریی اے کے
اس عورت نے دوبارہ عیلی سے اسے سندھی لہجے میں بات کی تو عیلی تھانے کا سن کر جلدی سے بولی
جی جی تھانے
کہاں ھے تھانہ آ پ مجھے تھانے تک لے جا سکتی ھیں پلیز
عیلی خوش ھوتے ھوئے بولی جبکہ اس عورت نے ترچھی نظروں سے عیلی کے سراپے کو دیکھا اور پھر سے بولی
تھانہ تو نیی اے یاں پے
یاں تو سائیں جی کا حوکم چلتا سے
تو بلتی اے تو میں سائیں جی کے پس لے جاتی اوں تجھے
ماگر مجے کییا ملے گا
اس عورت نے عیلی کی گولڈ کی چین کی طرف اشارہ کیا جو کہ دعا نے عیلی کو گفٹ کی تھی
عیلی نے بات سمجھتے ھوئے اپنی چین کی طرف دیکھا اور پھر یہ سوچ کر کہ دعا کی زندگی سے بڑھ کر اس وقت کچھ بھی نہیں ھے دعا کا دیا ھوا گفٹ بھی نہیں
چین اتار کر اس عورت کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی
آ پ پلیز ابھی مجھے اپنے سائیں جی کے پاس لے جائیں
میرے پاس زیادہ وقت نہیں ھے
جی جی چلو مرے ستھ
اس عورت نے عیلی سے جھپٹ کر وہ چین لی اور پھر اس چین کو لالچی نظروں سے دیکھتے ھوئے بولی
عیلی بغیر کچھ سوچے سمجھے اس عورت کے پیچھے چل پڑی جبکہ وہ عیلی کو اسد کے پاس لے جا رہی تھی یہ سوچتے ھوئے کہ اسد عیلی کے بدلے میں اسے بہت بڑی رقم دے گا کیونکہ یہ تو سارہ گاؤں ہی جانتا تھا کہ اسد کتنا عیاش قسم کا انسان ھے
کچھ دیر چلنے کے بعد عیلی حیات محل کے باہر کھڑی تھی کہ اس عورت نے گیٹ کو دوسری بار کھٹکھٹایا تو اندر سے وحید (چوکیدار ) باہر نکلا اور پھر وہ عورت اور وحید کافی دیر تک عیلی سے دور کھڑے سندھی میں ایک دوسرے سے بات کرتے رھے اس کے بعد وحید نے کچھ دیر عیلی کو گندی نظروں سے گھورا اور پھر اندر جا کر کچھ پیسے لایا اور اس عورت کو دے دیے
ہم اندر کیوں نہیں جارھے
سائیں جی کو آ پی کے بارے میں بتانا بھی تو ھے
تبھی تو وہ میری مدد کریں گے آ پی کو ڈھونڈنے میں
عیلی نے اس عورت کو اپنے پاس آ تے دیکھ کر کہا
وہ تجے یہ لے جئے گا سائیں جی کے پس
تو جا اس کے ستھ
اس عورت نے عیلی سے کہا اور خود واپس جانے لگی جبکہ عیلی نے اسے روک کر دوبارہ کہا
آ پ نہیں چلیں گی میرے ساتھ
ایکچلولی مجھے اکیلے ڈر لگ رھا ھے
عیلی سہمی ھوئی اس عورت سے بول رہی تھی جبکہ اس عورت نے ایک نظر عیلی پر ڈالی اور پھر منہ موڑ کر بولی
نیی تو جا مجے کم اے
سائیں جی تیری مادد کر دیں گے
وہ عورت کہ کر عیلی کو چھوڑ کر چلی گئی جبکہ عیلی نے ڈر کر وحید کی طرف دیکھا اور اندر چلی گئی
اے لڑکی ادھر آ
اندر چل
عیلی وحید کے پیچھے چلتے ھوئی اندر جا رہی تھی کہ وحید نے اسے آ واز دے کر اپنے کواٹر کی طرف بلایا
وحید کافی حد تک سہی اردو بولنا جانتا تھا اس لئے عیلی کو اس کی ساری بات سمجھ آ رہی تھی
مگر کیوں ہم تو حویلی کے اندر جا رھے ھیں نا سائیں جی کے پاس
عیلی جلدی سے بولی
وہ معصوم ضرور تھی مگر دعا نے اسے اتنا ضرور بتا دیا تھا کہ وہ کسی شخص کی نظروں اور باتوں کا مطلب سمجھ سکے
