فہد سائیں مجھے آ پ سے بہت ضروری بات کرنی
فہد جو ابھی بھی کسی سے فون پر بات کر رھا تھا اچانک مڑ کر زینب کو دیکھنے لگا جبکہ زینب فہد کو مصروف دیکھ کر چپ کر گئ
اوکے باے
پھر بات کرتا ھوں تم سے
فہد نے فون بند کر کے اپنی جیب میں رکھا اور پھر زینب کو دیکھ کر بولا
بولو کیا کہنا چاہتی ھو
فہد کہہ کر بیڈ پر بیٹھ کر زینب کے بولنے کا انتظار کرنے لگا جبکہ زینب بھاگ کر فہد کے پاس آ ئ اور پھر فہد کے قدموں میں بیٹھتی ھوئی فہد کو عیلی اور سنجا بی کی ساری گفتگو بتانے لگی
جبکہ فہد نے ساری بات غور سے سنی اور پھر بغیر زینب کی کسی بات کا جواب دیے غصے میں کمرے سے نکل گیا
بی بی جی یہ چادر اچھے سے اوڑھ لیں اور چلیں جی میرے ساتھ اس وقت باہر کوئی نہیں ھے جی
میں دیکھ کر آئ ھوں
مطلب اب ہم یہاں سے نکل سکتے ھیں
چلیں جی جلدی کریں
سنجا بی جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی عیلی کے کمرے سے نکل کر باہر گئیں تھیں تاکہ اسے ایک چادر لا کر اوڑھا سکیں کہ اس طرح عیلی کا چہرہ چھپ جائے گا
اب جلدی سے واپس عیلی کے پاس آ کر بولیں اور عیلی کے اوپر چادر سیٹ کرنے لگیں جبکہ عیلی چپ چاپ بس غور سے سنجا بی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی
کیا ھوا جی
چلیں بھی
سنجا بی نے جب عیلی کو ایک ہی جگہ پر کھڑے خود کو گھورتے ھوئے دیکھا تو اس سے وجہ پوچھنے لگی
تھنک یو آ نٹی جی
آ پ کو نہیں پتہ کہ آپ نے میری کتنی بڑی مدد کی ھے
سنجا بی کے بولنے پر یک دم عیلی سنجا بی کے گلے لگ کر بھرائی ھوئ آ واز میں بولی
جب کہ عیلی کے ایسا کرنے سے سنجا بی کی آنکھوں میں بھی ہلکی سی نمی آ گئی جسے انھوں نے فوراً اپنی انگلی کی پور سے صاف کیا اور پھر عیلی کو خود سے الگ کر کے اس کے سر پر کس کر کے بولیں
چلو بی بی جی
اس سے پہلے چھوٹے سائیں جی آ جائیں
سنجا بی نے پھر سے عیلی کی چادر کو ٹھیک کرتے ھوئے کہا اور پھر عیلی کا ھاتھ پکڑ کر تیزی سے چلنے لگیں
ابھی سنجا بی اور عیلی مین دروازے کے پاس ہی پہنچی تھیں کہ عیلی کے ھاتھ کو اچانک سے فہد نے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا جس سے عیلی کا سر زور سے فہد کے کاندھے پر لگا
عیلی جو اپنے ہی دھیان میں تیزی سے چل رہی تھی فہد کو دروازے کی اوٹ میں چھپے دیکھ ہی نہ سکی
آ نٹی
عیلی نے ڈر کر اچانک سنجا بی کو پکارا تو سنجا بی جو اس وقت مین دروازہ کھول رہی تھیں اسی وجہ سے انھوں نے عیلی کے ھاتھ چھوڑا تھا
عیلی کی آ واز سن کر جلدی سےسنجا بی نے عیلی کی طرف دیکھا تو فہد کو عیلی کے اتنے قریب دیکھ کر خود وہ ڈر سے کانپنے لگیں کیونکہ فہد جس طرح سنجا بی کو غصے سے گھور رھا تھا
اس کا صاف مطلب تھا کہ سنجا بی کی اب خیر نہیں
چھوٹے سائیں جی وہ
چپ کرو
تمہیں تو میں بعد میں دیکھوں گا
فہد نے تقریباً دھاڑتے ہوئے سنجا بی سے کہا اور پھر مکمل کانپتی ہوئی عیلی کا ھاتھ پکڑ کر اسے واپس کمرے میں لے جا کر دروازہ لوک کر لیا
جبکہ عیلی کانپتی ھوئی نظریں نیچے کیے بیڈ کے پاس کھڑی تھی
کیوں
کیوں کیوں تم مجھے پھر سے چھوڑ کر جارہی تھی
کیوں تم میرے قریب نہیں رہنا چاہتی
کیوں دور بھاگتی ھو مجھ سے
فہد عیلی کو کاندھوں سے پکڑ کر اس پر اپنی سرخ آنکھیں گاڑے ہوئے چیخ کر عیلی سے جواب مانگ رھا تھا جبکہ عیلی نے ڈر کر زور زور سے رونا شروع کر دیا
چپ کرو
سمجھ نہیں آئی تمہیں میں نے کیا کہا
چپ کرو ابھی
فہد نے عیلی کو غصے سے ڈانٹا تو عیلی چپ کر کے بس سسکیاں بھرنے لگی جبکہ کچھ دیر تک تو فہد عیلی کی طرف پیٹھ کیے لمبے لمبے سانس لیتا تھا پھر اچانک سے عیلی کے پاس آ کر اسے بیڈ پر دھکا دیا جبکہ عیلی زور سے بیڈ پر گری اور خوف سے آ نکھیں پھاڑ کر فہد کو دیکھنے لگی جو کہ اب خود بھی بیڈ پر چڑھ کر عیلی کا دوپٹہ اتار کر عیلی پر جھک چکا تھا
پا۔۔۔۔۔پل۔۔۔۔پلیز س۔۔۔۔سا
ریلی نے سسک کر اپنے دونوں ھاتھوں سے فہد کو خود سے دور کرتے ھوئے کہا جبکہ فہد نے غور سے عیلی کے سہمے ھوئے چہرے کو دیکھا اور پھر عیلی کے دونوں ھاتھوں کو پکڑ کر اسے دیکھتے ہوئے بولا
ششش
اب تمہاری آ واز نہ آئے مجھے سمجھی
نکاح تم مجھ سے کرنا نہیں چاہتی
جس کے بعد سے ہم دونوں کا جائز رشتہ ھوتا
مگر نہیں تم یہ کیسے کر لیتی
آ خر میرا ساتھ جو قبول نہیں ھے تمہیں
نفرت جو ھے مجھ سے
ایسی ہی بات ھے نا عیلی
اس لئے بھاگ رہی تھی نہ یہاں سے
لیکن مجھے حیرانگی اس بات پر ھے کہ تمہاری اس بکواس حرکت میں سنجا نے ساتھ دیا تمہارا
تمہارے لئے نمک حرامی کی اس سنجا نے میرے ساتھ
لیکن تم فکر نہیں کرو عیلی
میں خود اپنے ان ھاتھوں سے سنجا کو اس نمک حرامی کی سزا دوں گا
ٹھیک ھے نا
لیکن اس سے پہلے تمہیں سزا ملے گی
مجھ سے دور جانے کی
فہد عیلی کے ڈر سے کانپتے ہوئے ھونٹوں کو فوکس کرتے ہوئے بولا
جبکہ عیلی کا سارا دھیان صرف ایک بات پر چلا گیا تھا کہ فہد اب سنجا بی کو بھی جان سے مار دے گا
وہ بھی صرف عیلی کی وجہ سے مر جائے گیئں
سا ۔۔۔۔۔۔سای۔۔۔
ششش کچھ مت بولو عیلی
عیلی نے ڈر کر فہد سے سنجا بی کی سفارش کرنی چاہی جبکہ فہد نے عیلی کے ھونٹوں پر اپنی انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کو کہا اور خود مزید ریلی پر جھک گیا
دور ہٹیں مجھ سے
میرے پاس مت آئیے گا
ورنہ میں آ پ کو جان سے مار دوں گی ویسے ہی جیسے آپ کے بھائی کو مارا تھا وہ بھی تو آ پی کے ساتھ زبردستی کر رھے تھے
جس طرح آپ میرے ساتھ کر رھے ھیں
عیلی نے چیختے ہوئے فہد کو دھکا دے کر کہا جبکہ فہد غصے میں عیلی کو دیکھنے لگا
آ پ بھی اپنے بھائی کی طرح ہی ھیں جو صرف زبردستی کرنا اور انسان کی جان لینا جانتے ھیں
جس طرح آپ نے میری آ پی کو مارا اور آپی کی موت کے غم میں بابا بھی چلے گئے مجھے اکیلے چھوڑ کر
صرف مار ہی سکتے ھیں آ پ
انسان کی زندگی کی تو کوئی ویلیو ہی نہیں ھے نا آ پ کے نزدیک
اس لئے تو اب آ نٹی جی کو بھی جان سے مار دیں گے آپ
لیکن اس سے پہلے آ پ مجھے مار دیں کیونکہ یہ سب میری وجہ سے ھو رھا ھے