سائیں جی کے پاس نہیں جا رہی ھے تو
تجھے اپنے واسطے خریدا ھے میں نے
پیسے دیے ھیں تیرے لیے
چل میرے ساتھ پیسے پورے کر میرے
وحید چلتا ھوا عیلی کے پاس آ یا اور پھر عیلی کے ھاتھ کو پکڑ کر اسے گھسیٹتے ہوئے اپنے کواٹر کی طرف لے جانے لگا
چھوڑو مجھے
میری آپی کو میری ضرورت ہے
مجھے سائیں جی سے مدد چاھیے پلیز پلیز مجھے جانے دو
عیلی چیختے ھوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک وہاں طاہر جو کہ خود بھی ایک ملازم تھا وحید کے پاس آ کر بولا
وحید یہ کیا کر رھا ھے
کون ھے یہ لڑکی
طاہر نے روتی ھوئی عیلی کو دیکھ کر کہا
اس لڑکی کے لئے پیسے دیے ھیں میں نے تو یہ میری ھوئی اور ھاں تیرے جو وہ پیسے پڑے تھے نہا وہی تیرے صندوق میں ان میں سے بھی کچھ دیے ھیں تو تو بھی اس لڑکی سے اپنے پیسے وصول لینا مگر ابھی مجھے لے جانے دے اسے
وحید خباثت سے بولتے ھوئے عیلی کو لے جا رھا تھا کہ عیلی ان کی باتوں کو سن کر جھکی اور وحید کے ھاتھ پر چکی کاٹی جس سے وحید نے چیخ کر عیلی کا ھاتھ چھوڑ دیا
ھاتھ چھٹتے ہی عیلی نے دھوڑ لگا دی جبکہ وحید اور طاہر بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگے تاکہ عیلی کو پکڑ سکیں
بھاگتے بھاگتے عیلی کو فہد کا فارم ہاؤس نظر آ یا تو وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے فارم ہاؤس میں داخل ھو گئی
فہد جو گھر میں شراب نہ ھونے کی وجہ سے ابھی فارم ھاؤس آ یا ہی تھا تاکہ یہاں پر ڈرنک کر سکے
اور ابھی لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے ساتھ اندر کی طرف جا ہی رھا تھا کہ اس نے فارم ھاؤس کے گیٹ کھلنے کی آواز سنی
ابھی فہد پلٹ کر دیکھنے ہی والا تھا کہ کوئی تیزی سے بھاگتا ہوا آیا اور فہد کے پیچھے چھپ گیا
پلیز پلیز میری مدد کریں
کچھ لوگ مجھے زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاھتے ہیں
پلیز مجھے بچا لیں
عیلی فہد کے پیچھے چھپی اس کے کرتے کو مضبوطی سے اپنے ھاتھوں کی مٹھی میں دبوچے فہد سے مدد مانگ رہی تھی
جبکہ فہد شوکڈ سا کھڑا سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ اچانک ھوا کیا ھے
ابھی فہد اپنی سوچ میں ہی گم تھا کہ اچانک فہد کے فارم ہاؤس کے گیٹ سے فہد کے (ملازم) وحید اور طاہر داخل ھوتے ھوئے نظر آ ے
سائیں جی یہ لڑکی
ابے چپ کر اب وہ لڑکی سائیں جی کے پاس آ گئی ھے تو سائیں جی کی ھوئی تو چل یہاں سے
عیلی کو فہد کے پیچھے چھپے دیکھ کر وحید نے بولنا چاہا جبکہ طاہر نے جلدی سے اسے ڈانٹ کر چلنے کا کہا
لیکن سائیں جی کو تو لڑکیاں پسند ہی نہیں ھیں تو یہ لڑکی ہمیں دے دیں
وحید پوری طرح عیلی پر عاشق ھو چکا تھا اس لئے اسے چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا اور ویسے بھی آ خر اس نے عیلی کے لئے پیسے دیے تھے