میں ہی ھوں قصور وار سب کی موت کی
اس لئے مجھے جینے کا کوئی حق نہیں ہے
مار دیں مجھے پلیز مار دیں
بس آ نٹی جی کو چھوڑ دیں
پلیززز
عیلی کہہ کر زور زور سے رونے لگی جبکہ فہد نے عیلی کو روتے ہوئے دیکھا اور پھر سنجیدگی سے بولا
نہیں مارو گا تمہاری آ نٹی کو
مگر اس کے لئے تمہیں چپ چاپ مجھ سے نکاح کرنا ھوگا میں زینب کو تمہارے پاس بھیج رھا ھوں جلدی سے تیار ھو جاؤ
باقی رات کو تم سے تفصیل سے ملاقات کروں گا
فہد نے بیڈ پر گری روتی ھوئی عیلی کو سرخ چہرے کے ساتھ دیکھ کر کہا اور پھر بھاری قدموں کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ عیلی مزید زور زور سے رونے لگی
کیونکہ اب جو بھی تھا
وہ سنجا بی کو مرنے نہیں دے سکتی تھی اور سنجا بی کی زندگی کے بدلے میں اسے فہد سے نکاح کرنا تھا
علیشاہ رانا ولد رانا فیصل آپ کا نکاح فہد مصطفیٰ ولد حیات مصطفیٰ سے سکہ رائج الوقت 50 کروڑ روپے کیا جا رھا ھے
کیا آ پ کو یہ نکاح قبول ھے
مولوی صاحب نے سرخ دوپٹہ اوڑھ کر سر جھکا کر بیٹھی عیلی سے پوچھا تو بے اختیار عیلی نے اپنی نظریں اٹھا کر سرخ باریک دوپٹے میں سے سامنے بیٹھے فہد کو دیکھا تو فہد نے آ نکھوں کے اشارے سے عیلی کو ھاں بولنے کا کہا جس پر عیلی نے اپنے سر کو ہلا کر اپنی رضامندی ظاہر کی کیونکہ بہت زیادہ رونے کی وجہ سے عیلی سے بولا تو جا نہیں رھا تھا
اس لئے سر ہلا کر ہی تینوں دفعہ قبول ھے کہا اور پھر چپ چاپ نکاح نامے پر سائن کر دیے
جبکہ عیلی کے بولنے کے بعد فہد نے پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ نکاح نامے پر سائن کیے
اور پھر کچھ دیر بعد فہد نے مولوی اور گواہوں کو چلتا کیا جبکہ عیلی کو نکاح کرنے کے فور بعد سنجا بی فہد کے کمرے میں لے گئیں تھیں
کیونکہ جب زینب کو اس بات کا پتہ چلا کہ فہد عیلی سے زبردستی نکاح کر رھا ھے اور اسی وجہ سے عیلی یہاں سے بھاگ رہی تھی
تو زینب کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی یعنی اس نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی
اسی لئے روتے ھوئے زینب اپنے گھر چلی گئی جبکہ زینب کے اس طرح اچانک یہاں سے چلے جانے پر فہد نے شادی کے کپڑوں اور زیورات کے ساتھ سنجا بی کو ہی عیلی کے پاس بھیج دیا تھا
اور اب جب نکاح ھو چکا تھا تو فہد نے ہی اشارے سے عیلی کو اپنے کمرے میں لے جانے کا سنجا بی کو کہا تھا اس لئے سنجا بی عیلی کو فہد کے کمرے میں چھوڑ کر واپس فہد کے پاس جانے لگیں
مطلب فہد سائیں نے لڑکی چن ہی لی اپنی بیوی بنانے کے لئے اور اسی لئے مجھ کو بلایا تھا کہ میں ان کی دلہن کو تیار کروں
فہد سائیں نے مجھے تو کبھی سمجھا ہی نہیں
میری محبت نظر کیوں نہیں آ تی انھیں
ایسا کیا خاص ھے اس لڑکی میں جو مجھ میں نہیں ھے
کیوں فہد سائیں
آ پ کی پسند میں کیوں نہیں ھو سکی
زینب زاروقطار روتے ھوئے فہد کا تصور کرتے ہوئے اس سے شکوے کر رہی تھی
فہد سائیں کے ساتھ رہنے تو میں تجھے بھی نہیں دوں گی ڈاین
تو نے مجھ سے میری محبت چھینی ھے
میں تجھ سے تیری زندگی چھین لوں گی
زینب حسد میں عیلی سے بدلے لینے کا سوچ رہی تھی حالانکہ وہ جانتی بھی تھی کہ فہد نے زبردستی عیلی سے نکاح کیا ھے مگر پھر بھی وہ حسد میں پاگل ھو رہی تھی
جبکہ اس نے عیلی کو دیکھا تک نہیں تھا
ھو سکتا ھے کہ اگر وہ عیلی کو دیکھ لیتی تو عیلی کی حالت دیکھ کر اسے کا برا نہ ہی کرتی
مگر وہ فہد کی محبت میں مکمل پاگل ھو چکی تھی
کیونکہ محبت میں ناکامی انسان برداشت نہیں کر پاتا
اسی لئے اب زینب بھی اپنے حواس کھو چکی تھی
غلطی زینب کی ہی تھی اسے فہد سے اتنی امیدیں لگانی ہی نہیں چاھیے تھیں جبکہ وہ یہ جانتی بھی تھی کہ اس کی اور فہد کی حیثیت میں کتنا فرق ھے اور فہد اسے دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتا مگر یہ بات زینب کو کون سمجھاتا
کہ محبت میں زور زبردستی نہیں چلتی
وہ تو بس ھو جاتی ھے
کسی سے بھی
کبھی بھی
صرف ایک نظر دیکھ لینے سے
بغیر اس شخص کی حیثیت اس کا مقام دیکھے
بغیر اس کی اچھائی برائی دیکھے
بغیر اس کی شکل وصورت دیکھے
کچھ بھی تو نظر نہیں آ تا
جب محبت ھو جاتی ھے
لیکن شرط یہ ھے کہ واقع میں محبت ھو
دل لگی یا صرف پسند نہیں
م۔۔۔میم میں یہاں نہیں رہوں گی
میں چلی جاؤں گی یہاں سے
پتہ نہیں سائیں جی میرے ساتھ کتنا برا برتاؤ کریں گے
اور اگر انھوں نے مجھے بھی آ پی کی طرح
نہیں نہیں مجھے اپنی حفاظت خود کرنی ھوگی
میں ایسے انسان کے ھاتھوں خود کو مزید ذلیل نہیں ھونے دوں گی
میں کوئی کھلونا نہیں ھوں
انسان ھوں میں
خود کو یوں تباہ نہیں ھونے دوں گی میں ایسے انسان کے ھاتھوں
لیکن کیا کروں میں
عیلی جو اس وقت فہد کے کمرے میں دلہن کے روپ میں موجود تھی کیونکہ ابھی اسے سنجا بی فہد کے کمرے میں بیٹھا کر گئ تھی
جب سے عیلی کا نکاح فہد سے ھوا تھا وہ تب سے شوکڈ بیٹھی تھی مگر اب اچانک اسے فہد کی دھمکی یاد آ ئ جو وہ اسے دوپہر کو دے کر گیا تھا
اس لئے اب عیلی کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے سوچنے لگی کہ کس طرح خود کی حفاظت فہد سے کرے کہ فہد اس کے قریب نہ آ ے
ھاں یہ ٹھیک ہے
اس طرح سائیں جی کمرے میں داخل ہی نہیں ھو سکیں گے تو پھر میرے قریب بھی نہیں آ ئیں گے وہ
عیلی نے کمرے کے دروازے کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر جلدی سے اٹھ کر دروازہ لوک کر دیا
پھر خود آ کر سکون کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر اپنے زیور اتارے اور پھر انھیں بیڈ کے ساتھ موجود سائیڈ ٹیبل کے دراز میں رکھ کر خود دلہن کے کپڑوں میں ہی سو گئی کیونکہ اس وقت اس کے پاس کوئی اور کپڑے موجود نہیں تھے
ورنہ وہ چینج کر کے سو جاتی
جبکہ دوپٹے کو وہ اتار کر اپنے سرھانے کے پاس رکھ چکی تھی
چلو قاسم اب تم بھی اپنے گھر چلے جاؤ
اور کل صبح ٹائم پر ادھر آ جانا
سب کے چلے جانے کے بعد فہد اور قاسم ھال میں موجود صوفوں پر بیٹھے تھے تو فہد نے صوفے سے اٹھتے ھوئے قاسم کو دیکھ کر کہا جو اس وقت منہ سجائے ہوئے بیٹھا تھا کیونکہ اسے فہد کا عیلی کے ساتھ نکاح کرنا سخت برا لگا تھا
لیکن فہد کے سامنے کچھ بولنے کی اس میں ہمت نہیں تھی تو اس لئے صرف منہ سجھایا ھوا تھا
جی بھائی جی
جا رھا ھوں
آ پ جائیں دلہن آ پ کا انتظار کر رہی ھو گی
قاسم نے بغیر فہد کی طرف دیکھے جل کر کہا اور پھر اٹھ کر باہر جانے لگا
کہ اچانک فہد کے موبائل پر کسی کی کال آ نے لگی تو قاسم رک کر فہد کے کال سننے کا انتظار کرنے لگا
کہ کہیں کوئی ضروری کال نہ ھو اور فہد کو اس کی ضرورت نہ پڑ جائے
ھاں غلام بخش بولو
بابا سائیں کو دوا دے دی تم نے
فہد نے کال پک کرتے ہی جلدی سے حیات صاحب کے بارے میں پوچھا
کیونکہ غلام بخش فہد کا بہت پرانا ملازم تھا جو کہ اب زیادہ تر حیات صاحب کی ہی دیکھ بھال کرتا تھا
چھوٹے بابا آ پ جلدی سے گھر آ ئیں صاحب جی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ھے
وہ سانس بھی سہی سے نہیں لے پا رہے
مجھے بہت ڈر لگ رھا ھے چھوٹے بابا
آ پ ابھی جلدی سے آ جائیں
غلام بخش نے پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ فہد کو اطلاع دی تو فہد نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی اور پھر بولا
ٹھیک ہے غلام بخش تم فکر نہیں کرو میں ابھی آ رھا ھوں
قاسم گاڑی نکالوں جلدی سے
فہد نے فون بند کر کے اپنی جیب میں رکھا اور پھر سامنے کھڑے قاسم کو دیکھ کر گاڑی نکالنے کا بول کر خود بھی باہر جانے لگا جب سنجا بی فہد کو آ تی ھوئی دیکھائی دیں
سنجا تم ادھر عیلی کے پاس ہی رہو
میں ابھی تھوڑی دیر تک واپس آ تا ھوں
فہد نے تیز لہجے میں سنجا سے کہا اور پھر سنجا بی کے سر کے ھاں میں ہلتے ہی فوراً فارم ھاؤس سے باہر نکل گیا جبکہ سنجا بی عیلی کے کمرے کی طرف چل پڑیں مگر جیسے ہی سنجا بی نے دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ لوک دیکھ کر حیران رہ گئیں
لیکن پھر عیلی کے ڈر کا سوچتے ہوئے عیلی کے لئے سچے دل سے دعا کرتے ھوئے دوسرے کمرے کی طرف چل پڑیں
فہد نے فارم ھاؤس کے مین دروازے کو لوک کیا اور پھر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا
اس وقت رات کے 3 بج رھے تھے اور اب حیات صاحب خطرے سے بھی باہر تھے تو فہد غلام بخش کو حیات صاحب کے پاس چھوڑ کر گھر واپس آ گیا تھا
تاکہ کچھ دیر آ رام کر کے صبح حیات صاحب کے پاس واپس چلا جائے
مگر جیسے ہی فہد نے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ اندر سے لوک دیکھ کر فہد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی
عیلی تم بھی نا
کتنی معصوم ھو تم
تمہیں کیا لگتا ھے کہ اس طرح تم مجھ سے بچ جاؤ گی
ارے پاگل لڑکی
رہنا تو تمہیں ہمیشہ میرے پاس ہی رھے گا تو پھر کب تک بچ پاؤ گی مجھ سے
فہد بولتے ھوئے چل کر اپنے روم کی چابی لایا اور پھر مسکرا کر اپنے روم کا دروازہ کھول کے اندر داخل ھوا تو اسے عیلی بیڈ پر سکون سے سوئ ھوئ نظر آئ
جبکہ نایٹ بلب میں وہ سرخ لہنگے میں کوئی نازک سی گڑیا ہی لگ رہی تھی
فہد بے خود سا چلتا ھوا عیلی کے پاس آ یا اور پھر عیلی کے پاس زمین پر بیٹھ کر عیلی کو دیوانہ وار دیکھنے لگا
نیند کی وادیوں میں گم وہ ہوش و حواس سے بیگانی فہد کو کتنی پیاری لگ رہی تھی یہ صرف وہی جانتا تھا
عیلی کو اسی طرح دیکھتے ہوئے فہد کی نظر عیلی کے کاندھے پر پڑی جہاں سے اس کی کرتی ہٹی ھوئی تھی اور عیلی کا سفید کاندھا صاف واضح نظر آ رہا تھا
لہنگا اور کرتی عیلی کے سائز سے کافی کھلی تھی کیونکہ عیلی تھی ہی اتنی سلم سمارٹ
یہی وجہ تھی کہ عیلی کا کاندھا نظر آ رہا تھا
جبکہ فہد عیلی کے کاندھے پر موجود کالے تل کو غور سے دیکھنے لگا کتنا اٹریکٹیو تھا وہ تل یہ کوئی فہد سے پوچھے
اسی بے خودی کی کیفیت میں فہد اٹھا اور عیلی کے کاندھے پر موجود تل کو ھاتھ سے ٹچ کرنے لگا ابھی فہد نے عیلی کے کاندھے کو ھاتھ ہی لگایا تھا کہ اچانک اپنے جسم پر کسی کا لمس محسوس کر کے عیلی کی آ نکھ کھل گئی تو اسے فہد اپنے بہت قریب نظر آ یا جو کہ اب عیلی کے کاندھے کے قریب اپنے ھونٹ لے جا رھا تھا مگر اس سے پہلے کہ فہد کچھ کرتا عیلی نے زور سے فہد کو دھکا دیا اور تیزی سے بیڈ سے اتر کر دور کھڑی ھو گئی اور پھر اسی طرح ڈر کر سہمی ھوئی نظروں سے فہد کو دیکھنے لگی جو کہ عیلی کے دھکا دینے سے لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ پر گر چکا تھا
آ پ کی۔۔۔۔کیسے آ ے ک۔۔۔۔۔کمرے میں
در۔۔۔۔۔۔دروازہ تو ل۔۔۔۔۔۔لوک کیا تھا مم۔۔۔۔میں نے اور
اور ک۔۔۔۔کیا ککر رھے تھے آ پ م۔۔۔۔میرے سا۔۔۔۔ساتھ
عیلی خوفزدہ سی فہد کو دیکھ کر بول رہی تھی جبکہ فہد نے خونخوار نظروں سے عیلی کو دیکھا اور پھر جلدی سے اٹھ کر عیلی کی طرف بڑھا
عیلی کے دھکا دینے سے فہد کو اپنی انسلٹ محسوس ھوئی مطلب کہ لڑکیاں فہد سے بات کرنے کے لئے بھی ترستی ھیں اور یہاں عیلی نے فہد کو ریجیکٹ کیا تھا اس کی محبت کو ٹھکرایا تھا اور فہد یہی سوچ کر عیلی کو اس کی اوقات یاد کروانا چاہتا تھا مگر فہد کے عیلی تک پہنچنے سے پہلے ہی عیلی فہد کے خوفناک ارادوں سے ڈر کر بھاگی اور خود کو جلدی سے باتھ روم میں لوک کر لیا جبکہ فہد بھی تیزی سے باتھ روم کی طرف بڑھا مگر عیلی کے دروازہ لوک کرنے سے دروازہ کو زور سے ٹھوکر مار کر عیلی سے غصے میں دروزاہ کھولنے کا کہنے لگا جبکہ عیلی باتھ روم میں کھڑی مکمل کانپ رہی تھی مگر وہ اس وقت دروازہ کھولنے کا رسک بالکل نہیں لے سکتی تھی
کیونکہ اس وقت فہد اس کا کیا حال کرتا یہ وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی
اس لئے چپ کر کے دل ہی دل میں اللّٰہ سے اپنی حفاظت کی دعا کرنے لگی جبکہ فہد نے دو تین دفعہ دروازے کو ٹھوکریں ماریں پھر عیلی کو دھمکیاں دیتے ھوئے کمرے سے باہر نکل گیا کیونکہ اب اس کا رخ اپنے سپیشل روم کی طرف تھا جہاں فہد کی ڈرنکس پڑی ھوتی تھیں